اپنے بالوںکی قربانی دینا یعنی گنجا ہونا کتنا مشکل کام
ہے اوریہ بھی اس صورت جب آپ کیا پورا سر بال میں چھپا ہو یعنی فارغ البال
نہیں ہو ایسے میں سر پر استرا پھیرنا بہت سخت عمل ہوتا ہے کیونکہ اس طریقے
سے آپ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول توکرلیتے ہیںمگر کبھی کبھارابے گنجے
ادھر آیا ، اس کی ٹنڈ تو دیکھو ، کیسی چمک رہی ہے، گنجا بہت تیز جارہاہے
جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیںیہی الفاظ ہر سال ہمیں سننے کو ملتے ہیںکیونکہ
میں ہر سال اپنے سر کو بالوں سے فارغ کرتا ہوں.
کرونا وائرس کے باعث لاک ڈائون سے ایک دن قبل جب پشاور کی انتظامیہ نے ہیر
ڈریسرز کو اطلاع دی کہ پندرہ دن آپ دکانیں بند رکھیں گے تو ہم اپنے بالوں
کو ٹھیک کرنے کیلئے گیے ،اس سے ایک دن قبل ہم نے فیس بک پر گنجے افراد کا
ایک گروپ دیکھا تھا جنہوں نے سر پر استرا پھیرا تھا .اور بس وہی سین ذہن
میں تھا اور ہیر ڈریسر کو کہہ دیا تھا کہ یار استر ا ہی پھیر دو. اور پھر
دس منٹ بعد ایک چٹیل میدان نظر آنے لگا . فارغ البال ہونے کے بعد سب سے بڑا
فائدہ جواس وقت ہمیں محسوس ہوا کہ ٹنڈ پر ہوا بہت سرد محسوس ہونے لگی.ٹوپی
پہن کر گھر کی طرف روانہ ہوا . گھر میں داخل ہونے کے بعد والدہ کی یاد بہت
آئی کیونکہ جب ہر سال فارغ البال ہو کر گھر میں داخل ہوتے ہی والدہ سے
باتیں سنتا کہ بالوںپر استرا مت پھیرا کرو. لیکن جب باتیں سن کر والدہ
کیساتھ بیٹھ جاتا اور اداس ہونے لگتا تو والدہ کہتی چلواچھا ہے کہ اگر
تمھیں اچھا لگتا ہے لیکن والدہ کی وفات کے بعد آج جب گھر میں داخل ہوا ئے
تو بیگم نے دیکھ کر منہ پھیر لیا. البتہ ہماری چھوٹی بھتیجی جو ہر دفعہ
باہر جانے کی ضد کرتی اور گود میں آنیکی خواہش کرتی گنجے سر کو دیکھ کر ڈر
گئی کہ اتنے بڑے سر والا یہ کون صاحب گھر میں آگیا.
ہمارے اپنے بچے توگنجے سر کو دیکھ کر ڈر گئے کہ انہیں یقین تھا کہ اب والد
کے گنجے ہونے کے بعد ان کی باری تھی. لیکن یہ ان کی خوش قسمتی کہ پہلی
مرتبہ ہیر ڈریسر کو دکان کھولنے پر پابندی تھی ورنہ ہر دفعہ جب ہم فارغ
البال ہوتے تو بچوں کو بھی فارغ البال ہی کرتے..لیکن..اب کرونا کی وجہ سے
ہیئر ڈریسر کی دکان بند ہونے سے وہ بالوں کی قربانی سے بچ گئے .دوسرے دن
دفتر جاتے ہوئے فارغ البال سر پر ٹوپی پہن لی کہ کوئی کچھ نہ کہے لیکن دفتر
میں بھی ساتھیوں نے ویلکم کہہ دیا . البتہ چند دوست جو پیدائشی فارغ البال
ہیں تاہم فارغ البالی کی صورت حال میں بھی ان کی جیب میں دو دو کنگھیاں پڑی
ہوتی ہیں اس حرکت پر غصہ ہوگئے کہ یار عجیب بندے ہو ہمارے بال ہے نہیں اور
تم استرا پھیرو ا دیتے ہو. تو انہیں تنگ کرنے کیلئے کہنے لگا کہ تمھارے جو
چار آٹھ بال ہیں انکی قربانی دو شائد موسم بہار کی وجہ سے بال زیادہ نکل
آئیں ساتھ میں انہیں پرامید کرنے کیلئے کہہ دیا کہ ہوسکتا ہے کہ بالوں کی
قربانی سے شائد کرونا بھی دو ر رہے. لیکن اس لاجواب جواب پر بھی پیدائشی
فارغ البال دوست رضامند نہ ہوئے.
