گھر ، تھانہ یا جیل!

 بہت سے لوگ گھر کو تھانہ سمجھتے تھے، گھر سے باہر زیادہ وقت گزارنے کے عادی تھے۔ بُرا ہو کرونا وائرس کا کہ اُس نے گھر کو تھانہ سمجھنے والوں کو نادیدہ آہنی شکنجوں میں جکڑ کر گھر بٹھا دیا ہے، یوں اُن کے لئے گھر تھانے نہیں رہے بلکہ جیل کا روپ دھار چکے ہیں۔ گھروں میں بیٹھ کر اگرچہ لوگ سخت کرب کا شکار ہیں، مگر قابلِ ہمدردی وہ لوگ ہیں، جو گھر وں میں ہونے کے باوجود اپنے آپ کو جیل میں تصور کرتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے آغاز میں تو ذہنی تلخی بے حد تھی، اداسی اور پریشانی نے بھی دل و دماغ کو جال میں الجھا رکھا تھا، مگر وقت گزر ہی جاتا ہے، دل کو تسلی ہو ہی جاتی ہے، اور انسان ماحول کا عادی ہو ہی جاتا ہے۔محفلیں گرمانے والے اور تقریبات سجانے والے دوست زیادہ پریشان ہیں، گھر کے افراد تو بہت سوں کو زہر دکھائی دیتے ہیں۔

صاحب جب رات تاخیر سے گھر آتے تھے تو گھر میں انہیں مزاحمت کا لازمی سامنا کرنا پڑتا تھا، یہ روایت ہر کسی کی عمر کے ساتھ جڑی تھی، اگر نوجوان ہے تو ابا جان کی جھاڑیں(یقینا امی جان بھی اس کارِ خیر میں شامل ہوتی ہیں) ، اگر جوانی پختہ ہو چکی ہے تو بیوی کی لڑائی اور شکایات، اگر ادھیڑ عمر ہیں تو بیوی، اولاد وغیرہ کی کڑوی کسیلی سننے کا مسئلہ۔ تلخ سوالات کے جوابات دینے کے مراحل میں بات بڑھ جاتی تھی، اس روز روز کی مشقِ چخ چخ کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ گھر کے تمام لوگ کسی نہ کسی طرح سے فریق بن جاتے تھے، کوئی حامی ، کوئی مخالف اور کچھ خاموش تماشائی ، میدانِ جنگ البتہ روزانہ گرم ہوتاتھا، جب یہ رویے مستقل ہو جاتے تھے توتعلقات بھی اُسی ڈگر پر چلتے تھے۔ اب جبکہ ان لوگوں کو گھروں میں قید ہونا پڑا ہے، تو عجیب منظر نامہ سامنے آجاتا ہے۔ اب صاحب گھر پر ہیں تو ممکن ہے بیوی کی طنز کا شکار بھی ہوں۔ سیر سپاٹے کرنے کے شوقین لڑکے اپنے دوستوں سے دور ہیں تو اپنی اماں جان کے ساتھ بھی سارا دن الجھنے اور جھگڑنے میں گزارتے ہوں گے۔

فراغت کے دنوں میں یار لوگوں نے ذہنی کشیدگی، تنہائی اور بوریت کو شکست دینے کے لئے نئی مصروفیات تلاش کرنا شروع کردی ہیں، کوئی نوجوان جھاڑو کے تنکے گِن رہا ہے تو کوئی چھلنی کے سوراخ، کسی نے لوبیا کے دانوں کی گنتی کرکے وزن سے ملانا شروع کر رکھا ہے تو کسی نے گھر کے فاصلے قدموں سے ناپنے شروع کر دیئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ قید کے اِن دنوں میں لوگ اپنے رویے بھی تبدیل کرلیں، یعنی جہاں آپس کی لڑائی رہتی تھی، وہاں اب مل جل کر رہنے کو ترجیح دی جائے۔ بہت سے لوگوں کے لئے تو گھر کی روز مرہ کی زندگی بھی کافی دلچسپی کا موجب ہوگی، جو صبح کام کی غرض سے گھر سے نکلتے تھے اور رات گئے واپس لوٹتے تھے، ایسے والدین کے بچے یقینا حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوں گے ، کہ یہ مہمان مستقل ہی ہمارے ہاں قیام پذیر ہو گئے ہیں۔

