یہ عصمت کیا بلا ہے؟یہ جوانی پر تقویٰ کی مصیبت
کیوں ڈالی گئی ؟ نکاح کے بغیر اگر کوئی محبت کرے تو کیا بگڑ جاتا ہے ؟ اور
نکاح کے بعد کیا عورت کا دل سینے سے نکل جاتا ہے کہ اس سے محبت کا حق چین
لیا جائے ؟ان تمام سوالات کے جوابات اس زمانے کے دانشوروں اور قلم کاروں نے
اس طرح دئیے کہ یہ خیال غلط ہے کہ محبت ایک ہی سے ہونی چائیے اور اس کے دل
پرپورا قبضہ ایک کا ہی ہونا چائیے۔ نادان ہے وہ جو محبت کا محل تعمیر کرکے
اس میں ایک ہی بت کا پجاری بن کر بیٹھ جاتا ہے ،لطف کی ہر گھڑی میں نئے
مہمان کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ان لوگوں نے اعلان کیا کہ اخلاق کی بندشیں
انسانی ذہن کی عقلی،علمی اور مادی و روحانی ارتقاء کے لئے ممکن نہیں ۔ان
خیالات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی۔جنگِ عظیم نے اس
تحریک کو اور بڑھاوا دیا ۔مصنفوں، اخبار نویسوں اور اہلِ سیاست نے ہم زبان
ہو کر پکارنا شروع کیا کہ بچے جنو اور جنواؤ، نکاح کی رسمی قیود کی پروا نہ
کرو۔ انہوں نے وہ سارے نظرئیے پھیلا دئیے جو شیطان کے زنبیل میں بچے کچھے
تھے۔اسی زمانے میں صنعتی انقلاب رونما ہوا ،اس سے معاشی زندگی میں جو
تغیرات رونما ہوئے اور تمّدنی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ سب کے سب
حالت کا رخ اسی سمت پھیر دینے کیلئے تیار تھے جدھر یہ انقلابی لٹریچر انہیں
پھیرنا چاہتا تھا ۔ دیہاتوں سے لوگ شہر کی طرف نقل مکانی کرنے لگے ۔زندگی
گراں ہونے لگی اور روزمرہ کی ضروریات پورا کرنا مشکل ہو گیا ،معاشی حالات
نے مجبور کر دیا کہ ہر فرد کمانے والا بن جائے ۔بیوہ، شادی شدہ اور کنواری
عورتوں کو بھی رفتہ رفتہ کسبِ رزق کے لئے باہر آنا پڑ گیا پھر جب دونوں
صنفوں میں ربط و اختلاط کے مواقع زیادہ بڑھے اور اس کے فطری نتائج ظاہر ہو
نے لگے تو شخصی آزادی کے تصور اور اسی نئی فلسفہ اخلاق نے آگے بڑھ کر
بھائیوں، باپوں، شوہروں اور بیویوں،بہنوں کو اطمینان دلایا کہ گھبرانے کی
ضرورت نہیں ،جو کچھ ہو رہا ہے،یہ گراوٹ نہیں، اٹھان ہے ۔یہ بد اخلاقی
نہیں،عین لطفِ زندگی ہے۔۔۔۔
سرمایہ دارانہ نظام کی نظر انسانی فطرت کی شدید ترین کمزوریوں پر پڑی جس کو
بھڑکا کر اس نے خوب فائدہ اٹھایا ۔سینیما گاہوں، تھیٹروں اور اشتہاروں میں
سارے کا سار ا مدار عورت قرار پائی۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مشکل
ہی سے تجارت کا ایسا شعبہ رہ گیا جس میں شہوانیت یعنی عورت کا عنصر شامل نہ
ہو ،کسی کاروباری اشتہار کو دیکھ لیجئے ،عورت کی تصویر کو مختلف زاویوں سے
دکھایا جاتا ہے گویا عورت کے بغیر اشتہار، اشتہار ہی نہیں ہو سکتا ۔ان
عوامل کے اثرات یہ ہوئے کہ اخلاقی حس میں تعطل پیدا ہو گیا ۔ شرم و حیا،
غیرت و حمیت روز بروز مفقود ہوتی چلی گئی۔بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہ
صورتِ حال بدل گئی ،تحریکِ آزادی نسواں نے مرد اور عورت کی اخلاقی مساوات
کا صور پھینکا ،اس کے اثرات یہ ہوئے کہ متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوان
بھی گمراہی کے دلدل میں پھنس گئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیہودہ خیالات معاشرے میں سرایت کرتے چلے گئے ،
اکیسویں صدی میں عورتوں نے کھل کر برسرِ عام یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ ’’
ہمارا جسم ہماری مرضی ‘ ‘ ۔۔اگر آج کی عورت بدل رہی ہے تو ان کو بلکہ ہماری
پوری قوم کو یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم ان نتائج کو قبول کرنے کے لئے
تیار ہیں جن کا نتیجہ مغربی ممالک میں رونما ہو چکا ہے اور اس کے کچھ اثرات
یہاں بھی دکھائے دے رہے ہیں۔کیا ہم چاہیں گے کہ ہماری سو سائٹی میں وہی
ہیجان انگیز اور شہوانی ماحول پیدا ہو ؟ بے حیائی، بے عصمتی اور فواحش کی
کثرت ہو ؟ نوجوان مرد و عورتیں آزاد شہوت رانی کے خوگر ہو جائیں؟ شہوت
پرستی اتنی منہ زور ہو جائے کہ کمسن لڑکیوں اور لڑکوں سے زیادتی کرکے انہیں
قتل کر دیا جائے ؟
اگر مادی منفعتوں اور حسی لذتوں کی خاطر کی خاطر ہم ان سب چیزوں کے لئے
تیار ہیں تو ہمیں بِلا تامل اس مغربیت کی تباہ کن راہ پر نکل پڑنا چاہیے
لیکن اس راستے پر جانے سے پہلے اسلام سے قطع تعلق کرنا ہوگا تاکہ ہماری
رسوائیاں اسلام اور مسلمانوں کے لئے موجب ننگ و عار نہ بن جائیں ۔لیکن اگر
ہم ان نتائج کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور ہمیں ایک ایسے صالح اور
پاکیزہ تمدن کی ضرورت ہے جس میں انسان کو اپنی عقل ،روحانی اور مادی ترقی
کے لئے ایک پر سکون ماحول میسر آسکے ۔جس میں تمدن کا سنگِ بنیاد یعنی
خاندان پورے استحکام کے ساتھ قائم ہو تو یہ راستہ اسلام کا راستہ ہے مگر اس
کے لئے مغرب کے دلفریب نظریات و تخیلات سے اپنے دل و دماغ کو خالی کرنا ہو
گا اور ان اصولوں کو بھی ترک کرنا ہو گا جو مغربیت سے مستعار لئے گئے ہیں ۔راقم
الحروف کالم ہذا کے ذریعے اپنے ہم وطن بہنوں ،بیٹیوں خصوسا لکھے پڑھے
خواتین سے ملتمس ہے کہ قدرت نے اشرف المخلوقات میں بھی اس قانون کو ملحوظ
رکھ کر مرد اور عورت کی تخلیق کی ہے جو ایک دوسرے کا جوڑ ہیں ۔عورت کا جسم
نازک اور اس کے مزاج میں جذباتیت کے ساتھ جذبہ آرائش و اور نسیا نیت ہے
جبکہ مرد کا جسم مظبوط اور اس کے مزاج میں سختی کے ساتھ مظبوط قوتِ ارادی
اور قوتِ فیصلہ ہے کہ مرد بیرونی کاموں کا ذمہ دار قرار پائے اور عورت
اندرونِ خانہ کی ذمہ دار ٹہری ہے ،قدرت نے دونوں کو ایک بندھن میں باندھ کر
اسے بھی اہم فریضہ کی ذمہ داری دی ہو ئی ہے ۔اگر وہ فریضہ بہ احسنِ تقویم
ادا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ کامیابی دونوں جہانوں میں اس کی کامیابی
کی ضامن ٹہرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|