پروفیسرڈاکٹر عطاالرحمٰن میو: ایک دبستان علم و ادب

 تحریر: ڈاکٹر غلام شبیررانا
عطا الرحمٰن میو پروفیسر ڈاکٹر :انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی اردوخدمات ،فکشن ہاؤس،لاہور ،اشاعت ،2016

پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکا تعلق بلھے شاہ کی دھرتی قصور سے ہے مگر کچھ عرصے سے انھوں نے قصور شہر کو چھوڑ کر داتا گنج بخش کی نگری میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ قدرتِ کاملہ نے انھیں جس ذوق سلیم سے متمتع کیا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن،دائرۃ المعارف اور دبستان ِعلم وادب ہیں۔خلوت میں بھی انجمن خیال سجانا اور ہجر میں بھی وصل کی نشاط حاصل کرکے وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومنا اس زیرک ،فعال اور مستعد نقاد و محقق کا شیوہ ہے ۔ایم۔فل کی سندی تحقیق کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے تحقیقی مقالے’’انجمن مفید عام قصور کی علمی و ادبی خدمات ‘‘کومقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریاقرار دیا جاتا ہے ۔ چند ر وز قبل اس یگانۂ روزگار دانش ور کا تحقیقی مقالہ ’’انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی اردوخدمات ‘‘موصول ہوا ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے یہ تحقیقی مقالہ پی ایچ۔ڈی کی سندی تحقیق کے سلسلے میں لکھا جس پر جامعہ علامہ اقبال ،اسلام آباد کی طرف سے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی عطا کی گئی۔انجمن آرائی کے دل دادہ اس نقاد،مورخ ،محقق،ماہر تعلیم،فلسفی ،ماہر لسانیات ،ماہر علم بشریات اورماہر آثار ِ قدیمہ کی خطر پسند طبیعت نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ حیات جاوداں کا راز ستیز میں پنہاں ہے۔ اس وقیع تحقیقی مقالے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے پنجاب کی ایک سو سال کی تاریخ( انیسویں صدی) کا جائزہ لے کر ستاروں پر کمند ڈالی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے ان دونوں مقالات میں دستاویزی تحقیق کا جو ارفع معیار اور اسلوب پیش نظر ر کھا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ سر زمینِ پنجاب میں ملوکیت اور نو آبادیاتی دور میں جومظالم ڈھائے گئے وہ تاریخ کا الم ناک باب ہے ۔جس زمانے میں یورپ میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق جامعات کے قیام پرتوجہ دی جا رہی تھی اُسی زمانے میں اس خطے کی قسمت سے محروم رعایا نے یہ دیکھا کہ یہاں شہرخموشاں میں سر بہ فلک مقبرے،باغات،ہرن مینار، لاٹھ،بارہ دری، محلات، قلعے اور بُدھو کا آوا جیسی بے مقصد عمارات کی تعمیر و تزئین کو اولین ترجیح سمجھا جاتا تھا۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ضعفِ بصارت کے اس د ور میں ہر طرف بُدھوہنہناتے پھرتے تھے اور ہر درباری مسخرا ہاتھ میں دوپیاز تھام کر راگ درباری الاپ کر ظلِ تباہی کی جی حضوری کر کے حقِ نمک ادا کرتاتھااور دُھول اُڑاتے گرد باد ،جھکڑ اور آندھی کو گھنگھور گھٹا کہہ کر اپنے بُدھو ہونے پر مہر ِ تصدیق ثبت کرتا تھا۔ اس قماش کا فاتر العقل اور مخبو ط الحواس بُدھو جب رواقیت کا داعی بن بیٹھاتو اس کا کچا چٹھا پیش کرنے کے لیے شاعر کی رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور اس نے بر ملا کہا :
ہو گئے لوگ کیا سے کیا بُدھو
تُو وہیں کا وہیں رہا بُدھو
اودھ کے دسویں اور آخری نواب واجد علی شاہ (1822-1887)کو فرانسیسی اوپیرا سے گہری دلچسپی تھی ،وہ چاہتا تھا کہ ہندوستانی اوپیرا کو بھی اسی انداز میں پیش کیا جائے۔اس مقصد کے لیے آصف الدولہ نے آغا حسن امانت( ؔ 1815-1858 )کی خدمات حاصل کیں اور منظوم ڈرامہ لکھنے پر مائل کیا۔ا ٓغا حسن امانتؔ کی معرکہ آرا تصنیف ’’اندرسبھا‘‘(1847-1853)اسی عہد کی یاددلاتی ہے۔اِندر سبھااردو کا پہلا منظوم سٹیج ڈرامہ ہے جو پہلی بار 1853میں سٹیج پرپیش کیا گیا۔ایک شہزادے اور پری کی یہ منظوم داستان محبت بہت مقبول ہوئی اور اس کے بعد بر صغیر میں صنف ڈرامے کو نئی آب و تاب نصیب ہوئی ۔آخری عہدِ مغلیہ میں نوابان اودھ نے لکھنؤ میں فنون لطیفہ کی جس طرح سر پرستی کی اس کے اثرسے مایوسی کے بادل کسی حد تک چھٹ گئے اور عوام کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوا ۔سحر لکھنوی نے اس عہد کے لکھنو کی معاشرت کی چکا چوند اور عیش و عشرت کے بارے میں کہا تھا:
خدا آباد رکھے لکھنؤ کے خوش مزاجوں کو
ہر اِک گھر خانۂ شادی،ہر اِک کُوچہ ہے عشرت گاہ
نوابانِ اودھ کی اطا عت کیش وفادار ی کے با عث انگریزان پر بے حد مہر بان تھے۔ شما لی ہند وستان میں شا ہانِ اودھ کا فی عر صہ تک انگریزوں اور دوسری قوتوں سے محفوظ رہے یہاں تک کہ 1856 میں یہ علا قہ انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ اس کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہوس ملک گیری کے اپنے نو آبادیاتی چُنگل کو مزید پھیلا دیا۔
چار مئی 1799کو شیرِ میسور سلطان فتح علی ٹیپو (1750-1799)نے غاصب بر طانوی استعمار کے خلاف سینہ سپر ہو کر سر نگا پٹم کا دفاع کرتے ہوئے جامِ ِشہادت نوش کیا۔بر طانوی سامراج کے نمائندہ گورنر لارڈ ویلزلی(Lord Wellesley)نے چار مئی 1800 کوکلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کی منظوری دی۔ فتح علی ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد بر طانوی سامراج کو یقین ہو گیا کہ اب پورے بر صغیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں انھیں کسی شدید نوعیت کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گااور وہ ہندوستان کے مطلق العنان حکم ران بن کر یہاں کے مظلوم عوام کو اپنا تابع اور مطیع بنا کر رکھنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ بر طانوی سامراج کے کبر ونخوت اور رعونت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کی منظوری ٹیپو سلطان کی شہادت کی پہلی برسی پر دی گئی۔ فورٹ ولیم کالج میں دس جولائی 1800کو تدریسی کام کا آغاز ہو گیا۔اپنی نوآبادی میں انگریزوں کو بر صغیرکی زبانیں اورعلوم شرقیہ سکھانے کی غرض سے فورٹ ولیم کالج کاقیام عمل میں لایا گیا ۔ نوآبادیاتی دور کے تقاضوں کے مطابق فورٹ ولیم کالج میں اردو،عربی،فارسی،سنسکرت،بنگالی،مراٹھی اورچینی زبان کی تدریس کا انتظام کیا گیا۔فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے شعبہ ترجمہ میں ماہر مترجمین نے مقامی زبانوں کی ہزاروں کتابوں کے تراجم کیے۔اس کالج میں شعبہ اُردو کی نگرانی پر جان گلکرسٹ( 1759-1841 :John Borthwick Gilchrist ) کو مامور کیا گیا جو میٹرک کرنے کے بعد برطانوی بحریہ میں سرجن کے معاون کی حیثیت سے خدمات انجام دے چُکا تھا۔اکثرمورخین کا خیال ہے کہ بر طانوی سامراج نے بر صغیر میں اپنے قدم جمانے کے لیے اس قسم کے اقدامات کیے ورنہ انھیں ہندوستانی لسانیات اورادبیات کے فروغ سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں جو تراجم کیے گئے وہ سب نو آبادیاتی دور کی نشانی ہیں۔
بر طانوی استعمار کی کی چڑھتی ہوئی سفید آندھی اور کالے قوانین کے تُند و تیز بگولوں کی زد میں آکر مقامی حکومتوں اورریاستوں کی آزادی ، وقار اورخود مختاری خس وخاشاک کے مانند اُڑ گئی۔ایسی ہوائے جور و ستم چلی کہ پنجا ب سمیت بر صغیر کے سب مقامی باشندے اپنے وطن میں اجنبی بن گئے اور بر طانوی سامراج ان پر مسلط ہو گیا۔آخری مغل حاکم بہادر شاہ ظفر (عرصہ حکومت :اٹھائیس ستمبر 1837ء تاچودہ ستمبر 1857 ء)کی جائز اورقانونی حکومت کو بلاجواز ،غیر قانونی اور غیر اخلاقی انداز میں بر طرف کر دیا گیا۔آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر اور اُس کے خاندان کے سولہ افراد نے لال قلعہ دہلی سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع عہدِ اکبری میں سال1570 ء میں تعمیر ہونے والے بر عظیم میں باغوں والے پہلے مرقد’’ہمایوں کے مقبرے ‘‘میں پناہ لے رکھی تھی۔جنگی جنون میں مبتلابر طانوی فوجی صبح سے شام تک شاہی خاندان کے افراد کے تعاقب میں رہتے تھے۔بالآخر بر طانوی فوجی دستے کے سالار میجر ہڈسن نے شاہی خاندان کے افراد کو ڈھونڈ نکالا اور ان کی سلامتی اور جاں بخشی کا عہد کرکے انھیں بیس ستمبر 1857 ء کو گرفتار کر کے ایک رتھ میں بٹھا کر دہلی لایا گیا۔عادی دروغ گو،پیمان شکن حملہ آور ،سفاک قاتل اور شقی القلب جلاد میجر ہڈسن نے بائیس ستمبر1857ء کو دہلی گیٹ کے قریب خونی گیٹ میں بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں مرزا مغل،مرزا خضر سلطان اور پوتے مرزا ابو بکر کو گولیوں سے چھلنی کر دیا،ان کے سر تلوار سے کاٹ کر پھینک دئیے اور ان کی انگوٹھیاں اور زیورات خوداتار کر اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ ان شہزادوں کی لاشیں دہلی شہر کی کوتوالی کے سامنے لٹکا دی گئیں جہاں ان بد نصیب شہزادوں کی بو ٹیاں گدھ اور کتے کئی دن تک نو چتے رہے ۔(1) برطانوی استعمار کی بے رحمانہ انتقامی کار روائیوں اور ظالمانہ نوآبادیاتی نظام کی قباحتوں کے سامنے مظلوم عوام بے بس تھے۔ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور اس کے خاندان کے افراد کو جنگل کے قانون کے تحت جلا وطن کر کے رنگون کے زندان میں محبوس کر دیا گیا ۔ معزول مغل شہنشاہ اور اس کے اہلِ خانہ کے ساتھ سفاکی اور درندگی کا مظہر یہ سلوک اسحقیقت کا غماز ہے کہ بر طانوی استعمار اور نوآبادیاتی استبدادنے بنیادی انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کو مامال کر دیا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ عالم ،دانش ور ،مورخ ،محقق،ادیب اور فنون لطیفہ سے وابستہ ممتاز لوگو ں کو جان کے لالے پڑ گئے۔ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد بر طانوی استعمار نے رابن ہڈ، ہلاکو اور چنگیز کو بھی مات کر دیا ۔ بر طانوی استعمار کے مقتدر حلقوں کی فرعونیت کا یہ حال تھا کہ جسے چاہتے بے جرم و خطا اُسے گولی سے اُڑا دیتے۔1857 ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعدجن ہزاروں بے گناہ خاک نشینوں ، الم نصیبو ں اور ممتاز ادیبوں کا خون رزقِ خاک ہوا اُن میں ا ُس عہد کے ممتاز عالم امام بخش صہبائی اور اُن کے خاندان کے اکیس افراد بھی شامل تھے۔(2)آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے سات نومبر 1862ء صبح پانچ بجے رنگون کے ایک عقوبت خانے میں عالم تنہائی اور جلاوطنی میں ستاسی سال کی عمر میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا ۔اسی روز سہ پہر چار بجے بر عظیم پاک و ہند میں سال 1526 ء میں قائم ہونے والی مغلیہ حکومت کی آخری نشانی رنگون میں پیوند ِ خاک ہو گئی۔بہادر شاہ ظفر کی تدفین کے وقت اس کے دو بیٹے موجود تھے مگر اس کی اہلیہ زینت محل موجود نہ تھی۔وقت کا دھار ا بہت ظالم ہے یہ نمود و نمائشدنیاوی کر و فر اور جاہ و جلال کوخس و خاشا ک کے مانند بہا لے جاتا ہے ۔ بڑے بڑے نامیوں کی مثال بھی ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایسی تحریر کے مانند ہے جسے سیل زماں کے مہیب تھپیڑے پلک جھپکتے میں مٹا دیتے ہیں۔ 1857ء کی ناکا م جنگ ِ آزادی کے بعد رُونما ہونے والے الم ناک حالات اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ممتازمحقق ڈاکٹر محمو دالرحمٰن نے لکھا ہے :
’’بر طانوی سامراج کا بول بالا ہو گیاہر جگہ توپ و تفنگ کا پہر ہ تھا،سنگین و سلاسل کی یورش تھی۔حسین و جمیل عمارتوں کے شہر کھنڈر میں تبدیل کر دئیے گئے،اُمید و آرزو کا آخری مرکز،قلعہ معلیٰ غیر ملکی تاجروں کی تحویل میں چلا گیا۔اب ہر سُو شکست و ریخت کا روح فرسا سماں اہلِ وطن کے رُو بہ رُو تھا۔‘‘(3)
1857 ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد رُو نما ہونے والے المناک واقعات،انتقامی کارروائیوں اور توہین آمیز سلوک کے بعد برصغیر کے باشندوں نے بر طانوی استبداد ی نظام ِحکومت کو کبھی دل سے تسلیم نہ کیا۔ غیر ملکی تاجروں کے عزائم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے مسلمانوں نے اس وقت بھی اس نظام کی مخالفت کی جب ہر طرف سے اس قسم کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں :
’’خلق خدا کی ، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا۔‘‘(4)
جنگِ آزادی1857ء کے بعد بر صغیرکے کئی دیہات اورقصبات ملبے کا ڈھیر بن گئے ۔جن کھیتوں اور کھلیانوں میں بور لدے چھتنار ، سرو وصنوبر اوراثمار و اشجار کی فراوانی تھی اب وہاں زقوم اورحنظل کے سوا کچھ نہ تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی جس کا قیام اکتیس دسمبر 1600ء کو عمل میں لایا گیاتھااسے استعماری،توسیع پسندانہ ،جابرانہ اور نو آبادیاتی ایجنڈے کی تکمیل کے بعد یکم جون 1874ء کو غیر فعال کر دیا گیا۔ اس سے پہلے دو اگست 1858ء کو بر طانوی پارلیمنٹ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی منظوری دے کر بر صغیرکا انتظام سنبھال چکی تھی۔ برصغیرپر برطانوی تسلط کے بعد مسلمانوں کی اکثریت نے برطانوی استعمار کے کالے قوانین اور فسطائی جبر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا ۔انگریزوں نے اپنی کینہ پروری اور اسلام دشمنی کے باعث بر صغیر میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ انگریزوں نے ہندوؤں کی مسلم دشمنی سے فائدہ اٹھایااور انھیں اپنا طرف دار بنانے کی مکروہ سازش تیار کر لی ۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر میں انگریزوں نے لڑاؤاور حکومت کرو کے شیطانی منصوبے پر عمل کیا۔ جب پورا بر صغیرغاصب بر طانوی سامر اج کے شکنجے میں آ گیا تو یہاں کے مظلوم عوام پر جو کوہِ غم ٹوٹا اس نے اُردو زبان و ادب پردُور رس اثرات مرتب کیے۔بر طانوی استعمار کی مسلط کردہ شبِ غم جو نوے سال پر محیط تھی اس نے یہاں کے باشندوں کی زندگی کا تمام منظر نامہ گہنا دیا ۔ہراساں شب و روز کے اس طویل ،لرزہ خیز اور اعصاب شکن ماحول میں چلنے والی ہوائے جورو ستم نے اُمیدوں کے چمن میں کِھلنے والی حوصلے ،صبر اور تعمیر ِ نو کی کلیوں کو جُھلسا دیا۔اس خطے کے مظلوم عوام کا اس بے دردی سے استحصال کیا گیا کہ تاریخ میں کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یورپ کے حکمران طبقے نے سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر لی تھیں۔ان نو آبادیوں کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا اور وہاں کے تما م وسائل پر ہاتھ صاف کرنا ان ظالم حکمرانوں کا وتیرہ بن گیا۔
