یقیناً کرونا وبا ایک عذاب الہی ہے، جس نے طاقت و تکبر کے نشے میں چور حضرت
انسان کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے، اس وبا کا عجیب و غریب خاصہ یہ ہے کہ
اس نے کمزور کو کم اور طاقتور کو زیادہ متاثر کیا ہے، اپنے آپ کو عالمی سپر
فاور کہلوانے والے طاقتور اب تک اس کے سامنے بہت کمزور ثابت ہوئے ہیں،
دنیا کا واحد سپر فاور امریکا کرونا کیسز کے حوالے سے سر فہرست ہے، جبکہ
یورپ کا حال جہاں پر صفائی ستھرائی کا بہترین نظام پایا جاتا ہے، کچھ مختلف
نہیں، یقیناً یہ ایسے علاقے ہیں جہاں پر صفائی ستھرائی کے بہترین نظام کے
ساتھ ساتھ اعلی طبی سہولتیں بھی میسر ہیں، وہاں پر ادویات بھی معیاری پائی
جاتی ہے اور نئی تحقیقات بھی ہوتی ہیں اور اس وبا کی روک تھام کیلئے موثر
حفاظتی اقدامات بھی ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن اب تک کوئی بھی ملک اس وبا
کو روکنے میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
ماضی قریب کے عالمی منظر نامے کو اگر بغور پرکا جائے تو اس معاملے کا ایک
پہلو یہ بھی ہے کہ سارے ترقی یافتہ ممالک "رئیلزم" اور "پاور پالیٹکس" جیسے
نظریات پہ عمل پیرا رہے ہیں، جہاں ہر ملک کی ترجیح، "اصول، قواعد و ضوابط
اور قوانین" کو بالائے طاق رکھ کر "طاقت کا حصول" رہا ہے، طاقت کے حصول اور
اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے کتنی پراکسی وارز یعنی کرائے کی جنگیں
رچائی گئیں، کتنے بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا، کتنے بچے یتیم ہوتے رہے،
کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ کہی نہ کہی جا کےاس ظلم کا حساب دینا پڑے گا؟
بالکل نہیں! مذاہب سے تو ویسے بھی دوری ہے بدقسمتی سے فطرت کے قوانین کو
بھی نظر انداز کر دیا گیا، اگر ان طرقی یافتہ ممالک کی یہ توانائیاں طاقت
کے حصول سے ہٹ کر تعمیری کاموں یعنی صحت، تعلیم، اخلاقیات وغیری پر خرچ
ہوتی، اگر مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ نہ توڑے جاتے اور انصاف کا بول بالا ہوتا
تو شائد اس عالم کو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا، قانون فطرت اپنا ردعمل نہ
دکھاتی اور دنیا پہ یہ عذاب الہی مسلط نہ ہوتا،
اب بھی وقت ہے اگر عالمی طاقتیں اس معاملے کو ایک تنبیہ سمجھ لے رئیلزم کے
نظریات کو رد کردیا جائے اور آئیڈئیلزم کے نظریات کو پروان چڑھایا جائے،
یعنی دنیا کے نظام کو کسی ملک یا پاور کے ذاتی مفادات کے برعکس، انصاف اور
اصول پسندی کے تحت چلایا جائے، تو قوی امکان ہے کہ امن وسلامتی کا زمانہ
لوٹ آئے۔ اور رب کریم اس عذاب کو ٹال دیں ورنہ تباہی پکی ہے جو شاید اس
دنیا و مافیہا کا مقدر ہے،،،،،
|