کوئی تو ساقی ہو

پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے تاریخی سیمی فائنل میچ سے قبل موصول ہونے والے بیسیوں میسجز میں سے ایک میسج ملاحظہ کیجئے! ”اساں ونج کے انڈیا کوں میڈایار ہریسوں ان شاءاللہ....ودے یاد کریسن عرصے تائیں انجیں کھیڈ ڈیکھسوں ان شاءاللہ ....اساں امتی ہاں جس ہستی دے اوندی لاج رکھیسوں انشاءاللہ ....کپ جت کے ”تنہا“ 92 دی تاریخ دہریسوں انشاءاللہ “(ہم انڈیا کو اس کے دیس میں جاکر شکست دیں گے جسے وہ عرصہ تک بھول نہ پائیں گے ۔ہم جس نبی کے امتی ہیں ،اس کی لاج رکھیں گے اور ورلڈ کپ جیت کر 92 کی تاریخ دہرائیں گے ۔ انشاءاللہ )ممکن ہے کہ یہ میسج پڑھتے ہی فوراً آپ کے منہ سے ”استغفراللہ “نکلا ہو،لیکن ہمارے خیال میں یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ ایک بار استغفراللہ کہہ کر اسے نظر انداز کردیا جائے۔ چوکوں اور چھکوں کے کھیل کو کفرواسلام کی جنگ بنا دینا اور اس کی ہار جیت کو نعوذ باللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لاج اور عزت وناموس کا معاملہ قرار دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ کرکٹ کے جنون کے اِس خطرناک ڈگری تک پہنچنے کے اسباب کا حقیقت پسندانہ تجزیہ ضروری ہے ۔کیا آپ یقین کریں گے کہ اِس میچ کے دوران کئی لوگوں نے پاکستان کی جیت کے لیے باقاعدہ تسبیحات اور ذکرواذکار کا اہتمام کیا؟ایک جگہ تو بعض لوگوں نے مل کر ایک لاکھ بیس ہزار دفعہ آیتِ کریمہ (لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) اور ایک جگہ سوالاکھ دفعہ ”یاسلام“ کا ورد کیاگیا۔ جی ہاں، جو آپ سوچ رہے ہیں وہی میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کاش یہی تسبیحات ،دعائیں اور ذکرواذکار مسلمانوں کی حقیقی نشاتِ ثانیہ اور اسلام کی سربلندی کے لیے ہوتے اور جس اجتماعی شعور اورجوش وجذبہ کا اظہار موہالی کے میدان میں اترنے والے کرکٹ کے کھلاڑیوں کے لیے کیا گیا ہے ، وہ دنیا بھر کے پسے ہوئے مظلوم مسلمانوں اور طاغوت سے تنِ تنہا پنجہ آزمائی کرنے والے خدا مستوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ہوتا تو نہ جانے کیا سے کیا ہوجاتا؟ہمارے نبی جی کو اپنی لاج کے لیے ہمارے ٓچوکوں اور چھکوں کی ضرورت نہیں۔ ان کی لاج تو خدائے پاک جل مجدہ نے رکھی ہوئی ہے اور اسی لاج کی برکت سے ہی آج ہم (بے وفا امتی ) انسانی روپ میں روئے ارض پر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ فتح اور جیت اس کے تلوے کی خاک اور عروج وکمال اس کا تسمہ پا ہے ۔ کوئی ہارے یا جیتے ، مسلمانوں کی جیت تو اس کی جیت ہے ہی، ان کی ذلت اور شکست بھی اسی کی جیت ہی ۔ بے شک دیکھ لیجئے ! ان کی ہر ہار اور شکست میں اسی کے کسی زریں اصول اور حکم کے خلاف ورزی مضمر ہوگی۔

یہ درست ہے کہ بین الاقوامی سطح کے کھیلوں کے کچھ اپنے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جیتنی والی قوم میں فتح مندی اور ہارنے والی قوم میں شکست خوردگی کا احساس پیدا ہوتا ہے جو بے معنی ہونے کے باوجود پوری قوم کی جذبات کو متاثر ضرور کرتا ہے۔ لیکن پاک بھارت سیمی فائنل کے دوران قوم کا تھرمواسٹیٹ جس خوف ناک حد تک پہنچا ہوا تھا، اس کی وجہ صرف کرکٹ کا جنون ہی نہیں تھا ۔ اس کے کچھ اور بھی اسباب تھے جن کو ہماری قوم کے واعظوں نے نظر انداز کردیا ۔ ان اسباب کی تحلیل اور تجزیہ کے بغیر تبدیلی کا خواب صرف خواب ہی رہے گا۔

