پہلے زمانے اور آج کے زمانے کی عورت میں زمین و
آسماں کا فرق ہے۔آج کی عورت یا تو بدل گئی ہے یا بدلنے کے لئے پر تول رہی
ہے مگر کیوں ؟ ۔اس کے پسِ پردہ ایسے کون سے وجوہات ہیں، کونسے عوامل
کارفرما ہیں؟ جو اسے بدلنے پر مجبور کر رہی ہے ؟اس کے لئے ہمیں ماضی کے
اوراق کنگھالنا پڑیں گے!! آٹھارویں صدی کا آخری اور انیسویں صدی کا بتدائی
زمانہ تھا ۔جب مغربی قوموں کی ملک گیری کا سیلاب ایک طوفان کی طرح اسلامی
ممالک پر امنڈ آیا اس وقت مسلمان بھی نیم خفتہ اور نیم بیداری کی حالت میں
تھے ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ طوفان مشرق سے لے کر مغرب تک تمام دنیائے اسلام
پر چھا گیا۔انیسویں صدی کے نصف آخر تک پہنچتے پہچتے بیشتر مسلمان قومیں
یورپ کی غلام بن چکی تھیں اور جو غلام نہ ہوئیں تھیں وہ بھی مغلوب و مرعوب
ضرور تھیں ۔ جب اس انقلاب کی تکمیل ہو چکی تو مسلمانوں کی آنکھیں کھلنا
شروع ہوئیں وہ قومی غرور جو صدہا برس تک جہان بانی و کشور کشائی کے میدان
میں سر بلند رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں پیدا ہو گیا تھا ،دفعتا خاک میں
مل گیا اور اس شرابی کیطرح،جس کا نشہ طاقتور دشمن کے پیہم ضربات نے اتار
دیا ہو ، انہوں نے اپنی شکست اور مغرب کی فتح پر غور کرنا شروع کر دیا لیکن
ابھی دماغ درست نہیں ہوا تھا ‘گو کہ نشہ اتر گیا تھا مگر توازن ابھی بگڑا
ہواتھا ۔ایک طرف ذلّت کا شدید احساس تھا ،دوسری طرف صدیوں کی آرام طلبی اور
سہولت پسندی کا آسان راستہ ڈھونڈنا چاہتی تھی ،کچھ مرعوبیت اور دہشت زدگی
تھی جو ہر غلام قوم میں فطرتا پیدا ہو جاتی ہے ان مختلف اسباب نے مسلمانوں
کو عقلی گمراہی میں مبتلا کر دیا ،ان کو ترقی کا سہل ترین راستہ جو نظر آیا
وہ یہ تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن کے مظاہر اپنی زندگی میں اتار لیں اور اس
آئینہ کی طرح بن جائیں، جس کے اندر باغ و بہار کے مناظر تو سب کے سب موجود
ہوں مگر در حقیقت نہ باغ ہو نہ بہار۔۔
یہی بحرانی کیفیت کا زمانہ تھا جس میں مغربی لباس، مغربی عادات و اطوار حتیٰ
کہ چال ڈھال تک مغرب کی نقالی کی گئی ،ہر وہ پختہ یا خام خیال جو مغرب سے
آیا اس پر ایمان بالغیب لانا اور اپنی مجلسوں میں اس کو زیرِ بحث لانا روشن
خیالی کا لازمہ سمجھا گیا ۔خواتین پر بھی اس کا اثر پڑا اور انیسویں صدی کے
آخر میں ’’آزادی نسواں کی تحریک ‘‘مسلمانوں میں پیدا ہوئی جس کے اصلی
محرکات یہی جذبات و رجحانات تھے بعض کو تو احساس ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز
ہے ؟جو انہیں اس تحریک کی طرف لئے جارہی ہے ،بعض کو احساس تو تھا مگر اپنے
خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں شرم آتی تھی ۔عورتوں کی صحت،ان کی ذہنی و
