کرونا وائرس درحقیقت عذاب الہی ہے

 تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
آپ یقین کریں یا نہ کریں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن میں بحثیت ایک قلمکار ہونے کے ایک مسلمہ حقیقت سے آپ کو آ گاہ کر رہا ہوں کہ کرونا وائرس درحقیقت عذاب الہی ہے جو اس نفسا نفسی کے شکار معاشرے کے اُن ناسوروں جس میں علمائے دین سیاست دان تاجرز ڈاکٹرز بیوروکریٹس وغیرہ کے کالے کرتوتوں کا نتیجہ ہے جو حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر حکم خداوندی کو ٹھکراتے ہوئے مذہب اسلام کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک وقوم کی بقا کو فروخت کرنے ذخیرہ اندوزی کر کے اُسے منہ مانگے داموں فروخت کرنے غریب مریضوں کے ساتھ غیر منصفانہ اور ظالمانہ رویہ اپنانے کے علاوہ عدل و انصاف کا قتل عام کر کے انسانیت کی تذلیل جس کی بقا کے حصول کی خا طر نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عزیز و اقارب کو قربان کر دیا تھا کی نت نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو یہ وہ ناسور ہیں جہنیں مسلمان کہنا بھی مسلمان لفظ کی توہین ہے چونکہ یہ وہ ناسور ہیں جو اپنے اقتدار کے نشہ میں دھت ہو کر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے کیلئے لا قانو نیت کا ننگا رقص کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کی وجہ سے آج اس ملک کا ہر ادارہ خواہ وہ صوبائی ہے یا پھر وفاقی کرپشن کی آ ماجگاہ بن کر رہ گیا ہے ان ناسوروں کی وجہ سے آج اس ملک میں مساجدیں تو ہیں لیکن وہ دیو بندی اہل تشیع اہلحدیث اہلسنت قادیانی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہیں لیکن خداوند کریم کی مسجد کہیں نظر نہیں آتی اس ملک میں لاتعداد الحاج ہیں جو حج اور قربانی پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن کسی غریب کی بہو بیٹیوں کی شادی بیماری تعلیم و تربیت پر چند سو روپے خرچ کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں یہ وہ ناسور ہیں جو اپنے الیکشن پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن کسی غریب افراد کی چند سو روپے امداد کرنا بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اس ملک کے لا تعداد ڈاکٹرز جو ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریضوں کا خون چو سنے کیلئے ادویات کی مد میں لیبارٹری ٹیسٹوں کی مد میں جنرل سٹور کی مد میں سرکاری ہسپتالوں کی تعمیر و مر مت کی مد میں ایل پی کی مد میں پٹرول کی مد میں عطائی ڈاکٹروں کے کلینکوں پر اپنے نام آ ویزاں کرنے کی مد میں اپنی لا کھوں کروڑوں روپے کمیشن وصول کر لینے کے باوجود اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر لوٹ مار کا بازار گرم کر کے عذاب الہی کو دعوت دینے میں مصروف عمل رہے ہیں اور تو اور اس ملک کے لا تعداد تاجرز اپنے ماتھے پر ایمانداری کا ٹکہ سجا کر ملاوٹ شدہ اشیائے خوردنوش ذخیرہ اندوزی کر کے منہ مانگے داموں فروخت کر کے غریب افراد بالخصوص سفید پوش طبقہ کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں قصہ مختصر کہ اس نفسا نفسی کے شکار معاشرے کے مذکورہ بااثر افراد ہر وہ کام کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کے متعلق خداوند کریم اور اُس کے پیارے محبوب حضور پاک نے سختی سے ممنوع قرار دیا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کرونا وائرس خداوند کریم کی جا نب سے ایک اشارہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو تم جیسے ناسوروں کو ایک کرونا وایرس ایک زرہ کی طاقت سے نیست و نابود کر سکتا ہوں اور اگر اب بھی میں تمھیں کچھ رعایت دے رہا ہوں تو یہ میرے پیارے محبوب حضور پاک کی دعاؤں کا اثر ہے چونکہ جب بھی میرے محبوب حضور پاک نے مجھ سے کچھ مانگا اپنی امت کی خیرو عافیت کیلئے مانگا تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہارون الرشید کے دور حکومت میں قحط پڑ گیا تو ہارون الرشید نے اپنی عوام کی بہتری و بھلائی کیلئے لنگر خا نے کھول دیئے لیکن قحط کا سلسلہ دن بدن بڑھتا گیا جس سے گھبرا کر ہارون الرشید نے اپنے مشیر خاص کو بلا کر اپنی گھبراہٹ کا اظہار کیا تو مشیر خاص نے ہارون الرشید کو ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک بندریا جنگل سے باہر جانے لگی تو اُس نے اپنا بچہ شیر کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ میں کچھ دنوں کیلئے جنگل سے باہر جا رہی ہوں لہذا میں اپنا بچہ آپ کے سپرد کر رہی ہوں آپ میری واپسی تک اس کی حفا ظت کر نا یہ سننے کے بعد شیر نے اُس بندریا کے بچے کو اپنے کا ندھوں پر بٹھا کر گھو منے لگ گیا وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک دن آ سمان سے ایک چیل آئی اور بندریا کے بچے کو اُٹھا کر چلی گئی یہ دیکھ کر شیر بہت گھبرایا کہ اب بندریا کو کیا جواب دوں گا شیر انہی سوچوں میں گم تھا کہ اسی دوران بندریا نے واپس آ کر شیر سے اپنے بچے کی واپسی کا مطا لبہ کیا یہ سن کر شیر نے اُسے بچے کے اغوا کا قصہ بندریا کو سنایا تو بندریا نے غصے میں آ کر شیر کو کہا کہ تو کیسا جنگل کا بادشاہ ہے جو میرے بچے کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر رہا ہے یہ سننے کے بعد شیر نے بندریا سے کہا کہ یہ آ فت اوپر سے آئی تھی جس کا میں مقابلہ نہیں کر سکا اگر آپ کے بچے کو کوئی اور جا نور نقصان پہنچاتا تو میں اُس کا مقابلہ کر کے اُس کی جان بچا سکتا تھا لیکن میں اوپر سے آنے والی آ فت کے سامنے بے بس و لا چار ہو کر رہ گیا تھا اس واقعہ کو سنانے کے بعد مشیر خاص نے ہارون الرشید سے کہا کہ یہ قحط کی آ فت اوپر سے آئی ہے لہذا آپ ایک بادشاہ بن کر نہیں بلکہ ایک گدا گر بن کر خداوند کریم سے دعا ما نگے کہ وہ قحط کا خا تمہ کرے بالکل اسی طرح حاکم وقت عمران خا ن ارکان اسمبلی اپو زیشن جماعتیں و دیگر مذکورہ افراد مشترکہ طور پر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے خداوند کریم سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے پیارے محبوب حضور پاک کے صدقے آج جو کرونا وائرس کا عذاب ہم پر نازل کیا ہے کا خا تمہ کرے آ مین و ثم آ مین

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 463603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.