کرونا وائرس؛ آزمائش کی گھڑی میں پاک چین دوستی کا نیا باب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کہاوت ہے کہ گھوڑے کی جانچ سفر سے اور دوستی کی جانچ آزمائش کے دنوں میں ہوتی ہے۔اس وقت دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وباء کی دہشت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ جس تیزی کے ساتھ دنیا اس کی لپیٹ میں آرہی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ ایک طرف جانوں کا نقصان ہے تو دوسری طرف دنیا کی معیشت بھی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ایک سو ساٹھ سے زیادہ ممالک اس وباء کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔دنیا کی جدید طبی سہولتوں سے آراستہ اور ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ملک بھی اس وبا ء کا علاج تلاش کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کی چین سے اٹلی تک یورپ سے ایشیا تک شاہرائیں سنسان ہوتی جارہی ہیں، شاپنگ مالز ویران ہو رہے ہیں، پرکشش سیاحتی مقامات بے رونق ہو رہے ہیں، ائیر پورٹس، ساحلوں پر زندگی رک سی گئی ہے۔ زندگی کی رونقیں پھیکی پڑتی جارہی ہیں۔یہ طوفان کم ہوگا تو معاشی بحران کا اژدھا منہ کھولے نگلنے کے لیے تیار ہو گا۔ اطلاعات آرہی ہیں کہ امریکہ میں جہاں لوگ خوراک کا ذخیرہ کررہے ہیں وہاں دھڑا دھڑ اسلحہ بھی خریدا جا رہا ہے تاکہ افراتفری میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ اپنا بچاؤ کر سکیں۔ جہاں اس وباء کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی صورتحال پریشان کن ہے وہاں ترقی پذیر ممالک کی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس وباء کا آغاز چین سے ہوا اورپھر ایران، سعودی عرب سے ہوتی ہوئی اٹلی اور یورپ میں جا پہنچی اور اب دنیا کا بڑا حصہ اس کی زد میں ہے۔ اس وباء کا علاج دریافت نہ ہونے کی وجہ سے صرف احتیاط ہی اس کا واحد حل نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے بڑے بڑے ایونٹس منسوخ کر دیے گئے ہیں حتی کہ مذہبی اجتماعات پربھی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ متاثرہ افراد کے لیے الگ سے قرنطینہ مراکز بنائے جا رہے ہیں جہاں ان کی خصوصی دیکھ بھال کی جارہی ہے۔ ایران کے بعد سعودی عرب میں مذہبی مقامات پر اکٹھا ہونے پر پابندی عاید کی جا چکی ہے۔پاکستان میں بھی اس وباء سے بچنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی پابندی، 23مارچ کی پریڈ کا منسوخ ہونا، تمام کلچرل و مذہبی اجتماعات کا ختم کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اس پر کافی سنجیدہ نظر آرہی ہے۔اب یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ جب ایسی وبائی امراض پھیلیں تو ان سے احتیاط کرنا ضروری ہے تاہم اس کے باوجود ایک طبقے کی جانب سے مختلف قسم کے اعتراضات دیکھنے میں آرہے ہیں جو کہ سراسر اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ہے۔ یہاں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ایک تقدیر ہے اور دوسری تدبیر ہے تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور تدبیر اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ کسی مذہبی بحث میں پڑے بغیرایسے کئی واقعات احادیث میں اور تاریخ میں مل سکتے ہیں کہ تدابیر اختیار کرنا قطعی طور پر غیر اسلامی نہیں ہے۔

