شادی کی تیاریاں عروج پر،،،

+ج کل ہم نے شادی میں اتنی رسمیں بڑھا دی ہیں کہ جس سے غریب کیلئے شادی کرنا اور بچوں کی کروانا بہت مشکل ہو گیا ہے،،ہم نے بے وجہ کی رسمیں شامل کرکے اس سنت کو نہب مشکل بنا دیا ہے ۔ہمیں چاہیئے کہ ہم شادیوں کو سان کریں اور ان غیر ضروری رسموں پر پیسہ اور قوت ضائع کرنے سے بچیں

کبھی ایک وقت ہوا کرتا تھا جب خاندان کے بڑے بزرگ لڑکی کے گھر رشتہ طے کرنے جایا کرتے تھے اور صرف اس بنیاد پر کہ لڑکا پانچ وقت کا نمازی ہے ،شادی طہ کر دی جاتی تھی اور ایک متعین کردہ عمر میں رخصتی ہو جایا کرتی تھی ۔ نہ کوئی تحفے تحا ءف کا لین دین،نہ کوئی خاص دعوتوں کا سلسلہ ،نہ گانے باجے ،نہ اعلیٰ پائے کی سجاوٹیں ،نہ پیسے لٹا لٹا کر ضیاع کرنے کی رسم ،مہمانوں کی طرف سے نہ نئے کپڑوں کا اہتمام ،حتیٰ کہ لوگ ولیمے میں جانے کیلئے دوسروں کی اشیاپہن جایا کرتے تھے ۔ صرف چند افراد دلہن والوں کے گھر جایا کرتے تھے اور نکاح کے بعد شربت پی کر دلہن کو رخصت کر کے لے آیا کرتے تھے ۔ وہ وقت تھا جب ہر کوئی ان ہی رسموں کے ساتھ خوش تھا ۔ پھر اس کے بعد جہیز کی رسم نے جنم لیاجس سے غریبوں کیلئے دشواریاں پیدا ہوگئی اور دشوریاں بھی ایسی جو عذاب کی شکل اختیار کر گئی ۔ غریبوں کیلئے بیٹیوں کی شادی کرنا اتنا مشکل ہوگیا کہ وہ اس بعد پر پشتا نے لگے کہ ہمارے ہاں بیٹی ہی کیوں پیدا ہوئی ۔ دور جہالت میں جس طرح بیٹیوں کو عذاب تصور کیا جاتا تھا ،جہیز کی یہ رسم بیٹی کی ذات کو پھر سے اسی مقام پر لے آئی ۔ نئی سے نئی رس میں بنتی گئی اور مشکلات میں اضا فہ کرتی گئی ۔ شادیوں میں ناچ گانوں کا آ غاز ہو گیا ۔ شادیوں سے کئی دن پہلے ہی ناچ گانوں کی محفلیں سجنے لگی ۔ نبی کی اس سنت کو ادا کرنے سے پہلے کئی کئی گناہوں بھری محفلوں سے گزرنا پڑا ۔ ساتھ ہی ساتھ شا دیوں میں پیسے اڑانے کی رسم عروج پکڑ تی گئی ۔ اس سے قبل تو یہ رسم صرف قبعہ خانوں میں دیکھی جاتی تھی ۔ چلو اب شادیوں میں آگئی ۔ بس فرق اتنا ہی ہے کہ وہاں طواءفوں پر پیسے اڑ ائے جاتے تھے اور یہاں دلہے پر ۔ یہ رسم دن بدن اتنا زور پکڑ تی گئی ۔ یہاں تک کہ پیسے لٹانوں کے با قاعدہ مقابلے ہونے لگے ۔ جو جتنے پیسے لوٹتا اسکو اتنی زیادہ اہمیت دی جانے لگی ۔ اس طرح شادی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ شادی میں شریک ہونے والے افراد کیلئے بھی مشکلات پیدا ہو گئی ۔ کبھی جو لوگ شادی میں جانے کیلئے دوسروں سے مانگ کر جوتیاں پہن جایا کرتے تھے ،وہ شادی کی ہر رسم کیلئے نئے کپڑوں کا اہتما م کرنے لگے اورشادی جیسی سنت مشکل سے مشکل ہوتی چلی گئی ۔ پھر اب زمانہ آیا جب جہیز کے نام پر بولیاں لگ رہی ہیں ۔ دلہے کے گھر والوں کی جانب سے خود جہیز اور نقد رقم کی مانگ کی جا رہی ہے ۔ اگر دلہن کے گھر والے مو ٹر سائیکل دینے کو رضا مند ہوتے ہیں تو دلہے کے گھر والے گاڑی مانگ لیتے ہیں اور اگر دلہن والے فلیٹ دینے کو تیار ہوتے ہیں تو بنگلے کی فرمائش کی جاتی ہے ۔ اب اس پوری صورتحال کے درمیان کنواروں کی عمر بڑھتی چلی جانے لگی ہے ۔

