حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کی اپیل کی جارھی ھے۔ لیکن عوام
سنجیدگی اختیار نہیں کررھی۔ کرے بھی کیسے؟ جن ممالک کی مثال دی جارھی ھے
وھاں حکومتیں عوام کے لئے حرکت میں رھتی ھیں۔ وہ اپنی عوام کو گھربیٹھے
ضروریات زندگی کی بنیادی چیزیں فراہم کرتی ھیں۔ جبکہ ھماری حکومتیں صرف
زبانی جمع خرچ کرتی ھیں۔اور سارا زمہ عوام پر ڈال دیتی ہیں۔اب اگر عوام اگر
گھر بیٹھ جاۓ تو روزانہ کمانے والوں کا کیا ھوگا۔جو فلاحی ادارے ھنگامی
حالات میں حرکت میں آجاتے ھیں وہ بھی خدمت کے ساتھ ساتھ چندے کا اشتہار بھی
لگا دیتے ھیں۔ ایک طرح سے انکی خدمت چندے سے مشروط ھے۔ ان اداروں سے غریب
آدمی مستفید ھونے کے لئے گھر سے مجبوراً نکلے گا۔ جبکہ لاکڈاؤن میں باھر
نکلنے پر شدت سے منع کیا جارھا ھے۔
فلاحی ادارے جن علاقوں میں سروسز فراہم کررھے ھیں وہاں غریب کی پہنچ مشکل
ھے۔ یعنی غریب کے گھر کے قریب یہ سہولت نہیں ھے۔
شہر میں بجلی کا مسئلہ شدت سے ھے۔ پانی غریبوں کے علاقوں میں پندھدرہ سے
بیس دن تک نہیں اتا۔ یہاں عوام کو مسلسل اپنی ضرورتوں کے لئے باہر آنا پڑے
گا۔ غریب کےچھوٹے سے گھر میں تمام لوگوں کے سونے کی جگہ مشکل سے ھوتی ھے۔
وہ تمام ضروریات اورراشن کہاں رکھےگا۔کہنے کا مطلب یہ کہ اسے اپنی فیملی کے
لئے ہر حال میں نکلنا ھوگا۔
دوسری طرف جو فیکٹری مالکان اپنے مزدوروں کو فیکٹری میں زور زبردستی سے بلا
رھے ھیں وہ اپنی ملازمت قائم رکھنے کے لئے فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور
ھیں۔ باتیں بنانے والے میڈیا اور اینکرز زرا انڈسٹریل ایریا میں جا کر تو
دیکھیں حقیقت کیا ھے؟ چینل پر بیٹھ کر نورا کشتی بہت آسان کام ھے۔جبکہ
زمینی حقائق اس سے مختلف ھیں۔یہاں تک کہ فیکٹری مالکان نے اتوار کوبھی اپنے
مزدوروں کو کام کرنے کے لئےزبردستی بلایا۔ اب ایسے حالات میں عوام کیاکرے؟
ھم نے اب تک یہ نہیں دیکھا کہ کسی نے غریب کے گھر کھانا پہنچایا ھو۔ علاوہ
ازیں،حکومت سے درخواست ھے کہ یوٹیلیٹی بلز معاف کئے جائیں۔اور بلوچستان کے
راستے پر سختی سے آنے پر پابندی لگائ جاۓ۔
پاکستانی مسلمانوں کو ایک سب سے بڑی مدد حاصل ھے اور وہ ھم سب کا اللہ ھے
بشرطیکہ ھم اس کے احکامات کی پابندی کریں۔
|