کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا بنیادی حل سماجی
رابطہ کو منقطع کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلے سندھ حکومت نے بعد ازاں پورے
پاکستان میں لاک ڈاؤن ہوچکا ہے۔ کراچی میں آج تیسرادن، پہلے دن تو شہریوں
نے حکومتی ہدایت کو ہوا میں اڑادیا، وہ یہ سمجھے کہ لاک ڈاؤن کا مطلب چھٹی
کر کے سیر و تفریح، گھومنا پھرنا، میدانوں، گلیوں میں کرکٹ کھیلنا، گلیوں
میں ٹولیوں کی صورت میں جمع ہوکر ہنسی مزاق، موج مستی کرنا ہے۔ کل حکومت نے
کچھ سختی دکھائی، پولیس نے غیر ضروری طور پر سڑکوں پر آنے والوں کی پھینٹی
بھی لگائی، مرغا بھی بنایا، اٹھ ٹھک بیٹھک بھی کرائے بہت سو ں کو موبائل
میں بھر کے تھانے لے گئے، لاک اپ میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیا، کچھ کے
پرچے میں کاٹ دئے۔ ایک جانب شہریوں کی جانب سے حکومت کے احکامات کی خلاف
ورزی بھی غلط تھا تو دوسری جانب پولیس کا یہ اقدام بھی غلط اور کورونا
وائرس کو ایک سے دوسروں میں منتقل کرنے کا باعث ہوسکتا تھا۔ چنانچہ
انتظامیہ نے دونوں ہی اقدامات کے پیش نظر کراچی میں آج رات 8تا صبح8بجے تک
سخت لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا، یعنی رات میں ان پرچون کی دکانیں، شاپنگ مال،
بیکری، ہوٹل بھی بند رہیں گے، بلا ضرورت لوگوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر
سخت پابندی ہوگی صرف اسپتال اور میڈیکل اسٹور کھلے رہیں گے، لازمی سروسیز
کے لوگ جیسے ڈاکٹر و دیگر عملہ، فائر بریگیٹ، پولیس و دیگر آجاسکیں گے۔
شہریوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو دیکھتے ہوئے یہ درست قدم ہے، شہریوں نے
خود ہی حکومت کو ایسا کرنے پر مجبورکیا۔ سندھ کے وزیر اطلاعات نے یہ بھی
کہا ہے کہ اگر اب بھی شہری اپنے اپنے گھروں میں محدود نہیں ہوئے تو پھر
آخری راستہ کرفیو ہوگا۔وزیر اطلاعات کی بات اپنی جگہ مناسب ہے، شہریوں کو
اپنی ہی بلکہ اپنے گھر کے افرد کی زندگیوں کا خیال کرنا چاہیے۔ کالم نگار،
صحافی ارشد قریسی نے درست لکھا کہ ”لاک ڈاؤن کے حوالے سے اگر ہم تعاون نہیں
کریں گے تو ایک طرف سختی زیادہ ہوتی جائے گی اور دوسری طرف ہم غیر محفوظ
زیادہ ہوتے جائیں گے“۔
اس صورت حال کو دیار غیرجرمنی کے شہر برلن میں بیٹھی ہماری ملک کی ایک
معروف شاعرہ،افسانہ نگار اور لکھاری اور ہمارے اچھے دوست انور ظہیر رہبر کی
شریک سفر عشرت معین سیما نے پاکستان کے ٹی وی پر ایک صورت حال دیکھی اس پر
ان کا رد عمل اور تحریر میرے نظر سے گزری، ان کی تحریریں اور شاعری اکثر
پڑھتا ہی رہتا ہوں، ممکن ہے بہت سوں نے یہ تحریر نہ پڑھی ہو،ان احباب کے
لیے یہاں پیش کررہا ہوں۔ جو بات میں کہنا چاہتاہوں وہ بھی اس تحریر کے توسط
سے قارئین تک پہنچ جائیگی۔ (یہ تحریر ان کی فیس بک ٹائم لائن پر 24
مارچ2020 ء پوسٹ کی گئی)۔ انہوں نے لکھا ”مان لیجئے آوارہ مزاجی ہمارے خون
میں شامل ہے اور ہمارے بیشتر مرد حضرات گھر کو قید خانہ سمجھتے ہیں۔ کچھ