1857 ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے علمی و ادبی حلقوں میں غیر یقینی ، مایوسی ، اضطراب اور بیزاری کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ فنونِ لطیفہ سے وابستہ لوگ اس تشویش میں مبتلا تھے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور برطانوی سامراج کی ہوسِ ملک گیری کیاگُل کھلائے گی ۔ برطانوی سامراج نے اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے نام پر مختلف انجمنیں اور سوسائٹیاں قائم کیں ۔ اسی مقصد کے تحت اکیس جنوری 1865ء کو لاہور میں ’’انجمن اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب‘‘ کے نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس کے قیام میں ہنگری میں پید ہونے والے مشہور مستشرق ڈاکٹرلائٹنر( Dr Gottlieb Wilhelm Leitner :1840-1899 )نے گہری دلچسپی لی۔ سال 1865ء میں انجمن پنجاب کے اراکین کی تعداد 244تھی یہ سب انگریزی معیار تعلیم کی بلندی،یورپین سائنسز کو متعارف کرانے ،علوم شرقیہ کے فروغ ،عربی و سنسکرت تعلیم کے احیا اورپنجاب میں ایک جامعہ کے قیام کے لیے کوشا ں تھے۔ بر صغیر کی یہ پہلی انجمن تھی جونو آبادیاتی دور میں پرنس آف ویلز کی سرپرستی اور حکومتی عہدے داروں کی نگرانی میں کام کرر ہی تھی۔ یکم جنوری 1864 کولاہور میں گورنمنٹ کالج کے قیام کے بعدڈاکٹر لائٹنر کو اِس کا پہلا پر نسپل مقرر کیا گیا اور سال 1882 میں لاہور میں جامعہ پنجاب کے قیام کے بعد ڈاکٹر لائٹنر کو اس کا پہلا رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ انجمن پنجاب نے بر صغیر کی مقامی زبانوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کو اپنا نصب العین بنایا۔انجمن پنجاب نے طب کے شعبے میں بھی گہری دلچسپی لی یو نانی اور ویدک ادویات پر تحقیقی کام کی حوصلہ افزائی کی۔انجمن پنجاب نے مشاعروں ،ادبی سیمینارز،صحافت،کتب خانوں کے قیام،علمی و ادبی خطبات اور علمی وادبی کتب کی اشاعت کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔انجمن پنجاب میں خدمات انجام دینے کے لیے محمد حسین آزاد (1830-1910) سال 1864میں دہلی سے لاہور پہنچے ۔ محمد حسین آزادؔنے سال 1864میں انجمن پنجاب کے جلسہ میں ایک اہم لیکچر دیا۔اُردو زبان کو تکلف ،تصنع ،روایتی نوعیت کے استعارات ، مبہم تخیل کی جو لانیوں ،بے فائدہ طول نویسی ،غیر محتاط قیاس آرائی اور تخیل کی شادابی کے مظہر مفروضوں سے نجات دلا کر علم و ادب کی حقیقی ترجمان بنانے کے سلسلے میں مؤثر لائحۂ عمل اختیار کرنے پر زور دیا۔ محمد حسین آزادؔکا خیال تھا کہ زبان کی سادگی ،سلاست اورروانی اس کے مؤثر اظہار و ابلاغ کو یقینی بنا سکتی ہے۔اپنی تصنیف ’’آب ِحیات (1880)میں محمد حسین آزاد ؔ نے ادب میں اصلاح ،افادیت اور مقصدیت پر توجہ مرکوزرکھنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ سال1880کے وسط میں انجمن پنجاب کی مقبولیت کم ہو گئی اکثر لوگ اسے قدیم سوچ کی مظہر سمجھنے لگے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ بر عظیم میں بر طانوی استعمار کے غلبے کے بعدیہاں کے اکثر ادیبوں نے مصلحت وقت کے تحت ایساطرز عمل اختیارکیا جو برطانوی استعمارکو ناگوار نہ گزرے۔ برطانوی نو آبادی کے بے بس عوام نے استعماری قوت کے فسطائی جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کر کیسے کیسے دکھ بر داشت کیے اور انھیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ سب تاریخ کا الم ناک باب ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں مرغانِ باد نما ، موقع پرست ،ابن الوقت اور چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے بے ضمیروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے کون سے حربے اختیار کیے یہ بھی عبرت کی ایک لرزہ خیز داستان ہے ۔اُردو ادب میں نو آبادیاتی دور کی عقوبتوں اور اذیتوں کے خلا ف کُھل کر لکھا گیا۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکاشمار ہمار ے عہد کے اُن رجحان ساز ادیبوں میں ہوتاہے جنھوں نے مسموم ماحول میں سمے کے سم کے ثمرکی تلخی کو محسوس کرتے ہوئے سدا حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند رکھنے پر اصرار کیا ۔ادب کے وسیلے سے عصری آ گہی پروان چڑھانے کی تمنا کرنے والے اس باکمال تخلیق کار نے اپنی تخلیقی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے افکار ِ تازہ کی مشعل تھا م کر جہانِ تازہ کی جستجو کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے ۔تحقیق و تنقید اور لسانیات کے شعبوں میں اس محقق کی عظیم الشان کا مرانیوں کی وطن عزیز میں دھوم مچ گئی ہے ۔ ذوقِ سلیم سے متمتع زندہ دِلوں اور ژرف نگاہوں نے اس فطین تخلیق کار ،نقاد،محقق اور مورخ کی علمی وادبی فتوحات کو ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا۔ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تما م استعاروں سے مزین اس یگانہ ٔروزگار ادیب کے اسلوب نے جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی افادیت اور تاثیر کا لوہا منوا لیا ہے ۔اس محقق نے جدت و تنوع کو شعار بنا کر اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافورکرنے ،جمود کا خاتمہ کرنے اور نئے تجربات کی راہ ہموار کرنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے اپنی معرکہ آرا تصانیف سے اردو تحقیق کی ثروت میں جو اضافہ کیا اس کا ایک عالم معتر ف ہے۔ تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات کے رمز آ شنا ،ادب اور فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھنے والے اس کو ہ پیکر تخلیق کارنے اپنی زندگی تاریخ، علم و ادب،فنون لطیفہ اور تحقیق و تنقیدکے فروغ کے لیے وقف کر رکھی ہے ۔بابا بلھے شاہ کی اقلیم معرفت کے اس خوشہ چین نے بچپن ہی سے تخلیق ِادب میں گہری دلچسپی لی ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے عہدِ ملوکیت اورنوآبادیاتی دور میں سر زمین پنجاب کی تاریخ اور علم و ادب پر پڑنے والی ابلق ِ ایام کے سموں کی گرد صاف کرنے ، ادب اور فنون لطیفہ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی دُھن میں مگن رہنے والا یہ مورخ بے حس معاشرے کو جھنجھوڑ کر ان سوالوں کے جواب بھی پیش کرتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا شمارفنون لطیفہ کے ممتاز نقادوں،علم بشریات کے ماہرین،جدید ذرائع ابلاغ سے وابستہ عظیم شخصیات،زیرک،معاملہ فہم اور دُور اندیش ماہرین تعلیم ،میڈیا کے نباض شعلہ بیان مقررین اور ہر دل عزیز ادیبوں میں ہوتا ہے۔تیشۂ حرف سے فصیل ِ جبر کو منہدم کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنے والے اس جری ،پُر عزم اور با ہمت تخلیق کار نے فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ اگرچہ وہ زندگی بھر مفاد پرست استحصالی عناصرکے ٹکڑوں پر پلنے والے بے حس، ابن الوقت ،مفاد پرست اور کینہ پرور حاسدوں کے طعنوں اور دشنام طرازی کی زد میں رہا مگر اس نے کبھی دِل بُرا نہ کیا اور اپنی دُھن میں مگن پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہا ۔ وہ فصلِ خزاں میں بھی خمیدہ بُور لدے چھتنار کی ڈالی تھام کرفصلِ بہار کا منتظر رہا اورفصلی بٹیروں ، طالع آزمامرغانِ باد نما اور طوطا چشم عناصر کی جانب کبھی توجہ نہ دی ۔سبک نکتہ چینی کے عادی اس کے حر ف گیروں کا خیا ل ہیپروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے طرز عمل سے ناسٹلجیا کے مارے قدامت پرستوں کے موقف کو تقویت ملنے کا اندیشہ ہے ۔ اس قسم کی غلط فہمی پیدا کرنے والی باتوں کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو اپنے حقیقت پسندانہ موقف پر ڈٹ گیا اورسبک نکتہ چینیوں کے عادی کینہ پرور حاسدوں کی تنقیص بے جا کو نظر انداز کرتے ہوئے پورے عزم و استقلال کے ساتھ شمعِ وفا کو فروزاں رکھا ۔ اس کے اسلوب میں نمایاں ارضِ وطن ،اہلِ وطن اور اپنی تہذیب و ثقافت سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی اس کا واضح ثبوت ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے اپنی پیش بینی اور بصیرت سے یہ اندازہ لگا لیاہے ایام گزشتہ کی کتاب کو ازبر کیے بغیر روشن مستقبل کے خواب دیکھنا سرابوں کے عذابوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے پس نو آبادیاتی دور میں تاریخ کے مسلسل عمل،ریاستوں اور سامراجی تناظر کو ہمیشہ پیش ِ نظر رکھنے کا مشورہ دیا جواُس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔
ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سیپروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے ہر قسم کی علاقائی ،لسانی ،نسلی اور مذہبی عصبیت سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اپنی تحقیق کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔اس نے واضح کیا ہے کہ مطلق العنان بادشاہت اور اس کے بعد نوآبادیاتی دورکے مسلط کردہ حبس کے ماحول میں انجمن سازی پر توجہ دے کر پنجاب کے دانش وروں نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی اس خطے کے مظلوم عوام کی طرزِ ادا بن گئی۔پنجاب کے باشندوں کے بارے میں استبدادی قوتوں اور استحصالی عناصر کے سطحی ،عمومی نوعیت کے فرسودہ ،دقیانوسی اورمتعصبانہ نو عیت کی سوچ کے مظہر روّیے کو پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا اور اس پر ہمیشہ کڑی تنقید کی۔انگریزی ادبیات،پسِ ساختیات اور تقابل ادبیات جیسے اہم موضوعات کی تشریح پر انھوں نے بھر پور توجہ دی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے معاصر ادبی تھیوری پر جن فکر پرور اور خیال افروز مباحث کا آغاز کیا اس میں کوئی اُس کا شریک و سہیم نہیں۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے پنجاب کے مشہور کالجز اور جامعات میں ایک سو کے قریب توسیعی لیکچرز دئیے۔ ان عالمانہ لیکچرز میں اس عالمِ آب و گِل کے کھیل،لسانیات کے میل ،نفسیاتی مسائل اور فلسفے کے دلائل کا پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا ۔ ان کے خطبات میں قطعیت اور ثقاہت ان کے وسیع مطالعہ کا اعجاز ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ابہام ہمیشہ ابلاغ کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو جاتاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکی تحقیقی اور تنقیدی تحریروں میں نئی تنقید سے متاثر مشہور برطانوی نقاد ولیم ایمپسن(Willaim Empson:1906-1984) کی سال 1930میں شائع ہونے والی تصنیف’’Seven TypesOf Ambiguity‘‘کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کامشاہدہ کرتے وقت انھو ں نے اُسی ارتکاز توجہ کا خیال رکھاجو مطالعہ کتب کے لیے نا گزیرہے ۔یہی وجہ ہے کہ کتابِ زیست کی جزئیات نگاری میں وہ حیران کن مہارت کا ثبوت دیتا ہے اور کہیں بھی خود سری اور طرف داری کا شائبہ نہیں ہوتا ۔ ذاتی مخا لفین کے لیے وسعتِ نظر اور فراخ دلی مگر آمریت کے جبرو استبداد ،سامراجی نظام کے استحصال کے بارے میں اس کا بے انتہا غیظ و غضب اور پیہم ستیز اس کی شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ حب الوطنی اورعصری آ گہی سے لبریزمعاصر مطابقت نے اس تحقیقی مقالہ کی اہمیت و افادیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ۔
بر طانیہ اور فرانس نے نو آبادیاتی نظام کے تحت پس ماندہ اقوام کو جس بے دردی سے لُوٹا اس کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے ان اقوام کے مظالم اور مکرکا پردہ فاش کیا ہے ۔ اس نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کر دیا کہ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد وہاں کے صنعت کاروں کی استحصالی سوچ سے معیشت کا سارا منظر نامہ بدل گیا۔یورپ کے صنعت کار اپنی صنعتوں کے لیے درکار خام مال انتہائی ارزاں نرخوں پر حاصل کرنے کی فکر میں ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک میں پہنچے اور ان ممالک کے عیاش مطلق العنان حکم رانوں کو سبز باغ دکھا کر یہاں سے کِشت دہقاں اوربیش بہا معدنیات اونے پونے داموں بٹورنے لگے۔اس طرح عالمی سامراج اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے منڈیاں تلاش کرنے میں کام یاب ہو گیا ۔ اس کے ساتھ ہی مفاد پرست استحصالی مافیا کو کوڑیوں کے مول خام مال کے حصول میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کو اس بات کا قلق ہے کہ نو آبادیاتی دور میں یورپی اقوام نے ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک کے عوام کی زندگی کی تما م رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،زندگیاں پُر خطر ،آہیں بے اثر ،بستیاں خوں میں تر اور عمریں مختصر کر دیں ۔یورپی اقوام نے عسکری قوت کے بل بوتے پر اپنی نو آبادیات میں اپنا غاصبانہ تسلط قائم کیااور اس خطے کے عوام پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا ۔ان نو آبادیات میں معاشی،سیاسی،تہذیبی اور ثقافتی شعبوں میں یورپ کے غاصب اور جارحیت پسند در اندازوں نے اپنا تسلط قائم کر کے سلطانیٔ جمہور کی راہیں مسدود کر دیں ۔ انیسویں صدی میں اس جارحانہ اور غاصبانہ تسلط کے خلاف ا نجمنوں کے جو اہم کردار ادا کیا پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس تحقیقی مقالے میں تاریخی تناظر میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس تحقیقی مقالہ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ پنجاب میں انجمنوں کا قیام اس خطے میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا جس کے اعجازسے یہاں کے باشندوں میں مثبت شعور و آ گہی پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی گئی۔ مشرق میں واقع نو آبادیات کے بارے میں استعماری طاقتوں کی تعصب پر مبنی آریائی سوچ کاجائزہ لیتے ہوئے فلسطین سے تعلق رکھنے والے پس نو آبادیات پر تحقیق کرنے والے امریکی پروفیسر ایڈورڈ سعید (Edward Said :1935-2003)نے لکھاہے :
"Access to Indian (Oriental)riches had always to be made by first crossing the Islamic Provinces and by withstanding the dangerous effect of Islam as a system of quasi-Arian belief.And at least for the larger segment of eighteenth century,Britiain and France were successful" (5)
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے بر صغیر کی تاریخ کا وسیع مطالعہ کیا ہے خاص طور پرتیسری دنیا کے ممالک کے مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان ممالک کے باشندوں کے دِل سے احساسِ زیاں کے عنقا ہونے کو وہ ایک بہت بڑے المیے سے تعبیر کرتے ہیں۔ان کی دلی آرزو ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کے قسمت سے محروم عوام کی زندگی میں حوصلے، اُمید اورولولۂ تازہ کی شمع فروزاں کی جائے ۔جرأت مندانہ موقف کے آئینہ دار محقق کے منفرد اسلوب کا تنوع ،نُدرت اور ہمہ گیری اُسے ایک جری ،بے باک،ہمہ جہت اور جامع الحیثیات تخلیق کار ،نقاد اور محقق کے منصب جلیلہ پر فائز کرنے کا وسیلہ ثابت ہواہے ۔ایک بلند پایہ نقاد، محقق ،دانش ور ،ماہر تعلیم، مدبر ،سیاست دان،ماہر علم بشریات ،ماہر لسانیات کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کر ر کھا ہے ۔اسی معتبر رشتے کو انھوں نے ہمیشہ علاجِ گردش ِ لیل و نہار قرار دیا۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی حیات وعلمی و ادبی خدمات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے پر یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ ایک مخلص اور دردمند انسان ہے جس کے دِل میں سارے جہاں کا درد سمٹ آیا ہے۔ اسلام کی عطاکردہ روحانیت ،علم دوستی،ادب پروری اور انسان دوستی اس کی پہچان ہے ۔تاریخ کے مسلسل عمل کو سداپیش نظر رکھنے و الے اس محقق نے مظلوم انسانیت کے مصائب و آلام پر لکھتے وقت عجز و نیاز اور دیدۂ نم کا مظہر جو موثر اسلوب اپنا یا ہے وہ اس عظیم انسان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ ملوکیت اورنو آبادیاتی دور میں پنجاب میں انجمنوں کی بنیاد رکھنے و الوں کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے واضح کیا ہے کہ جبر و استبداد سے نفرت اورسامراج دشمنی ان محب وطن انجمن سازوں کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ان زعما نے استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔ سامراجی طاقتوں کے کرتا دھرتا فراعنہ کے کاسۂ سر میں جو کبر و نخوت و رعونت بھری تھی اس کے خلا ف پنجاب کے انجمن سازو ں اور ان کے معتمد ساتھیوں نے جس جرأت ،استقامت اورعزم صمیم سے کام لیا وہ اس خطے کی تاریخ کا درخشاں باب ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے پنجاب کی انجمنوں کے موضوع پر سائنسی انداز فکرکو ملحوظ رکھتے ہوئے جس بے باکی کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے وہ اس کی حب الوطنی اورملی درد کی دلیل ہے۔نو آبادیاتی دور میں اس خطے کے مظلوم عوام پر جو صدمے گزرے ان کا احوال اس تحقیقی مقالے میں موجود ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں عالمی سامراج کے ہاتھوں پنجاب کے عوام پر جو کوہِ ستم ٹوٹا پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کے موضوع پر لکھے گئے اس مقالے میں اُس کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے ۔ عالمی سامراج کے عزائم کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو اور ممتازمورخ ایڈورڈ سعیدکے خیالات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے ۔ عالمی سامراج کیا ہے اس کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے :
"Imperialism means thinking about,settling on,controlling land that you do not possess,that is disrant,that is livedon and owned by others .For all kinds of reasons it attracts some people and often involves untold misery for others" (6)
اپنی تحریروں میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا استحصالی عناصر پرانے شکاریوں کے مانند ہمیشہ نئے جال لے کر شکار گاہ میں پہنچتے ہیں اور کُھلی فضاؤں میں دانہ دُنکا چُگنے کے عادی طیور کو اسیرِ قفس رکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتے ہیں۔ عالمی سامراج کی سازش سے پس ماندہ اقوام کی آزادی بے وقار او رموہوم ہو کر ر ہ گئی ہے ۔ مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرق کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر کے ان ممالک کی تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ ،سماج اور معاشرت کے بارے میں گمراہ کُن تجزیے پیش کیے۔حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ صداقتوں کی تکذیب مغرب کے عادی دروغ گو مورخین کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے ۔یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب فرانس کے مہم جُو نپولین بونا پارٹ ( Napoleon Bonaparte)نے سال 1798میں مصر اور شام پر دھاوا بو ل دیا تھا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان سابقہ نو آبادیات میں سلطانیٔ جمہور کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ۔ تیسری دنیاکے ان ممالک کے حکمرانوں کے سر پر تو خود مختارحکومت کا جعلی تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاؤں بیڑیوں سے فگار ہیں۔اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے :
" They were likely,on the one hand,to be considered by many Western intelellectuals retrspective Jeremiahs denouncing the evils of past colonialism,and,on the other,to be treated by their governments in Saudi Arabia ,Kenya,Pakistan as agents of outside powers who deserved imprisonment or exile.The tragedy of this experience ,and indeed of so many post colonial experiences ,derives from the limitations of the attempts to deal with relationships that are polarized,radically uneven ,remembered differently,,(7)
دوسری عالمی جنگ(1939-1945) کے بعد پُوری دنیا میں فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ انجمن سازی کی صورت میں محکوم اقوام کا لہو سوزِ یقیں سے گرمانے والے پنجاب سے تعلق رکھنے والے دُور اندیش اور جلیل القدر قائدین نے ممولے کو عقاب سے لڑنے کا ولولہ عطا کیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سامراجی طاقتوں کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنی نو آبادیات سے بادِلِ نا خواستہ کُو چ کر نا پڑا ۔ وقت کے اس ستم کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جاتے جاتے سامراجی طاقتوں نے اپنے مکر کی چالوں سے یہاں عصبیتوں ،نفرتوں، سیاسی انتشار،معاشرتی فتنہ و فساد اور سماجی خوف و دہشت کی فضا پیدا کر دی۔ پنجاب میں انجمنوں کے قیام میں فعال کردار ادا کرنے والے دانش وروں کا خیال تھا کہ اجلاف و ارذال ،سفہا،ساتا روہن اور مشکوک نسب کے درندوں کے پروردہ گُرگ منش شکاری نوآبادیات کے باشندوں کو پھانسنے کی خاطرہمیشہ نئے پھندے بناتے رہتے ہیں ،زنجیریں بدلتی رہتی ہیں مگر الم نصیبوں کے روز و شب کے بدلنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔انھوں نے یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ جب تک کسی قوم کے افراد احتسابِ ذات پر توجہ مرکوز نہیں کرتے اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ نہیں اپناتے اس وقت تک اُن کی قسمت نہیں بد ل سکتی۔حریتِ فکر و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے کی روش وہ زادِ راہ ہے جو زمانۂ حال کو سنوارنے ،مستقبل کی پیش بینی اور لوح ِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کرنے کا وسیلہ ہے۔ ایک مر نجان مرنج انسان کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کوکسی کی دل شکنی و دِل آزاری سے اُسے کوئی غرض نہیں۔ انھوں نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ نو آبادیاتی دور میں پنجاب کے محکوم اور مظلوم عوام کی بے بسی سے جنم لینے والی بے حسی اور بے عملی نے ایک بحرانی کیفیت اختیار کر لی تھی ۔ان لرزہ خیزاور اعصاب شکن حالات میں سیرت و کردار کی تعمیر وقت کا اہم ترین تقاضا تھا ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے اس جانب متوجہ کیا کہ ماضی کے تجربات کے پیشِ نظر پنجاب کی انجمنوں نے انیسویں صدی عیسوی میں اس خطے کے باشندوں کی تقدیر سنوارنے میں اہم کردار کیا۔ انیسویں صدی عیسوی میں پنجاب کی انجمنوں کے بنیادگزاروں کا خیال تھا کہ ایک ذمہ دار شہری کا یہ مدعا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی ذات کے نکھار،نفاست،تزئین اور عمدگی کو مرکزِ نگاہ بنالے بل کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ حریتِ فکر و عمل کو شعار بنائے اور ممکنہ حد تک اپنے جذبات،احساسات، تجربات و مشاہدات ،اظہار و ابلاغ اور تحلیل و تجزیہ کے جملہ انداز صداقت اور حقیقت پسندی سے مزین کرے۔ بر صغیر کی تاریخ کے مطالعہ اور تحقیق میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے نو آبادیاتی دور کے حالات اور پس نو آبادیاتی مطالعات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔جہاں تک ادب میں نو آبادیاتی مطالعات کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان میں نو آبادیاتی دور کے محکوم باشندوں کے زوایہ ٔنگاہ ،وقت کے بدلتے ہوئے تیور ،فکر و خیال کی انجمن کے رنگ اور ان کے آ ہنگ پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں۔ نو آبادیاتی مطالعات بالعموم نو آبادیات کے باشندوں کی خاص سوچ پر محیط ہوتے ہیں۔ جری تخلیق کار اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کی نو آبادیات کے وہ مظلوم باشندے جو طویل عرصے تک سامراجی غلامی کا طوق پہن کر ستم کش ِ سفر رہے مگر سامراجی طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا،ان کا کردار ہر عہد میں لائق صد رشک وتحسین سمجھا جائے گا۔یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کو جب اپنی نو آبادیات میں منھ کی کھانا پڑی اور ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب وہ بے نیلِ مرام اِن سابقہ نو آبادیات سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو اس سیاسی تبدیلی کے بعد ان نو آبادیات کے با شندوں نے آزادی کے ماحول میں کس طرح اپنی انجمنِ خیال آراستہ کی۔ انیسویں صدی میں استعماری طاقتوں نے دنیابھر کی پس ماندہ اقوام کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑے رکھا۔سامراجی طاقتوں کی جارحیت کے نتیجے میں ان نو آبادیات کی تہذیب وثقافت،ادب،اخلاقیات،سیاسیات ،تاریخ ،اقدار و روایات اور رہن سہن کے قصر و ایوان سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے پس نو آبادیاتی مطالعات میں اس امر پر نگاہیں مرکوز رکھی ہیں کہ ان کھنڈرات کے بچے کھچے ملبے کے ڈھیر پر نو آزاد ممالک کے باشندوں نے آندھیوں اور بگولوں سے بچنے کے لیے صحنِ چمن کو کس طرح محفوظ رکھا۔تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کے مسائل اور اس کے نتیجے میں آبادی میں رونماہونے والے تغیر و تبدل کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے حقیقت پسندانہ انداز میں لکھا ہے :
"The widespread territorial rearrangements of the post-World War Two period produced huge demographic movements,for example the Indian Muslims who moved to Pakistan after 1947 partition,or the Palestinians who were largely dispersed during Israel,s establishment to accomodate incoming European and Asian Jews; and these transformations in turn gave rise to hybrid political forms.(8)
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت دیارِ مغرب کے مکینوں کی مشرق دشمنی کے خلاف نہایت بے باکی،ذہانت اور دیانت سے حقائق کو زیبِ قرطاس کیا ہے۔ اپنے انتہائی سنجیدہ ، موثر اور با وقار اسلوب میں وہ کہیں بھی نو آبادیاتی نظام کے خلاف آمادۂ پیکار دکھائی نہیں دیتے ۔ان کا خیال ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں حقیقی انقلاب برپا ہونے کی واحد ممکنہ صورت یہ ہے کہ وہاں جذبِ باہمی کو یقینی بنا کر دلوں کو خلوص ،مروّت ،ایثار ،وفا ،شفقت اور شجاعت کے جذبات کا ایسا معدن بنایا جائے جہاں کردار کی پختگی کے انمول ہیرے جواہرات موجود ہوں ۔ عملی زندگی میں حریت ِ ضمیر سے جینا اور حریتِ فکر و عمل کو نصب العین قرا ردینا خو د انحصار ی کو شعار بنانے والی زندہ اقوام کا شیوہ ہوتاہے ۔ عالمی ادب کے وسیع مطالعہ کے بعدوہ اس تلخ حقیقت سے یقیناً باخبر ہیں کہ ہومر(Homer) کے زمانے ہی سے شیخ چلی منش یورپی اقوام اور وہاں کے بز اخفش قماش کے تخلیق کاروں کے فکر و خیال پرجورو ستم اور جبر و استبداد کا عنصر حاوی رہا ہے ۔ماضی کے تلخ تجربات ،تباہ کن حوادث اور صدمات کے باعث بادی النظر میں مشرق میں یہ تاثر عام ہے کہ ہر یورپی باشندے کا مزاج جابرانہ و آمرانہ ہے اور نسل پرستی،سامراج کی حمایت، مجبور اقوام کو اپنے دام فریب میں لانا اورمریضانہ قبیلہ پرستی اہلِ یورپ کی جبلت اور سرشت میں شامل ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے اپنے اس مقالے میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ جب حرف شکایت لب پر لانے پر بھی بھویں تن جائیں اور جبینوں پر بل پڑ جائیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب آمریت کا عفریت ہر سُو منڈلانے والا ہے ۔ انیسویں صدی میں پنجاب کے انجمن سازوں کی زندگی مشعل تاباں کے مانند گزری انھوں نے اپنے ہم وطنوں کو خبردار کیا کہ کوئی نام نہاددیوتا،کسی قسم کے حالات،کوئی من گھڑت تجریدی تصوریا ضابطہ بے بس و لاچار اور بے گناہ انسانیت کے چام کے دام چلانے ، ان پر کوہِ ستم توڑنے اور مظلوم انسانوں کی زندگی کی شمع گُل کرنے کا جواز پیش نہیں کرتا ۔اُنھیں اس امر کا یقین تھا کہ ظلم کا پرچم بالآ خر سر نگوں ہو گا اور حریتِ ضمیر سے جینے والے عملی زندگی میں کامیاب و کامران ہوں گے۔انجمن سازی میں اہم کردار ادا کرنے و الے مصلحین در اصل ان مظلوم انسانوں کے حقیقی ترجمان تھے جن کی زندگی جبر مسلسل برداشت کرتے کرتے کٹ جاتی ہے۔انھوں نے اپنے ہم وطنوں کو اس جانب متوجہ کیا کہ اقوام کی تاریخ اور تقدیر در اصل افراد ہی کی مساعی سے متشکل ہوتی ہے ۔یہ افراد ہی ہیں جو کسی قوم کی تاریخ کے مخصوص عہد کے واقعات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ابہام کو دُور کر کے اِسے از سرِ نو مرتب کرتے ہیں۔جبر کے ماحول میں مصلحت کے تحت افراد کی خاموشی کو تکلم اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے ۔ انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کے منشور اور مختلف جلسوں کی رودادمیں یہ واضح کیاگیا کہ حریتِ فکر کی پیکار اور جبر کے خلاف ضمیر کی للکار سے تاریخ کا رُخ بدل جاتا ہے ۔حریتِ فکر کے مجاہد تاریخ کے اوراق سے فرسودہ تصورات اور مسخ شدہ واقعات کو حذف کر کے اپنے خونِ جگر سے نئی خود نوشت تحریر کرتے ہیں۔پرِ زمانہ کی حرکت سے جب جو ر و جفا کا بُر اوقت ٹل جاتا ہے توتاریخ میں مذکور ماضی کے تضادات ، بے ہنگم ارتعاشات،بے اعتدالیاں اور بد وضع قباحتیں جنھیں ابن الوقت مسخروں نے نظر انداز کر دیا ان پر گرفت کی جاتی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا خیال ہے کہ افراد پر یہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ ایام ِگزشتہ کی کتاب کے اوراق میں مذکور تمام بے سرو پا واقعات کو پشتارۂ اغلاط قرار دے کر اُنھیں لائق استردا دٹھہرادیں تا کہ تاریخ اور قضا و قدر کے فیصلے کے نتیجے میں یہ گمراہ کن باتیں تاریخ کے طوماروں میں دب جائیں۔
پس ماندہ اور نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ممالک کے مظلوم باشندوں کا لہو سوز ،یقیں سے گرمانے میں پنجاب کے انجمن سازوں نے نہایت خلوص اور دردمندی سے کام لیا ۔ وہ دردِ دِل رکھنے والے اور درد آشنا مسیحا کے مانند مرہم بہ دست پہنچے جنھوں نے چارہ گری سے کبھی گریز نہ کیا اور نہایت خلوص سے دُکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی ۔ یہ امر کس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے کہ استبدادی قوتیں بے گناہ افراد کو اس شک کی بنا پر جبر کے پاٹوں میں پِیس دیں کہ ان کے آبا و اجداد نے ماضی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کا ارتکاب کیا تھا اور موجودہ دور کے مقتدر حلقے ماضی میں ان کے عتاب کا نشانہ بنتے رہے ۔ غاصب فراعنہ کی طرف سے اپنے بلاجواز انتقام کے لیے یہ دلیل دی جائے کہ چونکہ ان کے خاندان نے ماضی میں ظلم سہے ہیں اس لیے اب وہ نسل در نسل ان مظالم کا انتقام لیں گے اور اپنے آبا و اجداد کے دشمنوں کی زندگی اجیرن کر کے انھیں ماضی کے تلخ حالات کا خمیازہ اُٹھانے پر مجبور کر دیں گے۔انجمن سازوں نے سادیت پسندوں پر واضح کردیاکہ کسی کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کی بھی حد ہونی چاہیے۔اس سے پہلے کہ مظلوموں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے فسطائی جبر کو اپنے انتہا پسندانہ روّیے پر غور کرنا چاہیے۔زندگی کا ساز بھی ایک عجیب اور منفرد آ ہنگ کا حامل ساز ہے جو پیہم بج رہا ہے مگر کوئی اس کی صدا پر کان نہیں دھرتا۔ انیسویں صدی میں کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ نے تو لُٹیاہی ڈبو دی ۔اس قماش کا جو بھی مسخرادرِ کسریٰ میں داخل ہوتا ہے طلوعِ صبح ِ بہاراں کی نوید عشرت آگیں لے کرغراتا رہتا کہ ماضی کے فراعنہ کے برعکس اس کا مقصدلُوٹ مار،غارت گری،انسان دشمنی،اقربا پروری اور قومی وسائل پر غاصبانہ تسلط نہیں بل کہ وہ فنون لطیفہ کی ترقی، افراد کی آزادی،تعلیم،صحت اور خوش حالی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتاہے۔ نو آبا دیاتی دور میں بر صغیر میں یہ ایک طرفہ تماشا رہا ہے کہ فقیروں کے حال جُوں کے تُوں رہتے ہیں مگر سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر دم ہلانے والے بے ضمیروں کے سدا وارے نیارے رہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے سادہ لوح عوام کو سبز باغ اور حسین خواب دکھانے والو ں نے بھی ماضی کی طرح حقائق کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا کر اپنی اپنی راہ لی اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ نو آبادیاتی دور میں پنجاب میں انجمنوں کے قیام پر اپنے مطالعات میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے تاریخ کے مسلسل عمل،ریاستوں اور سامراجی تناظر کو ہمیشہ پیش ِ نظر رکھنے پر زور دیاہے۔
اگرچہ لائق محقق نے اپنے سروے میں انیسویں صدی میں پنجاب کے طول و عرض میں قائم اکثر انجمنوں کا احوال بیان کیا ہے مگر کچھ انجمنوں کا ذکرشاید محقق کے ترک و انتخاب کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ۔ دھجی روڈ ،جھنگ پر واقع طب یونانی کی اہم درس گاہ ’پنجاب طبیہ کالج جھنگ‘ کے بانی اور ممتاز معالج حکیم ادریس بخاری نے حکیم محمد سعید، حکیم آفتاب احمد قرشی اور حکیم نیر واسطی کے حوالے سے احباب کو بتایا کہ جھنگ میں حکیم اجمل خان(1868-1927) کے شاگر د حکیم احمد بخش نذیر (چوّنی والا حکیم )نے سال 1895ء میں انجمن اطبا قائم کی۔ اپنے عہد میں اطبا کی اس مقبول انجمن کے بنیاد گزاروں میں حکیم احمد بخش نذیر (چوّنی والا حکیم )،مولوی امیر الدین، حکیم یار محمد ،حکیم محمد فاضل ،حکیم نذر محمد ،حکیم محمد اسماعیل ، حکیم شیر محمد ، حکیم عبدالواحد ،حکیم صالح محمد،حکیم بر خوردار ،حکیم حاجی غلام محمد ، حکیم حافظ احمد بخش ،حکیم خادم حسین ،حکیم غلام غوث ، حکیم شرف الدین، حکیم محمد یونس ،حکیم محمد صدیق ،حکیم طالب حسین،حکیم شمیرخان شامل تھے ۔
حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) نے کچھ عرصہ صدیقی دواخانہ دہلی کے مہتمم حکیم عبدالجمیل سے بھی نباضی اور امراض کی تشخیص کی تربیت حاصل کی۔ حکیم اجمل خان نے جب جامعہ اسلامیہ دہلی میں اہم ذمہ داریاں سنبھالیں تو حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) بھی اپنے استاد کے ہمراہ وہاں چلے گئے اور ان سے اکتساب فیض کا سلسلہ جاری رکھا ۔تاریخ اور تاریخ کے مسلسل عمل پر حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) کو پختہ یقین تھا۔بیسویں صدی میں طب یونانی کے فروغ کے سلسلے میں حکیم اجمل خان کی مساعی کو حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھتے تھے ۔حکیم اجمل خان کی عظیم شخصیت خاک کو اکسیر بنا دیتی تھی اور غبار راہ سے ایسے جلوے تعمیرہوتے جو نگاہوں کو خیرہ کر دیتے تھے ۔ حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) اس بات سے بہت متاثر ہوا کہ دہلی میں حکیم اجمل خان کے مطب پرجو بھی مریض علاج کے لیے پہنچتااس سے دوا ،علاج کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کیا جاتا تھا۔انیسویں صدی کے اس یگانۂ روزگار طبیب ،دانش ور ،حریت فکر کے مجاہد اور مرد مومن نے پارس کی صورت مس خام کو کندن بنا دیا اور ذرے کو آفتاب بننے کے فراواں مواقع میسر آئے۔زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جائے ایسے لوگ چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتے ۔
طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) نے جھنگ شہر میں اپنا مطب قائم کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کا عزم کر لیا ۔ایک خستہ حال سی جھونپڑی میں قائم یہ مطب بھی ان کی درویشی ،فقیری، سادگی،قناعت اور عجز و انکسار کی عمدہ مثال تھا ۔حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم ) ایک چٹائی پر بیٹھتے ،سامنے گھڑونچی پر پانی سے بھرے مٹی کے گھڑے رکھے ہوتے ان پر چپنی اور مٹی کے پیالے دھرے رہتے ۔ سامنے ایک الماری میں چند مرتبان ،کچھ بو تلیں اور سفوف کے ڈبے رکھے ہوتے ۔وہ ہر وقت ہاون دستے میں کوئی نہ کوئی سفوف تیار کرنے میں مصرو ف رہتے ۔ان کا ایک شاگرد عرقیات ،شربت،معجون ،گولیاں اور پھکی بنانے میں ان کا ہاتھ بٹاتا اور اس طرح مل جل کر ادویات کی تیاری کا کام جاری رہتا ۔ مقامی طور پر تیار کیے جانے والے سفید کھدر کے صاف اور سادہ لباس میں ملبوس سر پر کلاہ و دستار باندھے حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) اپنی گل افشانیٔ گفتار سے حاضرین کو مسحور کر دیتے ۔ان کے پاس جو بھی مریض علاج کی غرض سے آتا وہ اس سے صرف چار آنے وصول کرتے اور مریض کو ایک بوتل شربت ،ایک بوتل عرقیات ،معجون ،مربہ جات اور پھکی دیتے۔اگر کوئی مریض زیادہ رقم دینا چاہتا تو ہرگز قبول نہ کرتے البتہ مفت دوا لینے والوں یاکم پیسے دینے والوں سے کبھی جھگڑا نہ کرتے ۔ حکیم احمد بخش(چار آنے والے حکیم ) دوا بھی دیتے اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے ا ﷲ کے فضل و کرم سے مریض شفا یاب ہو جاتا ۔ شہر کے لوگ آج تک محو حیرت ہیں کہ اس قدر کم قیمت میں علاج معالجہ کرنے والا حکیم اپنی گزرا وقات کیسے کرتا ہو گا ۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کہ یہ سب کچھ سات عشروں تک ہوتا رہا اور عقل ہمیشہ کی طرح محو تماشائے لب بام ہی رہی ۔چار آنے والا حکیم اس قدر مشہور ہوا کہ اکثر لوگوں کو اس کے اصل نام کا علم ہی نہیں ۔لوگ طویل مسافت طے کر کے یہاں آتے اور ایک ہی خوراک سے شفا یاب ہو کر گھروں کو لوٹتے ۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور مشہور ماہر تعلیم غلا م علی خان چین ؔکا کہنا تھا کہ مریضوں کا علاج ، دوا،نباضی اور تشخیص تو محض ظاہری صورت تھی ،باطنی کیفیات سے بہت کم لو گ آگا ہ تھے ۔اس کا تعلق ما بعد الطبیعات سے ہے کہ کبھی یہاں جھنگ شہر کے مغرب میں واقع نو رشاہ گیٹ میں فٹ پاتھ پر زمین پر بیٹھ کر صرف ایک آنہ اُجرت وصول کر کے حجامت کرنے والا اﷲ دتہ (ایک آنے والا حجام ) لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے اور کبھی زمین پر بیٹھا غریب راہ گیروں کے سفر کے دوران ٹوٹ جانے والے بوسیدہ جوتوں کی مفت مرمت کر کے پیوند لگانے والا جھنگ کا کرموں موچی (کرم دین جفت ساز)قدرت اﷲ شہات جیسے سخت بیوروکریٹ سے اپنے دبنگ لہجے میں مخاطب ہو کراس پر ہیبت طاری کر دیتا ہے ،کبھی جھنگ کا ایک حال مست فقیر میاں مودا (مراد علی ) جون کی چلچلاتی دھوپ میں شہر کی پختہ سڑکوں پر ننگے پاؤں بھوکا پیاسا چل کر یہ ثابت کرتا ہے کہ آج بھی اگرا براہیم ؑکا ایماں پیدا ہو جائے تو آگ انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے اور گرمیوں کی دو پہر کے وقت تانبے کی طرح تپتی زمین بھی شبنم افشاں گل تر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ باہو سلطان ،شیخ جوہر،شاہ جیونہ اور زندہ پیر جیسے فقیر اسرار شہنشاہی سکھا سکتے ہیں تو میاں بکھا (حافظ بر خوردار )جیسا مردِ مومن اپنی موت کو التوا میں ڈال کر جرائم پیشہ ،پیمان شکن اور عادی دروغ گو عناصر کے کذب و افترا کی سزامرگ ِ ناگہانی کی صورت میں دے کر جھوٹ کی ہر کہانی کو عبرت کی نشانی اور پس ماندگان کے لیے دائمی پشیمانی بنا دیتاہے ۔ یہ پر اسرار بنجارے اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں ،حرص و ہوا کو ترک کر کے دکھی انسانیت سے عہد وفا استوار کرنے والے ایسے لوگ یادگار زمانہ ہوتے ہیں۔ مظلوم اور مفلوک الحال انسانیت کی بے لوث خدمت ان کے وقار اور سر بلندی کو یہ علاج گردش لیل و نہار خیال کرتے ہیں اور ہر سو بچھے دکھوں کے جال ہٹانا ان کا شیوہ ہوتا ہے ۔ متعدد قرائن و شواہد کو دیکھ کر یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم) بھی ایک پر اسرار اور یاد گار زمانہ شخص تھا جس نے واضح کر دیا کہ یہ دنیا ایک آئینہ خانہ ہے،وہ دولت پانے کے بجائے اسے ٹھکرانے کا قائل تھا ۔ وہ مال و دولت دنیا اور یہاں کے رشتہ و پیوند کو بتان وہم و گماں سے تعبیر کرتا تھا اور اس میں وہ دولت کے حریص اور ہوس کے مارے لوگوں کو تماشا بنا کر اس دنیا سے چلا گیا ۔عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ایسے لوگوں کے نام اور کام کی ہر دور میں تاریخ تعظیم کرتی ہے اس تمام سلسلے کو سمجھنے کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے۔بڑے بڑے سگھڑ سیانے بھی ان نازک معا ملات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے ،بھارت کے مشہور شاعرمجروح سلطان پوری( اسرار الحسن خان :1919-2000) نے ان پر اسرر ا بندوں کے متعلق راز کی بات بتائی ہے :
بے تیشہ ٔ نظر نہ چلو راہِ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
حکیم احمد بخش (چار آنے والاحکیم )نے سو سال سے زیادہ عمر پائی ۔اس کی جنم بھومی وہ علاقہ تھاجہاں سے ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان )،سید جعفر طاہر ،محمد شیر افضل جعفری ،حاجی محمد یوسف ،غلام علی خان چین ،مجید امجد ، میاں محمود بخش ،رانا سلطان محمود، احمد یار ملک ،میاں اﷲ داد ، فلائٹ لیفٹنٹ خواجہ یونس حسن شہید ،حکیم یار محمد اور اﷲ دتہ سٹینو جیسے متعدد مشاہیر نے جنم لیا ۔ان سب شخصیات نے اپنے زمانے میں اپنے اپنے متعلقہ شعبوں میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن بیماری کے جان لیوا کرب سے سسکتی مجبور ،غریب ،بے بس و لا چار دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی جو درخشاں مثال حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )نے قائم کی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔ وہ رات دن ،شام و سحر ہمہ وقت اپنے مطب کے دروازے پر بچھی چٹائی پر موجود رہتے ۔رات کے وقت کچھ دیر سستا بھی لیتے لیکن مطب کا درواز کبھی بند نہ کرتے ۔وہ پنجگانہ نماز با جماعت مسجد شلیانی ( شا ہ علیانی )میں ادا کرتے اور نماز تہجد اپنے مطب میں ادا کرتے تھے ۔ یہ فقیر سارے جہاں کے درد کو اپنے جگر میں سموئے دنیا و ما فیہا سے بے خبر ایام کا مرکب نہیں بل کہ راکب بن کر زندگی گزارتا رہا اور کبھی حرف شکایت لب پر نہ لایا ۔اس کا طرز زندگی فقیری اور درویشی کا مظہر تھا اس نے زندگی بھر اپنی خودی کی حفاظت کی اور غریبی میں بھی قناعت اور استغنا کا بھرم قائم رکھا۔سچی بات تو یہ ہے کہ عملی زندگی میں اس مر د فقیر نے مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار ادا کیا ۔وہ دن بھر جو کچھ کماتا سر شام علاقے کے غریبوں ، بے سہارا ضعیفوں ،مسکینوں ،یتیموں اور بیواؤں کو بھجوا دیتا تھا ۔اس نیک کام میں حاجی محمد یوسف ، رانا سلطان محمود ، شیر محمد ،سجاد حسین ، محمد منیر ،غلام علی خان چینؔ اور اﷲ دتہ سٹینو اس کی مدد کرتے تھے ۔ خدمت خلق کایہ کام اس رازداری سے ہوتا تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی ۔اگرچہ وہ اپنے کام تک محدود تھا اور کبھی حصارذات سے نہ نکل سکا لیکن اس کی وسیع النظر ی کا ایک عالم معترف تھا ۔اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس معالج کے خیالات میں سمندر کی سے گہرائی اور وسعت تھی ۔یہ اس کی عالی ظرفی تھی کہ وہ دام غم حیات سے بچ کر ہمیشہ خاموشی سے عوامی خدمت کے کاموں میں مصرو ف رہا۔ایک بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ وہ ہر مریض سے دوا اور علاج کے صرف چار آنے طلب کرتا تھا لیکن کچھ مریض ایسے بھی ہوتے جو ایک پائی ادا کرنے کی بھی سکت نہ رکھتے تھے ۔ایسے مریضوں کے قیام ،طعام ،دوا ،علاج اور سفر خرچ کے تما م اخراجات بھی حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم )کے ذمے تھے ۔ اس پر اسرار حکیم نے انیسویں صدی کے اواخر میں روشنی کا جو سفر شروع کیا وہ ان کی زندگی میں جاری رہا اور یہ نیک کام تاریکیوں کی دسترس سے ہمیشہ دور رہا ۔راہ جہاں سے گزر جانے والے ایسے عالی ہمت لوگوں کی تقلید وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔لوح دل پر ان کی خدمات کے نقوش ہمیشہ ثبت رہیں گے ۔آج بھی دور دراز علاقوں سے آنے والے دکھی لوگ اس یگانہ ٔروزگار طبیب کو یاد کر کے اس کے لیے دعا کرتے ہیں ۔فضاؤں میں ہر سو اس مسیحا صفت معالج کی یادیں اس طرح بکھری ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔
انیسویں صدی میں انجمن اطبا جھنگ کے بانی حکما میں سے اکثر حکیم سال 1884میں قائم ہونے والی انجمن تاجران اور انجمن اہلِ حرفہ جھنگ کے رکن بھی تھے ۔نو آبادیاتی دورمیں سال 1884میں ملکہ وکٹوریہ کے نام پر کراچی میں ایمپریس مارکیٹ کی تعمیر جاری تھی اس سے پہلے جھنگ میں انجمن تاجران اور انجمن اہل حرفہ فعال کردارادا کررہی تھیں۔ انجمن اہلِ حرفہ جھنگ کے قیام کے دھندلے نقوش خلجی عہد (1290-1320)میں ملتے ہیں ۔حاجی محمد یوسف اور غلام علی خان چینؔ کی روایات کے مطابق اس شہرسدا رنگ کے سب قدیم بازاروں کے نام اہل حرفہ کی یاددلاتے ہیں۔ انیسویں صدی میں اہل حرفہ کی انجمن اس علاقے میں محنت کشوں کی فلاح کے لیے فعال کردار ادا کر رہی تھی ۔ انیسویں صدی کے وسط میں گجرات کی المیہ لوک داستان ’سوہنی اور مہینوال ‘ کے خاندان کے ایک کوزہ گر ’ تلا کمہار‘ نے جھنگ میں اپنے کمال فن کی دھاک بٹھا دی ۔کفِ کوزہ گر میں پنہاں کمالِ فن جب خوب صورت اور دل کش نقش و نگار میں متشکل ہوتا تو مرصع مٹی کے برتن لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے اس طرح تلا کمہار کی پانچوں گھی میں تھیں ۔ اس کوزہ گرنے اس قدرزرو مال جمع کر لیاکہ بڑے بڑے عزت بیگ بھی اس کے سامنے پانی بھرتے پھرتے تھے ۔ایک بانس کے ساتھ رسیوں سے دو پلڑے باندھ کر اس میں مٹی کے برتن رکھ کر تلا کمھار اپنے کندھے پر بانس رکھ کر ہر گوٹھ اورگراں میں برتن فروخت کرنے پہنچتا۔اس کے دن پھرے تو اس نے گدھا گاڑی خرید لی اور اس پر بیٹھ کر نواحی دیہات و قصبات میں اپنے بنائے ہوئے مٹی کے برتن فروخت کرتا تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے تلا کمھار شہر کا سب سے متمول شخص بن گیا دنیا یہ تغییر حال دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ اس زمانے میں جھنگ میں شتر بانی اور گھڑسواری عام تھی تلا کمہار نے جب نئی موٹر خریدی تو سب لوگ ششدر رہ گئے ۔شہر کے لوگ تلاکمہار کے بجائے اس کی نئی موٹردیکھنے کے لیے امڈ آئے۔ تلا کمھار کے بارے میں یہ شعر زبان زدِ عام تھا:
موٹر پہ اُڑرہا ہے وہ تلا کمھاردیکھ
ہے دیکھنے کی چیزاسے باربار دیکھ
ذیل میں جھنگ کے قدیم بازاروں کے نام درج ہیں جو جدید دور میں بھی اہل حرفہ کی عظمت کی دلیل ہیں :
کھیتیاں والا بازار ،بازار سناراں ،بازار لوہاراں ، پھولوں والا بازار ،چڑی ماروں والا بازار،چونا بھٹیاں ،لکڑ منڈی ،بازار حکیماں ،سوتر منڈی،رنگ محل ،گھگ بازار (عام ملبوسات بالخصوص گھگراسینے والے درزیوں کا بازار )،بازار کمہاراں ،کھسہ بازار ،دھسہ بازار
ان انجمنوں میں فعال کردار ادا کرنے والے مشاہیرکے خوشہ چین بیسویں صدی میں ’ حلقہ ٔ اربابِ ذوق‘ سے بھی وابستہ رہے ۔ میاں اقبال زخمی نے بتایا کہ لاہور میں مقیم طب یو نانی کے ماہر معالج بھی انجمن اطبا،انجمن اہلِ حرفہ اور انجمن تاجراں جھنگ کی سرگرمیوں کے مداح تھے۔انجمن اطباسے وابستہ حکیموں نے حلقۂ ارباب ذوق کے جلسو ں میں حضرت سلطان باہو کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے ان کے کلام سے اکتساب فیض کیا اور ان کی عزت و تکریم کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ محمد کبیر خان ،ظہور احمد شائق، خادم مگھیانوی ،مظفر علی ظفر ، دیوان احمد الیاس نصیب، غلام علی خان چینؔ،رجب الدین مسافرؔ،فیض محمد خان ،شریف خان ،غلام محمد اور اﷲ دتہ سٹینونے انجمن تاجران ، انجمن اطبااور حلقۂ اربابِ ذوق کو ہمیشہ اطبا، ادیبوں اور تاجروں کی ایسی انجمنوں سے تعبیر کیا جن کے اعجاز سے اس شہرمیں فکر و خیال کی نئی شمعیں فروزاں کیں ۔ جھنگ میں انجمن اہلِ حرفہ ،انجمن اطبا اور انجمن تاجراں کے اراکین ان با صلاحیت ادیبوں کے لیے صدق دل سے دعا کرتے تھے ۔ جھنگ میں مرزا معین تابش اوران کے معمتد رفقائے کاراور لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ سب ادیب،نقاد اور دانش ور حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم ) کی تخلیقی کامرانیوں کو اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک نیک فال سے تعبیر کرتے تھے۔ ا نجمن تاجران ،انجمن اہلِ حرفہ ،نجمن اطبا اورحلقہ ٔاربابِ ذوق کے اشتراک عمل اور ارتقا کے بارے میں سب اہم امور کے بارے میں آگہی ان نشستوں کا ثمر ہے ۔ مارچ 1939ء کی ایک خنک شام تھی سید نصیر الدین جامعی اور تابش صدیقی گرم جوشی سے ملے ۔ دوران گفتگو سید نصیر الدین جامعی نے تجویز پیش کی کہ ایک ایسی فعال ادبی مجلس کا قیام عمل میں لایا جائے جو جمود کا خاتمہ کرے اور فکر و نظر کو مہمیز کر کے قارئین ادب میں مثبت شعور و آگہی پید ا کرے ۔اس مجلس کا نام’’مجلس افسانہ گویاں ‘‘تجویز ہوا ۔تابش صدیقی نے اس تجویز کو بہ نظر تحسین دیکھا اور اس مجلس میں شامل ہونے والے وہ پہلے فعال رکن تھے ۔’’مجلس افسانہ گویاں‘‘کے قیام کے سلسلے میں جن ممتاز شخصیات سے مشاورت کی گئی ان کے نام درج ذیل ہیں :
حفیظ ہو شیارپوری ،شیر محمد اختر ،محمد فاضل ،سید اقبال احمد جعفری ،اختر ہو شیارپوری ،ڈاکٹر حیات ملک ،اے مجید اور سید محمد اصغر جعفری ۔
