نوول کویڈ 19 کورونا وائرس نے اب تک دنیا کے دو سو ممالک
کے ساڑھے چھلاکھ لوگوں کو متاثر کیا ہے جبکہتیسہزار سے زیادہ لوگ اس وائرس
کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔ انسان کی جمع کی ہوئی ذخیرۂ تاریخ تو اسسےبڑی بڑی
وباؤں کی داستانوں سے بھری پڑی ہےاگر ہم صرف پچھلے سو سالہ تاریخ کے اوراق
پلٹتے ہیں تو اس میں بھی ہمیں متعددایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں
لاکھوں فرزندانِ آدممختلف وباؤںکا شکار ہو کر لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ مثال کے
طور پر پچھلے صدی کے دوسرے عشرے میں یعنی 1910 سے 1912 تک ہیضے کی وباء سے
13 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے جس میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب اموات ہوئے
تھے۔ جنگ عظیم اول کے دوران پھیلنی والی وباء " اسپیشن فلو" جسے بدترین
عالمی وبا مانا جاتا ہے نے 1918 سے 1920 کے دوران 5 کروڑ لوگوں کو متاثر
کیا جس میں تقریباً 50 لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہانگ کانگ اور چین سے
شروع ہونے والے ایشیا فلو سے 1957 کے ابتدائی 6 ماہ میں 14 ہزار افراد ہلاک
ہوئے تھے۔ اس کے ٹھیک دس سال بعد ہانگ کانگ فلو کے نام سے پھیلنے والے
وائرس سے تقریباً 10 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔ اسیفلوئی بیماریوں کی ایک
نئی قسم جسے" سوائن فلو" کہا جاتا ہے اور جس کا آغازویتنام سے ہوا تھا اس
سوائن فلو نے 2005 سے 2009 تک تقریباً ڈیرھ کروڑ لوگوں کو متاثر کیا تھا جس
میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
عزیزانِ من۔ آپپڑھ چکے ہیں کہ ماضی میں پھیلنی والی وبائیںلاکھوں لوگوں کو
ہلاک کرچکی ہیں جبکہاس کے مقابلے میں کورونا وائرس ابھی تک اتنی ہلاکتوں کا
سبب نہیں بنا ہے تو پھر یہ کیا بات ہے کہ کورونا کے پھیلتے ہی روئے زمین پر
قیامت صغریٰ برپا ہوا ہے اور مشرق سے مغرب تک کے تمام ممالک کی مقننہ،
انتظامیہ اور میڈیا کی نشستوں میں کورونا ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ پہلا
سوال تو یہ ہے کہیہ کورونا وائرس کیسے وجود میں آیا؟ علمائے سائنس نے جب
تحقیق کے صفحات بکھیرے تو ان میں کبھیسانپ تو کبھی چمگادڑ کا نام نکل
آیالیکنکوئی دلیل قطعی نہ ملنے پر سارے ہی جانوروں کو قیاس کے کٹہرے میں
کھڑا کردیا گیا کہ یہ وائرس ان جانوروںسے انسانوں میں پھیلا ہوا ہے۔ جس پر
بے چارے بے زبان جانوروں نے سر تسلیم خم کر دیا کہ " آپ کی تحقیق آپکی مرضی"
علمائے سائنس کے اساختلاف رائے کو دیکھ کر اہل دانش سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور
زمین وآسمان کے قلابے ملانے میں لگ گئے۔ انہوں نے یہ مفروضہ گھڑ لیا کہ چوں
کہ چین پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے اور یورپ و امریکہ
کو یہ برداشت نہیں ہے اسی لیے یہ وائرس انہیکا پھیلایا ہوا ہے۔ لیکن جوں ہی
اس وائرس نے یورپی ممالک میں داخل ہو کر اٹلی، اسپین اور فرانس جیسے ملکوں
میں تباہی مچادی اور ان کے جدید سسٹم کی دھجیاں بکھیر دی تو جدیدیت کے بت
کو پوجنے والے دانشوروں نے اب امریکہ کے سر یہ تاج سجایا کہ امریکہ تو
سائنسی علوم میں پوری دنیا سے برسوں آگےہے لہٰذایہ کورونا وائرس امریکہہی
کا بنایا ہوا" بائیولوجیکل ویپن" یعنی حیاتیاتی ہتھیار ہے۔ جس کی مدد سے