مسلسل شکست کا سامنا کرنے والا انسان جب کسی حقیقی کامیابی کے حصول سے ناامید ہوجائے تو پھر ہاکی ، بلا اور گلی ڈنڈے کے کھیلوں میں ہی دل کے بہلاوے کاسامان تلاش کرلتا ہے ۔ ہمارے خیال میں شاید کوئی نادان ہی ہوگا جو اِس میچ کو حقیقتَا کفرواسلام کی جنگ کے زاویہ سے دیکھتا ہوگا یا دل سے یہ سمجھتا ہوگا کہ ورلڈ کپ جیت جانے کی صورت میں پاکستان کے تمام مسائل حل ہوجاتے اور دنیا میں اسے عزت ومرتبہ کا کوئی نمایاں مقام حاصل ہوجاتا ۔ اصل المیہ یہ ہے کہ ہماری قوم اور ان کے راہ نماؤں کے دلوں کے تار آپس میں مربوط نہیں ۔ راہ نماؤں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے نوجوان طبقہ کے دکھ اور محرومیاں کیا ہیں یا ان کی قلبی کیفیات کیا ہیں؟دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے ، کیا ہمارے نوجوانوں کو وہ سب نظر نہیں آرہا ؟کیا صرف میں اور آپ ہی ہیں جو پوری امت مسلمہ کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے بیٹھے ہیں ؟ ہر کلمہ گو ، مسلمانوں کی پے درپے شکستوں اور ہزیمتوں کے احساس سے آزردہ ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کی عزتِ رفتہ ملے ، وہ دنیا میں سراٹھاکر چلنے کے قابل بنیں اور ذلتوں اور رسوائیوں کا دور ختم ہو ۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ سب کرکٹ ورلڈ کپ جیت جانے سے ممکن نہیں ہوگا ۔ اس کے کچھ اور ہی تقاضے ہیں ، مگر وہ کیا ہیں ؟ ان کی بازیابی کے لیے اِس ناتواں کو کیا کرنا ہوگا؟ ان کے عملی راستے کیا ہیں اور ان کی ہیئت وصورت کیا ہوگی ؟ یہ اور اس جیسے کتنے ہی سوالات ہیں جو پھن پھیلاکر اس کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے وطن اور قوم سے وابستگی اور دشمن سے اظہارِ نفرت ہر انسان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے لیے مواقع درکار ہوتے ہیں ۔جب اِن جذبات کی نکاسی کے لیے مثبت اور تعمیری راستے نہ مل سکیں تو پھر ان کا اظہار کھیل کود اور لہوولعب کے میدانوں میں ہوتا ہے ۔ پاکستان اور بھارت ....ایک دوسرے کے خلاف فاتح بننے اور بالادستی حاصل کرنے کے جذبات دونوں طرف کے عوام کے خمیر میں شامل ہیں۔ پاک بھارت سیمی فائنل کے دوران یہی جذبات ہی تھے جو ابل کر سڑکوں اور چوراہوں پر امنڈ آئے تھے اور کھیلوں سے قطعاً دلچسپی نہ رکھنے والے متشرع لوگ بھی یہ کہتے نظر آئے کہ خدا کرے ہندو ہار جائے ۔

اور ہاں ایک پہلو اور بھی ہے ۔ کرکٹ کے ساتھ نوجوانوں کے غیر ضروری حد تک شغف کے پس ِ منظر میں میڈیا کے بعض گروپس کی طویل ریاضت بھی کارفرما ہے۔ اگر ہمیں یہ شکوہ ہے کہ سربجیت سنگھ سے ڈیوس کی رہائی تک اور محسنِ پاکستان کی بے توقیری سے لے کر دخترِ قوم عافیہ صدیقی کی تذلیل تک کسی بھی موقع پر عوام نے سڑکوں پر نکلنے کی زحمت گوارا نہیں کی تو ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہم نے اس کے لیے محنت کتنی کی؟اپنی کتنی راتوں کا آرام اس مقصد کے حصول کے لیے قربان کیا اور اپنے کتنے وسائل اس کے لیے صرف کیے ؟یاد رکھئے کہ باطل کو دعوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسان طبعی طور پر اس کا میلان رکھتا ہے۔ دعوت کی ضرورت حق کو ہوتی ہے کیونکہ حق کی راہ اختیار کرنے کے لیے انسان کواپنی خواہشات کا گلادبانا پڑتا ہے اور بہت سے کڑوے گھونٹ جبراً حلق سے اتارنا پڑتے ہیں۔مگر جب حق کے داعی خراٹے لے رہے ہوں اور باطل نے اپنی دعوت عام کرنے کے لیے اپنا دن رات ایک کر رکھا ہو تو پھر یہ شکایت بے محل ہوجاتی ہے کہ قوم میں شعور اور فکری بلوغت کے آثار کیوں ظاہر نہیں ہو رہے ؟تاہم بھا رت کے مقابلہ میں پاکستانی ٹیم کے ہار جانے کے باوصف یہ اچھا ہوا کہ نوجوانوں کو کسی نہ کسی بہانے ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگانے اور پاکستان کی اکائیت سے اظہارِ محبت کا موقع مل گیا۔ لہو کو گر م رکھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔

مت بتلائیے کہ حقیقی جیت کسے کہتے ہیں کیونکہ اس کا معنی ومفہوم ابہام سے بالکل پاک ہے۔ البتہ اگر اس کا کوئی عملی ماڈل آپ کے پاس ہے تو وہ ضرور منظر پر لائیے اور یہ بھی بتلائیے کہ آپ نے قوم کو اس عملی ماڈل کی راہ پر لانے کے لیے کتنا مجاہدہ اور کتنی محنت کی؟ ذرا نم ہو تو بڑی زرخیز ہے یہ مٹی ساقی ، مگر کوئی ساقی بنے بھی تو سہی!
Muhammad Abdullah Shariq
About the Author: Muhammad Abdullah Shariq Read More Articles by Muhammad Abdullah Shariq: 42 Articles with 46811 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.