’’ جیل خانہ‘‘ (گھر جیل) میں لڑائی کے عنصر کے علاوہ ایک بہت بڑا مسئلہ ٹی وی چینلز کا ہے۔ ایک ہی خبر ، فلاں ملک میں اتنے مر گئے فلاں میں اتنے۔ اتنے متاثر ہو گئے۔ پُر رونق علاقے ویران دکھائی دیتے ہیں، لاک ڈاؤن ہو رہے ہیں،کرفیو لگائے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کے اقدامات اور اینکر خواتین و حضرات کے اپنے انداز سے تبصرے ، پروگراموں اور خبروں کی یکسانیت ۔ ٹی وی بھی عذاب لگنے لگا ہے، بلکہ اگر سکون چاہیے تو ٹی وی سے دور ہی رہیے ۔ ٹی وی سے ہٹتے ہیں تو سوشل میڈیا میں خود نمائی کا طوفان برپا ہے، ہر کوئی اپنے انداز سے یا ڈاکٹر ہے یا دانشور، یا پھر خدائی خدمت گار۔ سیلفیوں اور نمود ونمائش کی دنیا سے نکلتے ہیں تو اخبار۔ میڈیا بھی آخر کرے تو کیا کرے؟ پورے معاشرے یا ملک کا نہیں ، پوری دنیا کا ایک ہی مسئلہ ہے، کرونا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر نے کرونا کے پھیلاؤ کی اہم (اور شاید واحد) وجہ سے قوم کو آگاہ کر دیا ہے، کہ ’’۔۔۔ رجعت پسند مذہبی طبقے کی جہالت سے کرونا پھیلا۔۔۔‘‘۔ دنیا کو تو نہ کرونا کے پھیلنے کی وجوہات کا علم ہوا اور نہ ہی کرونا کا علاج تشخیص ہو سکا، صرف اتنا اندازہ لگایا گیا کہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے، اگر ایک دوسرے سے دور رہا جائے تو اس کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، مگر اپنے سائنس کے وزیر نے اپنے نئے تجربے سے دینا کو آگاہ کیا ہے۔ اگر مذہبی طبقے کی جہالت سے ایسا ہوا ہے تو پھر مغربی ممالک میں کرونا کے پھیلاؤ کے بارے میں وزیر موصوف کا کیا خیال ہے؟ جاہل کوئی بھی ہو وہ دوسرے کو تعلیم یافتہ اور دانشمند تو کسی قیمت پر قرار نہیں دے سکتا، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ دوسرے کو جاہل کہنے والا خود اس صفت کا حامل نہ ہو۔
 
لاک ڈاؤن کی وجہ سے آجکل تمام لوگ فارغ ہی ہیں، حکومتی احکامات وغیرہ پر بھی عمل کیا جارہا ہے، مگر ایک بات اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت یا اُس کے کسی نمائندہ نے اس تباہ کن وبا کے ہلاکت خیز ماحول میں بھی ’’اﷲ توبہ‘‘ کا مشورہ نہیں دیا، بس احتیاطی تدابیر ہو رہی ہیں، اجلاس بلائے جارہے ہیں اور نئے نئے فیصلے ہو رہے ہیں، سکولوں سے لے کر مساجد تک کو بند کیا جارہا ہے، مگر’’ ریاستِ مدینہ ‘‘میں نہ تو اجتماعی توبہ کی بات ہے، نہ انفرادی طور پر تائب ہونے کے مشورہ۔ حتیٰ کہ کرونا کو عذابِ الٰہی قرار دینا بھی برداشت نہیں، گویا یہ بھی مذہبی طبقے کی جہالت کا شاخسانہ ہے۔ خیر سب کو گھروں میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے، احتیاط بھی یہی ہے اور علاج بھی کہ گھر بیٹھے رہیں، اس دوران اگر اﷲ تعالیٰ سے معافی اور کرونا کی روک تھام کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور خدمت خلق پر مامور رضا کاروں کے حق میں دعائیں کر دی جائیں تو وزیرِ سائنس جہالت کا سائنسی فتویٰ تو جاری نہیں کر دیں گے؟
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428074 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.