کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے کون واقف نہیں اور اس
سے نجات کی سرتوڑ کوششیں سو فیصد بار آور بھی نہیں ہورہی ہیں اگر مادی
اسباب پر نظر ڈالی جائے تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا وائرس
وجود پذیر کیسے ہوا ؟کیا یہ سائنس دانوں کی کیمیائی جنگ کا ایک مہرہ تو
نہیں ؟اس کا موجد کون ہے ؟ اسے چین میں لانچ کیوں کیا گیا ؟ اور اس کی روک
تھام کو کنٹرول کیوں نہیں کیا جا سکا ؟ بائیس ہزار سے زائد زندگیوں کے چراغ
گل کردئیے گئے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال سب کے ذہنوں میں ہیں اور شاید
آنے والے وقت میں کوئی جواب مل جائے مگر اس وقت شکوک و شبہات اور الزامات
کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آرہا اور اگر اسے دینی یا روحانی اعتبار سے
دیکھا جائے تو یہ پیدا کرنے والے کی طرف سے سزا ہے اس کے غم و غصے کا اظہار
ہے کیوں کہ اس کی مخلوق کے ساتھ جو کچھ ہم کرچکے ہیں اس کے بعد یہی بنتا ہے
مثلاً کشمیر کے کرفیو پر صرف بیان بازی کی گئی تو اﷲ تعالیٰ نے پوری دنیا
میں کرفیو لگا دیا ،اس کے احکامات سے رو گردانی کی گئی بلکہ نافرمانی کی
گئی تو اس نے میری دنیا میری مرضی کو ثابت کردیا بلکہ یوں کہہ لیں کہ ایک
شامی بچے نے کہا تھا کہ اوپر جاکر میں اﷲ پاک کو سب کچھ بتا دونگا اﷲ والے
کہتے ہیں کہ اس نے پرور دگار سے ہماری شکایت لگا دی ہے ،کشمیر ،فلسطین ،
بوسنیا،عراق ،افغانستان ،شام ، لیبیا،برما میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم
میں خاموش بیٹھنے والوں کی چیخیں سننے والا بھی کوئی نہیں ہے ،آذان ،حجاب
اور شعائر اسلام کا مذاق اڑانے والی قومیں خالق حقیقی کے سامنے سر بسجود
ہونے پر مجبور ہوچکی ہیں اور وہ ہمارا پروردگار ہم سے ایسا ناراض ہوا ہے کہ
اب اپنے گھر کے دروازے ہم پر بند کررہا ہے سو ہمیں اجتما عی توبہ کی ضرورت
ہے ۔
کرونا وائرس نے ہماری بہت سی حقیقتوں سے پردہ اٹھا یا ہے جس میں سے ایک سب
سے بڑی حقیقت ہماری نا اتفاقی ہے یہ وائرس ہمیں رنگ و نسل اور کسی بھی
طبقاتی تفریق کا امتیاز کئے بغیر نگل رہا ہے اور ہم اب تک سیاسی ،مذہبی
،مسلکی علاقائی ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں یہ بات نہایت دکھ اور تکلیف سے
لکھنی پڑ رہی ہے کہ ہم نفرتوں کو اتنا بو چکے ہیں اور اتنا بول چکے ہیں کہ
اب اتنا بڑا قومی ایشو اور اتنی بڑی وبا بھی ہمارے متحد ہونے کا ذریعہ نہیں
بن پائی ، ہم اب بھی قوم کے سامنے سیاسی و مسلکی اختلافات اور اپنی پارٹی و
مسلک کے نمائندے بنے ہوئے ہیں جب کہ ہمیں متحد ہوکر ایک مسلمان اور
پاکستانی بننے کی اشد ضرورت ہے ۔
دوسری اہم بات کہ ہم اب بھی ہجوم ہی ہیں قوم نہیں بن پائے اور کسی بھی ہجوم
کو قوم بننے کیلئے جس ابتدائی اور بنیادی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے
ہمارا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ،کرونا وائرس کو جس غیر سنجیدگی سے
ہم نے لیا ہے شاید ہی کسی ملک نے اتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہو اب تک
کی صورتحال یہ ہے کہ ہم نے حکومتی احکامات کے پرخچے اڑا دیئے ہیں حکومت کے
بار بار اعلانات کے باوجود ہم گھر بیٹھنے کو تیار نہیں اور احتیاطی تدابیر
کو بالائے طاق رکھنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے چکروں میں ہیں ،اپنی
فیملی تک کو محفوظ رکھنے کیلئے حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا نہیں ہورہے ،غیر
ذمہ داری کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ یہ ہمیں ایک تفریح لگ رہی ہے میں یہ
لکھنے پر مجبور ہوں کہ ہماری خواندگی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور تربیت
و شعور اور اخلاقی گراوٹ کی شرح بدستور بڑھتی چلی جارہی ہے ۔
تیسری اہم بات چند لوگ تو اپنے طور پر رفاحی کاموں میں مصروف ہیں( ان کو