امریکہ چین کی معیشت پر وار کرکے اسے نمبر ونبننے کی دوڑسے باہر کرنا چاہتا
ہے۔ لیکن افسوس نہ ان کی دانش چلی اور نہ دانشوری۔ اور دنیا نے دیکھ
لیاکہخود امریکہ پر اس بائیولوجیکل ویپن کی ضربیں پڑی ۔ آجامریکی سرزمین
اٹلی اور اسپین کے بعد سب سے زیادہ کورونا کے نشانے پر ہیں اور بہت سارے
امریکیاشرافیہ بھی اس حیاتیاتی جنگ کی نذر ہوگئے۔ بہرحال جدیدیت کے گرویدہ
ان دانشوروں کے تجزیے پڑھ کرمیں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ میں بھی آزادی
رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے آپ کے گوش گزار کردوں۔ جس کے لیے
آجان دانشوروں کے پھیلائے ہوئے سنسنی خیز خبروں کے لگے اس بازار کے بیچوں
بیچ میں بھی اپنی دوکان لگانے کی جسارت کررہا ہوں۔
عزیزانِ من۔ کورونا وائرس جیسی وباء کے بارے میں میرا نقطۂ نظر سمجھنے کے
لیے آپیہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ ایک مرتبہ سیدنا موسیٰعلیہ السلام نے اپنی
قوم سے فرمایا کہ پروردگار عالم کافرمان ہے کہ آپگائے ذبح کریں جس کا سورۃ
البقرہ میں ذکرآیا ہے۔ اکثر مفسرین اس کی تفسیر میں ایک قتل کا واقعہ نقل
کرتے ہیں کہ ایکمقتول کا قاتل معلوم کرنے کے لیے خداوند کریم نے بنی
اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ اس واقعے کی
ایک تفسیر اور بھی ہیں جو آپ کو صرف اور صرف واں بھچراں کے مرد مجاہد
مولانا حسین علی اور ان کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کی
تفاسیر میں ملے گی۔ اور یہی وہ تفسیر ہے جس کو اگر اللّٰہ کرے آپ سمجھ
جائیں تو میری اس تحریرکا حاصل بھی آپ خوب سمجھ جائیں گے۔ گائے ذبح کرنے
میں کونسی حکمتِ خداوندی پوشیدہ تھی اس بارے میں یہ حضرات فرماتے ہیں کہ جب
سیدنا موسیٰ کوہ طور پر تشریف لے گئے اور پیچھے قوم نے ایک بچھڑےکواِلٰـہ
بنالیا اور اس کی عبادت کرنے لگے تو سیدنا موسیٰ نے واپس آنے کے بعد اگر چہ
اس ظلم عظیم کے مرتکبین کو سزا دی تھی اور زیورات کے بنائے ہوئے اس بچھڑے
کو جلا کر نام و نشاں مٹا دیا تھا لیکن چوں کہ سامری نےزمین پر بسے ہزاروں
مخلوقات میں سے صرف گائے کے خاندان کا انتخاب کرکے اس کا بت بنا کر لوگوں
کو اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی تھی۔ اسیلیےاِلٰـہ العالمین کا یہ حکم
آیاکہ آپ گائے ذبح کریں تاکہ آپ کے دلوں میں ذرہ برابر بھی گائے کے لیے
عقیدتنہ رہے۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جس چیز کو لوگ اِلٰـہ بنا لیتے
ہیں اللّٰہ ان کے اِلٰـہ سمیت ان پر عذاب کی ضرب لگا دیتا ہے۔ اور عبرت کے
لیےان کے باطلاِلٰـہکیبھی حقیقت کھول دیتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین
کیجئےکہ ان باطلالہپر اللّٰہ کی مار تین طرح کی پڑتی ہے۔ یا تو اتمام حجت
کے بعد اللّٰہ تعالیٰ آسمانیعذاب بھیج کر کسی قوم کو انکے الہسمیت صفحۂ
ہستی سے مٹا دیتا ہےجیسا کہ قوم نوح اور قوم عاد کو مٹایا گیا تھا۔ یا امت
کے تعلیم کے لیے اپنےپیغمبر ہی کے ہاتھوں باطل الہ پرضربیں لگا اس کی حقیقت
آشکارکرتا ہے جیسا کہ سیدنا ابراھیم کا بتوں کو توڑنا، اور محمد رسول
اللّٰہ کا کعبۃ اللہ کے اندر وباہر کے بتوں کو توڑنے کے واقعاتمشہور
ہے۔تیسری قسم کی الٰہیضرب کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب زمین پر خدا کا رسول موجود