2۔اپریل 1939کو ’ ’مجلس افسانہ گویاں ‘‘کا پہلا اجلاس لاہور میں سید نصیر الدین جامعی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔اس اجلاس میں سید نصیر الدین جامعی کو ’’مجلس افسانہ گویاں ‘‘کا پہلا سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔جلد ہی اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ حلقۂ اربابِ ذوق کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور نظم و نثر کی تمام اصناف کو اس میں زیر بحث لا یا جائے ۔اس خیال سے سب تخلیق کار متفق تھے اس لیے یہ طے کیا گیا کہ ’’مجلس افسانہ گویاں ‘‘کو نیا نام دیا جائے ۔محمد فاضل نے یہ مشکل حل کر دی اور کہا نام ’’حلقہ ٔاربا ب ذوق ‘‘مناسب رہے گا ۔سب ارکان نے اسے منظور کر لیا اور یہ نام آج تک مقبول ہے ۔ڈاکٹر محمد باقر کا کہنا ہے کہ ’’مجلس افسانہ گویاں ‘‘کا نیا نام ’’حلقۂ ارباب ذوق ‘‘تجویز کرنے والے وہ تھے ۔حلقہ ٔ ارباب ذوق کا نام تجویز کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر محمد باقر کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے تابش صدیقی نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’حلقہ ٔارباب ذوق کی بنیاد وغیرہ کے سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر کا ایک مضمون مخزن کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا ،جس میں انھوں نے حلقے کے نام کا مجوز ہونے کا دعویٰ
کیا تھا جو صحیح نہیں ہے ۔یہ سب کچھ ان کی انگلستان سے مراجعت سے قبل ہو چکا تھا ۔‘‘
حلقہ ٔ اربا ب ذوق کی طرح انجمن اطبا جھنگ ،اورانجمن اہل حرفہ کے کوئی سیاسی مقاصد نہ تھے۔ انجمن اطبا جھنگ اور انجمن اہل حرفہ نے حلقۂ ارباب ذوق کی طرح علم و ادب کے فروغ کوہمیشہ اوّلیت دی ۔یکم اکتوبر 1939کو حلقہ ٔ ارباب ذوق کے ایک جلسہ میں اس کے قیام کے اغراض و مقاصد،اصول و ضوابط اور مسقبل کے لائحہ ٔعمل کا تعین کیا گیا ۔اپریل 1940کے وسط میں حلقہ ٔارباب ذوق کا پہلا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت میاں بشیر احمد ایڈیٹر ’’ہمایوں ‘‘ نے کی ۔میراجی (محمد ثنااﷲ ڈار ) ( پیدائش:25-5-1912،وفات: 4-11-1949)اور اردو کے نامور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی ( پیدائش:1915،وفات: 1984) نے پہلی بار اس سالانہ جلسے میں شرکت کی ۔اس سالانہ اجلاس میں کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک نے بھی شرکت کی ۔یہ دونوں تخلیق کار حلقہ ٔارباب ذوق کے معمول کے جلسوں میں با قاعدگی سے شرکت کرتے تھے ۔ حلقہ ٔ اربا ب ذوقپہلے سالانہ اجلاس کے بعد میراجی نے جب حلقۂ اربا ب ذوق میں با قاعدہ شمولیت کر لی تو اس سے حلقے کو بہت فائدہ پہنچا ۔حلقہ ٔارباب ذوق نے 1940تا1943کے عرصے میں کامیابی کے نئے باب رقم کیے ۔سا ل1942میں حلقۂ ارباب ذوق کے منشور کی منظوری دی گئی ۔انجمن اطبا جھنگ کے رکنحکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم ) ،انجمن اہل حرفہ کے رکن یارا سازندہ اور ممتازشاعرامیر اختربھٹی نے بتایا کہ طویل عرصہ تک لاہور میں حلقۂ ارباب ِذوق اور پاک ٹی ہاؤس کو ادیبوں کا اہم فورم اور مقبول انجمن قرار دیا جاتا رہا۔ اس عرصے میں اردو زبان کے جو بلند پایہ تخلیق کار حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ ہوئے ان میں قیو م نظر ،یوسف ظفر ،مختار صدیقی ،ضیا جالندھری،الطاف گوہر اور محمد صفدر کے نام قابل ذکر ہیں ۔قدرت اﷲ شہاب جب جھنگ کا ڈپٹی کمشنر تھا تو اس نے سعادت حسن منٹو (1912-1955) کو اپنے پاس بلایا اور اپنے معمتد معاون اﷲ دتہ سٹینوکو اس افسانہ نگار کی دیکھ بھال کی ذمہ داری تفویض کی ۔ اس کے ساتھ ہی قدرت اﷲ شہاب نے انجمن اطبا جھنگ سے وابستہ ممتاز اطبا کو اردو افسانے کے اس عظیم تخلیق کار کے علاج پر مامور کیا مگر سعادت حسن منٹونے اطبا کے پرہیز ی نسخے پر عمل نہ کیااور گھبرا کر واپس لاہور چلا گیا۔
انجمن اطبا جھنگ،انجمن تاجران اور انجمن اہلِ حرفہ سے وابستہ کا رکنوں،رضاکاروں اور ادیبوں کی تخلیقی تحریریں روزنامہ ’ عروج ‘ جھنگ میں شائع ہوتی تھیں۔ ارد و نظم کے کوہ پیکر تخلیق کارمجید امجد (1914-1974) کی تحریریں بھی روزنامہ ’ عروج ‘ کی زینت بنتی رہیں ۔ سال 1963میں انتظار حسین نے کالم نویسی کا آغاز کیا ، روزنامہ مشرق میں ان کا کالم ’’لاہور نامہ ‘‘قارئین کی توجہ کا مرکز بن گیا۔اپنے اس مقبول کالم کے ذریعے انھوں نے پاکستان کے قدیم تاریخی شہر وں کی تاریخ ،ثقافت اور علمی و ادبی روایات کے موضوع پر نہایت دل کش انداز میں اظہارِ خیال کیا ۔ وہ حسن ورومان کی دھرتی جھنگ کے زندہ دِل اور جری مکینوں کے ساتھ والہانہ محبت کرتے تھے اور یہاں کی قدیم انجمنوں کی خدمات کے وہ معترف تھے ۔
جذبہ ٔ انسانیت نوازی پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکے اسلوب کا اہم وصف ہے ۔ محقق نے واضح کیاہے کہ پنجاب کی انجمنوں کے بنیاد گزاروں کے نزدیک انسانیت نوازی کاارفع معیار یہ رہا ہے کہ زندگی کی حیات آفریں قوتوں کے ساتھ ممکنہ حد تک تعاون کیا جائے ، جبر و استبداد کے خلاف بھر پور مزاحمت کی جائے اور مرگ آفریں استحصالی قوتوں کے مذموم ہتھکنڈوں اور بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ پنجاب کی انجمنوں سے وابستہ افراد کوہر ظالم سے شدید نفرت رہی۔ ان انجمنوں کے اراکین کی دلی تمنا تھی کہ معاشرتی زندگی سے ان تمام شقاوت آمیز ناانصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے جن کے باعث اس خطے میں تاریخ ِ انسانی کا سارا منظر نامہ ہی
گہنا گیا ہے ۔ پنجاب کی انجمنوں کی منشور سازی پر مامور قوم کے بہی خواہ اور مصلحین تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل پر ان کا پختہ یقین رکھتے تھے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو اس بات پر ملول اور آزردہ رہتے ہیں کہ نو آبادیاتی دور میں تاریخ کے اس پیہم رواں عمل کو فاتح ،غالب،غاصب اور جارحیت کی مرتکب طاقتوں نے من مانے انداز میں مسخ کر کے اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اور اس میں مذکور متعدد واقعات محض تخیل کی شادابی ، مفروضے اور پشتارۂ اغلاط بن کر رہ گئے ہیں۔ایک وسیع المطالعہ مورخ، جری تخلیق کار ،محنتی محقق اور ذہین نقاد کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے انجمنوں کے حوالے سے قارئین کی ذہنی بیداری کااس طرح اہتمام کیا کہ وہ اپنے حقو ق کے حصول کے لیے جہد و عمل پر مائل ہوگئے ۔ انھوں نے واضح کر دیا کہ قارئین کے دلوں میں جذب باہمی کی بیداری اور ان کے فکر و نظر کو مہمیز کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔ سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر دیکھنے کی تمنا کرنے والے اس رجائیت پسند ادیب نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ یاس و ہراس کا شکار ہونے والے دراصل شکست خوردہ ذہنیت کے مالک ہیں۔ سعیٔ پیہم ، عزم صمیم اور امید کا دامن تھام کر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اور وہم و گمان کو بھی قوتِ ارادی کے اعجاز سے حرفِ صداقت میں بدل کر خواب کو حقیقت کا روپ دیا جاسکتا ہے ۔ سر زمین ِ پنجاب کی انجمنوں کے موضوع پر ان کے فکر پرور اور بصیرت افروز خیالات پڑھ کر قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کاروانِ ہستی کے تیز گام رہرو اپنی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو ضربِ کلیمی سے کچلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ نو آبادیاتی دور میں کام کرنے والی ان انجمنوں میں فعال کرداراداکرنے والے یگانۂ روزگار فضلا کی زندگی کے نشیب و فرازکا مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے اس عالمِ آب و گِل کی ہر چیز کو تہس نہس کر دیتے ہیں مگر اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریگِ ساحل پرنوشتہ وقت کی کچھ تحریریں لوحِ جہاں پر انمٹ نقوش ثبت کر کے اپنا دوام ثبت کر دیتی ہیں۔ایسے انسان نایاب ہوتے ہیں جن کی انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت انھیں اہلِ عالم کی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیتی ہے ۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت، دردمندی اور قلبی وابستگی درد آشنا انسان کو بے خوف و خطرنارِ نمرودمیں جست لگانے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مرگِ نا گہانی کے اندیشوں ،وسوسوں اور خوف کے سوتے زندگی کی ڈر سے پھوٹتے ہیں لیکن بھر پور زندگی بسر کرنے والے الوالعز م انسان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مو ت پر ی کے منگیتر ہیں اور اجل کو چوڑیاں پہنانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ زینہ ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کر اں وادیوں کی جانب کسی کا سدھار جانا اتنا بڑا سانحہ نہیں بل کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں رونما ہونے والے جبر کے نتیجے میں جس وقت درخشاں اقدار و روایات نے دم توڑ ا تویہ لرزہ خیز سانحہ دیکھنے کے بعد ہم کیسے زندہ رہ گئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے زندگی کی حیات آفریں اقدار و روایات کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں پنجاب کی انجمنوں کوخونِ دِل سے نکھار عطا کرنے والی اورلسانی ارتقا کی راہ ہموار کر کے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے والی ہفت اختر شخصیات عرصہ ہوا ہماری بزمِ وفا سے اُٹھ گئی ہیں۔یاد رکھنا چاہیے موت ایسے عظیم لوگوں کی زندگی کی شمع گُل نہیں کرسکتی بل کہ ان کے لیے تو موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے جس کے بعد ان کے افکار کی تابانیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہوتا ہے جو جریدۂ عالم پر ان کی بقائے دوام کو یقینی بنا دیتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح پرتوِ خور سے شبنم کے قطرے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں مگر اگلی صبح لالہ و گُل کی پنکھڑیوں پر پھر شبنم کے قطرے موجود ہوتے ہیں ۔ اسی طرح طلوع صبح کے وقت شمع بالعموم گل کر دی جاتی ہے اور دن بھر کے سفر کے بعد جب خورشید جہاں تاب غروب ہوتا ہے اور شام کے آثار پیدا ہوتے ہیں تو شمع پھر فروزاں کر دی جاتی ہے ۔ اُسی طرح پنجاب کی انجمنوں کی بنیاد رکھنے والے زعما کے خیالات کی شمع ہمیشہ فروزاں رہے گی اور ان محبان وطن کی شخصیت کی عنبر فشانی سے قریۂ جاں سدا معطر رہے گا ۔قوم و ملک کے ان معماروں اور مشرقی تہذیب و ثقافت کے ان سفیروں کے افکار کی باز گشت لمحات کے بجائے صدیوں پر محیط ہو گی۔
مطبوعہ تحقیقی مقالہ ’’ انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی اردوخدمات‘‘ کے چھے ابواب ہیں اور یہ چار سواڑتالیس (448) صفحات پر مشتمل ہے۔ مشمولات کی کمپیوٹر کمپوزنگ کی گئی ہے اور طباعت کے لیے عمدہ کاغذاستعمال کیا گیا ہے ۔ کمپوزنگ اورپروف ریڈنگ کے معیار پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا ہے کہ متن میں اغلاط بہت کم ہیں۔ انیسویں صدی کی تاریخ کے حوالے سے پس منظر کے جھٹ پٹے میں اُنیس (19) ضوفشاں موم بتیوں سے مزین مصور ریاض ظہور کاتیار کیا ہوا رنگین سر ورق گہری معنویت کا حامل ہے ۔ گمان ہے اپنے فن میں ماہرمصور نے فطین محقق کی ہدایت پر اس امر کی صراحت کی ہے کہ جس طرح شبِ تاریک میں یہ شمعیں فروزاں ہیں اسی طرح نو آبادیاتی دور میں پنجاب کی انجمنوں نے کٹھن حالات میں روشنی کا سفر جاری رکھا ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کوقدرت کاملہ نے جس مضبوط اور مستحکم شخصیت سے نواز اہے اس کی عکاسی اس کتاب کی مضبوط اور دیدہ زیب جلد بندی میں ہوتی ہے جس نے کتاب کے صور ی حسن کو چا ر چاند لگا دئیے ۔ عالمی سطح پر افراطِ زرنے گرانی کی جو کیفیت پیدا کر دی ہے اس کے اثرات تمام اشیا ئے صرف کی قیمتوں پر مرتب ہوئے ہیں۔ ان حالات میں اس کتاب کی قیمت نو سو روپے (Rs.900/-)ہے جو مناسب ہے ۔ محقق نے اس مطبوعہ تحقیقی مقالے کا انتساب اپنی دادی جان مرحومہ اور والدہ ماجدہ مرحومہ کے نام کیا ہے جن کی شفقت آمیز تربیت کے اعجاز سے محقق زندگی کے شعور سے متمتع ہو کر انجم کاہم قسمت ہوا ۔محقق نے اپنے تحقیقی مقالے میں جدید تحقیق کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔ مآخذ،حواشی ،حوالہ جات،تعلیقات اور ضمیمہ جات نے ا س تحقیقی مقالے کو تاریخ کے متعدد نئے امکانات سے متمتع کر کے اسے ثقاہت اور استناد کے ارفع ترین مقام تک پہنچا دیا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکی گل افشانی ٔ گفتار سے ہر محفل کشتِ زعفران بن جاتی ہے ۔اس بار انھوں نے’’ انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی اردوخدمات‘‘ کو موضوع تحقیق کے طور پرمنتخب کیا ہے اس میں اور ان کے گزشتہ موضوع تحقیق ’’انجمن مفید عام قصور کی علمی و ادبی خدمات ‘‘ میں بہ ظاہراُنیس بیس کا فرق ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اس مقالے میں پنجاب کے ایک شہر سے نکل کرانیسویں صدی میں نو آبادیاتی دور کے پورے متحدہ پنجاب کی انجمنوں کی علمی و ادبی خدمات کا احاطہ کر کے ستاروں پہ کمنڈ ڈالی ہے ۔مقالے کے لیے مواداور بنیادی مآخذ کے حصول کے لیے انھوں نے وطن عزیزکے اہم کتب خانے چھان مارے ۔طویل اورصبر آزما جد و جہد اور کٹھن تحقیقی و تنقیدی مراحل طے کرنے کے بعد وہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے حقائق کی گرہ کشائی کر سکے۔ نو آبادیاتی دور میں انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی لسانی خدمات پر محیط یہ تحقیقی مقالہ اپنے موضوع کے اعتبار اپنی مثال آپ ہے ۔اس سے قبل اس موضوع پر کسی محقق کی کوئی تحریر میری نظر سے نہیں گزری ۔ اپنے تحقیقی مقالے کے لیے بنیادی مآخذکے حصول کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے وطن عزیز کے ممتاز دانش وروں سے بالمشافہ ملاقات کی اور ان کے خیالات سے استفادہ کیا ۔اس کے علاوہ محقق نے تمام سرکاری کتب خانوں،سائبر کتب خانوں ،گیار ہ علمی اداروں اور پانچ نجی کتب خانوں سے مستند معلومات حاصل کیں اس تحقیقی مقالے میں شامل پنجاب کی انجمنوں کے اراکین،عہدے داروں کی فہرست اوران انجمنوں کی رودادپڑھ کر محقق کی محنت اور لگن واضح ہو گئی۔تحقیقی مقالہ ’’ انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی اردوخدمات‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے منفرد اسلوب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ گیارہ جلدوں پر مشتمل کتاب’’ تہذیب کی کہانی ‘‘(Story Of Civilization) کے مصنف امریکی مورخ ویل ڈیورنٹ (Will Durant :1885-1981) سے متاثر ہیں۔فاضل محقق نے انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کے اغراض و مقاصد وسائل،مسائل اور منشور پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے اپنے تحقیقی مقالے میں قارئین ادب پر واضح کر دیا ہے کہ ایامِ گزشتہ کی روداد کا مقدر تاریخ کا طومار نہیں ہے ۔مورخ کو اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ بیتے لمحوں میں کس کی جیت ہے یا کس کی ہارہے ۔آنے والے دنوں کا احوال سر بستہ راز کے مانند انتہائی پر اسرارہے۔یہ صرف لمحۂ موجودہے جو علاج گردش لیل و نہار ہے اوراسی پر زندگی کا مکمل انحصار ہے ۔ ماضی کی کوکھ سے جنم لینے والاہمارا حال خالق کا انعام اور لائق صداکرام ہے ۔انیسویں صدی عیسوی میں پنجاب کے انجمن سازدانش ورو ں اور ان کے رفقائے کار نے نو آبادیاتی دور کے مصائب و آلام اورغلامی سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ان زعما نے نو آبادیاتی دور میں پنجاب کے باشندوں کو ایک ولولۂ تازہ عطاکیا اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ وہ لوگ یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں جو ٹھوکر کھا کر سنبھلنے میں دیر نہیں کرتے اور منزل کی جستجو کی مساعی تیزتر کر دیتے ہیں۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر بالخصوص پنجاب کی تہذیب و ثقافت کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چارہونا پڑا۔ مسلمانوں کے عہد حکومت میں اس خطے میں علم و ادب ،تہذیب و ثقافت اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں جن اقدار و روایات نے نمو پائی طالع آزما ،موقع پرست اور مہم جُو عناصر نے انھیں پامال کر دیا ۔استعماری غارت گروں کی یلغار کے نتیجے میں یہ خطہ احساس محرومی کا شکار ہو گیا۔ دنیائے دنی کو نقش فانی اور روداد ِ جہاں کو محض ایک کہانی سمجھنے والے اس پر عزم محقق نے سال1809میں مہاراجہ رنجیت سنگھ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہونے والے امرتسر معاہدے کے بعد کے حالات کا جائزہ لیتے وقت تمام واقعات اور مضمرات کے بارے میں حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیاہے۔سکھوں کی عمل داری کے بعدپنجاب کے علاقوں پٹیالہ ،نابھہ ،جھیند،فرید کوٹ ،کتھل اور کالسہ میں سکھوں کواپنی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے فراواں مواقع میسر آئے۔پٹیالہ کے راجہ نریندر سنگھ نے لاہور کے شالامار باغ کے معیار کے مطابق موتی باغ کی تعمیر کے احکامات صادر کیے۔اسی طرح کپور تھلہ کے راجہ جگجیت سنگھ نے ایک عدالتی ایوان کی تعمیر کا آغاز کیا جس کا نقشہ لاہور ہائی کورٹ جیسا تھا۔ سکھ راجوں کے پیداکردہ ان حالات میں پنجاب کی انجمنوں نے اس خطے کی تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے اپنے اس تحقیقی مقالے میں پنجاب میں ہمارے اسلاف کی علمی و ادبی اور تہذیبی و ثقافتی میراث کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کے تحفظ کو یقینی بنانے اوراسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آ ہنگ کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے ۔اپنی نوعیت کے اعتبارسے یہ تحقیقی مقالہ جہا ں اقتضائے وقت کے مطابق زمانۂ حال میں آئینۂ ایام میں اپنی ہر ادا کو دیکھنے اوراحتسابِ ذات پر مائل کرتا ہے وہاں مستقبل کے تقاضوں کے بارے میں پیش بینی بھی اس مقالے کا اہم موضوع ہے ۔
