اگر انسان بامقصد زندگی گزار رہا ہے تو اس کو موت کا خوف
نہیں رہتا، کیونکہ پہلے سے وہ زندگی بامقصد گزار رہا ہے.اللہ کی طرف سے دی
ہوئی اسائمنٹ پوری کررہا ہے بامقصد زندگی کے ذریعے، تو موت کا خوف کاہے کو.
اور اگر زندگی بے مقصد گزر رہی ہے تو ہر دم موت کا خوف لگا رہتا ہے.
آپ یوں سمجھ سکتے کہ
طالب علم کا سالانہ امتحان سر پر ہے. اگر مضامین کی تیاری مکمل ہے تو
امتحانی سینٹر کی طرف جاتے ہوئے سرور ملتا اور امتحان کو ویلکم کہتا اور ڈٹ
کر لکھتا رہتا.امتحان کو انجوائی کرتا.
اور
اگر امتحان کی تیاری نہیں ہے، سال بھر وقت گزاری کی ہے تو پھر امتحان سر پر
آجائے تو خوف آنے لگتا اور دعا مانگتا کہ کسی طرح امتحان آگے پیچھے ہوجائے.
بس یہی صورت حال بے مقصد زندگی اور بامقصد زندگی کا ہے.
انسان کو احساس ہے کہ وہ ایک خاص مشن اور وژن کیساتھ بامقصد زندگی گزار رہا
ہے، تو سمجھ جائیے کہ وہ ایڈوانس موت کی تیاری کررہا ہے، اسکا کوئی پَل بے
سود نہیں گزر رہا. موت کسی بھی وقت آجائے تو وہ گلے لگاتا ہے اور وہ اللہ
کے حضور کامیاب و کامران ہے.
اور اگر زندگی بے مقصد گزرہی ہے. انسانیت کے لیے کوئی فائدے کا کام نہیں
کررہا ہے، تو ایسے لوگ موت سے خائف ہوتے اور خوف کے عالم میں موت سے بھاگنے
لگتے مگر وہ بھاگ نہیں سکتے. موت سے کسی کو رستگاری نہیں.
ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں. یہ دیکھ لیں کہ ہم جو کچھ
کررہے ہیں کہ وہ انسانیت کے لیے سود مند ہے؟ اللہ کے فطری اصولوں کے موافق
ہے؟
اگر ہمارے اعمال فطری اصولوں کے خلاف ہیں، ہماری مال وجان اور علم و ہنر سے
سے انسانیت فائدہ نہیں اٹھا پارہی ہے، بلکہ ہماری دولت، علم، ہنر اور جان
سے انسانیت کو خطرہ ہے، تکلیف اور دکھ کا سبب بن رہی ہے تو سمجھ جانا چاہیے
کہ ہم بے مقصد زندگی گزار رہےہیں. پھر موت کیا، ہر چیز سے خوف آنے لگتا،
دولت چھن جانے کا خوف، عہدہ سے ریٹائرڈ ہونے کا خوف، اولاد کی نافرمانی کا
خوف، بڑھاپے کا خوف، بیماری کا خوف،خرابی تعلقات کا خوف، کم علمی کا خوف
اور بہت سارے خوف سے پالا پڑتا. سو
ان تمام خوفوں سے بچیں، زندگی بامقصد بنالیں اور زندگی جیے یا پھر موت سے
ڈرتے پھریں.تو
احباب کیاکہتے ہیں؟
|