نکال کر جو کسی غریب کو دیتے وقت تصویر میں غریب کی بے بسی اور لاچارگی کو
محفوظ کرتے ہوئے اپنی نیکی کو ضائع کردیتے ہیں ) اور اسے اپنا مذہبی ،قومی
اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے خدمت خلق کررہے ہیں ان کے ساتھ ساتھ 1122 کا
عملہ ،پیرا میڈیکل سٹاف ،ڈاکٹرز ، رینجرز،فوج ،پولیس ،بلدیہ ،صحافی اور
دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تندہی اور جاں فشانی سے اپنے
فرائض سر انجام دے رہے ہیں وہیں سوچنے کی بات یہ ہے بلکہ سمجھنے کی بات ہے
کہ دکھ کی اس گھڑی میں وہ سیاست دان کدھر گئے جو الیکشن کے دنوں میں ہمارے
سکے بنے ہوتے ہیں اور ان کی باتوں سے محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ ان سے بڑا
خیر خواہ ہمارا اور کوئی بھی نہیں ہے، یہ کڑا وقت دوست اور دشمن کا فرق بتا
رہا ہے جو اس مشکل وقت آپ کے ساتھ ہے ،آپ کو بہتر سہولت فراہم کرنے کی جدو
جہد میں ہے وہ اصل آپ کا خیر خواہ ہے اس کے علاوہ سب فراڈ اور دھوکہ ہے
،اسی طرح دیگر شعبوں پر نظر ڈالیں وہ مذہبی و سیاسی رہنما کدھر ہیں جنہیں
الیکشن کے دنوں میں ملک و ملت کا غم کھائے جارہا ہوتا ہے اگر آج و ہ خاموش
ہیں اور کوئی رول پلے نہیں کررہے تو سمجھ لیں وہ آپ کے خیر خواہ نہی ہیں
اسی طرح مو بائل کمپنیاں کو ئی ریلیف دے رہی ہیں ؟باٹا یا سروس وغیرہ قوم
کو سہولت فراہم کررہے ہیں ؟ پیپسی اور کوک وغیرہ آگاہی مہم کا حصہ ہیں
؟کھانے پینے کے جتنے بھی بڑے بڑے برانڈ ہیں وہ بھی ریلیف کی طرف گئے ہیں
؟کپڑے کے مشہور برانڈ اس مشکل وقت میں کچھ ساتھ دے رہے ہیں ؟جتنی بھی پٹرول
کی کمپنیاں ہیں ان کی طر ف سے اس مشکل وقت میں کیا اعلانات ہوئے ہیں ؟دیگر
نجی کمپنیاں جو پاکستانی قوم سے سالانہ اربوں کھربوں روپے کماتی ہیں کیا ان
کی طرف سے اس مشکل وقت میں کسی پیکج کا اعلان ہوا اگر نہیں تو عزم کریں یہ
برائنڈ دوبارہ پاکستان میں کامیاب نہ ہوسکیں بلکہ ان کے متبادل برائنڈ
استعمال کریں اور ان کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔
چوتھی اہم بات کرونا وائرس پاکستان کیسے آیا ، جب کچھ عرصہ سے ہمارے اردگرد
ہمسایہ ممالک اس کا شکار ہوچکے تھے اور ہمیں پتا تھا کہ یہ وائرس کسی بھی
سازش کی شکل میں پاکستان پھیلا یا جاسکتا ہے تو پھر کیا ہمارے حفاظتی
اقدامات کمزور تھے ؟ یا ہمارے سسٹم میں موجود کچھ لوگ یہ افراتفری پھیلا نا
چاہتے تھے تاکہ کچھ مقاصد حاصل کئے جاسکیں؟بارڈرز مکمل سیل کیوں نہیں کئے
گئے ؟اور ایک مذہبی طبقہ کو اتنی کھلی چھوٹ کیوں دی گئی کہ وہ پورے پاکستان
میں اس وبا کو پھیلا کر سینکڑوں افراد کی جان سے کھیلیں اور سینکڑوں گھروں
میں صف ماتم بچھا دیں ؟ایرانی زائرین کی مکمل نگرانی اور پراپر چیک اپ کیوں
نہیں کیا گیا ؟ ان کو کس کے احکامات پر پورے ملک میں جانے کافری ہینڈ دیا
گیا ؟ قوم کو زائرین کی اصل تعداد سے بے خبر کیوں رکھا گیا ؟ ہمارے ائیر
پورٹس پر رشوت لیکر کرونا کے مریضوں کو کلیرنس دینے والوں کو گرفتار کیا
گیا ؟کیا تفتان میں ہونے والی غیر ذمہ داری پر ایکشن لیا گیا ؟ مجرموں کا
تعین کیا گیا ؟اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ زائرین کا نام لیکر وہ دہشتگرد
پاکستان واپس لائے گئے جو عراق اور شام میں جاکر لڑ رہے تھے ؟اور آخر میں
ملک عزیز پاکستان میں دانستہ نا دانستہ طور پر کرونا وائرس پھیلا نے والوں
کو قومی مجرم قرار دیکر سرے عام سزائے موت دی جائے کیونکہ آپ سوچیں اگر اس
ملک میں کرونا وائرس کی وبا نا پھیلتی تو نا ہی ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا
،نا ہی لاک ڈاؤن کی اذیت سے عوام کو گزرنا پڑتا اور نا ہی مزدور طبقہ بیروز
گاری کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا اور یہ جو خوف ہے کہ پتا نہیں کتنے دن
مزید اس کی نظر ہوتے ہیں پوری قوم اس سے محفوظ رہتی اور نا ہی کوئی جانی
نقصان ہوتا ۔
|