صحافت کا ستارہ.... ندیم نظر پیارا

میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں بہت کم چہرے ایسے دیکھے ہیں جن کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو اور جن کی جلوت کی رنگینیوں اور خلوت کی پارسائیوں پر کوئی داغ نہ ہو۔اگر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی بات کی جائے تو ان دونوں شعبوں سے وابستہ افراد کا چہرہ عام طور پر سکرین پر جو دیکھایا جا رہا ہوتا ہے وہی چہرہ ان کی عام زندگی ڈھونڈنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
یہ بالکل ایک کھلی حقیقت ہے جس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کسی بڑی شخصیت کا ہونا بھی اس کی بڑی سند ہوتی ہے۔یہاں بڑی شخصیت سے میری مراد سینئر صحافی و ادیب محترم ندیم نظر صاحب ہیں کہ ان پر لکھنا میرے جیسے قلمکار کے بس کی بات نہیں، آپ ان کی ذات کے اندر جتنا ا„رتے جائیں گے گہرائی اور بڑھتی چلی جائے گی اور پھر بقول حضرت علامہ اقبالؒ
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمامہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہکان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
وہ اپنے قلم کے لیے ہمیشہ ڈٹے رہے۔ ان کے صحافتی اور علمی کلیات کا کہیں بھی سمونا ایسے ہی ہے جیسے آپ نہ ختم ہونے والی داستان پڑھ رہے ہوں۔ پھرمولانا مودودیؒ کے قول کے مطابق لوگوں سے اžجھ کر اپنی زندگی مت ضائع کرو
اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جو اžجھے یا اžجھائے گئے، تاریخ نے ان کو دفن کر دیا اور جو اžجھے نہیں اور شدت کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلاتے رہے وہ ندیم نظر جیسے ہیرے بن گئے!
یہ صحافت کے ستونوں میں ایک ایسا ستون نظر آتے ہیں کہ ہم بجاطور پر آج کے دور میں ان کو آئیڈیل قرار دے سکتے ہیں، وہ جہاں رœتے، جہاں ٹھہرتے اور جہاں سے چلتے ہیں، ایک احساس تشنگی دے جاتے ہیں۔ان کی سحر انگیز شخصیت بارہا اپنی جانب کھینچتی ہے اور ان کے اندر بہتا علم کا دریا ہم جیسے طالبعلموں کی آبیاری کرتا ہے۔
گزشتہ دنوں لاہور ایکسپو سنٹر بک فیئر کے موقع پر پاسبان بزم قلم کی طرف سے ندیم نظر صاحب کو مہمانِ خصوصی کے طور پر دعوت نامہ بھیجا گیا جس پر وہ لبیک کہتے ہوئے تشریف لے آئے۔ میری ان سے فیس ٹو فیس پہلی ملاقات تھی، ان کی تجربہ کار صحافتی زندگی کے متعلق سوالات کا ایک بہت بڑا انبار تھا مگر ندیم نظر صاحب کی مصروفیات نے حسب روایت ایک طویل تشنگی چھوڑ دی کہ ملاقات ہو نہ ہو دل منتظر رہے گا۔ کہتے ہیں کہ حقیقت سے حقیقت تک پہنچنے کا ایک عمل ہوتا ہے۔ ایک وہ حقیقت جو سامنے ہے، ایک وہ جس کو تلاش کرنا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کل، آج اور آنے والے کل میں ندیم نظر صاحب کی صحافتی اور تعمیری خدمات کا جو پž صراط بن چکا ہے اس پر سے شاید ہی کوئی گزر سکے۔ ایک طویل جدوجہد مسلسل، طویل راستہ اور طویل داستان زندگی یہی ہے، میرے نزدیک صحافت میں اس دور میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔
28 سالوں پر محیط ندیم نظر صاحب کے لازوال صحافتی کیریئر کا چند سطور میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ملک کے نامور اخبارات میں خدمات انجام دیتے ہوئے ہزاروں فیچرز اور کالمز تحریر کیے، نیز انہوں نے افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے عہدِ راحیل شریف۔۔۔پاک فوج کے کارہائے نمایاں تصنیف کی ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اپنی طرز کی ایک منفرد کتاب ہے کہ جس میں پاک فوج کی قربانیوں اور فوج سے منسلک دیگر معاملات کا بڑی باریک بینی سے احاطہ کیا گیا ہے۔
ندیم نظر صاحب استادوں کے استاد ہیں ۔ انہوں نے صحافتی زینے عبور کرتے ہوئے صرف اپنے لیے ہی بامِ عروج دریافت نہیں کیا بلکہ ان کی بدولت دنیائے ادب کو متعدد گوہر نایاب بھی میسر آئے ہیں۔ ان میں سے ایک نام مشہور و معروف فیچر رائٹر و کالم نگار محترمہ عمارہ وحید صاحبہ کا ہے ، جن کا کہنا ہے۔ ندیم نظر صاحب میرے بھی استاد ہیں ، ان کی شاگردی میں رہ کر میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔
ہم نے ندیم نظر صاحب سے بہت سے سوالات کیے، جن کا وہ خندہ پیشانی سے تفصیلی جواب فراہم کرتے رہے، میں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ان سے پوچھا....!
