کرونا وائرس ،لاک ڈاؤن اور اسلامی احکام

 کرونا وائرس جان لیو اوبائی بیماریوں میں ایک خطرناک بیماری ہے جو اس وقت عالمی وبا بن چکی ہے ۔کرونا وائرس اﷲ جل شانہ کے غیبی لشکروں میں سے ایک لشکر ہے جیسے قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے ’’وجنودا لم تروھا‘‘ایسے لشکر جن کو تم دیکھ نہیں سکتے ،کرونادنیا کے ترقی یافتہ ملکوں ااور ان کی سائنسی تھیوری اور ٹیکنالوجی کو گھٹنے ٹیک کر آسمان کی طرف دیکھنے پر مجبور کر چکا ہے ۔ پوری دنیا کی معیشت کے جنات کو بوتل میں بند کرکے جام کر دیاہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکوں ،شہروں کی سڑکوں سے لے کر دیہات کی گلیاں تک ویران اور سنسان ہوچکی ہیں۔ہزاروں افراد کولقمہ اجل بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں۔کروناتعلیمی درسگاہوں کو خالی کرنے کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین کی عبادتوں کو محدود کر چکا ہے۔ چین سے شروع ہو کراٹلی ،ایران،بھارت،امریکہ جیسے 196ملکوں کو متاثر کرتے ہوئے پاکستان میں اپنی جڑیں راسخ کر کے لاک ڈاؤن کا ماحول بنوا چکا ہے۔اس موقع پر ایسے جملوں سے پرہیز کیا جائے جیسے آج کل ٹی وی چینلز پر چلایا جارہا ہے جسے سن کر دل کانپ جاتا ہے کہ ہمیں اس بیماری سے لڑنا یا مقابلہ کرنا ہے جب ساری دنیا وسائل کے باوجو د ہار مان گئی تو ہم جو وسائل کی محرومی کا ہر وقت رونا رو رہے ہیں کس منہ سے کہہ رہے کہ ہم یہ جنگ جیت کر رہیں گے ۔ایسے موقع پر اﷲ رب العزت کے سامنے عاجزی اور مسکنت اختیار کی جائے اور اپنی کمزوری کا اعتراف کرکے عافیت طلب کی جائے۔ اس وائرس سے بچنے کے لئے جتنی احتیاطی اور حفاظتی تدابیر حکومت اور محکمہ صحت کے ماہرین بتا رہے ہیں ان پر ان کی روح کے مطابق عمل کرناہمارا قانونی اور ایمانی فرض ہے۔ قرآنی حکم ہے’’ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو‘‘ اورفرمایا ’’جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کو زندہ رہنے کا موقع دیا اس نے گویا ساری انسانیت کو زندہ رکھا‘‘کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری سے بچنے کے لئے پوری دنیا کے ماہرین صحت اور علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس بیماری سے اپنے آپ اور دوسروں کو بچانے کا سب سے بڑا سبب سماجی رابطے معطل و موخر کرنا ہے اسی لیے ہماری حکومت اور فوجی اداروں نے لاک ڈاؤن کی صورت میں سب کو گھروں میں بیٹھنے کا حکم نامہ اور ہدایات جاری کیں ،وقتا فوقتا اپنے ہاتھوں کو صابن کے ساتھ تقریبا 20سیکنڈتک دھونا،خصوصا دوسرے سے ہاتھ ملانے کے بعداور اگر مستقل باوضو رہیں تو ہر قسم کی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے،اگر آپ کو کسی قسم کی الرجی ہے تو اپنی ذاتی جائے نماز مسجد لائیں، ،بیمار زدہ آدمی یا اس کے قریب رہنے والے یا بیمار ہونے کے خدشہ کے پیش نظر ماسک کا استعمال کرنا،گھر سے وضو کر کے مسجد آنا،سنتیں اور نوافل گھر میں ادا کرنا،فرض نماز مسجد میں ادا کر کے کم سے کم لوگوں سے ملاقات کرکے گھر آجانا،ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملنے او رہاتھ ملانے سے گریز کرنا، چھینکتے وقت ناک اور منہ کو رومال یایابازو یا ٹشو سے ڈھانپ لیں پھر ٹشو کو محفوط طریقے سے تلف کردیں، یہ سب اور اس جیسی دوسری احتیاطی تدابیر اسباب کے درجے میں اختیار کرنااور ان کی پابندی کرنا اشد ضروری ہے ورنہ خدانخواستہ ایسی تباہی اور کثر ت اموات ہو سکتی ہیں جو اٹلی ،پیرس اور ایران میں ہورہی ہیں (العیاذ باﷲ) جان لیوا وبائی امراض کیوں آتی ہیں؟