صرف بیٹیوں کی جائیداد سے محرومی آخر کیوں۔۔ چیف جسٹس نوٹس لیں

میں لاہور ہائی کورٹ کے بار روم میں بیٹھا کافی پی رہا تھا کہ مجھے ایک کال ریسیو ہوئی۔ دوسری طرف ایک خاتون کی آواز تھی۔ اُنھوں نے پوچھاآپ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہیں میں نے آپ کو ایک میسج کیا تھا میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔یوں اُنھوں نے مجھے بتایا کہ وہ گذشتہ چالیس سال سے امریکہ میں مقیم رہی ہیں اور وہاں اعلیٰ حکومتی ادارئے میں اہم ذمہ داریاں انجام دے چکی ہیں۔ اُن کے خاوند کا شمار امریکہ کے انتہائی قابل ڈاکٹروں میں ہوتا ہے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے والد راولپنڈی اسلام آباد میں فروٹ کے بہت بڑئے تاجر ہیں اُن کے والد پراپر ٹی کا کام کرتے رہے ہیں اُن کی پراپرٹی ملین روپوں کی ہے۔ محترم خاتون نے کہا کہ اُن کے والد نے جو اُن کی والدہ کے نام گھر تھا وہ گھردھوکے سے اُن سے جعلی دستاویزات کے ذریعہ لے کر اپنے دو بیٹوں یعنی اُن کے بھائیوں کے نام کروادیا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے والد نے کئی سو کروڑ روپے کی جائیدادیں بطور گفٹ اپنے دونوں بیٹوں کے نام کردی ہیں اور بیٹو ں کو کچھ بھی نہیں دیا۔ جب بیٹیوں نے اپنے والد صاحب سے استفسار کیا کہ اُنھیں بھی اُن کا حصہ دیا جائے تو والد محترم جو نوئے سال کے ہونے کے قریب ہیں نے اپنی بیٹیوں کو گالیوں اور بددعاؤں سے نواز دیا۔اِن کی والدہ بھی شدید علیل ہیں وہ بھی اپنے شوہر کے اِس مجرمانہ روئیے کی وجہ سے بہت رنجیدہ ہیں۔ بیٹے پکنک اور شاپنگ کے لیے دسرون ملک جاتے ہیں جب کہ بیٹیوں میں سے کچھ کی مالی حالت اچھی نہیں ہے اُن کو خاص طور پر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ اُن کے والد کو چاہیے کہ وہ اُنھیں بھی اُن کا حصہ دیں لیکن والد صاحب جو شکل و صورت سے مذہبی نظر آتے ہیں لیکن اولاد کے ساتھ انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔اپنی زندگی میں باپ کی جانب سے تمام جائیداد صرف بیٹوں کو دے دینا اور بچیوں کا جو حصہ بنتا ہو وہ نہ دینا۔یہ ہے وہ رویہ جو ہمارئے معاشرئے میں بُری طرح حاوی ہے۔ بیٹیوں کو باپ اپنے زندگی میں ہی اپنے ہر قسم کے اثاثہ جات سے محروم کر دیتا ہے اور گفٹ کے نام پرسارا کچھ بیٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ہمارئے ہاں یہ انداز فکر ہے کہ خواتین کی شادی اپنے سے کم مالی حیثیت والے کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اِس طرح ایک تو عورت کو ویسے ہی کم خوشحال گھرانے میں بیاہ دیا جاتاہے اور دوسرا پھر اُس کو حق وراثت بھی نہیں دیا جاتا تیسرا اُس عورت کے بچے بھی پھر معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں جس سے اُن کی اپنے ننھیال کے ساتھ رشتے داری نہیں ہوپاتی یا پھر سٹیٹس کا بہت فرق نمایاں ہوتا ہے جس سے معاشرتی اونچ نیچ کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ موجود ہ دور میں رویوں کے حوالے سے ہم بات کرتے ہیں کہ اگر باپ اپنی جائیداد بیٹوں کو دے دیتا ہے اور بیٹیوں کو کچھ نہیں دیتا تو ان حالا ت میں و ہ اپنی زندگی میں ہی خود کے لیے جہنم کا سودا کر لیتا ہے۔ کیا ہماری مقننہ، ہماری عدالت عظمیٰ ، اِس حوالے سے کوئی واضع قانون سازی کیوں نہیں کرتی۔ قران سے شادی کے حوالے سے تو قانون سازی کردی گئی ہے اور اِس کے لیے دس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ رکھا گیا ہے تو اِسی طرح اگر باپ اپنی جائیداد اپنی زندگی میں ہی حیلے بہانوں سے گفٹ کے نام اپنے بیٹوں کو دے جاتا ہے۔
 
’’(سورۃ النساء آیت11)جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سے جو چھوڑ جائیں ایک چوتھائی تمہارا ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو پس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائی یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جو ہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اوروں کا نقصان نہ ہو یہ اﷲ پاک کا حکم ہے اور اﷲ جاننے والا تحمل کرنے والا ہے (سورۃ النساء آیت 12)وہ تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں۔ کہہ اﷲ تمہیں کلالہ (والدین اور اولاد کے بغیر) کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی مرد مر جائے جسکی اولاد نہ ہو مگر اسکی ایک بہن ہو تو اسے ترکے کا نصف ملے گا، اور (اگر بہن پہلے مرے تو) وہ (مرد) خود اسکا وارث ہو گا اگر اسکی بہن کی اولاد نہ ہو۔ اور اگر وہ دو عورتیں ہوں تو ان کے لیئے ترکے کا دو تہائی ہوگا۔ اور اگر بھائی بہنوں میں کئی مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیئے دو عورتوں کے حصے کی مانند ہو گا۔ اﷲ تم پر واضح کرتا ہے تا کہ تم بھٹک نہ جاؤ، اور اﷲ ہر بات کو جانتا ہے۔ (النسا 176)

قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا اور بجائے لانثین مثل حظ الذکر(دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے بقدر) فرمانے کے للذکر مثل حظ الانثیین (لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصہ کے بقدر) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا۔بہنوں کو میراث سے محروم کرنا حرام ہے۔

یہ بات ملحوظ رہے کہ لڑکیوں کو میراث سے محروم کرنا اور ان کو جو میراث سے حصہ ملتا ہے وہ لڑکوں کا آپس میں تقسیم کرلینا (جیسا کہ اکثر یہی ہوتا ہے) یہ سخت حرام ہے، بہنوں پر ظلم ہے اور قانون خدا وندی سے بغاوت ہے اگر کسی فرد یا جماعت یا پنچائت یا ملک کے احکام اپنے مروجہ قانون کے مطابق لڑکوں کو ہی میں مرنے والوں کی میراث تقسیم کردیں اور لڑکیوں کو محروم کردیں تو اس طرح سے لڑکوں کیلئے شرعا بہنوں کا حصہ لینا حلال نہ ہوگا، اﷲ تعالیٰ نے لڑکیوں کے حصہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے یعنی لڑکوں کا حصہ علیحدہ سے بتایا ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کا حصہ بتاتے ہوئے لڑکوں کا حصہ بتایا ہے۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 383355 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More