دیر قبل پاکستانی ٹی وی کی خبروں میں دکھایا گیا کہ کئی لوگ گروہ کی صورت
میں اپنے گھرکے باہر گلی کے نکڑ پر بیٹھے چھٹیاں گزارنے کے موڈ میں خوش
گپیاں کر رہے ہیں اور پولیس وین کو آتا دیکھ کر گھروں میں گھس جاتے ہیں وار
کرونا وائرس کو گھر میں لانے کی غیر دانستہ کامیاب کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی خبر میں دکھایا گیا کہ پاکستان بھر کے مختلف شہروں سے
کئی فارغ لوگ بلاضرورت شہر کی ویرانی دور کرنے کے لیے سڑکوں پر مٹر گشت کر
کے کرونا کے جراثیم جمع کررہے ہیں اور تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ خبر سن کر میں
نے اپنے ایک آوارہ مزاج عزیز کو کراچی میں کال کی کہ وہ احتیاط برتیں تاکہ
گھر کے بزرگ اور بچے محفوظ رہیں۔ تو ان کی بیگم نے شکر ادا کرتے ہوئے بتایا
کہ اس وقت ان کے شوہر کہیں دوستوں کی محفل میں گئے ہوئے ہیں، ورنہ گھر میں
ٹی وی کے آگے بیٹھ کر تو وہ مستقل سوائے چائے بنوانے اور فرمائشی کھانے
پکوانے کے کوئی قابل ذکر کام نہیں کررہے البتہ فون کا بل اس بار بہت زیادہ
آنے کا بھی خدشہ ہے اور وہ خاتون خانہ بھی اب اس صورتحال سے تنگ آ گئی ہیں۔
بچوں نے بھی سر گھر پہ اٹھا رکھا ہوتا ہے اور بزرگوں کی خدمت اور دیگر
گھرکے کام کاج میں بھی گھر میں کام کرنے والی ہیلپر کے نہ آنے کی وجہ سے
خلل پڑرہا ہے اور وہ دعا کر رہی ہیں کہ انہیں کرونا وائرس لگ جائے تاکہ کم
از کم دو ہفتے کے لیے انہیں آرام ملے اگرچہ یہ بات انہوں نے سنجیدگی سے
نہیں کہی لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ ایسے وقت میں گھر کی خواتین بھی اگر
حوصلہ ہار جائیں گی تو اس وائرس کے نفسیاتی اثرات بھی گھر اور خاندان کو
تباہ کرسکتے ہیں۔اس وقت مجھے ساری دنیا کی آفت کا ایک تلخ منظر ان کے مکان
میں بھی اس لیے زیادہ تلخ محسوس ہورہا ہے کہ صاحب خانہ گھریلو کام و کاج و
معملات میں خاتون خانہ سے بالکل تعاون نہیں کررہے ہیں۔ میرے معاشرے کی
محترم حضرات! خدا را! یہ چھٹیاں گھروں میں رہ کر گھر کا، گھر والوں کا اور
اپنا خیال رکھنے کو دی گئی ہیں۔ یہ کرفیو کی صورت حال سیاسی نہیں بلکہ یہ
طبی نکتہ نگاہ سے گھروں میں رہنے کے لیے پابندی لگائی گئی ہے۔ اپنی جسمانی
اور ذہنی صحت پر توجہ دیں گھر دنیا کی سب سے محفوظ ترین جگہ ہے۔ لیکن اکثر
گھر کے سربراہان اور بیشتر حضرات اس جگہ کو فی الوقت خطرناک ترین جگہ بنانے
پر تلے ہوئے ہیں۔ اللہ کے واسطے گھر میں رہئے اور کام کاج میں گھر والوں کا
ہاتھ بٹائیے۔ اس وقت آپ لوگوں کا حال بقول مظفر حنفی ایسا ہی ہے“۔
یہ کستوری بھرا نافہ ہے میر ا بانٹتے آنا
سنا ہے تم جدہر جاتے ہو چنگاری لگاتے ہو
عشرت معین سیما نے موجودہ سنگین صورت حال کا حقیقت پسندی سے پوسٹ مارٹم کیا
ہے۔ ہمیں اپنے رویوں سوچنا ہوگا، ہماری بے احتیاطی ہمارے ہمارے لیے، ہمارے
اہل خانہ اور معصوم بچوں کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے۔ خدا را اس
پریشانی کا ادراک کیجئے، اس مشکل کو محسوس کیجئے جو کورونا وائرس میں مبتلا
لوگ بیان کر رہے ہیں۔
(25مارچ2020ء)
|