ذاتی طور پر بالوں کی قربانی دینے کے کتنی ہی فوائد ہیں اس کا اندازہ آج
دوستوں کیساتھ شیئرکرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ بھی ان اہم فوائد کی طرف راغب ہو
جائیں.بال پر استراپھیرنے کی صورت میں سب سے بڑافائدہ یہی ہوتا ہے کہ جووقت
کنگھی کرنے پر ضائع ہوتا ہے وہ بچ جاتا ہے آج کل تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی
شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر مانگ نکالنے میں دس منٹ لگاتے ہیں اوپر سے جل
کاخرچہ، اگر کوئی ہماری طرح پینڈو ہو تو اس کا سرسوں کے تیل کا خرچہ بھی ہو
جاتا ہے . اگر پینڈو نہیںاور شہری بابو ہے تو اس کے جل کا خرچہ بھی
ہوتاہے.یہ الگ بات کہ وہ دس منٹ جو اب فارغ البال ہونے کے بعد بچ گئے ان کا
ہم نے کرنا کیاہے. لیکن چلو بچت کی وجہ سے دل خوش ہوتا ہے کہ کسی ایک شعبے
میں ہم بھی بچت کرسکتے ہیں. اگر کوئی خود فارغ البال ہوتا ہے تو شیمپو کا
خرچہ نہ ہونے کے برابر ہو جاتا ہے اسی طرح کسی خاتون کو دیکھ کر بال ٹھیک
کرنے کو بھی دل نہیں کرتا اور بالوں کا سٹائل سدا بہاررہتا ہے یعنی ایک ہی
سٹائل میں رہنے کے فائد وں میں یہ بھی فائدہ ہے کہ جوئوں اور لیکوں کو آپ
کے ہمراہ جانے کا موقع نہیں ملتا.
بچپن میں سنتے تھے کہ اگرآپ خواب میں جوئیں دیکھ لیں تو یہ دولت کی نشانی
ہے. لیکن ہائے رے قسمت. کبھی غلطی سے بھی نیند تو کیا جاگنے پر بھی کسی جوں
محترمہ نے ہمارے بالوں کا رخ نہیں کیا ، صرف ایک واقعہ یاد ہے جب ہم کلاس
ٹو میں ایک سرکاری سکول میں پڑھتے تھے ایک ہی کلاس میں ستر ستر بچے جڑ
کربیٹھے ہوتے تھے ۔ ایک دن کلاس میں وقفہ ہوا اور ہم سب ساتھی بیٹھ کر کھیل
رہے تھے کہ ایک دوست نے چیخ ماری کہ مسرت کے سر سے جوںگری ہے. اور پھر سارے
کلاس کے شیطان جمع ہوگئے کہ مسرت کے سر سے گرنے والے جوں کو دیکھیں. جیسے
انہوں نے کبھی جوں دیکھی نہ ہویا پھر مسرت کے سر سے گرنے والی جوں کوئی
اعلی قسم کی ہوگی . . مجھے یاد نہیں کہ جوں میرے سر سے گر ی تھی یا کسی او
ر کے سر سے کیوںکہ بچپن سے ہمارے داجی گل ہمیں گنجا کرتے تھے اس لئے یقین
تھا کہ جس طرح خالی جیب والے کے دوست کم ہوتے ہیں اسی طرح گنجے سر میں
جوںکہاں سے آئے گی لیکن چونکہ بچپن تھا اس لئے ڈر بھی تھا کہ کہیں یہ طعنہ
بھی نہ سننا پڑے کہ "سپگن دے" کیونکہ ہمارے ہاں ایک چیز جو بڑے خلوص سے ہم
دوسروں کو دیتے ہیں وہ ہے طعنہ . جوہمارے معاشرے میں بہت عام ہے . خیر
چھوٹی سی جوں کو دیکھنے کیلئے جب سارے سر جوڑ کر اورآنکھیں پھاڑ کر زمین کو
دیکھنے لگے تو میں نے آرام سے کسی کو محسوس ہوئے بغیر پھونک ما ردی.اور پھر
جوں جوں نہ رہی. جب زمین پر کچھ نہیں ملا تو پھر سب اس دوست کو تنگ کرنے
لگے کہ ایسے ہی چیخیں مارتے ہو . خیر باتیں کہیں اورنکل گئیں.گنجا ہونے کا
ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی خاتون کو دیکھ کر بالوں پر ہاتھ پھیرنے کا
موقع نہیں ملتا.کبھی کبھار اگر کوئی تنگ کرے تو آپ آسانی سے کہہ سکتے ہیں
کہ دیکھ لو"ہمارا اپنا شٹائل"ہیں اور لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ کتنا بڑا
بندہ ہے کہ شٹائل کیلئے بالوں کی قربانی دی.
لیکن کبھی کبھی آپ کو ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ پھر بلڈ پریشرہائی ہو
جاتا ہے. یعنی جب کوئی بچہ آپ کو گنجا کہہ کر پکار دے یا پھر ٹنڈا ماما جی
کہہ کر بلالے.ایسا اتفاق بھی گذشتہ روز ہی ہوا ۔دفتر سے چھٹی ہونے کے بعد
گھر کیلئے سودا سلف خرید لیا تھا اور پیدل جارہا تھا کرونا کی وجہ سے منہ
پر ماسک بھی لگایا تھا کہ گلی میں ایک بچے نے آواز ماری گنجے ماما دے ..یہ
سن کر دماغ تو کیا بلڈ پریشر بھی ٹاپ پر پہنچ گیا لیکن جب پیچھے مڑ کر اس
کو دیکھا تو ایک بزرگ شخص چھوٹے بچے کو غصہ کررہا تھا کہ ایسے مت پکارا
کرو. اور بچہ بھی معذرت خواہ نظر آرہا تھا تاہم اسی وقت ذہن میں آیا کہ
ویسے بھی گنجے تو ہم ہیں اس میں اتنا برا ماننے کی بات ہی کیا ہے سو پھر
غصہ ہی ختم ہوگیا .
جبکہ اس کے مقابلے میں جو لوگ پیدائشی فارغ البال ہیں وہ عجیب سی احساس
کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ جو پیدائشی گنجا ہوگا
اس کے پاس بال ٹھیک کرنے کیلئے لازمی کنگھا ہوگا .جبکہ وہ بھی بالوں پر
اتنی توجہ دے گا جتنا کوئی اور نہیں دیتا.
|