ایک محقق ،مورخ اورتخلیق کار جب اپنے متنوع تجربات،مشاہدات اور تاثرات کو کسی متن کی صورت میں پیش کر دیتا ہے تو اس کا تخلیقی کام اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے ۔ اِس کے بعداُس ادب پارے کے استحسان کی ذمہ داری قاری پر عائد ہو تی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ کسی ابد آشناادب پارے کی تخلیق میں عرصہ بیت جاتا ہے ۔اسی طرح شہرت ِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب پر فائز ہونے والے دانائے راز بھی صدیوں میں کہیں جنم لیتے ہیں۔ انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں نے زندگی کے حقائق کی جانب توجہ مبذول کرائی اورفطرت کے مقاصد کی ترجمانی کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھائی۔ان انجمنوں نے تقلید کی روش سے بچ کر افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کی اورقلم و قرطاس کے سب معتبر حوالوں کواصلاح اور مقصدیت کے سانچوں میں ڈھال کر حب الوطنی کاثبوت دیا۔انیسویں صدی میں فرانس کی سر زمیں سے نابغۂ روزگارادیب بالزاک (Honore de Balzac:1799-1850)نے جنم لیا۔ اسی زمانے میں اردو زبان کو بہادر شاہ ظفرؔ ، اسداﷲ خان غالبؔ ، ابراہیم ذوقؔ ، نذیر احمد دہلوی ،ببر علی انیسؔ ،سلامت علی دبیرؔ،سر سید احمد خان، الطاف حسین حالیؔ ، سید اکبر حسین اکبرؔ الہ آبادی ، شبلی نعمانی، حسن نظامی ،میر امن دہلوی اور زاہدہ خاتون جیسی ہستیاں نصیب ہوئیں۔اس مقالے میں انیسویں صدی میں پنجاب کی علمی و ادبی سر گرمیوں کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔جہاں تک متن کا تعلق ہے متن کی قرا ٔت اور تفہیم کے سلسلے میں قاری کے کردار کو فرانسیسی ماہر لسانیات الگرڈاس جو لین گریماس (Algirdas Julien Greimas :1917-1992)نے کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ۔ ابتدا میں سا ختیات نے زیادہ ترتخلیقی نثر پر اپنی تو جہ مر کوز رکھی لیکن جلد ہی سا ختیا تی مفکر ین نے شا عری کے مو ضو عات میں بھی گہری دلچسپی لینا شرو ع کردی ۔ اس کے بعد ادب کی شعر یات ان کی تو جہ کا مر کز بن گیا۔سال 1970تک سیمیالوجی (Semiology)کی اصطلاح صرف فرانس میں مستعمل تھی لیکن اب اسے سیمیاٹکس (Semiotics) کے نام سے پُوری دنیا میں مقبولیت حاصل ہے ۔ یہ سائنس معاشرتی زندگی میں موجود متعدد اشارات سے مفاہیم اخذ کرتی ہے اس کے بعد یہی مفاہیم سماجی نفسیات کے اسرار و رموز اور نشیب و فراز سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں جو ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے عام نفسیات کا حصہ بن جاتے ہیں۔اس عمل کو باقاعدہ سائنس کے مطالعہ کی سطح تک پہنچانے میں الگرڈ اس جولین گریماس اور اس کے ساختیاتی فکر کے علم بردار معاصرین کا کردار تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے تحقیقی خاکے اور اس کے بعد تحقیقی مقالے میں ایکٹینل ماڈل (Actanial Model)کو یقیناً پیشِ نظر رکھا ہو گا ۔ان کی تحقیق میں میں سادہ اور نا قابل تخفیف ساختیاتی اکائیوں کا کرشمہ دامنِ دل کھینچتا ہے ۔ان کے تحقیقی مقالات کے مجموعے میں شامل موضوعات کو پڑھنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ مصنف نے تخلیق فن کے لمحوں میں ایکٹینل ماڈل (Actanial Model) کو اپنی تحقیق کی اساس بنایاہے اور دستاویزی تحقیق کے بنیادی ساختیاتی عناصر کو زیربحث لا کر فن تحقیق و تنقید کو نئے امکانات سے آشنا کیا ہے ۔دستاویزی تحقیق کی تشریح و توضیح کے سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے ہمیشہ تحقیق و تنقید کے جدید اصولوں کی اساس پر استوار سائنسی اندازِ فکر اپنایا ۔ ان کا خیال ہے کہ جدید تحقیق میں الگرڈاس جولین گریماس کا ایکٹینل ماڈل (Actanial Model)اس سلسلے میں بہت معاون ثابت ہوتاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے مقالے میں انیسویں صدی میں تنقید و تحقیق کے بدلتے ہوئے رجحانات کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔اس مقالے کے مندرجات کا تعلق پنجاب کے نوآبادیاتی دور سے ہے ۔فاضل محقق نے پنجاب کی انجمنوں کے اراکین اور ان انجمنوں کے جلسوں کی روداد کاجو جائزہ پیش کیاہے وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریزہے ۔ان انجمنوں کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعروں میں اردو شاعری پروان چڑھی ۔محقق نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ 1857کی ناکام جنگ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد بر صغیر کے باشندوں میں یاس و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی۔ برصغیر کے طول و عرض میں برطانوی استعمار کے خلاف نفرت بڑھنے لگی۔یہ امر حیران کن ہے کہ جس وقت پورا بر صغیر جنگ آزادی میں بر طانوی استعمار کی مزاحمت کر رہا تھا ،اس وقت پنجاب میں امن تھا۔ایک لاوا تھا جو اندر ہی اندر کھول رہا تھااس کے نتیجے میں معاشرتی زندگی میں ایک تعطل پیدا ہو گیا ۔اس تعطل کو دُور کرنے کی خاطر لارڈ ڈلہوزی ( Office,1848-1856 : Marquess of Dalhousie )،چارلس کیننگ (Charles Canning: Office, 1856-1862 )اور جان لارنس( John Lawrence ,Office ,1864-1869 )جو وائسرائے کے منصب پرفائز تھے نو آبادیاتی دور کے حقیقی محافظ بن گئے اور انجمن سازی پر توجہ مرکوز کر دی ۔اس طرح وہ مقامی باشندوں کو مطمئن کر کے اپنی ہوس ِاقتدار کی تسکین کر کے اپنے غیر قانونی اقتدار کو طُول دیناچاہتے تھے۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے اس مقالے میں جن حقائق کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے ذیل میں ان کا جائزہ اس ماڈل کے ذریعے لینے کی سعی کی گئی ہے۔


مندرجہ بالا چھے نکات کی وضاحت کے لیے ان کی نشان دہی کی جاتی ہے :
1۔Sender : انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کے محرک در اصل اس عہد کے وائسرائے ہند ہی تھے جن کی تحریک پر یہ سب کام ہو رہا تھا۔
2۔ Object : جہاں تک ان انجمنوں کے مقاصد ،دائرۂ کار اور موضوع تحقیق کاتعلق ہے وہ یہی تھا کہ مقامی باشندوں کے ذہن سے رسن و دار کے مسموم ماحول اور سمے کے سم کے ثمر کی تلخیوں
اثرات زائل کیے جا سکیں ۔
3۔Recevir : پنجاب کے باشندے ہی ان انجمنوں سے فیض حاصل کرنے کے خواب دیکھ ر ہے تھے۔ان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے متعدد زعما شامل تھے ۔
4۔Helper : پنجاب کے متعدد فریب خوردہ شاہین جو وائسرائے کے زیرِ دام آ گئے ان انجمنوں کی بھر پور معاونت کر رہے تھے۔
5۔Subject :پنجاب کی وہ انجمنیں جو انیسویں صدی میں فعال کردار ادا کررہی تھیں اس تحقیقی مقالے کاموضوع ہیں۔
6۔Opponent : انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی تشکیل کے وقت ہوا کے رخ کی مخالف سمت میں پرواز کرنے والوں کا وجود عنقا ہے ۔

جیسا کہ اوپر دئیے گئے ماڈل سے ظاہر ہے الگرڈاس جولین گریماس نے تخلیق فن پارے کے بیانیہ کے عمل کو چھے اقدامات میں تقسیم کرکے اس کی تفہیم کی جانب پیش قدمی کی راہ دکھائی ہے ۔اس کا یہ اقدام جدید اندازِ فکر کا مظہر اور اس کی فکری اُپج کا آئینہ دار ہے ۔ ادبی تنقیدکے متعدد روایتی قسم کے معائر ،اسالیب اور نمونوں کی نوعیت اور وقعت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے الگرڈاس جولین گریماس نے ان کے وجود اور جواز کو چیلنج کیا ۔تخلیقی فعالیت اور متن جیسے اہم موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس نے واضح کیا کہ ادبیات کی تمام اصناف کا تعلق اشارات (Codes)کے ایک جامع نظام سے ہے ۔اس کے خیالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک تخلیقِ ادب کو کسی واحد تخلیق کار کی انفرادی فعالیت اور اس کی تنہا ذہنی کاوش سے تعبیر کرنا درست اندازِ فکر نہیں بل کہ اس نوعیت کی تخلیقی فعالیت کے پسِ پردہ متنوع عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ان تمام عوامل کے باہمی تفاعل سے فکر و خیال کی رعنائیاں جب تخلیق کی جلوہ آرائیوں کا رُوپ دھارتی ہیں تو ایسا حسین اوردھنک رنگ منظر نامہ سامنے آتا ہے جو قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے ۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہا ں تک تخلیقِ ادب کے مراحل میں حقیقت نگاری کا تعلق ہے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے ساختیاتی فکر کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے اسے اپنے تخلیقی عمل،تحقیق و تنقیدی بصیرت اور وجدان کی اساس بنایا۔اس نے اس امر پر اصرار کیا کہ کوئی بھی متن ایسی صداقت جس کاانحصار تخمین و ظن پر ہوکا پرتو لے کر کس طرح منصۂ شہود پر آ سکتا ہے۔ محض سطحی مشاہدات ،عام تخمین و ظن اور فرضی معلومات کی بنا پر کسی متن کے بارے میں یہ تاثر قائم کر لینا کہ اس میں حقائق کی ترجمانی کی گئی ہے مجذوب کی بڑ کے سوا کیا ہے؟ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں جب قلم تھام کر اپنے تخلیقی وجدان کو رو بہ عمل لاتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہو کر اپنے اشہبِ قلم کی جو لانیاں دکھاتا ہے تو جو کچھ اس کے دِل پر گزرتی ہے وہ اسے زیبِ قرطاس کرتا چلا جاتا ہے۔ تخلیق کار کے نظریے یا علم میں رونماہونے والی تبدیلی سے استعداد کار بھی متاثر ہوتی ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکی گل افشانیٔ گفتار پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے اور اس کی اسلوب کی شگفتگی کا کرشمہ قاری کو مسحور کردیتا ہے۔
روس سے تعلق رکھنے والے بیسویں صدی کے رجحان ساز نقاداورماہر لسانیات رومن جیکب سن ( 1896-1982 :Roman Jakobson )اور سوئٹزر لیڈ سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات سوسئیر ( 1857-1913 : Ferdinand de Saussure ) کے اسلوب سے گہرے اثرات قبول کرنے والے محقق اور ماہر لسانیات الگرڈاس جولین گریماس نے لسانی تحقیق،بیانیہ اور اسلوب اور دیگر لسانی عوامل کے حقائق تک رسائی کے لیے زبان کے اشاراتی مربع کا ایک نقشہ پیش کیا ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے واضح کیا ہے کہ ادب میں تجزیہ ،تحقیق اور تنقید کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ایک تو سرسری جائزے کے بعد سامنے آنے والی سطحی صورت ہے جب کہ دوسری صورت گہرے سُروں میں عرض نوائے حیات کی مظہر سمجھی جاتی ہے ۔اس کے لیے ادب پارے کی اتھاہ گہرائیوں کی غواصی کرکے وہاں سے مطالب و مفاہیم کے گہر ہائے آب د ار بر آمد کرنا لازم ہے ۔ ایک محنتی اورذہین محقق کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اظہار و ابلاغ کی صداقتوں کاتجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اپنے محاکمے ،استعدادِ کار اور تحقیقی مسائل کی تشخیص میں جس جدت اور تنوع کو پیش نظر ر کھا ہے وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ یہ جامع نقشہ لسانی ارتقا اور تہذیبی و ثقافتی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے ۔تحقیق میں روایات کے بیان کا طریقِ کار اور تخلیق استعدا دکا تصور سمجھنے میں اس نقشے سے مددلی جاسکتی ہے ۔تحقیقی روایت اور دستاویزی مآخذ کی جانچ پرکھ بہت احتیاط کی متقاضی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نیتحقیقی روایت ،اس کی ثقاہت اوراعتبار کاانسلاک حرفِ صداقت سے کرنے پر اصرار کیاہے ۔

اس مقالے کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے تحقیق میں سائنسی اندازِ فکر اپنایاہے۔انھوں نے اہم بنیادی مآخذ ،متعلقہ دستاویزات ،روایات ،دائرۃ المعارف ،سرکاری گزٹ ،اخبارات ،جرائد اور تاریخ کی کتب کو خضرِراہ سمجھتے ہوئے جس اعتماد سے مقالے کو استناد کے ارفع مقام تک پہنچایا ہے وہ ہر اعتبار سے لائق صد رشک و تحسین ہے ۔اپنے تحقیقی مقالے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے علاماتی اشاروں کے تعلق کو مخالف تصورات سے واضح کرنے میں اشاراتی مربع کو بھی پیشِ نظر ر کھا ہو گا۔اس نقشے کے مطابق تحقیق میں سامنے آنے والے علاماتی اشاروں کے تعلق کومخالف تصورات سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس طرح متعلقہ علم موجودات کی توسیع کے متعدد نئے امکانات سامنے آتے ہیں ۔اس موضوع پر سب سے پہلے کلاسیکی عہد کے یونانی فلسفی ارسطو( 384 BC-322 BC :Aristotle )نے تضادات کے مربع کا تصور پیش کیا ۔اس کے بعد محققین نے اس تصور کو آگے بڑھایا ۔اردوزبان میں تضادات سے مفاہیم کی وضاحت کی مثالیں درج ذیل ہیں :
تذکیر و تانیث،خوب صورت،بد صورت،بلند ،پست،نشیب ،فراز،حسن و قبح ،سما و سمک ۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے اپنے تحقیقی مقالے کے باب ششم میں ان مباحث پر خوب دادِ تحقیق دی ہے ۔اس میں روزمرہ، محاورات ،مرکبات ،ضرب الامثال اور تلمیحات شامل ہیں۔نو آبادیاتی دور میں پنجاب میں انگریزی داں طبقہ کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے تحقیقی مقالے کے صفحہ 446پر پٹیالہ سے شائع ہونے والا ادبی مجلہ ’’ پنجاب پاسٹ اینڈ پریزنٹ‘‘ کاذکر کیا ہے جواس کی مثال ہے ۔