اس وباء کی وجہ سے دنیا ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کو ساڑھے تین سو ارب ڈالر سے زائد نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ اگر یہ سلسلہ مزید اسی طرح جاری رہا تو عالمی ترقی میں دو فیصد کمی ہو سکتی ہے جس کے بعد کم آمدنی والے ممالک کے لیے معاشی بحران شائد اس وباء سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو۔اس وباء کا آغاز چین کے علاقہ ووہان سے ہوا جہاں ابتدائی طورپر اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا تاہم وباء پھیلنے کے بعد جب تک چین نے خصوصی اقدامات کیے اس وقت تک چینی معیشت کو ایک سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا تاہم چین نے اس وباء پر قابو پانے کے لیے اپنے تمام وسائل کو استعمال کیا اور چین میں اب کرونا وباء سے متاثرہ مریضوں کی تعداد انتہائی سطح پر کم ہو چکی ہے۔دنیا میں جہاں چین کی حکمت عملی کو سراہا جا رہا ہے وہاں چین کی جانب سے اس بیان پر بھی دنیا میں بحث جاری ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ وائرس امریکہ کی جانب سے چین کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے پھیلایا گیا ہے۔ دنیا میں چین کے اس الزامات کی باز گشت ابھی پوری طرح پھیلی نہیں تھی کہ روس نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ چین کے خلاف تجارتی جنگ کا ہی مرحلہ ہے جس میں امریکہ کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو فائدہ دینا اور چین کو معاشی اعتبار سے نقصان پہنچانا شامل ہے۔ ان الزامات میں کس حد تک حقیقت ہے اس کا فیصلہ تو شاید ابھی نہیں کیا جا سکتا لیکن چین کی کرونا وباء کے خلاف اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر ضرور تحسین کی جانی چاہیے۔ جس انداز سے چین نے اس کا مقابلہ کیا اور مختلف اقدامات کیے وہ یقینی طور پر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شایان شان ہی ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی چین کی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وباء کے خلاف چین کی حکمت عملی ان تمام ممالک کے لیے ایک سبق ہے جہاں اس وقت کرونا وباء پھیل رہی ہے یا پھیل چکی ہے۔چین نے دس دن کے اندر کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ہسپتال تیار کرکے دنیا کو حیران کر دیا اور دس مارچ کو چینی صدر نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے دنیا کو بتا دیا کہ چین نے جو دعوی کیا تھا وہ کس حد تک درست تھا۔چین نے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور دنیا کے ماہرین چین کے ان اقدامات سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود چند مغربی ممالک اور مگربی ذرائع ابلاغ چین کی اس حکمت عملی پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں حالانکہ جس وقت دنیا میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دنیا بھر میں مسلسل بڑھ رہی تھی چین میں اس کی تعدا بہت حد تک کم ہو چکی تھی۔ اپنے ملک کے اندر اس وباء پر قابو پانے کے بعد چین دنیا کے دیگر ممالک کی بھی مدد کرنے جا رہا ہے۔ اٹلی جو اس وقت بدترین متاثرین ممالک میں سے ہے چین وہاں اپنی میڈیکل سپیشلسٹ ٹیم اور دیگر ضروری اشیا ء بھیج رہا ہے تاکہ وباء پر قابو پانے کے لیے اٹلی کی مدد کی جا سکے اسی طرح ایران اور بھارت میں بھی چین کی طرف سے فیس ماسک اور دیگر ضروری سامان بھیجا جا رہا ہے جبکہ سربیا میں بھی میڈیکل ٹیمیں اور ضروری سامان بھیجا جا رہا ہے دوسری طرف سپین کو بھی مدد فراہم کی جارہی ہے۔ مجموعی طور چین نے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف وبائی امراض سے نبٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ وہ دیگر ممالک کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

پاک چین دوستی کی جہاں بات آئے وہاں حالات کا سوال نہیں کیا جاتا۔ دونوں ممالک کی دوستی ایک مضبوط دیوار کی مانند ہے جہاں کوئی خلاء نہیں ہے۔ خوشی کا موقع ہو یا آزمائش کی گھڑی چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔اسی طرح دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ ہو یا معاشی بحران چین پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔پاکستان نے بھی ہمیشہ چین کی دوستی کا جواب محبت سے ہی دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب چین میں کرونا وباء پھیلی تو پاکستان نے کسی طرح کی جلد بازی سے کام نہیں لیا بلکہ چین کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو روکے جانے پر چین سے کسی قسم کا احتجاج نہیں کیا۔ صدر پاکستان داکٹر عارف علوی نے ایسے موقع پرچین کو دورہ کرکے دنیاکو واضح پیغام دے دیا کہ آزمائش کی اس گھڑی میں پاکستان چین کو کسی طرح اکیلا نہیں چھوڑ سکتا اور اس موقع پر بھی دونوں ممالک کے رہنما ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔جس وقت چین کو دنیا کی ضرورت تھی تو انسانی حقوق کے چیمپئن ممالک میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا بلکہ پاکستان نے اس موقع پراپنے دوست کی مدد کی اور پاک فضائیہ کی ٹیم اور طبی آلات پر مشتمل فوجی جہاز چین بھیج دیا۔ دوسری جانب چین کی جانب سے بھی پاکستان کے لیے ایمرجنسی امداد کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان نے کرونا وائرس کے مشکوک مریضوں اور ممکنہ خدشان کے پیش نظر چین سے درکواست کی تھی جس پر چین نے فوری طور پر پاکستان 12ہزار کٹس بھیج دیں۔اسی طرح کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے 3 فیس ماسک، 10ہزار حفاظی لباس اور چالیس لاکھ ڈالر بھی دیے ہیں تاکہ وہ کرونا وائرس کی وبا ء پر قابو پاسکے۔ پاکستانی قوم مشکل کی اس گھڑی میں کسی صورت بھی چین کی اس محبت کو فراموش نہیں کر سکتی۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات آزمائش میں مذید مضبوط ہوجاتے ہیں۔ پاک چین دوستی کا یہ نیا باب یقینی طور پر تاریخ کے صفحات پر نقش ہو کر آنے والی نسلوں کو امن، محبت کے نئے پیغام سے روشناس کروائے گا۔

Asif Khursheed
About the Author: Asif Khursheed Read More Articles by Asif Khursheed: 97 Articles with 65034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.