ترکِ عمل ۔ باعمل

سماج میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور وہ عام لوگوں میں ہی شمار ہوا کرتے ہیں ایسے ہی ایک شخص سے ہماری ملاقات ہوئی تو اس نے ملک کے موجودہ حالات پر نہایت فکر انگیزی کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ وہ شخص غیر مسلم تھا باوجود اسکے اسلامی پیغامات کو اچھی طرح سے جانتا تھا ،دوران گفتگو اس شخص نے بتایا کہ ملک کے مسلمان سی اے اے ، ین آر سی اور ین پی آر کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آئے ہیں یہ اچھی بات ہے ، انہیں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانی ہی چاہئے ،لیکن ین پی آر کیلئے جو مسلمان آج سڑکوں پر اتر آئے ہیں وہی مسلم قوم ہندوستان کی آزادی کے بعد سے اپنے حقوق کے لئے آزاد انہ طورپر جد و جہد کرتی تو شاید آج انہیں یہ دن دیکھنا نہیں پڑھتا۔ یہ شخص عام تھا لیکن اس کی بات نہایت خاص تھی ، انہوںنے جو کچھ کہا وہ صد فیصد درست تھا ۔ آج ہم مسلمان کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی جیسی ظالم حکومت کے خلاف آواز اٹھانا ہمارا دینی فریضہ ہے اور ہمیں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے اسلام نے بھی اجاز ت دے رکھی ہے ،غورطلب بات یہ ہے کہ ملک میں جاری کردہ بیشتر قوانین بی جے پی سے پہلے ملک پر راج کرنے والی کانگریس نے بنائے ہیں اگر کانگریس نے پہلے ہی مسلمانوں کو انکے حقوق دئے ہوتے تو آج یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتا۔ مسلمانوں نے کانگریس پر بند آنکھوں سے بھروسہ کیا جس کی بدولت مسلمانوں کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہواہے ۔ کانگریس نے بھارتی مسلمانوں کو انکے بھروسے کو قائم رکھنے کے لئے حج سبسیڈی جاری کی ، وقتََا فوقتََا افطاری کی دعوتیں کھلائی ، درگاہوں کی چادریں اور سیاسی لیڈروں کو وقف بورڈ کی صدارت سونپی جس سے مسلمانوں کا کانگریس پر ایمان مزید مضبوط ہوگیا اور مسلمانوں نے ان چیزوں کے علاوہ کبھی بھی اپنی زبان کو جنبش نہیں دی ۔ یہ تو کانگریس کی غلطی ہوئی لیکن دوسری جانب عام مسلمان بھی کچھ کم قصوروار نہیں ہیں اور یہ ملک کے اہم مدعوں سے ہمیشہ پلہ جھاڑتے رہے ہیں ، مسلمانوں نے کبھی کسی کارخانے یا فیکٹری کی بقاء کے لئے آواز نہیں اٹھائی ، کبھی کسی صنعت کو بند ہونے سے نہیں روکا ، کبھی ملک میں پیش آنے والے معاشی و اقتصادی بحران پر آواز بلند نہیں کی ، کبھی بھی مسلمانوںنے اپنے تعلیمی حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کی نہ ہی روزگار کے لئے مسلمانوں نے مطالبات کئے ۔ مسلمانوں کی ہر آواز اب تک فرقہ واریت پر ہی منحصر رہی ہے اور ہم نے اس ملک کے حصے دار ہونے کا دعویٰ تو کیا ہے لیکن اپنا حصہ کبھی نہیں مانگا۔ ہر مشاعرے میں ، ہر تقریر میں ہم نے دعویٰ کیا کہ مسلمان اس ملک کے کرائے دار نہیں بلکہ حصہ دار ہیں ، جب حصہ دار تھے تو کتنی تحریکیں ، کتنے معرکے مسلمانوںنے لڑے ہیں ؟۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ملک میں سی اے اے ، ین آر سی اور ین پی آر کو لے کر جو تحریکیں چلائی جارہی ہیں اسکی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ کہہ رہے ہیں جو کام ہم آج کررہے ہیں اسے بہت پہلے ہی انجام دینا چاہئے تھا ۔ اب جبکہ موقع وہ نہیں ہے جس میں ہم شکوئے کریں بلکہ موقع یہ ہے کہ اب مسلسل ہمارے وجود کو تحریکوں سے جوڑیں ۔ہمارے مطالبات منوائیں اور ہمارے حق کو حاصل کرنے کے لئے کسی ایک تک محدود نہ رہیں ۔ بھارت کے مسلمانوں میں فی الوقت جو سیاسی ، ملی ، قومی اور مذہبی بیداری آئی ہے وہ قابل ستائش ہے ، حالانکہ اس بیداری کا بھی غلط استعمال کرنے کے لئے کچھ لوگ کمر بستہ ہیں لیکن مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اب اپنی سیاسی بصیرت کو نیا موڑ دیں ۔ کسی خاص پارٹی یا گروہ کے زر خرید غلاموں کی طرح نہ رہیں بلکہ کم از کم مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے کام کریں ۔ جس طرح سے ملک کے مسلمان مرکزی حکومت کے اندھے قوانین کے خلاف متحد ہوچکے ہیں اسی طرح سے ملک کے موجودہ معاشی ، سیاسی ، اقتصادی حالات پر بھی آواز اٹھائی جائے تو اس سے وہ طبقہ بھی مسلمانوں کے ساتھ جڑسکتاہے جو سی اے اےاور ین آر سی جیسے قوانین کو ہی اہمیت دینا نہیں چاہتا۔ زیادہ غیروں کا سوال ہے کہ جب بھی دلتوں ، عیسائیوں اور پسماندہ طبقات پر حملے ہوئے تو مسلمانوں نے کبھی ساتھ دینے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھائے اور آج جب تلوار انکے سر لٹک رہی ہے تو وہ اتحاد بین المذاہب کے گن گارہے ہیں ۔ درحقیقت مسلمانوں کو اپنے عقائد ، اپنی مذہب کو نہ بدلتے ہوئے موجودہ تقاضوں کو لے کر اپنی سوچ بدلنی چاہے تبھی کامیابی مل سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے پاس یہی کمزوری ہے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلنا ہی نہیں چاہتے بلکہ مذہب کے نام پر اپنے وجود کوبرقرار رکھنا چاہتے ہیں جبکہ پیغمبر اسلام ﷺنے تو اہل عرب کو صرف اسلام میں مذہبی اعتبار سے داخل نہیں کیا تھا بلکہ انہوںنے پوری سوچ بدلی تھی جس کی وجہ سے صحابہ کرام نے معیشت ، شجاعت ، اقتصادیت ، میڈیکل سائنس ، بینکنگ ، ٹکنالوجی پر عبور حاصل کیا اور دنیا کو نئی پہچان دی ۔ لیکن موجودہ مسلمان قرآنی آیتوں کو ثواب تک محدود کرلیا ہے تو کچھ نے انہیں وظیفے تک محدود کرلیا ہے ۔ سی اے اے اور ین آر سی کی ہی بات لیں جس وقت ملک کے دانشوروں کا ایک طبقہ سڑکوں پر اترنے کے لئے فیصلے لے رہا تھا تواس وقت مسلمانوں کا علمی طبقہ ظالم حکمرانوں سے پناہ مانگنے کے وظیفے سوشیل میڈیا پر شیئر کررہا تھا۔ اسی طرح سے کورونابیماری کی بھی مثال لے لیں دنیا میں 50 سے زائد اسلامک ممالک ہیں اور60.1 بلین مسلمان ہوتے ہوئے بھی پچھلے ایک مہینے سے کورونا سے بچنے کے ٹوٹکے ، آیتوں کی فضیلتیں ، وضو اور غسل کی برکتیں ہی پیش کرتے رہے جبکہ اسرائیل اور امریکہ کے یہودی سائنسدانوںنے راتوں رات اس بیماری کے لئے دوا ڈھونڈ نکال لی ہے ۔ ہم میں اور دوسری قوموں کا فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے پاس قرآن اور مکمل ضابطہ حیات ہونے کے باوجود ہم ترک عمل ہوچکے ہیں جبکہ انکے پاس کچھ بھی نہ ہوتے ہوئے باعمل ہوچکے ہیں ۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.