تاریخ کے پیہم رواں دواں عمل کا عمیق مطالعہ اوراس کی تشریح و تجزیہپروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ بر صغیر کے باشندوں کو 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جن الم ناک حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ کا خونچکاں باب ہے ۔ استبدادی طاقتوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اورانتقامی کارروائیوں سے پیدا ہونے والی مسلسل شکستِ دل کی کیفیت کے نتیجے میں یہاں کے باشندے ایسی مایوسی کا شکار ہو گئے جس نے انھیں بے حسی اور بے عملی کی بھینٹ چڑھا دیا۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکا خیا ل ہے کہ انیسویں صدی میں بر صغیر کی معاشرتی زندگی کے معمولات میں ایسا تعطل،خلا اور بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی جس نے ہوسِ ملک گیری میں مبتلا استعماری طاقتوں کوبہت پریشان کر دیا ۔ نو آبادیاتی دور میں معاشرتی زندگی سے بے یقینی اور بے عملی کو ختم کرنے کے لیے مقتدر حلقوں نے انجمن سازی پر توجہ دی ۔ان انجمنوں کی تشکیل کے پس ِپردہ استبدادی قوتوں کے اپنے مقاصدتھے ۔عالمی سامراج یہاں بھی اپنے مکر کی چالوں کو رو بہ عمل لا کر بازی لے گیا اور بر صغیر کے سادہ لوح باشندے اس بار بھی مات کھاگئے۔انجمن سازوں اور ان کے سر پرستوں کے تو دن پھر گئے مگر بے نوا اسیروں اور آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے فقیروں کے حالات جو ں کے توں رہے ۔ استعماری طاقتوں نے اس خطے کے باشندوں کی اُمیدوں کی فصل غارت کر دی جس کے نتیجے میں ان کی صبحوں و شاموں کی جانفشانی اکارت چلی گئی ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے اس تحقیقی مقالے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں نے ورنیکلر ادبیات کی ترویج کے وسیلے سے اس خطے میں معاصر ادبیات اور جدیدعلوم و فنون کے پھیلاؤ کا عزم کیا ۔ان انجمنوں نے تعلیمی اور معاشرتی مسائل پر توجہ مرکوز رکھی ۔پنجاب میں یونانی اور ویدک طریقۂ علاج کی مقبولیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان انجمنوں نے اس طریقۂ علاج کے فروغ اوران کے لیے ادویات سازی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔پنجاب کی انجمنوں نے تعلیم و تعلم ،علم و ادب ،تہذیب و معاشرت،عمرانی اور سیاسی مسائل،صحافت اور ابلاغ عامہ جیسے اہم موضوعات پر مذاکروں کا اہتمام کیا ۔ان مذاکروں میں برصغیرکے ممتاز دانش وروں کے خطبات نے فکر و خیال کی کایاپلٹ دی۔ پنجاب کی انجمنوں نے کتب خانوں اور تعلیمی اداروں کے قیام ،علمی و ادبی موضوعات پر لکھی گئی کتب کی مقامی زبانوں میں اشاعت اور ترجمہ نگاری پر بھرپور توجہ دی۔
انیسویں صدی عیسوی میں نو آبادیاتی دور کے غلبے کے نتیجے میں پنجاب میں مغربی تہذیب اورانگریزی زبان کو پروان چڑھنے کے فراواں مواقع میسر تھے ۔ابن الوقت عناصرنے انگریزوں کی نقالی کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ د یا ۔یہ تحقیقی مقالہ کی متعینہ حدودد سے کچھ عرصہ بعد کی بات ہے کہ راجہ ہر بنس سنگھ (1921-1998)اوررائے مول سنگھ جنھوں نے انجمن پنجاب کے فعال رکن کی حیثیت سے اہم خدمات انجا م دیں،انھوں نے انجمن پنجاب کے ایک جلسے میں پنجاب میں پنجابی زبان کی گورمکھی میں تدریس اور اشاعت پر زوردیا تو محکمہ تعلیم کے انگریز افسروں کے زیرِ عتاب آگئے۔ محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتا انگریز افسر یہ سمجھتے تھے کہ پنجابی زبان اور اس کے ادب کی تہی دامنی کا یہ حال کہ اس میں جدید سائنس ، معاصر ادب اورعالمی کلاسیک کے انجذاب کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔اس قسم کی انتہا پسندانہ رائے سننے کے بعدسردار عطار سنگھ نے پنجاب یونیورسٹی کی سینٹ کے اجلاس میں گور مکھی میں لکھے ہوئے پنجابی زبان کے تین سو نواسی (389 )ادب پارے پیش کر کے شیخ چلی قماش کے سب مسخروں کی بولتی بند کر دی۔فصیلِ جبر میں در پیدا ہو گیااور جامعہ پنجاب میں پنجابی زبان کی گورمکھی میں تدریس کا آغاز ہو گیا ۔ سکھ ازم کے دائرۃ المعارف کے مدیربھائی گورمکھ سنگھ کا تقرر پہلے گور مکھی انسٹرکٹر کی حیثیت سے کیا گیا ۔ پنجاب میں انیسویں صدی میں انگریزی زبان کی تعلیم کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے تحقیقی مقالے میں اس خطے میں مقیم ایک پادری کی روایت بیان کی ہے :
’’ گلی گلی ،کوچہ کوچہ میں انگریزی دان پھر رہے ہیں۔پنجاب میں یہ حال ہو رہا ہے کہ اگر اینٹ اُٹھاؤ تو نیچے سے انگریزی خواں نکلے گا۔‘‘ (11)
یہ بات بلاخوفِ ترددید کہی جا سکتی ہے کہ اس تخلیقی عمل میں وہ ہر لمحہ اپنی پسند اور مرضی کے مطابق تخلیقی کام انجام دیتا ہے ۔ پرورش لوح و قلم کے دوران انتہائی نا مساعد حالات میں بھی رخِ وفا کو تازہ رکھنا ایک تخلیق کار کی منشا اور مرضی پر مبنی ایسا فعل سمجھنا چاہیے جو اس کی اُفتاد طبع کا مظہر ہوتا ہے ۔اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات، مشاہدات اور مجموعی تاثرات کی لفظی مرقع نگاری کے اپنے محبوب مشغلے کے دوران وہ جو خاص نوعیت کے خاکے بناتا ہے ،اُن میں اپنی پسند اور نا پسند کاخیا ل رکھتے ہوئے رنگ آمیزی بھی کرتا چلا جاتا ہے۔تخلیقات کو گُل ہائے رنگ رنگ سے مزّین کرنے کایہ تخلیقی عمل در اصل اقلیمِ ادب میں جس کا وہ مطلق العنان حاکم ہے ، اس کی من پسند فعالیت ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے ہر کام کر گزرتا ہے ۔ تخلیق کار کی من مانی فعالیت کے نتیجے میں منظر عام پر آنے والے ایسے تخلیقی کام کو حقیقت نگاری پر محمول کرنا صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کے مترادف ہے ۔ایک زیرک نقاد کی حیثیت سے اس نے قاری کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیاکہ وہ تخلیقی فن پارے کے متن کے بارے میں کوئی رائے قائم کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے ایک ادیب کی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے ر ونما ہونے والے متن کو فن کے ایک ایسے لچک دار نمونے سے تعبیر کیا جسے قارئین کسی بھی سمت موڑنے پر قادر ہیں۔
دنیا بھر کے مورخین اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ وہ قوم جو ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کر کے اس سے سبق سیکھنے میں تامل کرتی ہے وہ در اصل اپنی تہذیب و ثقافت اوراقدار و روایات کو پس پشت ڈالنے کی مہلک غلطی کی مرتکب ہوتی ہے ۔ اس قوم کی مثال اس خزاں رسیدہ اور دیمک خوردہ شجر کی ہے جوطوفانِ حوادث کے رحم و کرم پر ہو اور کسی وقت بھی زمیں بوس ہو سکتا ہے ۔جب کسی قوم کے افراد کے دِل سے احساس زیاں عنقا ہونے لگے تو انھیں متاعِ کارواں کے لٹنے کا کوئی ملال نہیں ہوتا۔جب کوئی قوم اپنی تاریخ کے نشیب و فراز سے سبق سیکھنے کے بجائے ماضی کو فراموش کر کے حال کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو جاتی ہے تو وہ قوم در اصل خود اپنی توہین،تذلیل ، تضحیک اور بے توقیری کی مرتکب ہوتی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکاشمار ملک کے ممتاز ماہرین عمرانیات میں ہوتاہے ۔اپنے اس تحقیقی مقالے میں انھوں نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ انیسویں صدی میں پنجاب میں ارضی و ثقافتی میلانات کے نتیجے میں تہذیبی تغیر و تبدل کی جو کیفیت دیکھی گئی وہ تاریخی واقعات کے ساتھ سمجھوتے کانتیجہ تھی۔ تاریخ کے مسلسل عمل کے نتیجے میں کسی خطے کی تہذیب میں اس نوعیت کی غیر متوقع تبدیلیاں اس قدر سرعت سے وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے اس تحقیقی مقالے میں تاریخ کے اس سبق کی جانب متوجہ کیا ہے کہ آج تک کسی نے بھی تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔تاریخ کاایک سبق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات کواکب بھی بازی گر کا روپ دھار لیتے ہیں یہ جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے نہیں ہوتے ۔ ان کی شعبدہ بازی سے سادہ لوح انسان دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہر انسان کو یہ حقیقت معلوم ہونی چاہیے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس عالمِ آب و گِل کی کوئی بھی چیز ہمیشہ خوش گوار تاثر نہیں چھوڑتی اور نہ ہی وہ اس قدرپر کشش ہوتی ہے کہ انسان اس کے سحر میں مبتلا ہو کراسے مقیاس العمل اور میزان حیات قراردے ۔عملی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ بوم و شپر ،زاغ و زغن اور کرگسوں میں پلنے والے کئی فریب خوردہ شاہین پتھر کوگہر اوردیوار کو در سمجھ لیتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے تجزیاتی مطالعات اور تحقیقی و تنقیدی محاکمے ان کے سائنسی اندازفکر ، وسعتِ نظر ،حاضر دماغی اور ذہن و ذکاوت کا ارفع معیار پیش کرتے ہیں۔
انیسویں صدی کے آغاز میں مغلیہ سلطنت مسلسل رو بہ زوال تھی، دہلی کی جنگ جو 11۔ستمبر1803 کو مر ہٹوں اور انگریزو ں کے درمیان ہوئی اس میں میدان انگریزوں کے ہاتھ رہا۔نو آبادیاتی دور میں بر صغیرکے باشندے تاریخ کے جال میں پھنس گئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ خودحریت فکر و عمل کے مجاہدوں کے جال میں پھنس گئی۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ شہنشاہِ ہند کے فرمان کے تحت برطانوی افواج کے فاتح سالارِ اعلیٰ جنرل لیک (General Lake) کا دہلی میں پُر جوش استقبال کیا گیا۔مفلس و نابینا شاہ عالم ( ,1728-1806 Shah Alam II )آلامِ ضعیفی سے مضمحل ایک ٹوٹے ہوئے بوسیدہ شامیانے کے نیچے اپنی حسرتوں اور تمناؤں کے مرقد پر سر بہ زانو بیٹھا حسرت و یاس کی تصویر پیش کررہا تھا ۔ شاہ عالم کی سلطنت کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کی حدود دِلی سے پالم تک(سترہ کلو میٹر) ہیں۔ جب یہ بادشاہ فوت ہوا تو اس کے بعد اکبر ثانی (1806- 1837) اور بہادر شاہ ثانی (1837 -1857) عہدِ رفتہ کی کہانی کے راوی بن گئے اورخاندان تیموریہ کی عظمت رفتہ کی نوحہ خوانی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہوئے ہوئے زندگی اور اقتدار کے دِن گننے لگے ۔ ماحول اور معاشرہ جن اجتماعی مصائب کے اعصاب شکن نرغے میں تھا اس کا اثر فکر و نظر پر مسموم اثرات مرتب ہوئے ۔ زندگی کی تلخیاں روز افزوں تھیں اور راحت کا تصور خیال خام بنتا جا رہا تھا ۔
نظیر اکبر آبادی (1740-1830)نے آخری عہدِ مغلیہ کی بد انتظامی او ر انیسویں صدی میں بر صغیر اور پنجاب میں بڑھتی ہوئی طوائف الملوکی کی وجہ سے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی قباحتوں کے خلاف بھر پور آواز بلند کی۔ سیلانی مزاج شاعر نظیر اکبر آبادی نے عوامی زندگی کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیااور وہ خود بھی اس تجربے کا حصہ بن گئے تھے۔مظلوم اور پس ماندہ طبقات کے جذبات و احساسات کو انھوں نے نہایت خلوص کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔فطرت کے اصولوں اور تقدیر کے سر بستہ رازوں کے بارے نظیر اکبر آبادی کے خیالات زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔اردو نظم میں عوامی زندگی کے موضوعات کی لفظی مرقع نگاری کے سلسلے میں نظیر اکبر آبادی کو بنیاد گزار کی حیثیت حاصل ہے ۔نظیر اکبر آبادی نے ’’بنجارہ نامہ ‘‘ ، ’’آدمی نامہ ‘‘ ،اور ، ‘‘کل جگ نہیں کر جگ ہے یاں ‘‘ جیسی یادگار نظمیں لکھ کر اردو نظم کی ثروت میں جو اضافہ کیا اُس کی بنا پر نظیر اکبر آبادی کو بابائے اُردو نظم کہا جاتا ہے ۔ نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں پائی جانے والی اشاریت کی کیفیت سے قاری کے ذہن میں ایساردعمل پیدا ہوتا ہے جو زندگی کی حرکت و حرارت کو حقیقی تناظر میں سامنے لاتا ہے۔آخری عہدِ مغلیہ میں دہلی کے زوال پذیر معاشرے میں منافقت ،ریاکاری،دروغ گوئی،جعل سازی،پیمان شکنی اور ہوس نے اخلاقی اعتبار سے معاشرے کو مفلس و قلاش کر دیا تھا۔کٹار بند دہشت گردوں نے خوف اور دہشت کی فضا پیدا کر دی تھی اور کوئی قوت ایسی نہ تھی جو ان سفاک درندوں، پیشہ ور قاتلوں،بے رحم لٹیروں اور شقی القلب رہزنوں کو لگام ڈال سکتی۔نظیر اکبر آبادی کو اس بات کا احساس تھا کہ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر میں جنگل کا قانون نافذ ہے ۔یہی وہ لرزہ خیز،تباہ کن اور اعصا ب شکن دورہے جب پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ (1780-1839)اور کھڑ ک سنگھ (1792-1801)کی اولادپنجاب کے مظلوم عوام کے چام کے دام چلا کر کھڑاک کرنے میں مصروف تھی۔ سکھ حکمرانوں کے دور میں پنجاب میں ہونے والی ان شقاوت آمیز نا انصافیوں کے ہر طرف چرچے تھے ۔شاید اسی لیینظیر اکبر آبادی نے ٹھگوں کی بد اعمالیوں سے متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا:
کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مل کے لُوٹیں اسباب مشفقوں کا
پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجیے دشمنوں کا
ہشیار یا ر جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
حادثے کبھی ایک دم نہیں ہوتے وقت کئی سال تک ان کی راہ تکتا ہے ۔ انیسویں صدی میں پنجاب کی عمومی سیاسی صورت حال جس کی لاٹھی اُ س کی بھینس کے مصداق تھی۔ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد استعماری طاقتیں مطلق العنان اقتدارکے نشے میں غلط فہمی کاشکار ہو گئیں۔بر صغیر کے محکوم باشندوں کے بارے میں عالمی سامراج نے یہ سمجھ لیا تھا کہ انھوں نے آلام روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے ان مجبوروں کو قلعۂ فراموشی میں محصور کر دیا ہے ۔ قلعہ ٔ فراموشی کا تعلق پانچویں صدی عیسوی کے سب سے پہلے سوشلسٹ انقلابی مزد ک سے ہے ۔یہی وہ شخص ہے جس نے محنت کش طبقے کو جگا کر کاخِ امرا کے درودیوار ہلانے کی بات کی ۔ جنوب مغربی ایران کے صوبہ خوزستان کے دار الحکومت اہواز کے قریب قلعۂ فراموشی کے آثار ملتے ہیں ۔ قلعہ ٔ فراموشی میں ان سیاسی قیدیوں کو پابند سلاسل رکھا جاتاتھا جن کی حق گوئی و بے باکی مقتدر طبقے پر گراں گزرتی ۔ اس عقوبت خانے کے اسیر فسطائی جبر کی اذیتیں اور عقوبتیں برداشت کرتے کرتے ہو ش وحواس کھو بیٹھتے اور اپنا نام ،اپنے قبیلے کے افراد کے نام اور رہائش کا مقام تک بھول جاتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعے میں موت کا عِفریت ان قسمت کے مارے قیدیوں کی یادوں اور فریادوں کی صلاحیت تک سلب کر لیتا تھا ۔حریت فکر کے ایسے مجاہدوں کو حافظے کی صلاحیت سے محروم کر کے استبدادی قوتیں اس زعم میں مبتلا ہو جاتیں کہ انھوں نے مزاحمت ،محاذ آرائی اورتنقید کی سب راہیں مسدود کر دی ہیں ۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ حریت ضمیر سے جینے والے متاع لوح و قلم چھن جانے کے بعد خون دل میں انگلیاں ڈبو کر اپنے دل کا حال زیب قرطاس کرتے رہتے ہیں ۔ ظالمانہ استحصالی نظام کے ہاتھوں جا ن جاتی ہے تو شوق سے جائے مگر حق گوئی کو شعار بنانے والے کبھی جبر کے سامنے سپر انداز نہیں ہو سکتے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس تحقیقی مقالے میں شامل مندرجات سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قلعۂ فراموشی اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے ۔انیسویں صدی میں کنجشک فرومایہ میں بھی اس قدر حوصلہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ شاہیں سے لڑ نے میں تامل نہ کرے ۔ اگر کسی مصلحت کی وجہ سے زبان خنجر کچھ کہنے سے قاصر ہو تو آ ستین کا لہو ظلم کے خلاف دہائی دیتاہے اورہوائے جور و ستم میں رخ ِوفا نہیں بجھنے دیتا ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے عالمی کلاسیک اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے ۔انھیں عربی، اردو ،انگریزی ، ہندی ،سندھی،برج،بلوچی،پنجابی ،پشتو اور فارسی زبان پر خلاقانہ دسترس حاصل ہے ۔ اس مقالے میں نو آبادیاتی دور میں محکوم عوام کے مسائل،انسانیت کا وقار اور سر بلندی،حق گوئی و بے باکی، جنگ و جدال کے مسموم اثرات ، دشمنی اور عداوتوں کے تباہ کن اثرات ، تاریخ ،سیاست اور لوک ادب کے ان کے پسندیدہ موضوعات رہے ۔ ترجمہ نگاری میں ان کی خداد اد صلاحیتوں کا ایک عالم معترف ہے ۔
پنجاب کے حکمرانوں کی شامت اعمال کے نتیجے میں کرنل ڈائر( 1864-1927 : Reginald Edward Harry Dyer ) امرتسر کا قصاب بن کر یہاں وارد ہوا ۔اس سفاک انگریز نے 13۔اپریل 1919کو امرتسرکے جلیاں والا باغ میں نہتے عوام کے ایک جلسۂ عام پر گولی چلانے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ایک ہزارافراد لقمۂ اجل بن گئے ۔ انجمن آرائی پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی جبلت میں شامل ہے ۔اس بار ان کے ذوق ِانجمن آرائی نے انھیں قصور سے نکال کرپورے پنجاب میں پہنچا دیاہے۔پنجاب کے باشندوں کی گردنیں ان کے بارِ احسان سے ہمیشہ خم رہیں گی۔
