اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمانی سربراہوں کا
ویڈیو لنک اجلاس 25مارچ کو منعقدکیا جس میں مسلم لیگ نون کے صدر، قائد حزب
اختلاف میاں شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری بھی
شریک تھے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے ویڈیولنک کے ذریعہ
پارلیمانی رہنماؤں سے خطاب کیا۔ کیوں کہ یہ اجلاس ملک میں کورونا وائرس کے
حوالے سے ہی بلایا گیا تھا اس وجہ سے وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس
سے نمبرد آزماہونے کے اقدامات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے
کورونا وائرس پر پہلا اجلاس 15جنوری کو طلب کیا تھا، اس وقت کورونا وائرس
صرف چین میں شروع ہوا تھا۔ انہوں نے پاکستانی طلبہ کو چین سے واپس نہ لانے
کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی، پھر ایران سے زائرین کے پاکستان آنے اور اس
کی تفصیل اپنی تقریر میں بیان کی۔ انہوں نے تافتان کی صورت حال، وہاں سے
زائرین کے پاکستان آنے، انہیں 700میٹر دور تافتان میں ٹہرانے، سہولتوں کے
فقدان اور اس کے نتیجے میں 153زائرین کو کورونا وائرس ہوجانے کی تفصیل سے
پارلیمانی لیڈران کو آگاہ کیا۔حکومت کیا اقدامات کرچکی ہے، کیا کرنے کا
ارادہ رکھتی ہے اس کی تفصیل بھی بتائی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت
پارلیمانی جماعتوں کی تجاویز اور آرا بھی لے گی اور ان کے ساتھ رابطے میں
رہے گی۔یہ تمام باتیں مثبت تھیں۔ ایک طرح سے پارلیمانی جماعتوں کے لیڈروں
کو اعتماد میں لینے کے مترادف بھی۔ ایسا ہونا چاہیے تھا۔
عمران خان صاحب کی تقریر تمام اراکین نے اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر توجہ سے
سنیں۔ اس کے بعد دیگر اراکین کو جن میں میاں شہبا شریف اور بلاول بھٹو بھی
شامل تھے انہیں بھی تقاریر کرنا تھیں۔ شہباز شریف صاحب نے اپنی تقریر شروع
کی، انہیں جب یہ علم ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان تقریر کرنے کے بعد آف لائن
ہوگئے ہیں۔ ان کا پارہ ہائی ہوگیا اور وہ احتجاج کرتے ہوئے وہ اٹھ کر چلے
گئے، بلاول بھٹو نے بھی جب یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے بھی شہباز شریف
صاحب کی پیروی میں واک آؤٹ کیا اور وہ بھی آف لائن ہوگئے۔ شہباز شریف کا
کہنا تھا کہ”عمران خان اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار، ملک کے سربراہ کی
سنجیدگی کا یہ لیول ہے، ایسی صورتحال میں اجلاس میں بیٹھنا مناسب نہیں، واک
آوٹ کرتے ہیں، اتنی بڑی وبا ء نے پاکستان کو متاثر کیا ہے اور یہ سنجیدگی
ہے، ہم یہاں سیاست کرنے تو نہیں آئے، یہ سوچنے بیٹھے ہیں کہ مل کر قوم کو
کیسے بچائیں، آج یہ بات کرنے آئے تھے کہ کیسے اس وباء پر قابو پائیں، کس
طرح قوم کے مسیحا بنیں اور دکھی انسانیت کے سر پر ہاتھ رکھیں، معذرت خواہ
ہوں لیکن وزیراعظم کے اس رویہ پر اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتا“۔ شہباز شریف کے
ان جملوں کے بعد بلاول بھٹو بھی اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
یہ ہے ہماری سیاست اور ہمارے سیاست دان، عدم برداشت، حالات چاہے جیسے بھی
ہو ں، قوم جس مشکل اور جس پریشانی میں ہو، سیاست دان ہر صورت سیاست دان ہی
رہتا ہے۔ عمران خان صاحب اس وقت بلند مرتبے پر ہیں، ان کی ذمہ داریاں زیادہ
ہیں، اگر وہ اپنی بات کر نے کے بعد کچھ دیر موجود رہتے اور ان دونوں کی
باتیں بھی سن لیتے تو قوم کو ایک مثبت پیغام جاتا، وزیر اعظم نے عدم برداشت
کا ثبوت دیا، شہبازشریف جس اجلت میں پاکستان آئے وہ سب کے سامنے ہے۔ وہ
واقعی قوم کا درد اور قوم کو مشکل سے نکالنے کا عزم لے کر پاکستا آئے ہوں
گے، حکومت میں نہ سہی قائد حزب اختلاف تو ہیں، یہ عہدہ اتنا ہی اہم ہوتا
جتنا وزیر اعظم کا،حزب اختلاف کو مستقبل کی حکومت کہا جاتا ہے۔ انہوں نے
