کورونا وائرس اور پاکستانی معاشرہ

کوئی بھی وبا، بیماری، پریشانی یا مصیبت اللہ کے حکم کے بغیر نہیں آتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہی ہمیں یہ بھی بتایا کہ پریشانی، مشکل یا آفت سے بچنے کے لیے مجھ سےرجوع کرو، توبہ و استغفار کرو اور ساتھ ساتھ جو دنیاوی ذرائع ہیں وہ بھی اختیار کرو۔

کورونا وائرس نے اس وقت دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن بدن پھیلتا جارہا ہے۔ آج 24 مارچ تک پاکستان میں کورونا سے متاثرین کی تعداد950سے بڑھ چکی ہے۔دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں قدرتی آفت یا کسی وبا وغیرہ کی صورت میں لوگ تمام اختلافات بھلا کر ایک ہوجاتے ہیں بلکہ آج کی معروف اصطلاح میں سب ایک صفحے پر آجاتے ہیں۔پاکستان اس حوالے سے دنیا سے مختلف ہے کہ یہاں ہر معاملے پر قوم تقسیم ہوجاتی ہے ۔ کورونا وائرس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کورونا کی تباہ کاریاں اپنی جگہ لیکن پاکستانی معاشرہ اس حوالے سے تقسیم دکھائی دیتا ہے۔ہم نے مختلف لوگوں سے گفتگو کرکے اور کورونا کے حوالے سے ان کے موقف کو سننے کے بعد اندازہ لگایا ہے کہ اس وقت پاکستانی معاشرہ کم و بیش 3واضح طبقات میں تقسیم ہوچکا ہے۔ یہ تقسیم سیاسی نہیں بلکہ نقطۂ نظر کی ہے۔آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کورونا کے حوالے سے کون کون سے طبقات وجود میں آچکے ہیں۔

میں نہ مانوں طبقہ :
یہ وہ طبقہ ہے جو سرے سے اس بات کا انکاری ہے کہ کورونا کوئی مہلک یا موذی وائرس ہے۔ اس طبقے کے نزدیک یہ سب صرف اور صرف پروپیگنڈا ہے۔اس طبقے کا موقف یہ ہے کہ دراصل امریکہ اور یورپی ممالک نے چین ، تیسری دنیا کےممالک اور اپنے مخالف ممالک کی معیشتوں کو نقصان پہنچانے کے لیے میڈیا کے زور پر ایک افراتفری پھیلائی ہوئی ہے۔ اس طریقے سے یہ ممالک اپنے مخالف ممالک کی معیشتوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں وگرنہ کورونا سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بس یہ ایک فلو جیسا وائرس ہے اور بس۔آپ اس طبقے کو لاکھ دلیلیں دیں، ان کو بتائیں کہ جناب خود امریکہ اور یورپی ممالک بھی اس کی زد میں ہیں لیکن نہیں! ان کی ایک ہی رٹ ہوگی کہ بس یہ سب کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے ان کو ’’ میں نہ مانوں ‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس طبقے میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقے کے کئی لوگ بھی شامل ہیں۔چونکہ یہ طبقہ سرے سے اس بات کا ہی انکاری ہے کہ کورونا کوئی موذی وائرس ہے اس لیے یہ کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو تیار نہیں ۔ کورونا کے حوالے سے یہ طبقہ اس وقت معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہے۔

اللہ مالک ہے طبقہ :
یہ طبقہ بھی اوپر بیان کیے گئے طبقے سے ملتا جلتا ہے البتہ اس میں تھوڑا سا فرق ہے۔ یہ طبقہ اس بات کو تو مانتا ہے کہ کورونا نام کا وائرس موجود ہے۔ یہ طبقہ یہ بھی مانتا ہے کہ اس وائرس نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے اور اس سے جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔ ان سب کے باوجود یہ طبقہ کوئی احتیاطی تدبیراختیار کرنے یا اس وائرس سے بچنے کی کوئی احتیاط کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ طبقہ دراصل اللہ پر توکل کے حوالے سے بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے۔اس طبقے کو اللہ پر توکل کا درست مفہوم معلوم نہیں ہے۔اس طبقے کے نزدیک جو ہونا ہے وہ ہوجائے گا۔اگر اللہ کی مرضی ہوگی ، وائرس لگنا ہوگا تو لگ جائے گا، مرنا ہوگا تو مرجائیں گے۔بلا وجہ ڈرنے سے کیا فائدہ ؟ اتنی احتیاط کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بچنا ہوگا تو بچ جائیں گے۔

درحقیقت اس طبقےکو اللہ پر توکل کا مطلب ہی نہیں معلوم ۔توکل کی غلط تشریح کے باعث یہ طبقہ بھی معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہے۔

مادہ پرست طبقہ :
اوپر بیان کیے گئے طبقات کے برخلاف ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو نہ تو اس وائرس کو غلط سمجھتا ہے اور نہ ہی اس بات کا انکاری ہے کہ یہ بہت موذی وبا ہے اور ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔ لیکن یہ طبقہ اس بات کا سختی سے انکاری ہے کہ یہ چیز اللہ کی جانب سے ہے اور اس موذی مرض سے نجات کے لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ رجو ع الی اللہ اور توبہ و استغفار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس طبقے کے نزدیک ہر چیز سائنسی طور پر وجود میں آتی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے سائنسی اور منطقی طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ جب سے اس وائرس نے پاکستان اور مسلم ممالک کا رخ کیا ہے۔ اس طبقےکی چاندی ہوگئی ہے۔ یہ طبقہ عوامی چوپالوں، اخباری کالمز میں مذہب کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔ یہ طبقہ جب بھی کورونا کے حوالےسے کوئی مضمون یا کالم لکھتا ہے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کورونا کی آڑ میں مذہب کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔میں معذرت کے ساتھ عرض کروں کہ یہ طبقہ جب اپنے کالم میں کورونا کے پاکستان اور مسلم ممالک میں پھیلنے کا ذکر کرتاہے تو اس کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی، کیوں کہ اس کی آڑ میں یہ مذہبی طبقے کو لعن طعن کرتا ہے۔ اس طبقے کے سرخیلوں کے کالم پڑھیں تو اس میں کورونا کے پردے میں مذہب، مذہبی جماعتیں یا مذہب پرست لوگ اور ساتھ ساتھ مرحوم ضیاء الحق پر بھی تنقید لازمی ہوتی ہے۔

یہ سیکولر یا لبرل طبقہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے بارے میں کچھ کہنے کی بجائے ہم صرف قالو سلام کہنے پر اکتفا کریں گے۔

تو قارئین یہ چند کورونا کے حوالے سے معاشرے کی تقسیم کے حوالے سے ہمارا مشاہدہ تو جو ہم نے آپ کے سامنے رکھا ہے۔ ہم آخر میں یہ کہنا چاہیں گے کہ کوئی بھی وبا، بیماری، پریشانی یا مصیبت اللہ کے حکم کے بغیر نہیں آتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہی ہمیں یہ بھی بتایا کہ پریشانی، مشکل یا آفت سے بچنے کے لیے مجھ سےرجوع کرو، توبہ و استغفار کرو اور ساتھ ساتھ جو دنیاوی ذرائع ہیں وہ بھی اختیار کرو۔ اس لیے ہمیں کسی ایک انتہا کی طرف جانےکی بجائے معتدل راہ اختیار کرنی چاہیے ۔

 

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1519810 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More