جب حقوق اﷲ اور حقوق العباد میں کوتاہی کرکے اجتماعی طور پرکھلم کھلا گناہوں کی کثرت پر جرات و بہادری کی جاتی ہے۔تو اﷲ جل شانہ اپنے بندوں کو متنبہ کرنے کے لئے مختلف طریقوں میں سے کسی طریقے سے ڈرا کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں،انہی طریقوں میں سے ایک طریقہ جان لیوا وبائی امراض میں سے کسی مرض کا پھیل جانا بھی ہے۔ کرونا وائرس لوگوں کے سرعام گناہوں کی وجہ سے اور انہیں اﷲ پاک کی طرف متوجہ کرنے کے لئے پھیلا ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے’’لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ خشکی اور تری میں فساد پھیل پڑا اس لیے کہ اﷲ ان کو ان کے بعض عملوں کا مزا چکھائے تاکہ یہ لوگ رجوع کرنے لگیں‘‘ دوسری جگہ فرمایا’’تمہیں جو کوئی بھی مصیبت پہنچتی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور اﷲ تعالی بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے‘‘قرآن اور انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس دنیا میں طرح طرح کے حالات آتے جاتے رہے،بیماریاں اور وبائیں پھیلتی رہیں۔اﷲ رب العزت کی طرف سے عذاب کی مختلف شکلیں ظاہر ہوتی رہیں،مختلف قوموں اور قبیلوں پر مختلف شکلوں میں عذاب نازل ہوتے رہے،ایسے میں تمام انبیاء کرام ،علماء کرام ،مشائخ عظام نے ہمیشہ لوگوں کواﷲ پاک کی طرف رجوع کا درس دیا ،اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کی تلقین کی۔قرآن پاک میں قوم یونس کا تذکرہ دوسری بستیوں اور قوموں کے لئے آئیڈیل کے طور پر کیا گیا جیسے فرمایاکہ کسی اور بستی نے ایسا کیوں نہیں کیا کہ وہ ایمان لے آتے ،اﷲ پاک سے گڑگڑا کر معافی مانگتے جیسے قوم یونس پر عذاب الہی کے آثار نظر آنے لگے ،گہرے سیاہ بادل چھا گئے ، تو ساری قوم نے جمع ہوکر اجتماعی توبہ واستغفار کی بالآخر اﷲ پاک کو منا لیا تو آیا ہو اعذاب اﷲ جل شانہ نے فورا ٹال دیا۔اب کروناوائرس عذاب ہے یا آزمائش؟ تو اس بارے میں عرض ہے کہ اگر کوئی مومن ایسے حالات میں اسلامی احکام کی رعایت رکھے گا تو اس کے لئے یہ آزمائش و امتحان ہے کیونکہ اﷲ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ’’اورہم تم کو ضرور آزمائیں گے کچھ خوف او ر بھوک اور مالوں ،جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے۔۔۔الخ بہرحال اس دنیا میں تکلیف و بیماری نیکو کار مومن پر بھی آتی ہے اور گناہ گار مومن و کافر پر بھی۔نیکو کار مومن کے لئے درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہے اور گناہ گارمومن کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ اور آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے دنیاوی پکڑ بھی ثابت ہوتی ہے تاکہ کافر اور گناہ گار مومن اﷲ تعالی کی طرف رجوع کریں۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ اﷲ تعالی نے قوم موسٰی کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کو طوفان،ٹڈیوں ،جوؤوں،مینڈکوں اورخون جیسے عذاب میں مبتلا کیا ۔۔اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے ’’اخذناہم بالباساء والضراء لعلھم یتضرعون۔ہم نے ان کوسختی اور مصیبت میں اس لیے گرفتار کیا تاکہ وہ گڑگڑائیں‘‘ایک اور جگہ فرمایا ’’پس اﷲ نے ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا ان کے برے اعمال کی وجہ سے‘‘اسی طرح ارشاد فرمایا’’ہم نے ان کو عذاب میں اس لیے مبتلا کیا تاکہ وہ رجوع کریں‘‘اﷲ رب العزت کی طرف لوٹ آئیں اس لیے بعض اوقات یہ بیماریاں ،پریشانیاں،مشکلات عذاب بن کر آتی ہیں اور بعض اوقات امتحان۔