پاکستان بالخصوص سندھ لاک ڈاؤن کے دوسرے سخت ترین مرحلے
میں داخل ہوچکا ۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے لئے تمام صوبائی
حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا ، ایک ہفتے بعد اب مزید احتیاط و
برداشت کی ضرورت بڑھ گئی ۔ کیونکہ کرونا وائرس کے علامات نمودار ہونے کے
لئے14دن ضروری خیال کئے جاتے ہیں ، ابتدائی طور پر لاک ڈاؤن کو عوام نے
اتنا سنجیدہ نہیں لیا ، تاہم اس وقت کرونا وائرس اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے
بعد چند دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجائے گا ، اس وقت وفاقی حکومت کے مطابق
مشتبہ افراد کی تعدادبارہ ہزار سے14ہزار یا اس سے بھی زائد ہے جبکہ1500سے
زائد مریض اس وقت کرونا کا شکار ہوچکے ہیں ، دیگربیرون ممالک سے آنے والے
شہریوں و زائرین کی درست تعداد تو سامنے آچکی ہے ، تاہم انہیں حفاظتی دائرے
میں لانے کے لئے کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں ،اطلاعات کے مطابق نصف تعداد کو
تلاش نہیں کیا جاسکا ، اس کی مختلف وجوہ بتائی جارہی ہیں ، جن میں ایڈریس
کا غلط ہونا اور موبائل فون بند ہونا شامل ہے ، کم و بیش اسی قسم کی
صورتحال کا سامنا تمام صوبوں کو ہے، سندھ حکومت نے سرچنگ کا بروقت اقدام
کیا تھا تاہم اس وقت صوبائی حکومت کی جانب سے جراثیم کش اسپرے کا استعمال
نہ کئے جانا ، اور کچی آبادیوں میں اہلیان علاقہ کے ہجوم و کھیل کود کے لئے
جمع ہونے والے نوجوانوں و بچوں کو گھروں میں محدود رکھنے میں ناکامی کا
سامنا ہے۔ سندھ حکومت مسلسل لاک ڈاؤن میں سختی کررہی ہے ، لیکن مشاہدے میں
آیا ہے کہ گنجان وکچی آبادیوں کے اندر اہلیان علاقہ احتیاطی تدابیر کا
بالکل خیال نہیں رکھ رہے ، کرونا وبا کو انتہائی غیر سنجیدہ لیا جارہا ہے ،
بڑے اجتماعات پر پابندی ہونے کے باوجود جھوٹے چھوٹے مجمع ہدایات نظر انداز
کررہے ہیں ۔
لاک ڈاؤن کے دوسرے ہفتے میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہونا شروع جائیں گی
، اختتام تک کرونا انسانی خلیوں میں اپنی جگہ بنا چکا ہوگا ، اس صورتحال
میں کرونا وائرس کے شکار مریضوں سے مقامی طور پر وائرس بہت تیزی کے ساتھ
پھیلنے کا خدشہ ہے ، اسی طرح مریضوں کی تعداد میں بھی بڑے اضافے کے خطرات
بڑھ جائیں گے ۔ حکومتیں آنے والی افتاد کا ادارک کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے ،
اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔لاک ڈاؤن کے دو ہفتے مکمل ہونے کے بعد
کرونا وائرس کی وبا میں اضافے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے، اس وقت مملکت میں
وینٹی لیٹر سمیت طبی آلات و تربیت یافتہ عملے کی شدید کمی ہے ۔ ان حالات
میں حفاظتی سامان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، تاہم اس
اَمر کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ گر مملکت میں کرونا وائرس کا
خدانخواستہ خطرناک پھیلاؤ ہوا ، تو اس کی زیادہ تر ذمے داری عوام پر بھی
عائد ہوگی ۔ اس موقع پر غیر محتاط و انتہائی غیر ذمے دارانہ رویہ قطعاََ
مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا ۔
بیشتر حلقوں کو امریکا ، اٹلی کی مثال دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ ان کے
مطابق25 فروری کے بعد امریکا ، اٹلی میں مریضوں کی تعداد و ہلاکتوں میں
اضافہ ہوا ، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے ، اعداد و شمار سے ثابت کرنے کی
کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے ’’ بہتر ‘‘ انتظامات کی وجہ سے کرونا کی
تباہ کاریاں مملکت میں کم ہیں ، یہ قطعی غیر ذمے دارانہ رویہ اور حقائق سے
روگردانی ہے ، کیونکہ جب جنوری میں چین کے شہر ووہان میں وبا پھوٹی تو دنیا
بھر کے ممالک نے اپنے شہری واپس بلالئے تھے ، اُس وقت سے کرونا نے اُن
ممالک کے عوام میں اپنا پھیلاؤ شروع کردیا تھا اور لاک ڈاؤن کا تصور نہیں
تھا ، ایک کرونا زدہ شخص کم ازکم پانچ افراد کو متاثر کرتا ہے ، چین نے50دن
مسلسل سخت ترین لاک ڈاؤن کے بعد وبا کو کنٹرول کیا تو دنیا کے علم میں آیا
کہ کرونا کا اس وقت واحد علاج احتیاط ہے ، اس لئے چین کی طرح لاک ڈاؤن کا
سلسلہ شروع ہوا ، لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی اور امریکا ، فرانس ، اٹلی
، اسپین ، برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ممالک بُری طرح کرونا وائرس کا شکار
ہوگئے ، ان کا لاک ڈاؤن تاخیر سے شروع ہوا ، تاہم کئی ایسے علاقے جو لاک
ڈاؤن کردیئے گئے تھے مدت ختم ہونے کے بعد کھول دیئے گئے ، لیکن دوسرے
علاقوں میں احتیاط نہ برتنے کے سبب لاک ڈاؤن ہونے والے علاقے بھی زد میں
آگئے ۔اس وقت دنیا بھر میں جو صورتحال ہے وہ اب سب کے سامنے ہے۔
کرونا نے دنیا کا نقشہ مکمل طور پر بدل دیا ہے ، یہ اَمر تو یقینی ہے کہ
کرونا کے اثرات سے دنیا کو نکلنے میں کئی مہینے بلکہ برسوں لگ سکتے ہیں ،
ترقی پذیر ممالک کی معاشی کمر ٹوٹ چکی ہوگی ۔ ترقی یافتہ ممالک کو اس وقت
طبی آلات کی کمی کا سامنا ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اس
قسم کی وبا کے پھیلنے کا تصور نہیں کیا تھا کہ کرونا ، یوں بھی بے قابو
ہوسکتا ہے ، اس وقت امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک کی جدید صنعت طبی آلات کی
کمی کو پورا کرنے میں مصروف ہوچکے ہیں ، مہنگے داموں طبی آلات فروخت کئے جا
رہے ہیں،ترقی یافتہ ممالک اپنی مضبوط معاشی طاقت کے بل بوتے پر ان حالات سے
نکلنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے ، توقع ہے کہ چند مہینوں میں نکلنے میں
کامیاب بھی ہوجائے گی ، جانی و مالی نقصان بھی ناقابل تلافی پہنچے گا ۔
لیکن ترقی پذیر ممالک کیا کریں گے ، یہ سوچ کر ہی دل دہل رہا ہے ، بالخصوص
ان حالات میں کہ ابھی تک مریضوں کی تشیخص کا عمل ہی انتہائی سست روئی کا
شکار ہے ، کرونا وائرس کے شکار متاثرین کی تلاش و مقامی طور پر پھیلاؤ
روکنے کے لئے اقدامات کے انتظامات تسلی بخش ہی نہیں ہیں، اس موقع پر عوام
کو ڈرانا مقصود نہیں ، بلکہ باور کرانا ہے کہ خو دساختہ مفروضہ لے کر اپنے
آپ اور اہل وعیال کو ناقابل تلافی نقصان سے پہنچا سکتے ہیں۔
کرونا ، مذہب ،قومیت ، لسانیت سے ماورااُن افراد کے لئے نقصان دہ ہے جو
احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے ۔ کرونا کی تشخیص کے لئے حکومت کو جنگی
بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مملکت پہلے ہی مہنگائی و بے روزگاری
سمیت معاشی دشواریوں کا شکار ہے ، رہی سہی کسر کرونا نے پوری کردی ، عوام
کو اس عالمی وبا سے بچنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کرنے ہونگے ۔
بے احتیاطی و ہدایات کو نظر انداز کرنے سے صرف کرونا کو فوائد حاصل ہونگے ،
جب کہ نقصان بالخصوص غریب محنت کش طبقے کو ہوگا ۔ اپنے پیاروں کو تکلیف سے
تڑپتے دیکھنے سے بہتر ہے کہ خلاف وزریاں کرنے کی مہم جوئی ختم کریں ،
کیونکہ ہم سب جتنی بے احتیاطی کررہے ہیں یہ کسی بھی حق میں بہتر نہیں ہے۔
|