تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز حضرت نظام الدین میں زائرین
کے قیام کو لے کر جس طرح سے بوال مچایا جارہاہے وہ ناقابل بیان ہے ، میڈیا
اور سوشیل میڈیا پر تبلیغی جماعت کو ہی اس پورے وائرس کے لئے ذمہ دار
ٹہرایا جارہاہےاور ملک کا سوکالڈ یعنی خود ساختہ میڈیا نے تو مرکز حضرت
نظام الدین کو ایسے پیش کردیاہے جیسے وہاں سے جماعتیں نہیں نکلتی بلکہ دہشت
گرد نکلتے ہیں اور بنگلے والی مسجد میں کورونا کے وائرس بنائے جارہے ہیں ۔
غرض کہ میڈیا کو تبلیغی جماعت سے جتنی دشمنی نکالنی تھی اس سے کہیں زیادہ
دشمنی نکال رہے ہیں ۔ اب تک ہندوستان کے علاوہ دنیابھر کے خفیہ ایجنسیوں نے
صرف تبلیغی جماعت کو ہی پر امن اور قابل اعتبار جماعت مانتے تھے اور
ہندوستان میں تبلیغی جماعتوں کو سب سے زیادہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ کہیں
بھی کیسے بھی جا سکتے ہیں جبکہ دوسری جماعتوں اور مسلکوں پر پولیس کی ہمیشہ
نظر رہی ہے ۔ کورونا وائرس کی وبا ء جیسے ہی ہندوستان میں پھیلی اسکے کچھ
ہی دنوں میں کئی قلمکاروںنے مسلمانوں کو باآور کیا تھا کہ مسلمان محتاط
رہیں اور انکی چھوٹی سی غلطی پورے معاملے کو بگاڑ سکتے ہیں ، اس سب کے
باوجود مسلمانوں کا ایک طبقہ ہر قانون کو پائوں کی جوتی بناتا گیا اور
احتیاط برتنے کی نصیحتوں کو نت نئے حیلوں سے نظر انداز کرتا گیا ۔ جب ملک
کے نامور علماء و مفتیان نے مسلمانوں کو مسجدوں میں نمازیں ادا کرنے سے
روکنے کی کوشش کی تو یہاں مسجدوں میں اسمگلنگ کی طرح نمازیں ادا کرنے لگے ،
بعض تو اپنی جانیں جوکھم میں ڈال کر نماز پڑھ رہے تھے اور اس بات کی دلیل
دے رہے تھے کہ جان و مال تو اللہ کی امانت ہے ہم کیوں حکومت کی بات مانیں ۔
بات یہاں تک ہی نہیں ٹلی ، بعض علماء نے بھی باقاعدہ طورپر نمازوں کی امامت
بھی کی جنہیں بعد میں مسجدوں سے بھاگ کر جانا پڑا ۔ اب بھی کرناٹک کے کئی
علاقوں میں چھپ چھپ کر نمازیں پڑھنے والے نمازیوں کے تعلق سے خبریں موصول
ہورہی ہیں اور ان نمازیوں کی پٹائی کی ویڈیوز بھی دیکھی جارہی ہیں ۔اس
درمیان جس بات کا خدشہ تھا کہ مسلمانوں اور کورونا کو جوڑ دیا جائیگا وہ
کام میڈیا نے انجام دے دیاہے اب رہی سہی کسر اندور اور بنگلور کے
مسلمانوںنے پوری کردی ۔ اندور اور بنگلور میں نظام الدین سے لوٹنے والے
داعیان کے گھروں کا معائنہ کرنے کے گئے محکمہ صحت عامہ کے افسروں کے ساتھ
جو سلوک کیا جارہاہےوہ بھی ناقابل بیان ہے معاملہ ہے ، دونوں شہر وںمیں ان
اہلکاروں کو مارتے ہوئے جو لوگ دیکھائی دے رہے ہیں وہ لباس اور چہروں کے
مطابق مسلمان ہی ہیں ، سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان کو نسے اسلام پر عمل
کررہے ہیں جو ہر کام الٹا کررہے ہیں ۔ قانون جو کہہ رہاہے اسکا الٹا ،
علماء جو کہہ رہے ہیں اسکا الٹا، اخبارات جو کہہ رہے ہیں اسکا الٹا کررہے
ہیں ، ستم ظریفی تو دیکھئے کہ انہیں اگر کچھ زیادہ کہا جاتاہے تو یہ سوال
کرتے ہیں کہ کیا تم مسلمان نہیں ہو؟۔ محکمہ صحت عامہ میں نوڈل افسر کے
طورپر کام کرنے والے افسر ، جو مسلمان ہے اس نے بتایا کہ جب اس نےایک مسجد
میں لوگوں کو جماعت سے نمازپڑھنے سے روکا تو اس پر مسجد کے کچھ لوگوں نے یہ
تہمت لگادی کہ تم نماز پڑھنے سے روک رہے ہو ، تم مسلمان ہی نہیں ہوسکتے ،
تم کافروں کے ساتھ رہ کر کافر بن گئے ہو۔ اس افسر نے نہایت پریشان کن حالات
میں کہا کہ صاحب آخر کونسےاسلام میں ہیں یہ لوگ جو ہمارے ایمان پر سوالیہ
نشان لگارہے ہیں ۔ اصل میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نہایت بھولا ہے اور
اسی بھولے پن کا فائدہ دھرم ، مسجدوں اور مدرسوں کا ٹھیکہ لینے والے اٹھاتے
ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلمان اس قدر بدنام نہ ہوتے ۔ آج بھی مسلمانوں
کی ملی قیادت علماء سے زیادہ وہ لوگ کرتے ہیں جنہوںنے مسجدوں کو اپنی ذاتی
ملکیت بنارکھی ہے ، جنکی کمائی حلال سے زیادہ حرام ہوتی ہے ، جنکا گزارہ
مسجدوں کے چندوں کے 25 فیصد کمیشن سے ہوتا ، جو مسجدیں بنانے اور مدرسے
چلانے کے نام پر چندے اٹھاتے ہیں ۔ جن کا وجود جھوٹ ، مکاری ، بغض اورکینے
پر ٹکا ہواہے ۔ اگر آج مسلمانوں کی قیادت واقعی میں اہل علم علماء اور
دانشوران کرتے تو ان جہلاء کا شکار نہ ہوتے نہ ہی بدنام ہوتے ۔ آج
مسلمانوں کو حکمت کے نام پر ناکارہ کیا جارہاہے جس کی وجہ سے وہ جہالت کا
شکار ہورہے ہیں ، حکومتوں اور علماء کے احکامات کے باوجود زبردستی مسجدوں
میں نمازیں پڑھنے کا طریقہ اسی جہالت کا ایک نمونہ ہے ۔
|