مجھے یقین ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو پوسٹ ڈاکٹریٹ پر بھی کسی پسندید ہ موضوع پر تحقیقی کام کا آغاز کر چکے ہوں گے مگر وہ اپنے موضوع کو ہوا نہیں لگنے دیں گے۔ اپنے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے ایک موضوع تحقیق عرصہ دراز سے نوائے سروش کی صور ت میں میرے فکر و خیال میں محفوظ ہے ۔ میں اپنے منتخب کردہ اس پسندیدہ موضوع کی کانوں کان خبر نہ ہونے دیتامگر سمے کے سم کے ثمرکے نتیجے میں رونما ہونے والے مسموم حالات کے باعث کیسے لکھوں کہ ہاتھ دِل سے جدا نہیں ہوتا۔ میرا نو جوان بیٹاسجاد حسین جو میرے دل کے گلشن کا گُل نو شگفتہ تھا ،اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اسے 6۔جولائی2017 کوتوڑ لیا اس کے ساتھ ہی قلم و قرطاس کے سب مانوس و معتبرحوالوں نے بھی مجھ سے منھ موڑ لیا۔ نوجوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے بعد اب تو مجھ پر زندگی کی تہمت لگی ہے ،کچھ لکھنے کاخیال اب ترک کر دیاہے ۔ کچھ عر صہ قبل میرا پسندیدہ مختصر موضوع تحقیق تھا ’’ آغازآفرینش سے لمحۂ موجودتک کائنات کی انجمنوں کی ہمہ جہتی خدمات۔‘‘ گردشِ ایام کے نتیجے میں سب حقیقتیں خیال و خواب ہو گئی ہیں ۔اس جان لیو اسانحہ کے بعد جب ہر توقع ہی اُٹھ گئی تو میرا دِل بیٹھ گیا۔سب بلائیں تمام ہو چکی ہیں کچھ خبر نہیں کہ کوہِ ندا کی صدا کب سنائی دے۔ ہم تو اپنی باری بھرکے ساتواں در کھولنے والے ہیں اب نوائے خروش اور ندائے مدہوش کی صورت میں گوش بر آواز رہنے کا تقاضا کرنے والے اس موضوع پر کام کے لیے صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے ۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوایک وسیع المطالعہ محقق ہیں ۔ معاشرتی زندگی میں کوہ سے لے کرکاہ تک کچھ بھی ان کی نگاہ سے پنہاں نہیں انھوں نے تمام اہم مآخذ کو مقالے میں شامل کیا ہے اور تحقیق کو معیار اوروقار کی رفعت سے آ شنا کرکے مجھ جیسے ادب کے طالب علموں کو نشانِ منزل سے متعارف کرایاہے ۔ موضوع تحقیق ’ انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی اردوخدمات‘‘ کی جامعیت،اسلوب کی ندرت اور تنوع کے باوجود مجھے کچھ تشنگی کا احساس ہوا۔اس کا سبب یہ ہے کہ پروفیسر احمدشاہ بخاری پطرس نے اپنے مضمون ’’ لاہور کا جغرافیہ ‘‘ میں لکھا ہے :
’’اشتہاروں کے علاوہ لاہور کی سب سے بڑی صنعت رسالہ بازی اورسب سے بڑی حرفت انجمن سازی ہے۔ہررسالے کا ہر نمبر عموماًخاص نمبر ہوتا ہے اورعام نمبر صرف خاص خاص
موقعوں پر شائع کیے جاتے ہیں۔عام نمبر میں صرف ایڈیٹر کی تصویراورخاص نمبروں میں مس سلوچنا اور مس کجن کی تصاویربھی دی جاتی ہیں۔اس سے ادب کو بہت فروغ نصیب ہوتا ہے اور
فنِ تنقید ترقی کرتا ہے ۔لاہور کے ہر مربع انچ میں ایک انجمن موجودہے۔پریذیڈنٹ البتہ تھوڑے ہیں اس لیے فی الحا ل صرف دو تین اصحاب ہی یہ اہم فرض ادا کر رہے ہیں۔چونکہ
انجمنوں کے اغراض و مقاصد مختلف ہیں اس لیے بسا اوقات ایک ہی صدر صبح کسی مذہبی کانفرنس کاافتتاح کرتا ہے ،سہ پہرکو کسی سینماکی انجمن میں مس نغمہ جان کا تعارف کراتا ہے اور شام
کوکسی کرکٹ ٹیم کے ڈنر میں شامل ہوتا ہے۔اس سے ان کا مطمح نظر وسیع رہتا ہے ۔تقریر عام طور پرایسی ہوتی ہے جو تینوں موقعوں پر کام آ سکتی ہے چنانچہ سامعین کو بہت سہولت رہتی ہے۔‘‘
اس جملہ ٔ معترضہ کے بعد یہ امر میر ے لیے لائق صدافتخار ہے کہ میں نے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہے ۔ ان کی زندگی کے مہ و سال کا چشم دید گواہ کی حیثیت سے مجھے یہ کہتے ہوئے دلی مسرت ہو رہی ہے کہ اس رجحان ساز محقق کی زندگی شمع کے مانند گزری ہے ۔یہ امر میرے لیے لائق صد رشک و تحسین ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی نیک نامی اور انسانیت نوازی کے پہلے ہی ہر سُو چرچے تھے لیکن اس کی وقیع تحقیقی کتب کی اشاعت سے اس کی شہرت کوپر لگ گئے ہیں۔ علم وادب کا یہ بحر بے کراں نہایت خاموشی سے رواں دواں ہے۔اس بحر علوم کے مداح اکثر یہ سوچتے ہیں کہ اس کی روانی کو دیکھیں یا اس کی غواصی کومطمح نظر بنائیں۔ وہ ایک ایسا نقاد اور محقق ہے جس کا وجود سفاک ظلمتوں میں ستاۂ سحر بن کر طلوع ِ صبحِ بہاراں کی نوید ثابت ہوا ہے ۔ اس کے خیالات،تجزیات اور تخلیقات سب گہری معنویت کے حامل ہیں ۔ جن ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں تصوف کی جمالیات کو روبہ عمل لانے کی کوشش ان کے اس تجربے کو پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوقد ر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔زہد و تقویٰ ،عبادت و
ریاضت ،صوم و صلوٰۃ کی پابندی اور ماہ ِ صیام میں متعدد بار اعتکاف کی سعادت حاصل کرنے کے بعد پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکے مزاج میں روحانیت کی اثر آفرینی نمایاں ہو گئی۔ پیراسائیکالوجی ،حالات کی پیش بینی اور خوابوں کی تعبیر سے متعلق ان کی باتیں اکثر درست ثابت ہوتی ہیں۔ عبادات اور دعائے نیم شب پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا معمول ہے ۔اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ وہ اقلیم معرفت میں بلند منصب پر فائز ہیں۔معرفتِ الٰہی ،ادیان عالم کے وسیع مطالعہ ،قرآن حکیم کی تفسیر اور فلسفہ کو خضرِ راہ بنا کرپروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے عرفان ذات کی منازل طے کی ہیں ۔ واقف حال لوگ ان کے کشف و کرامات کے کئی واقعات بیان کرتے ہیں ۔وہ جس شخص کے لیے بھی بے لوث دعا کرتے وہ اپنا مدعا حاصل کر لیتا ہے ۔آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں میں یہ امان انھیں دعائے نیم شب،فغانِ صبح گاہی اور اﷲ ہُو کے اعجاز سے نصیب ہوئی ہے ۔
انیسویں صدی میں نو آبادیاتی دور سے متعلق پنجاب کی انجمنوں پر اپنے تحقیقی کام میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے ہمیشہ رجائیت پسندی کو شعا ر بنایا اور روشن مستقبل کے لیے شمع انتظار کو سدا فروزاں رکھنے پر اصر ار کیا۔ وہ ہر قسم کی منافرت ، کینہ پروری اور عناد کے سخت خلاف ہیں ۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ انیسویں اور بیسویں صدی بِیت گئی اب ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں۔پرِ زمانہ پرواز ِ نُور سے بھی تیز ہے وہ دن دُور نہیں جب دنیا بھر میں لوگ جشنِ مرگِ تعصب منائیں گے۔ اپنے تحقیقی مقالے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے انیسویں صدی میں پنجاب میں تہذیبی و ثقافتی تغیر و تبدل کو موضوع بنایا ہے ۔ان کاخیال ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں تہذیب کی نمو کے لیے ایک خاص نظم و ضبط،ترتیب اور احتیاط نا گزیر ہے۔حریت فکر و عمل کے حیات آفریں ماحول میں تہذیب کو پروان چڑھنے کے فراواں مواقع نصیب ہوتے ہیں ۔نوآبادیاتی دور کے مسلط کردہ فسطائی جبر کے نتیجے میں پنجاب میں سیاسی انتشار،معاشرتی خلفشار اور طوائف الملوکی نے یہاں زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دیں۔ان مسموم حالات نے یہاں تہذیبی انحطاط کی لرزہ خیز صورت پیدا کر دی ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں دیکھنے میں آیا ہے کہ بے کمال لوگوں کی تنگ نظری کے باعث اہلِ کمال کو کٹھن مراحل اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو اپنے معتمد ساتھیوں اور عزیزوں کوہمیشہ یہ نصیحت کرتے ہیں کہ بتیس دانتوں میں زبان کے مانند زندگی بسر کرو اور جب دہن دریدہ سگ ، دشمنِ سحرخفاش ، شغال و گرگ ، نہنگ و پلنگ ، اژدر ومار درپئے آزار ہوں اور کھٹ پٹ کی پریشان کُن صورت پیدا ہوجائے تو جھٹ پٹ اپنے بچنے کی فکر کر نی چاہیے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے ،کئی مفسد اور حاسد پیہم ان کے در پئے پندار رہے ۔اس کے نتیجے میں کئی بار پریشانی اور تشویش کی صورت پیدا ہوئی مگر پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے ہمیشہ وسعت نظر اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب تلخیوں کو لوحِ دِل سے اس طرح مٹا دیاکہ کینہ پرور ان کے کمالِ ضبط و برداشت کو دیکھ کر اپنے کیے پر ندامت محسوس کرنے لگے۔
انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی علمی و ادبی خدمات کے موضوع پراپنے مقالے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس خطے کے ماضی کے واقعات کا بہ نظر غائر جائزہ لیا ہے ۔ان کاخیال ہے کہ ماضی کے واقعات کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ سب تاریخ کے طومارو ں میں دب کر اپنی شناخت اور وجود کھوچکے ہیں، ایک مہلک غلطی کے مترادف ہے ۔کوئی بھی سانحہ جوتاریخ کے کسی دور میں وقوع پزیر ہو چکا ہو اس کے بارے میں یہ سمجھ لینا کہ اس لمحے اس کا ذکر بلاجوازاور لا حاصل ہے ایک خیال ِ خام ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ دنیا کی زندہ اقوام کاحال اُن کے ماضی ہی سے جنم لیتاہے ۔تاریخ اور اس کا مسلسل عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ اقوام کی زندگی میں ماضی کے واقعات اکثر دہرائے جاتے ہیں۔انھوں نے عمرانی حقائق کے حوالے سے بتایا ہے کہ افرا داپنے آبا کی نشانی ہیں اوراپنے ماضی کی پہچان کا سب سے اہم وسیلہ ہیں ۔معاشرتی زندگی میں وہ افراد جو اپنے ماضی سے راضی نہیں ہوتے جب ترکی و تازی بھگتنے کا وقت آتا ہے تو وہ ہر بازی ہار جاتے ہیں۔یہی کیفیت دوسری عالمی جنگ میں نازی جرائم کے انجام میں دکھائی دیتی ہے جب تقدیر کے قاضی نے ظلم کے پرچم کے سر نگوں ہونے کافیصلہ دیا۔ یہ امر انتہائی تشویش ناک ہے کہ ہم اپنی زبوں حالی ، درماند گی اور پریشاں حالی کے اسباب پر غور کرنے اور احتساب ذات پر آمادہ ہی نہیں ۔ خار زارِ حیات کے آبلہ پا مسافر راستے کی کریروں اور خارِ مغیلاں کوہٹاتے وقت کا نٹوں سے فگار اپنی انگلیوں پر توجہ نہیں دیتے ۔ زندگی کا ساز بھی عجیب ساز ہے جو دھیمے سروں میں نوائے حیات سناتا ہے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔ اس جہاں کے کارزار میں جذبات ، احساسات ،عزائم ، امنگیں اور ولولے کشمکش ِروزگار اور مر گ و زیست کے سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ اس قافلے کے سب رہرو کمر باند ھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔نا معلوم کس وقت ہم اپنی باری بھر کر راہِ رفتگان پر گامزن اس قافلے سے جاملیں ۔ دائمی ،مفارقت دینے والے اس انداز سے رخصت ہو تے ہیں کہ گھر وں کے اُداس بام ، کھلے در اور ویران آنگن ان کی یاد میں آہیں بھر تے ہیں مگر مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر نے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ ایک دوراندیش مفکر اور ممتاز ماہرتعلیم کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوتنقید ،تحقیق اورتخلیق ادب کے حوالے سے اپنے شاگردوں کو ایک ولولہ ٔتازہ عطا کر نے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں ۔ اپنے مسحور کن تخلیقی تجربات سے انھوں نے نئی نسل کو کلیشے اور تقلید کی مہلک روش سے سے نجا ت دلا کر افکار تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کا فور کر کے جہان تازہ کی جانب عازم سفر ہونے پر مائل کیا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے بحرِ خیالات کا پانی اس قدر گہرا ہے کہ وہ خود بھی اپنی حقیقت کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ جہا ں تک کسی انسان کی اعلا تعلیم اور فقید المثال تحقیقی کامرانیوں کا تعلق ہے اِسے خود اس شخص کی اپنی گزشتہ لا علمی کی ترقی پسندانہ دریافت کے بعد علم کے نئے آفاق تک رسائی کی ایک کاوش پر محمول کرنا چاہیے ۔ وہ ہر سال مضمون نویسی ،افسانہ نگاری ،شاعری اور مکتوب نگاری کا ایک مقابلہ کرا تے ہیں اور عمدہ طبع زادتخلیقی تحریں پیش کرنے والے طلبا و طالبات کو انعامات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔سال 2004میں انھوں نے مکتوب نگاری کے مقابلہ کا اہتمام کیا جو بہت دلچسپ ثابت ہوا۔اس مقابلے میں انیسویں صدی کے مشاہیر ادب کے نام ان مشاہیر ہی کے اسلوب میں طالب علموں کو خط لکھنے کی ترغیب دی گئی ۔ اس سلسلے میں ہو نہار طالب علموں کے وہ خطوط جو انھوں نے مرزا اسد اﷲ خان غالب کے نام لکھے تھے قارئین میں بہت مقبول ہوئے ۔ ان میں سے کچھ منتخب مکاتیب قومی اخبارات اور ادبی جرائد میں بھی شائع ہو ئے جنھیں ادب شناس حلقوں نے بہت سراہا ۔ وطن عزیز کے کالجز اور جامعات کے طلبا و طالبات کے سا لانہ علمی و ادبی مقابلوں میں حصہ لینے والے وہ طلبا و طالبات جو کل پاکستان علمی و ادبی مقابلوں میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوں وہ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اکثر اول یا دوم انعام حاصل کر کے اپنے اس شفیق استاد اور مادر علمی کا نام روشن کرتے ہیں ۔وطن عزیزکے ممتازتعلیمی اداروں کے مابین منعقد ہونے والے علمی و ادبی مقابلوں میں انھیں منصف کی حیثیت سے دعوت دی جاتی تو یہ کہہ کر معذرت کر لیتے کہ اکثر طلبا و طالبات کی تقاریر کی اصلاح انھوں نے کی ہے اور انھیں مباحثے اور تقریر کے فن سے آ شنا کیا ہے ۔اس لیے ان مقابلوں میں انصاف کا ترازو کسی غیر جانب دار ماہر تعلیم کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔
قصور اور لاہور کے طلبا و طالبات کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو صیقل کر نے کے سلسلے میں ان کی خدمات کوہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ادب اورفنون لطیفہ سے ان کے قلبی لگاؤ اور والہا نہ وابستگی کے اعجاز سے اس
علاقے میں تخلیقِ ادب کے نئے امکانات سامنے آئے ۔ ان کی تحریک پر قصور میں تراجم پر توجہ دی گئی اور سٹیج ڈرامے کو مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ان کی تر بیت سے متعدد نوجوان طلباو طالبا ت نے ریڈیو ، ٹیلی ویژن کے پروگراموں اور سٹیج ڈراموں میں حصہ لیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے ادبی اعتبار سے غیر آباد اذہان کو اپنے خون جگر سے سیراب کر کے تخلیقِ ادب کے لحاظ سے سر سبز و شاداب، آباد اور زر خیز نخلستان میں بدل دیا ۔ یادوں کے حسین ، منور اور عطر بیز دریچوں میں ان کے دبنگ لہجے اور روح میں اتر جا نے والی آواز کی تر نگ کی باز گشت ہمیشہ سنائی دے گی ۔ انیسویں صدی کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ایک باکمال معلم اور ایک عظیم انسان کا وجود اﷲ کریم کی عطا اور بیش بہا قومی اثاثہ ہے ۔اس کا تخلیقی وجود اﷲ کریم کا بہت بڑ اانعام ہے ۔اس ذہین محقق اور جری نقاد کی فقید المثال علمی و ادبی فتوحات کوخراجِ تحسین پیش کرتے وقت اخترالایمان (1915-1996)کے یہ اشعار میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے
مآ خذ
1 ۔فرمان فتح پوری (ڈاکٹر): ہندی اردو تنازع ، نیشنل بک فاو ئڈیشن ، اسلام آباد ، اشاعت اول 1977 ، صفحہ 79
2۔رئیس احمد جعفری : بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد ، کتاب منزل ، لاہور ، اشاعت اول صفحہ 50
3 ۔محمود الرحمن (ڈاکٹر ):’’ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی اور غالب ‘‘ مضمون مشمولہ ماہ نو ، لاہور ، جلد 48 ، شمارہ 2 ، فروری 1995 ، صفحہ 9
4 ۔حسن ریاض(سید )پاکستان ناگزیر تھا، جامعہ کراچی ، اشاعت سوم ، جون 1982 ، صفحہ 19

5.Edward Said:Orientalism,Penguine ,London,1973, Page,76
6.Edward W Said:Culture and ImperialismVintage Books,New York,1993, Page 7

7. Edward W Said:Culture and Imperialism, Page 18
8 . Edward W Said:Representation of the Intellectual,Vintage Books,New York,1996,Page,50

۹۔عطا الرحمٰن میو پروفیسرڈاکٹر :انیسویں صدی میں پنجاب کی انجمنوں کی اردو خدمات،فکشن ہاؤس ،لاہور ،اشاعت ،2016،صفحہ 376
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.