پروٹینز سے بھرپور کھانا کھائیں اور اپنے جسم کی قوت مدافعت بڑھائیں - کورونا کی جنگ میں طبی ماہرین کی رائے

image


پاکستان میں جہاں کرونا وائرس کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ وہیں بہت سے سوالات بھی جنم لے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ کہ بہت سے لوگوں کے لیے موجودہ حالات میں حقیقی معلومات کو افواہوں اور گھریلو ٹوٹکوں سے علیحدہ کرنا ایک دردِ سر بن گیا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی سے منسلک وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر فیصل محمود کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ نوول کرونا، انسان سے انسان کو منتقل ہونے والا مرض ہے۔ جو کسی بھی تندرست شخص کو متاثرہ شخص کی آنکھ، ناک اور منہ کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ کرونا وائرس کی ابتدائی علامت میں بخار کا ہونا، کھانسی اور جسم میں درد شامل ہیں۔ جب کہ بیماری شدید ہو جانے کی صورت میں سانس لینے میں دشواری بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

اُن کے بقول، پہلے سے بیماریوں میں مبتلا افراد میں یہ علامات شدید ہو سکتی ہیں۔

کیا یہ صرف عمر رسیدہ افراد کی بیماری ہے؟
کرونا وائرس نے زور پکڑا تو یہی خیال کیا گیا کہ صرف زیادہ عمر کے افراد ہی شاید اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فیصل محمود نے اس مفروضے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ عمر کے افراد یقیناً متاثر ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ ان میں قوتِ مدافعت کی کمی ہوتی ہے۔ اس لیے ایسا کوئی بھی فرد جس کی قوتِ مدافعت مضبوط نہیں۔ اس بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔ جس کے بعد کسی بھی عمر کے افراد کا یہ تصور کرنا کہ وہ اس بیماری سے بغیر احتیاطی تدابیر اپنائے بچ سکتے ہیں، غلط سوچ ہے۔

'ابھی کرونا وائرس کی کوئی دوا موجود نہیں'
ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت کرونا وائرس کو مات دینے کے لیے سائنسی تحقیقات جاری ہیں۔ لیکن اس دوا کی تیاری میں وقت لگ سکتا ہے۔

اُن کے بقول یہ ویکسین کب تک حتمی طور پر تیار ہوکر قابل استعمال ہو گی۔ اس پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ کہنا کہ موجودہ دور میں استعمال ہونے والی کوئی ایک دوا، دوسری دوا سے بہتر ہے۔ درست رائے نہیں ہے۔

کرونا کے خلاف سائنسی بنیادوں پر واضح کردہ اصولوں کے مطابق چونکہ کوئی علاج موجود نہیں۔ اس لیے افواہوں نے سوشل میڈیا کا رخ کر رکھا ہے۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ یقیناً اس بیماری کا علاج موجود نہیں۔ لیکن یہ تصور کر لینا کہ اس کا ہو جانا موت کا پروانہ ہے، مبالغہ آرائی سے کم نہیں۔

اُن کے مطابق انسانی جسم اوسطاً اتنی مدافعت رکھتا ہے کہ اگر پروٹینز فراہم کرنے والا کھانا کھایا جائے۔ جس میں گوشت، انڈہ اور دالیں شامل ہیں۔ تو کسی دوائی کے بغیر بھی شفایاب ہوا جا سکتا ہے۔
 

image


ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ مسئلہ زیادہ تر پہلے سے موجود بیماریوں سے پیدا شدہ پیچیدگیوں سے ہوتا ہے۔ جس میں قوتِ مدافعت میں کمی مزید پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔ بہتر خوراک اس بیماری سے بچنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ سات سے آٹھ گھنٹے روزانہ نیند پوری کرنا بھی جسمانی صحت کو ان حالات میں برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے۔

'سیلف آئسولیشن لازمی ہے'
ڈاکٹر فیصل محمود کا کہنا ہے کہ چونکہ دنیا بھر میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس لیے کچھ روز مرہ کی عادات کو بدلنا بے حد ضروری ہے۔ جس میں بات بے بات منہ، چہرے اور آنکھوں کو ہاتھ لگانا شامل ہے۔ کیونکہ اس بیماری کے جراثیم انہی راستوں سے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مہلک بیماری سے بچاؤ کے لیے صفائی کو برقرار رکھنے کے علاوہ لوگوں سے کم سے کم چھ فٹ کا فاصلہ رکھ کر ملنا لازم ہے۔ کیونکہ انسان سے انسان کو وائرس کی منتقلی کا عمل ایسے ہی روکا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول 'سوشل ڈِسٹینسنگ' یا لوگوں سے فاصلہ رکھنا ضروری ہے۔ اگرچہ ہماری معاشرتی اقدار اور رہن سہن میں لوگوں سے ہاتھ ملانا یا سلام کرتے ہوئے گلے ملنا، ایک عام سا عمل ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں اس کو ترک کرنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر فیصل کا مزید کہنا تھا کہ مجبوری کی صورت میں ہی گھر سے نکلنا چاہیے تاکہ وائرس سے جس حد تک ممکن ہو، بچا جا سکے۔

خیال رہے کہ زیادہ تر طبی ماہرین اس نقطے پر متفق ہیں کہ کرونا وائرس سے گھبرانے اور ہیجانی کیفیت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اس بیماری سے لڑنا اور جیتنا دونوں ممکن ہیں۔


Partner Content: Voa

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: