عابدہ حسین ، ساہیوال
آج ہم جس معاشرے کا حصّہ ہیں اور جس ظالم سماج میں جی رہے ہیں اس میں کسی
دوسرے انسان کو مار دینا اور ظلم زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دینا ایک
عام سی بات ہے مگر ایک ایسا معاشرہ یا جس ریاست میں عدل وانصاف نہ مل سکے
اور جس کے پناہ گزینوں کو جان ومال کا تحفظ نہ مل سکے وہ معاشرہ یا ریاست
کیسے ترقی کر سکتی ہے؟؟؟ یا پھر اس میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟؟؟۔ آج ہم
کورونا جیسی مہلک و جان لیوا وبا سے پر یشان ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی
طلب کر رہے ہیں مگر سوچیے جب ہمارے سامنے یوم حشر گناہوں کی ایک لمبی فہرست
ہوگی تو ہم کیا جواب دیں گے کہ ہم اس ریاست کے باشندے ہیں جس میں غیرت کے
نام پر قتل کر نا یاپھر ننھے پھولوں اور کلیوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل
کر دینا رواج بن چکا تھا۔ اور سب سے بڑی بات قتل ہونے کے بعد قاتل کو چھوڑ
دینا یا معاملے کو لین دین کرکے رفع دفع کر دینا یا پھر ایسے مظالم کو دیکھ
کے سن کے خاموشی اختیار کر لینا کیا یہ بھی جائز ہے؟؟؟۔ ہونا تو یوں چاہیے
تھا کہ ایک زینب کے قاتل کو اس طرح کیفرِکردار تک پہنچایا جاتا کہ دوبارہ
کوئی کسی ننھی معصوم کلی کو کچلنے کی ہمت نہ کرپاتا اور ایک زینب کے بعد
دوسری زینب کو قتل نہ کیا جاتا اور نہ کسی باپ کے گلشن کو اُجاڑا جاتا۔جہاں
ہم ایک طرف اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہیں اپنے رب سے رحمت کی بھیک مانگ
رہیں تو دوسری طرف ابھی تک ان وباوئں کی ذلت میں ڈوبے ہوے ابھی تک ظلم اور
بربریت وقہر برسا رہے ہیں انسان ہی انسان کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کے گلشن
اجاڑ رہا ہے۔آج ایک اور زینب کا خون اس ظالم سماج سے انصاف مانگ رہا اور
ایک اور ننھی کلی کا باپ آسمان کو دیکھ کے دہائی دے رہا ہے کہ دیکھو میرا
گلشن اجڑ گیا میری ننھی کلی مرجھا گئی۔
ہمیں آنچ تک نہیں آتی
کلیوں کے مرجھانے سے۔۔۔
27 مارچ 2020 کو مردان کے علاقے شرین کوٹوں جان آباد میں ایک 8 سالہ معصوم
سی کلی ماحہ کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا اور پھر بوری میں بند
کر کوڑے کی طرح پھینک دیا گیا اور شاید ابھی تک کسی نے خبر تک نہیں لی۔ نہ
ہی کسی نے اس بے بس باپ کو تسلی دی ۔اور نہ ہی ہمارے میڈیا چینلز نے اس خبر
کو نشر کیا۔۔۔ افسوس صد افسوس۔۔ ذرا سوچیں ایسی ننھی کلیوں کا حساب کون دے
گا؟؟؟ایسی وباوئں سے ہمیں چھٹکارا کون دلائے گا؟؟؟ اور کب تک ہمارے معاشرے
ننھے پھولوں کو کچلا جائے گا؟؟؟۔ کہیں یہ نہ ہو کہ پورا چمن ہی اجڑ جائے
اور ہمیں خبر تک نا ہو۔اور یاد رکھیے! کسی قوم کی زوال پذیری کی بنیادی وجہ
معاشر ے میں عدل کی کمی ہے اور کسی دانا کا قول ہے کہ اگر کسی قوم کو برباد
کرنا چاہتے ہو تو اس میں فحاشی پھیلا دو آج ہمارے معاشرے میں اس قسم کے
واقعات ہونا اور عدل کی کمی ہمارے مسلمان ہونے پہ سوالیہ نشان ہے۔
پھیکے پڑ گئے آسماں کے رنگ
جب قہر زمیں دیکھا
|