عملی ارتقاء ان کے پیدائشی و فطری حقوق،ان کے معاشی استقلال،مردوں کے ظلم و
ستبداد سے ان کی رہائی اور قوم کا نصف حصہ ہونے کی حیثیت سے ان کی ترقی پر
پورے تمدن کا انحصار اور ایسے ہی حیلے جو مغرب سے بر آمد ہو ئے ،جن پر یورپ
کی عورت چل رہی تھی، مسلمان عورت بھی اسی روش پر چلنے کی آرزو مند ہو ئی۔
مغربی تہذیب و تمدن کا مقصد یہ تھا کہ زندگی کے معاملات اورذمہ داریوں میں
عورت اور مرد کو یکساں شریک کر کے مادی مشاغل کی رفتار تیز کی جائے اور اس
کے ساتھ شہوانی جذبات کو ایسے فنون و مشاغل میں استعمال کیا جائے جو کشمکشِ
حیات کے تلخیوں کو لطف و لذّت میں تبدیل کیا جائے اور دونوں صنفوں کو زندگی
کے ایک ہی میدان میں کھینچ لایا جائے اور ان کے درمیان تمام حجابات اٹھا
دئیے جائیں جو ان کے آزادانہ اختلاط اور معاملات میں رکاوٹ ہوں اور ان کو
ایک دوسرے کے حسن اور صنفی کمالات سے لطف اندوز ہونے کے غیر محدود اور پیہم
مواقع مہیا کیئے جائیں ۔ہمارا مذہبِ اسلام انسان کی شہوانی قوت کو اخلاقی
ڈسپلن میں لا کر اس طرح منضبط کرتا ہے کہ وہ آوارگی اور ہیجانی جذبات میں
ضائع ہونے کی بجائے ایک پاکیزہ اور صالح تمّدن کی تعمیر میں صرف ہوں مگر
یورپ میں حیا اور شرم بلائے طاق رکھ دی جاتی ہے،لہراتی زلفیں، شانوں تک
کھلی ہو ئی بانہیں،نیم عریاں چھاتیاں بھی نگاہوں کے سامنے پیش کی جاتی ہیں
بلکہ جسم کے باقی ماندہ محاسن کو بھی ایسے باریک کپڑوں میں ملفوف کیا جاتا
ہے کہ ہر وہ چیز ان میں نظر آ سکے جو جو مردوں کی شہونی پیاس کو تسکین دے
سکتی ہو۔پھر ان لباس اور آرائشوں کے ساتھ محرموں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ
دوستوں کی محفلوں میں بیویوں،بہنوں اور بیٹیوں کو لایا جاتا تھا اور ان کو
غیر محرموں کے ساتھ بولنے، ہنسنے اور کھیلنے کی آزادی بخشی جاتھی تھی ۔الغرض
اخلاقی نظریات ،تمدنی اور مذہبی ضابطوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔۔انقلاب پسند
دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہر وہ نظریہ اور ہر وہ ضابطہ عمل جو
پہلے سے چلا آرہا ہے ،ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ،اسے ہٹائے بغیر قدم آگے
نہیں بڑھ سکتا ۔آزادی کے اس مبالغہ آمیز تصور نے ایسے ایسے سوالات جنم دئیے
کہ معاشرے میں موجود شرفاء شرمانے لگے ۔جیسے یہ عصمت کیا بلا ہے ؟یہ جوانی
پر تقویٰ کی مصیبت کیوں ڈالی گئی ؟ نکاح کے بغیر اگر کوئی محبت کرے تو کیا
بگڑ جاتا ہے ؟ اور نکاح کے بعد کیا دل عورت کے سینے سے نکل جاتا ہے کہ اس
سے محبت کا حق چھین لیا جائے؟ان تمام سوالات کے جوابات اس زمانے کے
دانشوروں،فلسفیوں،ادباء و شعراء نے کیا دئیے؟ اور آج کی عورت کیوں بدلی ؟
یا بدل رہی ہے ؟ کا جواب اگلے کالم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|