ندیم نظر صاحب! آپ کو صحافت کے میدان میں تقریباً ستائیس سال گزر گئے، زمانہ طالب علمی میں ہی سوچ تھی کہ صحافی بننا ہے یا اس زمانے میں صحافت کا کوئی آئیڈیل تھا یا پھر کوئی حادثہ صحافت میں آنے کا سبب بنا؟
اس زمانے میں نہ کوئی آئیڈیل اور نہ ہی اس کا کوئی تصور تھا،البتہ مجھ سے پہلے میرے خاندان میں کوئی فرد صحافت کے ساتھ اگر منسلک تھا تو وہ میرے والد صاحب غلام محی الدین نظر(مرحوم)تھے جو روزنامہ مشرق سے تقریباً 30سال وابسطہ رہے ۔دن رات انہیں لکھتے اور پڑھتے دیکھتا ۔بچوں کے بھائی جان کے نام سے مشہور ہوئے ۔پھر انہیں کینسر جیسے موذی مرض نے آن لیا۔میں اس وقت نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب 12نومبر کی دوپہرمیری آنکھوں کے سامنے انمول ہسپتال لاہور میں وہ کینسر سے جنگ لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے۔ان کی وفات کے کچھ دنوں بعد روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیاشاہد صاحب نے مجھے اپنے پاس بطور ریفرنس اسسٹنٹ رکھ لیا۔ریفرنس سیکشن میں چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں اس وجہ سے مجھے ہر نئی آنے والی کتاب چیف ایڈیٹر کی طرف سے ریکارڈ کیلئے بھجوائی جاتی تھی جسے میں ضرور پڑھتا۔ انہی دنوں شدیدبارشیں ہوئیں جگہ جگہ پانی کھڑا ہوگیااخبار میں ایک تصویر نظر سے گزری جس میں ایک سیاستدان بڑے بڑے بوٹ پہنے لکشمی چوک میں پانچ چھ چمچوں کے ہمراہ پانی میں کھڑا ہاتھ اٹھائے کوئی ہدایات دے رہا تھا۔مجھے ایک پل میں لگا کہ یہ صرف اور صرف فوٹو سیشن ہی تو ہے عملاً کچھ نہیں ہونااور ایسا ہی ہواکہ اگلے تین روز تک پانی نہ نکلا لکشمی چوک میں موجود کاروبار تباہ ہوگیا۔میں نے اس ناقص نظام پر ایک چھوٹا سا کالم لکھا جونہ صرف خبریں میں شائع ہوا بلکہ اس تحریرپر ا چیف ایڈیٹر نے مجھے 500 روپے انعام بھی دیا ، صحافت کے اس مقدس پیشے نے مجھے اس بات پر مجبور کر دیا کہ سکول سے چھٹی کے فوراً بعد اخبار والے دفتر میں آ جاتا اور اپنے شوق سے رات دس بجے تک کام کرتا رہتا،مجھ میں شوق پیدا ہوا کہ اخبار کے ہر شعبے کے بارے میں جانوں اور سیکھوں اسی لئے میں نے اپنے کام اور پڑھائی سے وقت نکال کر دوسرے شعبوں میں بھی وقت دینا شروع کردیا۔یہاں تک کہ اخبار کے آغازسے چھپائی تک کے تمام مراحل سیکھ لئے۔یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ صحافتی دنیا میں میرے قدم رکھنے کے بعد میری والدہ اور میرے بھائی جمشید نظر(وہ بھی صحافی ہیں)نے ہمیشہ میری رہنمائی کی اور قدم قدم پر میرا ساتھ دیا۔
ہم نے اسی دوران دوسرا سوال یہ پوچھا کہ آپ کی صحافت کی بنیاد قلم نے رکھی اور بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ پرنٹ میڈیا کے تجربہ کار پرسن جبکہ آج کے الیکٹرانک میڈیا نے آپ کو بہت عزت اور شہرت دی، آپ کی رائے کیا ہے؟