ہر چیز کا ایک خاص وقت متعین ہوتا ہے ،اور اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹھری کرنی پڑتی ہے ۔ پھر اب کیا;238; اس کے بعد اب زمانہ آیا بے حیائی کا،افسوس ہماری نوجوان نسل عیاشیوں میں پڑ گئی ۔ گھر والوں سے چھپ چھپ کر ملاقاتیں ، پارکس میں ملاقاتیں ،سڑکوں پر آوارہ گردی ،گھر بتائے بغیر کئی کئی گھنٹے عیاشیوں میں گزارنا ،اپنی مر ضی سے نئے سے نئے تعلقات قائم کرنا اور اگر آپس میں نہ بنی تو خیر کسی اور کو ڈھونڈ لینا ۔ یہاں ایک اور چیز قابل ذکر ہے ۔ کچھ نوجوان جو اپنے ان تعلقات کے متعلق گھر والوں کو آگاہ کر دیتے ہیں اور گھر والوں کی مر ضی سے دیگر معاملات طے ہونے کے بعد یہ رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں ،آج کل کے اس دور میں یہ ایک اچھا عمل ہے ۔ لیکن اگر دوسری طرف نوجوان اپنے اس تعلقات کے متعلق گھر والوں کو خود نہ بتا سکے تو اکثر اوقات یہ فرض کوئی رشتہ داریا کوئی دوست احباب پورا کر دیتا ہے ،جس کی نظر کے سامنے سے یہ معاملہ گزرے، اور جب بات گھر تک پہنچ ہی گئی ہے،،تو پھر ماں باپ کو منانے کی تیاریاں ،ذات پات کے مسائل،کمائی ،نوکری ،کاروبار کے مسائل ۔ پھر اس سب کے بعداگر بات بنی توبنی،نہیں تو گھر سے بھاگنے کا منصوبہ تیار ۔ دوستوں کی مدد لی اور راہ فرار اختیار کر لی ۔ تاہم اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے اس عمل کے بعد گھر والوں کا کیا ہو گا ۔ ماں باپ کی پوری دنیا کے سامنے جگ رسائی ہوگی ۔ ان سب با توں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ،بس یہ ہماری زندگی ہے اور ہم اسے اپنے طریقے سے گزارے گے ۔ سارے فیصلے ہمارے،کیوں کہ یہ زندگی ہماری ہے ۔ پھر اگر کچھ غلط ہوا تو ماں باپ کا گھر تو ہے ہی ۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے،جس سے ہم گزر رہے ہیں ۔ یہ سب کیوں ہے;238;اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے شادی کو اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ سیدھے راستے سے شادی کرنا آسمان سے تارے ٹوڑنے کے برابر ہے ۔ ماں باپ کی عمر نکل جاتی ہے اپنی بیٹی کی شادی کا جہیز جمع کرنے میں اور ایک کنوارے لڑکے کی مقصو د شادی کی عمر گز ر جاتی ہے اپنی شادی کے انتظام کرنے کیلئے ۔ پہلے 25 سال پڑھائی،پھر نوکری کا چھنجٹ،اس کے بعد خود کا گھر ،گا ڑی،معا شرے میں ایک خاص مقام ۔ اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لڑکے کا کردار کیسا ہے ۔ بس لڑکا پیسوں والا ہونا چاہیئے، بس پھر اس کی شادی کر دی جاتی ہے ۔ دوسرے الفاظ پاکستان میں ہر شخص کی کمائی کا مقصد صرف شادی ہے ۔ کوئی اپنی خود کی شادی کیلئے کما رہا ہے،جو شادی کر لیتا ہے وہ اپنی شادی چلانے کیلئے کما رہا ہے اور جس نے اپنی شادی شدہ زندگی گزار لی ہے وہ اپنے بچوں کی شادی کیلئے کما رہا ہے اور اس کمائی میں پوری زندگی لگ جاتی ہے اور سب سے مزے کی بعد یہ کمائی صرف دوسروں کو کھلانے اور دکھانے کیلئے ہوتی ہے ۔ اس کمائی کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوتا ،البتہ شادی میں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں ، گناہوں کے راستے کھول جاتے ہیں ۔ جس سے بالآخر خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے ۔ ہ میں یاد رکھنا چاہیئے اسلام کا دیا ہوا خاندانی نظام ہی ہے جو ہمارے معاشرے کی اساس ہے اور ہم سب کو اسے ملکر بر قرار رکھنا ہے
 

Awais Rajpot
About the Author: Awais Rajpot Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.