کتنے ہونہار بچے کسی اور شعبہ میں جا کر بددل ہو جاتے ہیں
یا اس کے ساتھ بھرپور انصاف نہیں کر سکتےہیں کہ انکی مرضی کہیں اور ہوتی
ہے، اس حوالے سے والدین کو آگاہی دی جائے کہ بچوں کی رجحان سازی کے مطابق
شعبہ کا انتخاب عمدہ صلاحیتوں کے اظہار کا سبب بنتا ہے۔
جب تک معاشرے میں ایک دوسرے کا احساس کرنے کا جذبہ بیدار نہیں ہوتا ہے تب
تک ہم ایک قوم کا روپ نہیں دھار سکتے ہیں
#ہم_سب_ایک_ہیں
سب کو اختلافات کو بھلا کر بھلائی کا سوچنا چاہیے، اختلاف رائے کی آزادی
بھی ہو تاکہ خوشحالی آئے۔
فلاں نے یہ کردیا، اُس نے مروا دیا،سب غلط ہیں،ایسی سوچ رکھنے سے ناکامی ہی
مقدر بنتی ہے، کامیابی حاصل کرنی ہے تونتائج کو قبول کرکے ازسرنو کوششیں
کریں۔
کچھ لوگ ایسے خود کو بھرا ہوا ثابت کرتے ہیں جیسے غبارے میں ہوا بھری ہوئی
ہو مگر وقت کے ساتھ اُن کے غبارے سے ہوا نکل جائے تو دو کوڑی کے ہو جاتے
ہیں۔
خطرات سے جب تک نہ کھیلا جائے تو کبھی کھبار کامیابی کا حصول ناممکن سا ہو
جاتا ہے، اس لئے محتاط ہو کر خطرہ کو مول لے کر کامیاب ہو جائیں۔
ہم ہمیشہ ماضی کے حوالے سے پریشانی کا شکار رہتے ہیں مگر کبھی ماضی کی
بجائے مستقبل کی فکر بھی لاحق ہو جائے تو انسان ذہنی انتشار کا شکار ہو
جاتا ہے اس لئے پرسکون اورخوشی کی زندگی کے لئے اپنے لمحہ موجود میں جینا
سیکھیں۔
اگر آپ خوشگوار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو پھر ماضی کی تلخیوں کو دیکھنے
کی بجائےاپنے آج میں زندگی کو خوشی سے جینا شروع کر دیں۔
جب آپ دنیا والوں کو اہمیت زیادہ دیں گے تو پھر کس طرح سے دنیا والوں کے
بنا جی سکیں گے، آپ ہر کام میں اللہ کی مرضی یا اس کے احکامات کے مطابق
چلیں یا اپنے دل کی مرضی پر چلیں جب آپ دوسروں کا سوچیں گےتو دوسروں نے
جینا حرام کرنا ہے۔
جب مسلسل ایک کام یا ایک بات کو سوچتے رہیں گے تو خود اچھا محسوس کریں گے
یا پھر خوف زدہ ہو جائیں گے لہذا مثبت طرز فکر رکھیں تاکہ نفسیاتی طور پر
پریشان نہ ہو جائیں اور ذہنی سکون ملے نا کہ ذہنی انتشار کا شکار ہو کر موت
کے دہانے پر پہنچ جائیں کہ خوف موت کی طرف لے جاتا ہے۔
محبت ہر آدمی سے کرو کہ اللہ نے کسی بھی شخص کو بلاوجہ تخلیق نہیں کیا
ہے۔آپ کی محبت ہو سکتا ہے کہ اسکی زندگی سنوردے کچھ لوگ محبت کی طاقت سے وہ
کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو یوں کبھی نہیں کر سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
نیت بدل جائے تو پھر نتائج بھی حسب توقع حاصل نہیں ہوا کرتے ہیں۔
شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور ہر شہادت آزادی کی شمع کو مزید جلاتی ہے،
حریت پسند ہر قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں اور بڑی قوم وہی ہوتی ہے جو اپنے شہدا
کو یاد رکھتی ہے۔
جب آپ اپنی زندگی کے سکون کو دوسروں کے مرہون منت تصور کریں گے تو پھر تو
آپ کو پریشانی ہی ہوگی نا، آپ دوسروں کی وجہ سے خود کو کیوں اذیت دیتے ہیں
کوئی سمجھے نہ سمجھے پروا کرے نہ کرے آپ اپنے آپ کے ساتھ مخلص ہو کر رہو کہ
خود کو ہر حال میں پرسکون رکھنا ہے جب ایسا نہیں ہوگا تو پھر نفسیاتی طور
پر الجھے رہیں گے۔
رازداری کے ساتھ اپنے مسائل کو حل کرنا انسان کو بعد کی مشکلات سے محفوظ