دیکھیں ہر دور کا اپنا ایک میڈیم ہوتا ہے جو حالات کے مطابق اسے لے کر چلتا رہتا ہے۔میں نے روز نامہ خبریں میں 26سال کام کیا۔ اس دور میں اس کے مقابلے میں ایسا کوئی دوسرا ممتاز اخبار شادو نادر تھا۔ پھر میں نینظر کی نظر میں کے نام سے کالم نگاری شروع کی تو خدا تعالیٰ نے مجھے وہاں بھی بہت سے حلقہ احباب میں نواز دیا۔کہتے ہیں لگن سچی ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میری محنت اور جستجو کو دیکھتے ہوئے مجھے خبریں کا ایڈیٹوریل انچارج بنادیاگیا جو میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔مجھ سے پہلے ایڈیٹوریل انچارج آج کے معروف اینکر و کالم نگارحسن نثار تھے جنہوں نے بعد میں اپناا خبار نکال لیا وہ سیٹ خالی ہونے پر مجھے مل گئی پھر بعد ازاں میں کئی عہدوں پر رہا جن میں شوبز ایڈیٹراسسٹنٹ ایڈیٹرڈپٹی ایڈیٹراور پھر ایڈیٹر سنڈے میگزین کا عہدہ سنبھال لیا ۔
مجھے سیکھنے کا شوق بچپن سے ہی رہا ہے اور میں اپنے اردگرد موجود ہونیوالی چیزوں کو سیکھنے کی کوشش میں ابھی بھی لگا رہتا ہوں۔ الیکٹرانک میڈیا آیا تو خبریں کے چینل5میں کام کرنے کی خواہش پیدا ہوئی جہاں میں نے سنڈے میگزین کیساتھ ساتھ بطور شوبز ایڈیٹر بھی کام شروع کردیااس حوالے سے میری رپورٹس یوٹیوب پر بھی موجود ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بات بہت افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ اخبار کی پوری انڈسٹری اب ایک کاروبار میں منتقل ہو چکی ہے اور جب کاروبار ہو گا تو یقینی بات ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح وراثت میں جائے گا۔ یہاں بات ہے آنے والی نسلوں کے ٹیلنٹ کی۔تاریخ گواہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان کے بیٹے اکبر علی خان کو اخبار ملا مگر وہ اس کو نہ سنبھال اور چلا سکے، اس لیے کہ ان کے اندر ٹیلنٹ نہیں تھا۔ اگر مولانا اکبر علی خان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی تو ان کے بزرگوں کا اخبار یقینا ہمارے درمیان موجود ہوتا۔ مجھے بتائیے کہ نسیم حجازی کا اخبار کہاں گیا۔ دیکھیں ٹیلنٹ ہو گا تو کاروبار نسلوں میں ا„رتا نظر آئے گا۔آج کے دور کے حوالے سے بات کروں تو صحافت میں آج بڑے بڑے بزنس مین آگئے۔ میاں عامر نے پہلے اخبار نکالا، پھر وہ چینل لے آئے۔ چوہدری عبدالرحمن نے پہلے اخبار نکالا، پھر انکے دو چینل بھی سامنے آگئے۔ پھر چینل 92 والے آگئے۔ آج ان کا اپنا اخبار بھی ہے۔ میں نے آج تک کسی کے کام میں کبھی مداخلت نہیں کی، میں اخلاقی اور تہذیبی دائرے میں رہ کر بات کرنے کا عادی ہوں۔
آپ سب لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمیں وراثت میں کچھ بھی نہیں ملا بلکہ ہم نے طویل جدوجہد کر کے اپنی اخباری د یا خود بسائی ہے۔ دیکھیں آپ کی تعلیم، آپ کا ویژن، آپ کی استعادات اور آپ کی ذہانت آپ کے آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ پیسے سے ہونے والے کام نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو جتنے بھی پیسے والوں کے اخبار نکلے وہ سب بہت ترقی کر چکے ہوتے، صحافت آج دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک وہ جو نسل درنسل آرہے ہیں ایک وہ جو کاروباری نقطہ نگاہ سے اخبار اور چینل لائے۔
ہم نے موقع پاتے ہی یہ بھی پوچھ لیا کہ آج کل ادبی ذوق پیدا کرنے کے لئے مختلف تنظیمیں بھی وجود میں آ رہی ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
انہوں نے کہا کہ ادبی ذوق رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم کا مل جانا سایہ فگن کی حیثیت رکھتا ہے لیکن معذرت کے ساتھ میری معلومات کے مطابق ہر تنظیم اپنا اپنا منجن فروخت کر رہی ہے اور بعض ادب فروشوں نے تو اس کو بھی ایک کاروبار اور آمدن کا ذریعہ بنا لیا ہے اﷲ ہی ان کا حافظ ہو۔