نہ ہو اور لوگ کسی چیز کواِلٰـہ کا درجہدیں تو خدا اپنےکسی کمزور مخلوق کو
ان پر مسلط کردیتا ہے اور وہ کمزور مخلوق ان کے بنائے ہوئےاِلٰـہ کو نیست
ونابود کردیتے ہےجیسا کہ چند سال پہلے تک دنیا کے اسٹیج پر ایٹم بم اور
جدید اسلحہ کواِلٰـہ تصور کیا جاتا تھا۔ اور جدید علوم کے علمبرداروں کا
ایمان تھا کہ ہم ایٹم بم اور اسلحہکیطاقت سے کسی بھی قوم کو سرنگوں کرسکتے
ہیں۔ آپروس کو دیکھ لیجیے جس کا دعویٰ تھا کہ میں اسلحہ کی طاقت سے پوری
دنیا کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ چند کمزور
طالبان کے ہاتھوں اللّٰہ نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ۔ اور ان کے چھوڑے ہوئے
اسلحے کوافغانستان کے بچے کھلونے بنا کر کھیلتے رہے۔ اس کے بعد دنیا نے
امریکہ اور نیٹو جیسے عفریتوں کو بھی طالبان کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہوئے دیکھ
چکی ہیں۔
عزیزانِ من۔ آجدور جدید کے علمبردار مضبوطمعیشت کواِلٰـہ تصور کرتے ہیںان
کا ایمان ہے کہ مضبوط معیشت ہی آپکو ہر قسم کی شر سے بچا سکتی ہیں۔ آجہر
قوم کی زبان پر ایک ہی کلمہ جاری ہے کہ مضبوط معیشت قوم کی بقاء کا ضامن ہے۔
اور یہی وہ کلمہ ہے جسمیں معیشت کواِلٰـہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ اور اسی کے
نتیجے میں عذابِ الٰہی کی ضرب انسانیت پر پڑ رہی ہے جس کو آجکل کورونا
وائرس کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کورونا وائرس دنیا کی معیشت پر عذاب الٰہی کی
ضرب کے سوااور کچھ نہیں ہے ورنہ وبائیں تو اس سے پہلے بھی آئیہے۔ لیکن آپ
نے یہ کبھی نہیں سناہوگا کہ کسیوباء کی وجہ سے دنیا کی ساری سٹاک مارکیٹس
کریش کر گئی ہو۔ آجکورونا کی وجہ سے عالمی معیشت کو 11 کھرب ڈالر سے زیادہ
کا نقصان ہوا ہے۔ وبائیں تو کوروناسے پہلے بھی موجود تھی آپ " ٹی بی" کو
لیجیے جس سے ہر سال 15 لاکھ اور ملیریا سے 50 لاکھ کے قریب اموات ہوتی ہیں۔
آپ " ایچ آئی وی کو دیکھے اس وقت دنیا بھر میں 32 لاکھ رجسٹرڈ افراد اس کا
شکار ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی وباء سےعالمی معیشت کو کھربوں ڈالر
نقصان ہوا ہو۔ آجصرف ائرلائنز کمپنیوں کو 200 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا
پڑرہا ہے۔ اور دنیا کے 20 فیصد معیشت کے مالک چین کے بارے میں معاشی پنڈت
کہتے ہیں کہ چین کورونا کی وجہ سے کئی سال پیچھے چلا گیا اگر چین آجاس وباء
سے نجات پالے تو اسے ایک سال اس مقام تک پہنچنے میں لگے گا جس پر دسمبر
2019 میں چین براجمان تھا۔
عزیزانِ من۔ وائرس جو سائنسی تحقیق کے مطابق نہ زندہ ہوتا ہے نہ مردہ "یعنییہ
اللّٰہ کی ایک چھوٹی اور کمزور مخلوق ہے" اور اس نے پوری دنیا کی معیشت کو
اپنے پاؤں تلے روند ڈالا، میرا سوال یہ ہے کہ اس وقتان سپر پاور کہلانے
والوں کا کیا حال ہوگا اگر اللّٰہ اس سے تھوڑی بڑی اور طاقتور مخلوق ان پر
مسلط کردیں؟ آخر میں گزارش ہے کہ میرے دانشور بھائیوں اس تحریر کے متعلق
کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ایک نکتہ پر ضرور غور کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ
نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء صرف مسئلہاِلٰـہ سمجھانے کے لیے ہی اس دنیا
میں بھیجے تھے۔
|