اب اس بات کا کیسے فیصلہ ہو گا کہ یہ کرونا عذاب ہے یا امتحان ؟ تو علماء اور مفسرین کرام نے بتایا ہے اگر کروناوائرس جیسے حالات میں ہمارا اﷲ کی طرف رجوع بڑھ گیا،بے نمازی سے نمازی بن گئے،گناہوں بالخصوص فحاشی وبے حیائی،جھوٹ اور سود خوری کو چھوڑ دیا،اﷲ پاک کے سامنے رونے گڑگڑانے لگ گئے تو یہ امتحان و رحمت خداوندی ہے ،جیسے کرونا وائرس سے ملتی جلتی بیماری طاعون کے بارے میں اماں عائشہ صدیقہؓنے سوال کیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ طاعون اﷲ کا عذاب تھا اﷲ جس پر چاہتا اس کو مسلط فرما دیتا پھر اﷲ نے اسے مومنوں کے لئے رحمت بنا دیاچنانچہ اب جو شخص طاعون زدہ علاقہ میں ہو اﷲ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے گھر میں بیٹھے یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ وہی بیماری اس کو پہنچے گی جو تقدیر میں لکھی ہوئی ہے تو اﷲ اسے شہید جتنا اجر عطا فرمائیں گے۔ (مسنداحمد)جولاک ڈاؤن کیا گیا ہے وہ بھی تمام لوگوں کوگھروں میں بٹھانے کے لئے کیا گیااس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے لہذا ہمیں سرکاری حکم کی پوری پوری رعایت کرنی چاہیے اور لاک ڈاؤن کے عرصے میں گھروں میں ثواب اور صبر کے ساتھ بیٹھنے کو یقینی بنانا چاہیے اگر اس حالت میں خدانخواستہ اس بیماری کا کوئی شکا ر ہوبھی گیاتوسب گناہوں کی مغفرت و شہادت کا درجہ پاکر جنت کے عالی درجات حاصل کرلے گااور اگر ایسے وقت میں بھی غفلت اور گناہ کی زندگی سے باز نہ آیا ،اجتماعی توبہ و استغفار،آہ زاری ،گڑگرانے کی بجائے کرونا کے لطیفے اور مسخرے بنائے،شکوہ شکایت ،جزع فزع ،بے صبری کی،حرام کو چھوڑ کر حلال پہ نہ آیا اور کفر و شرک کو چھوڑ کر ایمان وتوحید پہ نہ آیا تو اس کے لیے کرونا عذاب الہی ہے۔جو عذاب فرائجض چھوڑنے کی وجہ آئے وہ صرف وظائف پڑھنے سے نہیں دور ہو گا ،وظائف کے ساتھ ساتھ فرائض کی پابندی ،مسنون دعاؤں کا اہتمام ،قرآن پاک سے بال ڈھونڈنے کی بجائے ہدایت ڈھونڈنے اور تلاوت و استغفار اور آیت کریمہ ’’لاالہ الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین ‘‘ کو کثرت کے ساتھ پڑھنے اور اھتیاطی تدابیر پوری پابندی کے ساتھ اختیار کرنے سے اس امتحان وعذاب سے جلد چھٹکارا نصیب ہو گا۔

واضح رہے وبائی امراض میں احتیاطی تدبیرتوکل کے خلاف نہیں بلکہ توکل اور تقدیر کے عقیدہ کے عین مطابق ہے جیسے موحد اعظم ﷺ نے حکم دیا ’’اونٹ باندھ کر توکل کرو‘‘خود سرور کائنات ﷺ نے دشمن سے حفاظت کے لیے مدینہ کے اطراف میں چھ میل لمبی خندق تیار کی اور جنگوں میں ذرع،لوہے کی ٹوپی کے استعمال کو توکل اور تقدیر کے خلاف نہ سمجھا۔جیسے آج کل کئی جذباتی حضرات احتیاطی تدابیر کی جان بوجھ کر دھجیاں اڑا کر کہتے ہیں ،اﷲ خیر کریسی‘‘ اس میں کوئی شک نہیں اﷲ ہی خیر کرے گا لیکن اپنے حبیب ﷺکے طریقے پر خیر کرے گا۔واضح رہے کہ اس دنیا میں اﷲ نے بہت سی چیزوں کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، لیکن حقیقت میں سارے اسباب اپنا اثر دکھانے میں اﷲ کے حکم کے پابند ہیں؛ لہذا نبی کریمﷺ نے دو مختلف موقعوں پر ایسا عمل کیا جس سے یہ دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ ایک مرتبہ نبی کریمﷺکے پاس ایک مجذوم (جذام کی بیماری والا شخص، جس بیماری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ پھیلتی ہے) آیا تو آپﷺ نے اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار آدمی سے یقینی طور پر بیماری لگ جانے کا اعتقاد درست نہیں ہے۔ دوسرے موقع پر ایک مجذوم آپﷺ سے بیعت ہونے کے لیے آیا تو نبی کریمﷺ نے ہاتھ ملائے بغیر ہی اسے بیعت کرلیا، بلکہ اسے دور سے ہی پیغام بھجوادیا کہ ہم نے تمہیں بیعت کرلیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط کے درجہ میں بیماری کے ظاہری اسباب سے بچناجائز ہے۔جیسے اگر کسی علاقے میں کوئی وبا (مثلاً طاعون وغیرہ) پھیل جائے تو اس حوالے سے مختلف کتبِ حدیث میں روایات منقول ہیں کہ جس جگہ طاعون کا مرض پھیل جائے وہاں جانے سے رسول اﷲ ﷺ نے منع فرمایا، اور جہاں آدمی موجود ہو، اور وہاں طاعون کا مرض پھیل جائے تو ڈر کر وہاں سے بھاگنے سے منع فرمایا۔ (بخاری شریف) اس کی وضاحت کرتے ہوئے علماءِ کرام نے مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں:
1- جہاں طاعون پھیلا ہو، وہاں جانے کی صورت میں وبائی مرض کے حوالے سے اﷲ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے گویا جرأت کا اظہار ہے، اور جہاں موجود ہو وہاں سے بھاگنا گویا تقدیر سے بھاگنا ہے جس کاکوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے یہ دونوں کام درست نہیں۔

2- سبب کے درجے میں اگر وبا زدہ علاقے میں جاکر بیماری لگ گئی یا موت آگئی تو لوگ یہ خیال کریں گے کہ یہ وبا کی وجہ سے مرا ہے، حالانکہ اس کی موت کا وقت متعین تھا، اور وبا میں مبتلا شخص اس علاقے سے نکلا اور اس کی بیماری سبب کے درجے میں دوسرے علاقے کے کسی شخص کو لگ گئی جاہلیتِ اولیٰ کا یہ عقیدہ دوبارہ ذہنوں میں جگہ پکڑے گا کہ بیماریاں ذاتی طور پر متعدی ہوتی ہیں، حالانکہ یہ سب اﷲ کے حکم سے ہوتاہے، ورنہ پہلے شخص کو بیماری کس سے متعدی ہوکر لگی؟!بہرحال اس ممانعت کا حاصل یہ ہے کہ جب کوئی اس وبا سے بھاگنا چاہتا ہو تو یہ منع ہے، لیکن اگر کسی ضرورت کی وجہ سے وبا زدہ علاقے کے رہائشی کو باہر جانا ہو اور اس کا یقین پختہ ہو کہ موت زندگی اﷲ پاک کے ہاتھ میں ہے، وہ کسی جگہ بھی بیماری اور وبا میں مبتلا کرسکتا ہے تو بوجہ ضرورت ایسے علاقے سے جاسکتے ہیں، اسی طرح وبا زدہ علاقے میں اگر کسی کو کام ہو (مثلاً ڈاکٹرز اور میڈیکل ٹیمیں یا دیگر رضاکار خدمت کے لیے جائیں) اور اﷲ کی ذات پر پختہ یقین ہو کہ بیماری موت دینے والے اﷲ ہیں، تو اختیاری تدابیر استعمال کرتے ہوئے وبا زدہ علاقے میں جاسکتے ہیں۔ جس شہر میں کرونا وائرس (وباء) پھیل جائے، وہاں کے باشندوں پر اس کا شرعی اثر؟اگر کسی شہر میں کرونا وائرس پھیل جائے(العیاذ باﷲ) تو جو لوگ اس میں مبتلا ہوجائیں، وہ تو شرعاً مریض کے حکم میں ہیں، البتہ جو کرونا وائرس میں یقینی طور پر مبتلا نہ ہوں اور نہ ہی ان کے گھر میں یا محلے میں اس قدر وبا پھیلی ہو جس سے ان کو بھی وبا میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوجانے کا خوف ہوجائے،تو ایسے لوگ مریض نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے لیے مریضوں والی بیان کردہ رخصتیں ہیں، بلکہ ایسے لوگ صحت مند لوگ ہیں۔ کروناوائرس کے مریض کو بھی مسجد میں نماز نہ پڑھنے کے سلسلے میں معذور سمجھا جاسکتا ہے۔کفایت المفتی میں ہے:۔۔ان صورتوں میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخول مسجد اور شرکت جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلہ اور مسجد غیر محلہ کا فرق نہیں ہے، محلہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے تو غیر محلہ کی مسجد سے بالاولی روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوف تلویث مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے''۔ (ج۳ / ص ۸۳۱، دار الاشاعت)تاہم جس محلہ میں کرونا وائرس کی وبا عام نہ ہو تو کرونا وائرس کے ڈر سے جماعت کی نماز ترک کردینا شرعی عذر نہیں ہے، بلکہ توہم پرستی ہے جو کہ ممنوع ہے۔ اور جس محلہ اور شہرمیں کروا وائرس کی وبا عام ہوجائے تو اس محلہ اور شہرکے لوگوں کے لیے مسجد میں نماز نہ پڑھنے کی رخصت تو ہوگی، البتہ اس محلے کے چند لوگوں کو پھر بھی مسجد میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کرنا ہوگا اور اگر مسجد میں باجماعت نماز پورے محلے والوں نے ترک کردی تو پورا محلہ گناہ گار ہوگا؛ کیوں کہ مسجد کو اس کے اعمال سے آباد رکھنا فرضِ کفایہ ہے۔

اسلام میں سب سے پہلے پھیلنے والی عمومی وباء حضرت عمرؓ کے زمانے میں تھی جس کو ''طاعونِ عمواس'' کہا جاتا ہے۔ اس طاعون میں جہاں عمومی اَموات ہوئیں، وہیں شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ بھی اس میں شہید ہوگئے۔ ان کی وفات کے اگلے گورنر حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ نے سب سے پہلی نصیحت جو لوگوں کو کی، وہ سچی توبہ کی نصیحت تھی، اس کے بعد لوگوں کے حقوق کی طرف متوجہ کرتے ہوئے قرض خواہ کو قرض ادا کرنے کا حکم دیا، اور قطع تعلقی کرنے والوں کو اپنے بھائیوں سے صلہ رحمی کی تلقین کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وباء دور کرنے میں معاملات و معاشرتی اعمال کی اصلاح کو بہت بڑا دخل ہے۔چنانچہ مسجدوں کو ان کے اعمال سے آباد رکھنا، معاملات و معاشرتی اعمال کی اصلاح کرنا، انفرادی و اجتماعی طور پر رجوع الی اﷲ کرنے کے ساتھ ساتھ اطباء کی ان تدابیر کو بھی اختیار کرنا چاہیے جن کی وجہ سے کوئی شرعی قباحت لازم نہ آتی ہو۔اگر حکومت کی جانب سے باجماعت نمازوں پر پابندی لگادی جائے تو ایک طرف یہ کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ انہیں اسلامی اَحکام کے بارے میں آگاہ کریں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ پابندی ہٹادیں۔ اور جب تک پابندی رہے تو خوفِ ظلم کی وجہ سے اور حرج کی نفی کے پیشِ نظر مسجد کی نماز چھوٹ جانے کا عذر معتبر ہے۔ ایسی صورت میں کوشش کرے کہ گھر پر ہی باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔ جس کی ترتیب یوں بنا لے کہ اگرصرف باپ بیٹا ہیں تو بیٹادائیں جانب ہٹ کر ایک قدم پیچھے کھڑا ہواور اگر کوئی دوسرا مرد یا بچہ بھی ہو تو پیچھے صف میں دونوں کھڑے ہوں ،صرف میاں بیوی ہوں تو بیوی پیچھے کھڑی ہو،اگر صرف بیوی اور بیٹا مقتدی ہوں تو بیٹا دائیں طرف تھوڑا پیچھے کھڑا ہو اور بیوی پیچھے صف میں کھڑی ہو،اگر دو بچے ہوں تو دونوں کے پیچھے صف میں کھڑا کردیں اور بیوی کو بچوں والی صف سے پچھلی صف میں اور اگر بچے بچیاں اور بیوی مقتدی ہو تو ایک سے زائد بچوں کو پچھلی صف میں اور بیوی اور بچیوں کو بچوں و الی صف سے پچھلی صف میں کھڑا کر کے جماعت کی ترتیب بنائیں۔گھروں میں جماعت کی مذکورہ ترتیب تب بنائی جائے گی جب خدانخواستہ حکومت مسجدوں کی جماعت پر پابندی لگا دیگی یا کوئی اور ایسا عذر لاحق ہو جس کی وجہ سے مسجد کی جماعت میں شریک نہ ہوسکے۔اﷲ پاک اس وائرس کو پورے عالم انسانیت سے رفع فرما دے۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 21 Articles with 20388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.