اچھا سر اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں اگلا سوال یہ کرنا چاہتا ہوں کہ لکھنے والے حضرات کو اخبار کے ایڈیٹرز کی جانب سے کچھ پیسوں سے حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے کہ نہیں؟
اگر آپ کو سچ بتاو¡ تو حقیقت یہ ہے کہ آج کل تو ادیبوں کو ٹشو کی طرح خوب استعمال کیا جا رہا ہے اور جنگ 92اخبار کے علاوہ دوسرا کوئی بھی اخبار کالم نگاروں کو معقول وظیفہ نہیں دے رہا۔
اچھا سر ماشاء اﷲ آپ کے زیادہ تر کالمز اور فیچرز کرنٹ ایشوز پر ہی ہوتے ہیں، کیا آپ مین سرخی کو لے کر اپنا قلم تھامتے ہیں یا پھر کوئی چھوٹی موٹی...؟
ندیم نظر صاحب کا کہنا تھا کہ میرا معمول ہے کہ میں سب سے چھوٹی خبروں پر لکھتا ہوں، جس کو عام طور پر لوگ ہلکا سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان پر بات کرنا اور انہیں نمایاں کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ کوئی بھی مسئلہ قارئین کی آنکھ سے اوجھل نہ رہ سکے ۔ جس وقت بھی مجھے کچھ وقت مل جاتا ہے تو میں فورا لکھ دیتا ہوں کیونکہ الفاظ لکھاری کے پاس کبھی ختم نہیں ہوتے۔الفاظ سے کھیلنا لکھاری کا فنِ کمال ہوتا ہے۔
آج کل کے تجزیہ نگاروں اور صحافی برادری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
کچھ تجزیہ کارو ں صحافی حضرات جن کے بارے میں ٹی وی کھولتے ہی معلوم ہوجاتاہے کہ اب انہوں نے کیا بولنا ہے ،آجکل تو ریٹائرڈ جنرلز،بیورکریٹس اور سفارتکاروں نے بھی اپنے کام کاج چھوڑ کر تجزیہ نگاری کی دکان کھول رکھی ہے، جنھوں نے آئے دن ملکی سا لمیت پر پاکستان کو تختہ مشق بنارکھاہے جن کی نظروں میں جب دیکھو حکومت بس چند گھنٹوں کی ہی مہمان نظر آتی ہے جن کے سنسنی خیز تجزیئے اور اندر کی خبروں کو سن سن کر محلے کی لڑائیوں میں خواتین نے بھی اپنایہی رویہ اپنا لیا ہے ،موجودہ وقتوں میں جب ہم مختلف نیوز چینلوں پر چند ایک ایسے صحافیوں کو دیکھتے ہیں جن کے لفظو ں سے زیادہ آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوتے ہیں جن کی گفتگو سن کر یہ احساس ضرور ہوتاہے کہ کیایہ مذکورہ چینل کا مالک ہے اگر نہیں تو کیا اس چینل کے مالک کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے چینل میں بیٹھ کر من گھڑت اور جگ بیتی کہانیاں سنائی جارہی ہیں، جیسا کہ چند روز قبل جیو کے ساتھ ہوا، یقینا ان نیوز چینلوں کے مالکان کے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے ان چینلوں میں بیٹھے خودکار صحافیوں کی ایک فوج اپنے ناپسندیدہ حکمرانوں پر طنز کے نشتر برساتے رہتے ہیں کیونکہ ایسے حضرات کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت سے مکمل طورپر منسلک ہوچکے ہوتے ہیں لہٰذا وہ ہمیشہ ایک ہی قسم کی ڈفلی بجاتے رہتے اور اس کے علاوہ اپنی گفتگو میں کوئی تجزیہ پیش نہیں کرتے بلکہ اپنے قائد یا جماعت کی مداح سرائی کرتے ہیں یا پھر اس کے مخالفین کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی تبصرہ نگار یا تجزیہ نگار کا صحافی ہونا ضروری نہیں ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