رکھتا ہے۔
تہجد کو اپنی نہیں رب کی باتوں کو مان لینے پر ادا کیا جائے تو رب وہ بھی
عطاکرتا ہے جو ہماری ضد ہوتی ہیں۔
محبت تو یہ ہے کہ محبوب کی خاطر طواف کیا جائے اور محبوب کے در پر حاضری دی
جائے۔
جب آپ اندر سے کمزور ہوں تو پھر باہر سے کوئی بھی تکلیف دے کر زخمی کر دیتا
ہے تو داغ تو اچھے ہیں سمجھ کر یہ سوچیں کہ کپڑے پر لگا داغ دھو کر پھر سے
کپڑے پہن لینے ہیں اسی طرح سے زندگی کو ایک بات پر پریشان کن نہیں بناتے
ہیں۔
منہ سیدھا ہو تو سب ہی منہ لگا لیتے ہیں جب منہ ہی بدبودار ہو تو پھر کس نے
بغلگیر ہو کر راز دل کو بیان کرنا ہے، جب تک زبان کو لگام نہیں دی جائے گی
تب تک تعلقات ٹھیک نہیں ہونگے۔
ہمیں اچھی بات کی تقلید نہیں کرنی ہے بس جو بھی کوئی بُرا فعل کرے یا بات
کہے اُسے پھیلا کر ثواب دارین حاصل کرنا قومی فریضہ سمجھ لیا ہے خبر جھوٹی
ہو یا سچی جب تک پیٹ ہلکا نہ ہو تب تک سکھی نہیں رہ سکتے تب ہی روزنت نئے
واقعات جنم لیتے ہیں مگر ہم سدھرتے نہیں ہیں۔
خوشی کا اظہار نہ کرنے سے آپ ذہنی دبائو کا بھی شکار ہو سکتے ہیں لہذا خود
کے ہر جذبے کو اُجاگر کریں تاکہ سکون میں رہ سکیں۔
مرد اورعورت کو برابر حقو ق ملنے چاہیں اور زیادتیوں سے بچایا جائے تو کوئی
تحریک چلانا اچھی بات ہے مگر مادر پدر آزادی کے لئے عریاں لباس کے ساتھ خود
کو کسی غلط کام کے لئے پیش کرنا تذلیل ہی ہے ہمیں ایسی ہر تحریک پر لعنت
بھیجنی چاہیے جو کسی کی عزت نفس مجروح کرے۔
کسی کی محض اس لئے عزت کرنا کہ وہ مخصوص جنس سے تعلق رکھتا ہے ایک غلیظ سوچ
ہے، ہر انسان کا اپنا کردار اس کی عزت کا سبب بنتا ہے محض گالی گلوچ کہنے
سے کوئی گناہ گار نہیں ہوتا ہے مگر اپنی بہیودہ سوچ سے معاشرہ کی اخلاقیات
کا جنازہ اُٹھانا بھی نامناسب عمل ہے۔
جب رشتوں میں خلوص کی کمی ہوناشروع ہو جائے تو تب ہی ان کی اہمیت کم ہونا
شروع ہو جاتا ہے۔
معافی دینے کا کوئی وقت نہیں ہے مگر معافی مانگنا بروقت ضروری ہے۔
جب تک اپنی ذات پر تنقید برداشت کرنا نہ سیکھ لو۔
اس وقت تک دوسروں کے بارے میں بھی مکمل خاموشی اختیار کئے رکھو
منفی ہم اس لئے سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ بھی کرنے کے لئے حوصلہ ذرا کم
سا ہو جاتا ہے، اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہمارے پاس خود کو یہ یقین
دلوانے کا احساس کم ہو جاتا ہے کہ ہم کچھ کر سکتے ہیں دوسری بات یہ بھی ہے
کہ ہم اس لئے بھی منفی سوچتے ہیں کہ ہم حقیقت کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری
ہو جاتے ہیں تب ہی ہم اپنا بچائو منفی چیزوں میں تلاش کرتے ہیں اور بلند
حوصلہ اور مثبت تب ہی ہمارے اندر آتا ہے جب ہم خود پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں
اور یہ تب ہوتا ہے جب ہم سو فیصد خود پر یقین رکھنے لگتے ہیں اور اس کے لئے
مثبت سوچ یعنی ایک امید رکھنا لازمی ہے کہ سب اچھا ہو جائے گا کہ اللہ ہر
شے پر قدرت رکھتا ہے۔
تربیت کا تب ہی اثر ہوتا ہے جب جو کہا جا رہا ہواُس پر ازخود بھی عمل کیا
جا رہا ہو۔تبدیلی کہنے سے نہیں عمل سے رونما ہوتی ہے۔
اللہ پر یقین کامل رکھ لیا جائے تو پھر سکون بھی ملتا ہے اور ہر آزمائش میں
بھی کامیابی کا حصول ہوتا ہے۔
|