بھی اس بات کو فوقیت دی کہ وزیر اعظم کیوں اٹھ کر گئے انہوں نے ان کی بات
اسی جگہ بیٹھے بیٹھے کیوں نہیں سنی، شہباز شریف صاحب آپ کو توپاکستانیوں سے
خطاب کرنا تھا، اس کا دکھ درد بانٹنا تھا، اسے تسلی و تشفی دینا تھی، عمران
خان بیٹھے رہتے تو کیا فرق پڑھ جانا تھا، کیا وہ آپ کے کہنے پر عمل کریں
گے،آپ کی باتوں کو اہمیت دیں گے، یہ کیسے ممکن ہے۔وہ حکمراں ہیں، آپ کی
جماعت کو جو گزشتہ چالیس سال سے حکمرانی میں تھی انہوں نے آپ کی حکمرانی
ختم کی، آپ جیلو ں میں رہے، پورا خاندان ملک سے باہر، میاں نواز شریف صاحب
اللہ انہیں صحت دے، علاج کی غرض سے لندن، آپ کے خاندان کا ہرشخص باہر جانے
کی فکر میں ہے، اگر آپ اپنی بات اس وقت کہہ دیتے تو پوری قوم آپ کو سن
لیتی۔ جہاں تک بلاول بھٹو کا تعلق ہے انہوں نے شہباز کی پیروی کی، جذبات
میں، غصہ میں آکر انہوں نے بھی واک آؤٹ کردیا، حالانکہ کچھ عرصہ سے بلاول
بھٹو حکومت اور عمران خان کے بارے میں مثبت بیانات دے رہے تھے۔ دو روز قبل
ہی انہوں نے عمران خان کو اپناوزیر اعظم کہا،مل کر کورونا کو سکست دینے کی
مثبت باتیں کیں، بلاول پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے کے حکمران بھی ہیں، بلاول
کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، اچھی روایت قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت
قوم پر مشکل وقت ہے، حالات بہت خراب ہیں، آئندہ حالات کیا رخ اختیار کرتے
ہیں اس کا بھی کسی کو علم نہیں، لاک ڈاؤن کرفیو کی شکل اختیار کرلیتا ہے
نہیں معلوم، اللہ نہ کرے یہ نوبت آئے، لاک ڈاؤن کتنے عرصہ رہے گا، کورونا
وائرس کے پھیلاؤ کی کیا صورت ہوگی، کچھ یقین سے کہا نہیں جاسکتا۔ ہر شخص کو
جو جہاں ہیں، جس حیثیت میں ہے برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ٹی وی پر گفتگو
میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو سوچنا ہوگا کہ
اگر زندگی رہے گی تو سیاست ہوگی، اس وقت تو زندگی ہی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
سیاست کے لیے پوری زندگی پڑی ہے۔ یاد رکھیے پاکستان کی موجودہ صورت حا ل کے
پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مستقبل میں سیاست کے میدان کے کھلاڑی، نواز
خاندان، بھٹو زرداری خاندان کے بچے اور عمران خان ہی ہوں گے۔ یہ وقت سیاست
کرنے کا ہر گز نہیں۔ اللہ ہمارے سیاست دانوں کو ملک و قوم کی خدمت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے، آمین۔
پاکستان میں کورونا کے پھیلنے، اموات اور صحب یاب ہونے والے کے اعداد و
شمار یہ بتا رہے ہیں کہ کرونا کا پھیلاؤ اس تیزی سے نہیں ہورہا جیسے سندھ
میں کرونا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد 421ہے، اموات میں صرف ایک ہوئی اور ایک
ہی چلی آرہی ہے، یعنی کے سندھ میں کرونا کنٹرول ہے، پنجاب میں تعداد میں
اضافہ ہوا متاثرہ افراد کی تعداد405ہوگئی جب کہ 3اموات ریکارڈ ہوئیں، خیبر
پختونخواہ میں متاثرین کی تعداد 123ہے یہاں بھی 3اموات ہوئیں، بلوچستان میں
متاثرین کی تعداد131اور اموات1ہے،اسلام آباد میں متاثرین کی تعداد25اور
اموات کوئی نہیں،گلگت بلتستان میں متاثرین کی تعداد 91اور اموات1ہے اس طرح
پورے ملک میں کورونا سے متاثرین کی تعداد 1198ہے، صحت یاب ہونے والے افراد
کی تعداد 24جب کہ کل اموات9ہیں۔ ان اعداد و شمار اور سابقہ دنوں کے اعداد و
شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت کورونا وائرس سے
بچاؤ کے لیے جو اقدامات کررہی ہیں ان کے نتیجے میں صورت حال بہتری کی جانب
مائل ہے لیکن ابھی اور زیادہ بہتر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ احتیاط، علاج،
دعائیں، نماز، اللہ سے توبہ اور دعاؤں کا سلسلہ عقیدت و احترام سے جاری ہے،
اللہ اپنا کرم فرمائے۔27مارچ2020ء)
|