میرا آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ آپ نے بہت بڑا نام کمایا، عزت کمائی اور امیج ایک بڑی شناخت بن گیا، کیا آج آپ مطمئن ہیں؟
انہوں نے کہا کہ الحمدﷲ زندگی میں میرے لیے جو ممکن تھا اور جس حد تک میں جا سکتا تھا، بڑی ایمانداری، دیانتداری اور ذمہ داری سے نام اور عزت کمائی، انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، مجھ سے بھی غلطیاں ہوئیں اور میں نے ہمیشہ اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے اور پھر ان کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، میرے راستے میں حاسدین بھی پیدا ہوئے۔ میرے خلاف غلیظ سکینڈل تک بنائے گئے مگر انہیں ان میں سے ایک بھی ان ستائیس برسوں میں کوئی ثابت نہیں کرسکا اورمیں ہمیشہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور اصولوں کا راستہ نہیں چھوڑا۔مجھے فخر ہے کہ والد کا کاروبار نہیں بلکہ ان کا پیشہ مجھے ورثے میں ملا اور میں نے اپنے والد کے پیشے کا سر بلند رکھنے کی جہاں تک ہو سکا ، ہر مکمن کوشش کی۔
محترم ندیم نظر صاحب آخر میں ہم جیسے نئے لکھاریوں کو اس میدان کے بارے میں کچھ نصیحت کر دیں تاکہ ہم اس پر عمل درآمد کر سکیں!
آپ کو علم ہے کہ معاشرے کی تیسری آنکھ اور جمہوریت کا چوتھا ستون آج جس مشکل میں گرفتار ہے اسے ان میڈیاہا?سسز کے مالکان اپنی ناکامی کی بجائے کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد اب صحافت نہیں بلکہ بزنس بن چکاہے جو دن رات ترقی کررہاہے ،آج پیسوں کی خاطر اور تعلق داری پر تعریفیں کرنے کا نام صحافت بن چکاہے ،آج کی صحافت سیاستدانوں کی انتخابی مہم کا ذریعہ بن چکی ہے ، صحافت کا اہم مقصد دنیا بھر کی تازہ ترین صورتحال سے واقف کرواناہے مگر آج کا صحافی دلیل دینے کی بجائے فیصلہ کرنے لگا ہے آج کی صحافت نے اپنی ایک عدالت قائم کرلی جہاں وہ اچھے اوربرے سیاستدانوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں کیونکہ آج مولانا ظفر علی خان ،حمید نظامی ،مجید نظامی ، میر خلیل الرحمان اور دیگر عظیم صحافیوں کی صحافت کا باب بند ہوچکاہے ان کا قلم تھم چکا ہے کوئی بھی آدمی جو خود کو صحافی کہتا ہے وہ ان مرحوم صحافیوں کے نقش قدم پر چلنے کو تیار نہیں اور جو چلنا چاہتے ہیں ان کا مذاق بنایا جاتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ یہی صحافی نہایت سخت جان ہوا کرتا تھا، کیسی ہی مشکل سر پر کیوں نہ ہو وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں نہ تو جھکتا تھا اور نہ ہی کوئی مجبوری اس کے قلم کو خریدسکتی تھی ،اس زمانے میں صرف چند روزنامے ہی نکلا کرتے تھے جن میں کام کرنے والے صحافی نایاب انسانوں کی طرح مانے جاتے تھے جن کی تحریروں اور روزناموں کو پڑھنے کے لیے اخبارصبح سویرے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتے تھے۔لہٰذا میں اپنے دوست احباب اور بچوں کو دو نصیحتیں ضرور کروں گا، ایک نماز قائم کرو، دوسرا کبھی جھوٹ مت بولو! میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نے ہمیشہ سچ بولا، بہت ہوا تو میں نے خاموشی اختیار کی، اپنی غلطیوں پر اصرار نہ کیا کیونکہ اصرار کرنا انسانیت نہیں۔

 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 32938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.