کوروناوائرس۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملہ کو خراج تحسین ( قسط۔9)

انسانی صحت کی کوئی بھی مشکل ہو، اللہ کے بعد ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے۔ اگر نوبت بیماری سے اسپتال تک پہنچ جائے تو ڈاکٹر کے علاوہ نرسیزاور پیرا میڈیکل عملہ مریض کی مسیحائی اپنے اپنے کام کے مطابق کرتا ہے۔ گزری کل 27مارچ کو پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا اور اس سے نمٹنے کے لیے وطن عزیزکے ڈاکٹرز، نرسیزاور پیرا میڈیکل عملہ جو فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے، اپنی جانوں کو مشکل میں ڈالتے ہوئے کورونا وائرس میں مبتلا لوگوں کے علاج میں رات دن مصروف عمل ہیں کو پوری قوم نے خراج تحسین پیش کیا۔ ان کی خدمات کو سراہاگیا، شام 6بجے اپنے اپنے گھروں پر سفید جھنڈے لہرا کر زندہ دلان طب کو ان کی بے مثال خدمات کوسراہا اور انہیں سلام پیش کیا۔گلوکار اور ایک سیاسی جماعت کے سربراہ جواد احمد نے ایک گیت کورونا سے لڑنے والے ان بہادر سپاہیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے گایا۔
”تم مسیحا ہو اس قوم کے
ہمیں تم سے پیار ہے“

جس طرح جنگ کی صورت میں مصلح افواج وطن عزیز کی حفاظت اور دشمن سے مقابلہ کے لیے سرحدوں پر برسر پیکار ہوتی ہیں اور ہم سب اپنے اپنے گھروں میں دعائیں ہی کر رہے ہوتے ہیں، یعنی ہماری فوج میدان جنگ میں فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں، اسی طرح ایسی بیماری یا وبا جو ملکی سطح تک پھیل جائے اس صورت میں بیمارہوجانے والوں کے علاج معالجہ کرنے والے فرنٹ لائن پر معمور ڈاکٹرز، نرسیز اور پیرا میڈیکل عملہ ہی ہوتا ہے۔وہ اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بلاتفریق مریضوں کے علاج میں رات دن مصروف عمل رہتے ہیں۔گلگت بلتستان کے ایک جواں سال ڈاکٹر اسامہ ریاض نے کورونا کے مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے، خود اس وائرس کا شکار ہوا اور اپنی جان مالک ذوالجلال کے سپرد کر کے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا۔

ڈاکٹر اسامہ ریاض کے ایثار، قربانی اور خدمات کو پاکستان کے معروف شاعر انور شعور نے ایک قطعہ میں اس طرح خراج تحسین پیش کیا۔انور شعور کا یہ قطعہ روزنامہ جنگ میں 24مارچ کو شائع ہوا۔
کرے ایثار اسامہ کی طرح کوئی
تو اُس پر کیوں نہ ہو انسان قربان
بچانے کے لیے اوروں کی جانیں
جو کر ڈالے خود اپنی جان قربان

