کرونا۔وائرس ایک خوف کا نام بن گیا ہے ایک نفسیاتی ہزیان
بن گیا ہے اقوام عالم کے لیے
بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ خدا سے اگر سچی محبت ہو تو مرنے میں بھی مزا آتا ہے ۔
اس ایک رب کا سچا خوف دل میں ہو تو انسان مؤت سے بھی نہیں ڈرتا۔
پھر ایسی بیماری جس سے کل انسانوں کا ایک فیصد بھی متاثر نا ہوا ہو اس سے
ڈرنے کا کیا تک؟؟؟ وہ اللہ تو چاہے تو سانپ کے زہر میں بھی شفا رکھ دے اور
چاہے تو انگور سے ہزیان ذہین پیدا کردے۔ بات صرف توکل کی ہے ۔ جس اللہ نے
نوح کی کشتی پار لگائی یونس علیہ سلام کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا یعقوب
علیہ سلام کو اسی سال ایک اذیت ناک تکلیف میں مبتلاء رکھ کر شفا دے دی وہ
اللہ چاہے تو دو دنوں میں اس موذی مرض کا نسخہ کیمیا ء اپنے نائب کو تفویض
کر دے ۔ اس لیے خوف سے دور رہنا اور توکل علی اللہ ہی اس وقت سب سے بڑا
ہتھیار ہے۔
جہاں خدا نے بم دھماکوں سے بچایا جہازوں کے حادثات سے محفوظ رکھا ملیریا
ڈینگی پلیگ کینسر اور دیگر موذی امراض سے اپنے حفظ و امان میں رکھا وہاں اس
ایک مائکو ارگنزم کی کیا اوقات؟؟
خدارا خود ساختہ علاج معالجے اور ٹونے ٹوٹکے بنا کر تشہیر کرنے سے پرہیز
کریں ۔ ادھر یہ وباء پھیلی نہیں ادھر پوری قوم حکیموں عاملوں اوص
جعلی۔سائنسدانوں میں تبدیل ہو گئی۔ کوئی تحقیق کی۔نہیں بس واٹس ایپ اٹھایا
اور اپنی مرضی کا نسخہ ریکارڈ کر ڈالا اور لیجئے آپ ایک دانشمند ذہین و
فطین ڈاکٹر بن گئے۔ آئینسٹائن , پاسچر , جابر بن حیان اور ارسطو بھی آپ سے
قبر میں سے آکر آٹو گراف لیں گے ۔ اور حکیم لقمان تو شاید آپ کے ہی شاگرد
تھے؟؟
میری حکومت سے گذارش ہو گی کہ جعلی آگاہی مہم چلانے والوں کے خلاف اقدامات
کرے۔ اور عوام سے بھی کہ غلط افواہیں اور اطلاعات پہنچا کر سادہ لوح لوگوں
میں خوف و حراس نا پھیلائیں ۔اسی طرح میڈیا کو بھی سنسنی خیزی سے روکا جائے۔
اور والدین سے گزارش کروں گی کہ مصدقہ ذرائع سے ملنے والی ہدایات پرعمل
کریں
جیسے بچوں کو ہاتھ صابن سے دھونے کی ترغیب اور گلہ خشک نا رکھنا اور قوت
مدافعت میں اضافے کے لیے صحت مند خوراک کھلانا وغیرہ۔
اللھم اشف مرضانا و ارحم لنا |