|
کسی مشہور بزنس مین کا قول ہے کہ اگر تم غریب پیدا ہوئے ہو تو اس میں
تمھارا کوئی قصور نہیں ہے مگر اگر تم غریب مرو گے تو اس کے ذمے دار تم خود
ہو گے- اس مقولے کو کسی اور نے اتنی سنجیدگی سے لیا ہو یا نا ہو مگر پنجاب
کے علاقے وزیر آباد کے رہائشی سید سبط الحسن نے اس بات کو بہت سنجیدگی سے
لیا-
ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے سید سبط الحسن نے سرکاری تعلیمی اداروں
سے تعلیم حاصل کرتے کرتے بی ایس سی اور بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور اپنے ہی
علاقے کے سرکاری اسکول میں بطور ٹیچر بھرتی ہو گیا- چھ مہینے تک یہ نوکری
کرنے کے بعد اس کو محسوس ہوا کہ یہ نوکری اس کے خوابوں کی تکمیل نہیں کر
سکتی ہے اس لیے اس نے یہ نوکری چھوڑ کر دبئی میں نوکری کر لی مگر وہاں سے
بھی چھ مہینے میں واپس آگیا-
|
|
واپس آنے کے بعد اس نے اپنے پڑوسی جاوید ماربل سے ایک کاروبار کے میں
سرمایہ کاری کی بات کی جس میں پندرہ دن میں سرمایہ ڈبل ہو سکتا تھا- اور
ایسا ہی ہوا جاوید ماربل کو جب لگائے گئے پیسے ڈبل ہو کر ملے تو اگلی بار
وہ اپنے ساتھ دو اور لوگ لے کر آیا اور اس طرح روز بروز لوگوں کی تعداد
بڑھنے لگی- اب سبط الحسن نے سرمایہ ڈبل کرنے کی مدت پندرہ دن سے ستر دن میں
تبدیل کر دی-
لوگوں نے سبط الحسن کو ڈبل شاہ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا اور اس کی
شہرت گجرانوالہ تک جا پہنچی اٹھارہ ماہ میں ڈبل شاہ نے 43 ہزار لوگوں سے
سات ارب جمع کر لیے- اس کی شہرت جب خفیہ اداروں کی نظر تک پہنچیں تو ان کا
پتہ چلا کہ ڈبل شاہ درحقیقت پونزی اسکیم چلا رہا ہے جس کے ذریعے شروع کے
ارکان کو ناقابل یقین حد تک منافع دیا جاتا ہے مگر اس نقصان کو آخر میں
شامل ہونے والے ارکان اٹھاتے ہیں اور یہ اسکیم سراسر فراڈ کے علاوہ کچھ
نہیں ہوتی-
|
|
اس طرح 2007 میں ڈبل شاہ کو نیب نے گرفتار کر لیا اور اس کے بعد 2012 میں
اس کو چودہ سال کی قید کی سزا ہوئی جو جیل کے قاعدے کے مطابق دن رات کے
حساب سے سات سال بنتی تھی- جس میں سے پانچ سال اس نے مقدمے کے دوران کاٹ لی
تھی باقی دو سال کی قید گزار کر 2014 میں جب وہ رہا ہوا تو قانون کی نظر
میں اس مجرم کا لوگوں نے ہار پھولوں سے استقبال کیا-
|
|
وہ تین ارب روپے منافع کی مد میں لوگوں کو دے چکا تھا مگر چار ارب پوشیدہ
رقم کے بارے میں نیب اس سے کچھ معلوم نہ کر سکی اور وہ سات سال کی قید کاٹ
کر معصوم بن کر واپس بھی آگیا اور اب اس پر کوئی الزام بھی نہ تھا اور وہ
بے نامی چار ارب کی جائيداد کا بھی مالک تھا- مگر تقدیر نے اسے اس دولت کو
استعمال کرنے کی مہلت نہ دی اور 2015 میں وہ اپنی تمام بے نامی جائداد چھوڑ
کر اس فانی دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو گیا ۔
|