ڈاکٹر اوسامہ ریاض ہی نہیں، کئی ڈاکٹر، نرسیز اور پیرا میڈیکل عملہ اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس مشکل سے نکلنے کی ہمت، طاقت اور حوصلہ عطا فرمائے۔ فیس بک پر ڈاکٹر اسامہ کی شہادت پر اسرار اکبر نے شیخ الحدیث مولانا زاہدالرشید کا ایک پیغام جو انہوں نے موجودہ حالات میں سیاست دانوں کی باہمی لفظی گولاباری کے حوالے سے نقل کیا ہوگا، وہ لکھتے ہیں کہ ”ایک کہا وت ہے کہ کوئی شخص نہر میں ڈوبتے ہوئے مدد کے لیے چیخ چلارہا تھا۔ کنارے پر جاتے ہوئے ایک صاحب نے اسے ملامت کرنا شروع کردیاکہا کہ اگر تیرنا نہیں جانتے تھے تو نہر کے قریب کیوں گئے تھے؟ اس نے آواز دی میرے بھائی پہلے مجھے ڈوبنے سے بچاؤ، پھر جتنا چاہے کوس لینا۔یہ وقت ایک دوسرے کو کوسنے اور طعنے دینے کا نہیں بلکہ مل جل کر بحران سے بخیریت نکلنے کے لیے محنت کرنے کا ہے“۔ یہ کہاوت ہمارے ملک کے سیاست دانوں پر پوری اترتی ہے جو اس مشکل ترین صورت حال میں بھی ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر ملک و قوم کی بھلائی کا سوچنے پر تیار نہیں۔ وہ اس بات پر گفتگو نہیں کرتے کہ ہمیں کورونا وائرس سے کس طرح مقابلا کرنا چاہیے بلکہ آپس کے اختلافات اور ماضی میں ہونے والے واقعات کو یاد کر کے ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ اللہ انہیں نیک ہدایت دے۔
یوں تو انسانیت کی خدمت کے متعدد شعبے موجود ہیں۔ ان میں بھوکوں کو کھانا کھلانا، غریبوں کو رہنے کے لیے چھت فراہم کرنا، جس کے بدن پر کپڑے نہیں اسے کپڑے فراہم کردینا، معذوروں کی مدد کرنا،راہ چلتے نابیناؤں کو سڑک عبور کرنے میں مدد کرنا، کمزوروں پر ظلم کرنے والے طاقت وروں کو ایسا نہ کرنے کی ترغیب دینا، یتیموں، بیواؤں، مسکینوں کا خیال رکھنا، ضعیفوں کا خیال کرنا، مریض کی تیمار داری کرنالیکن کوئی بھی انسان جو کسی بھی مرض میں مبتلا ہوجائے تو نہ اس کی تیمار داری، اسے کھانا کھلانا، اس کا خیال رکھنا،اس صورت حال میں ہی ممکن ہے کہ وہ مریض ڈاکٹر کی مسیحاہی کے نتیجے میں زندہ بچ جائے۔ تمام شعبو ں سے اہم شعبہ طب کا ہے، جس میں انسان کی جان کا تحفظ ہوتا ہے۔ تیمار داری افضل قرار دی گئی لیکن مریض زندہ ہوگا تو تیمار داری ممکن ہوسکے گی، بھوکے کو کھانا تب ہی کھلایا جاسکے گا جب بھوکا زندہ ہوگا، اس لیے طب کے پیشے سے وابسطہ عملہ اس میں ڈاکٹرز، نرسیزو دیگر پیرا میڈیکل عملہ تمام پیشوں میں افضل اور اہم قرار پاتا ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے۔ اب یہ بتائیں کہ زندگی سے بڑھ کر کوئی اور نفع ہوسکتا ہے۔ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اصل علم دو ہی ہیں۔ فقہ: کہ زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم ہوا اور دوسرا طب: تاکہ جسم ِانسانی کی اصلاح پر قدرت ہوسکے۔

آزمائشیں انسانوں کی زندگی میں آتی رہی ہیں۔ ہر نبی پر آزمائشیں آئیں، ان کی اقوام کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا۔ جنہوں نے ان آزمائشوں کا مقابلہ اللہ اور اس کے نبی کے احکامات کے مطابق کیا وہ سرخ رو ہوئے جس قوم نے خلاف ورزی کی اس قوم کو اللہ نے مختلف طریقوں سے مشکل میں مبتلا کرکے نیست و نابود کردیا۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی اور موت کو لازم و ملزوم قراردیا یعنی ہر نفس کو موت کا مزاہ چکھنا ہے۔ حدیث نبوی ہے فرمایا ہمارے نبی ﷺ نے کہ کلونجی میں موت کے سوا تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار چیزوں کے فوائد اللہ نے خود بتادئے۔ ابتلا ء اور آزمائش دنیاوی زندگی میں اللہ نے لازمی رکھی ہے۔ ہر دور میں ہر نبی کے زمانے میں آفات آتی رہی ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین نبی مکرم حضرت محمد ﷺ تک سب ہی نے اپنی اپنی زندگی میں آزمائشوں کا سامنا کیا اور وہ کامیاب بھی ہوئے۔ ان آزمائشوں میں مادی اور روحانی دونوں طرح کی آزمائشیں شامل تھیں۔

