سسکتی زندگیوں کے لیے تم بھی کچھ کرونا……!

 ایک نو دس سالہ بچی کریانہ سٹور پر آئی اور ایک سائیڈ پر کھڑی ہوگئی ، دکاندار گاہکوں کو سامان دیتا رہا ، اور باری آنے پر بچی سے پوچھا کہ اسے کیا چاہیے ؟ بچی پہلے تو کہتی رہی کہ نہیں انکل پہلے باقی لوگوں کو ہی سامان دے دیں، پھر اس نے مٹھی میں پکڑے دس دس روپے کے دو نوٹ دکاندار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ انکل 20 روپے کا آٹا دے دیں ۔ اس پر بے حس دکاندار نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ان کا کیا آئے گا ، آدھا کلو آٹا بھی نہیں آئے گا ، پھر20 روپے کا آٹا تول کر بچی کی جانب بڑھا دیا ۔ اس چھوٹے سے واقعے نے راقم کو انتہائی رنجیدہ اور بے چین کردیا،میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شام گئے آٹا خریدنے آئی اس بچی کے گھر کے حالات نہ جانے کیسے ہوں گے ۔ اور میں اس وقت سے سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہ عام حالات میں بھی بہت مشکل سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جہاں مفلسی و فاقہ کشی کے ڈیرے ہیں۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے پچیس فیصد سے زائد افراد خط سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایک وقت کا کھانا کھا لیں تو دروازے کی طرف تکتے رہتے ہیں کہ دوسرے وقت کا کھانا کہاں سے آئے گا۔ لیکن اس کے باوجود ان کی بیویاں اور بچے کسی نہ کسی طرح ایسے کام میں مصروف رہتے ہیں کہ کچھ کما کر لا سکیں تا کہ پیٹ کی بھوک بجھانے کا بندوبست ہو جائے، یہ مفلوک الحال طبقہ اپنی زبان پر حرف شکایت نہیں لاتا اور نہ ہی کسی کے سامنے دست دراز کرتا ہے ۔ اور اب جبکہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے کاروباری ادارے، فیکٹریاں و کارخانے ، ٹرانسپورٹ وغیرہ سب کچھ تو بند ہے ایسے میں غریب محنت کشوں اور تازہ روزی کماکر گزر بسر کرنے والوں کے حالات نہ جانے کیا ہوں گے۔کرونا وائرس سے زندگی کا پہیہ جام ہے تو دہاڑی داروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہوں گے ، نہ جانے وہ کیسے وہ اپنا گزر بسر کررہے ہوں گے ، نہ جانے بھوک کے مارے بچوں کو کیا کیا دلاسہ دیتے ہوں گے ۔

محنت کش طبقہ کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہ ہونے کیلئے وزیراعظم پاکستان نے مستحقین کے گھروں تک اشیائے خوردونوش اور ادویات پہنچانے کے متعدد اقدامات اٹھا نے کے عزم کا اظہار کیا ہے ، اوراس مقصد کیلئے ٹائیگر فورس تشکیل دیکر یوتھ رضا کار پروگرام کا اجراء کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے بھی مستحقین میں مفت راشن کے لئے رقم تقسیم کرنے کے لئے کمیٹیاں قائم کر دی ہیں ، جن کے ذریعے 4ہزار روپے فی گھر مستحقین کی دہلیز پر تقسیم کئے جائیں گے ۔ اسی طرح سندھ حکومت نے بھی 20لاکھ راشن بیگ مستحق افراد میں تقسیم کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں عوام کیلئے جتنے بھی ریلیف پیکیج جاری کئے جاتے رہے وہ مستحقین کے بجائے پارٹی ورکروں اور چہیتوں میں ہی تقسیم ہوتے رہے ہیں ۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ حکومت قومی وسائل کی مستحق افراد تک رسائی میں شفافیت کو یقینی بنائے تاکہ حکومتی امداد مستحق افراد تک پہنچ سکے۔ اس کے علاوہ یہ کہ بحران کی کیفیت میں ہر قسم کے حکومتی اور غیر حکومتی پیکیج، فلاحی تنظیموں اور انفرادی طور پر مدد کرنے والوں کی تمام تر توجہ غریب محنت کشوں پر تو ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس افراد کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے ۔ پندرہ بیس ہزار کی آمدنی والے سفید پوش لوگ جو کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے اور بمشکل اپنا بھرم قائم رکھ پاتے ہیں ان کی مدد اور معاونت کے لئے کوئی نہیں سوچتا، کہ فلاں صاحب کی دکان بند پڑی ہے ، فلاں کا کام کاج نہیں ہے کیسے گزارا ہو رہا ہوگا؟حکومت کی طرف سے اس طبقہ کو بھی ٹیکسوں اور انرجی بلوں کی مد میں چھوٹ ملنا چاہیے ، اور ان کے نقصان کے ازالہ کے لیے موثر اقدامات اٹھانا چاہیے ۔

خوف و مایوسی کی صورتحال میں آج الحمد ﷲ چند شہروں میں کرونا متاثرین کی مدد کے لئے گمنام مخیر افراد بھی سرگرم عمل ہیں، جن کا وجود اہل پاکستان کے لیے باعث خوشی ہے۔ جو کہ نہ تو اپنا چہرہ دکھاتے ہیں اور نہ ہی نام بتاتے ہیں ، اور نہ ہی ان کو سیلفی بنا کر تصویر اپ لوڈ کرنے کی جستجو ہوتی ہے ۔ بس خاموشی سے مستحق افراد کو راشن اور دوسری اشیاء دے کر ان کی دعائیں لیتے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے پچھلے چند دنوں میں تیس چالیس کروڑ سے زیادہ کا راشن تقسیم کیا ۔ اسی طرح اخوت محلہ کی سطح پرمواخات کے تصور کو لے کر چل رہی ہے ، دوسری تنظیمیں بھی اپنے اپنے انداز میں کام کر رہی ہیں۔ لا ک ڈاؤن کی کٹھن صورتحال میں آج ہمارے ملک کو مثالی ایثار و یکجہتی کی ضرورت ہے جو کہ حکمران ، سیاسی و دینی شخصیات، سرکاری و نجی اداروں کے افسران ، ممتاز صنعتکار، کاروباری شخصیات، اور سماجی رہنماؤں کی عملیت پسندی کی متقاضی ہے ۔ مخیر حضرات کو اپنے اپنے دائروں ،احاطوں اور حدود کے اندر مستحقین کی مدد کو یقینی بنا نا چاہیے ، اور ملک کے متمول طبقات کی جانب سے صلہ رحمی کے جذبہ کو بروئے کار لا کر اپنے پاس پڑوس، گلی محلے اور شہر بھر میں ایسا اہتمام کرنا چاہیے کہ کوئی فرد کسی گھر میں بھوکا نہ سوئے اور ادویات نہ ہونے کے باعث کسی کی ہلاکت نہ ہو۔ جبکہ عادت سے مجبور گرانفروش اور منافع خوروں کو اپنی ’’تسکین طبع‘‘ کو کسی مناسب وقت کیلئے اٹھا ر کھنا چاہیے ، اور اشیاء خوردونوش کی رضاکارانہ طور پر مناسب نرخوں پر فراہمی، یقینی بنانا چاہیے تاکہ عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہ ہو۔
 

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 817774 views Journalist and Columnist.. View More