ڈاکٹر ز، نرسیز اور پیرا میڈیکل عملہ جواس وقت ملک میں پھیلی کورونا وائرس میں مبتلا پاکستانیوں کو اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر محفوظ رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ان سب کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ دعا گو ہوں اللہ تمام مریضوں کو زندہ سلامت رکھے اور ان لوگوں کو جو کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج معالجہ میں پیش پیش ہیں اللہ انہیں سلامت رکھے۔ ڈاکٹر ز، نرسیز اور پیرا میڈیکل عملہ کا یہ عمل جس سے وہ اس وقت گزر رہے ہیں وہ لوگ زیادہ بہتر طور پر محسوس کرسکتے ہیں جن کے بچوں یا قریبی عزیزوں میں سے کوئی یہ کام سر انجام دے رہا ہوگا۔ اس وقت جب کہ میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں رات کا ایک بج رہا ہے میرا چھوٹا بیٹا ڈاکٹر نبیل کراچی کے ایک اسپتال میں نائٹ ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے۔ کراچی میں کرفیو تو نہیں لیکن سخت لاک ڈاؤن کی صورت ہے، خاص طور پر رات کے وقت9 بجے جب وہ گھر سے نکلتا ہے اورجب تک صبح واپس نہیں آجاتا اس کی ماں کی حالت سولی پر لٹکی ہوئی جیسی ہوتی ہے۔ میں بھی ظاہر نہیں کرتا اس لیے کہ مرد خواہ اس کی عمر کتنی ہی ہو وہ مردانگی کااظہار کرتا رہتا ہے، اندر ہی اندر پریشانی کے عالم میں ہوتاہوں، یہ کیفیت ایک رات چھوڑ کر دوسری رات ہورہی ہے اس لیے کہ رات کی ڈیوٹی کرنے والے آلٹر نیٹ نائٹ کرتے ہیں۔ رات ختم ہوتی ہے بیٹا توگھر آجاتا ہے، اطمینان ہوتا ہے۔ صبح ہوتی ہے تو ہماری بہو ڈاکٹر ثمرا اپنی ڈیوٹی ادا کرنے گھر سے نکل کھڑی ہوتی ہے۔ آجکل ڈرائیور بھی نہیں، وہ اپنی ایک دوست کے ساتھ جو کے اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر ہے، ڈراؤنگ کرتی ہے دونوں ساتھ جاتی اور چار بچے واپس آتی ہیں۔ رات کے بعد دوپہر چار بجے تک پریشانی میں وقت گزرتا ہے۔ میں خود تو سیلف قرنطین میں ہوں، اس کو ایک ہفتہ ہونے کو ہے۔ اپنے بچوں کی پریشانی کے ساتھ ساتھ اطمینان اوریہ سکون بھی ہے کہ میری اولاد انسانی زندگی بچانے کا ایسا فریضہ سر انجام دے رہی ہے جس کا کوئی نعمل البدل نہیں۔ میرے خاندان میں کئی بچے اس پیشے سے وابستہ ہیں اور اپنی اپن جگہ انسانی جان بچانے کے عمل میں مصروف کار ہیں۔ ان سب کو اس موقع پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں انسانیت کی خدمت کی بہترین سعادت نصیب فرمارہا ہے، اللہ انہیں محفوظ اور سلامت رکھے۔ (29مارچ2020ء)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277110 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More