نظریاتی جنگ کون لڑے گا

ابھی تک قوم کے ذہنوں میں وہ ڈرامے، فلمیں وغیرہ بے نقش نہیں ہوئے جن میں پاکستانی/اسلامی ثقافت نمایاں نہ ہو۔TV پر جو اشتہار وٖغیرہ تھے اُن میں بھی پاکستانی ثقافت کی جھلک نمایاں ہوتی تھی۔ڈرامہ اور فلم رائٹرز حضرات بھی اس بات کا خاص خیال رکھا کرتے تھے کہ ان کی تحریروں سے قوم تک ایسا کوئی پیغام نہ جائے جو قومی ثقافت کی منافی کرتا ہو۔کیونکہ ان حضرات کو اس بات کا اِدراک تھا کہ الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا ہی وہ واحد ہتھیار ہیں جو قوموں کی سوچ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا کرتے ہیں ۔جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے تو ہماری مایہ ناز افواجِ پاکستان ہی کافی ہے جس کے ہوتے ہوئے اہل وطن سکون اور اطمنان قلب کر ساتھ زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں مگر نظریاتی محاذپر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔قوموں کی سوچ اور مزاج پر فلمیں اور ڈرامے بہت اثر انداز ہوتے ہیں مگر شومئی قسمت کہ اس پر کچھ نمایاں کام نظر نہیں آ رہا ہے۔ اور نہ ہی مسند اقتدار پر براجمان، سیاسی لیڈرز صاحبان یہ جنگ لڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہے ہیں۔

TV پر اشتہار ات دیکھ لیں ڈرامے یا ٹاک شو کی۔ ’’دن اور رات‘‘ کا فرق بتا کر نوجوان نسل کو کیا پیغام دیا جارہا ہے کسی کو کوئی ٖفِکرنہیں۔ کوئی مربوط پالیسی واضح نظر نہیں آ رہی۔آزادی اظہارِ خیال کی آڑ میں اغیار اپنی ثقافت ہمارے ذہنوں میں زبردستی ٹھونسے جا رہے ہیں ۔ہماری نوجوان نسل اب اپنے کلچر کو دقیانوسی کلچر سے تشبیہہ دے کر ماڈرن ازم کے نام پربے راہ روی کا شکار ہو تی جارہی ہے مگر افسوس صد افسوس کسی بھی صاحبِ اخیتار کی نظرِ کرم اس اہم مسئلے کی طرف نہ ہے۔کچھ الیکٹرانک میڈیا پر ایک بھیڑ چال کی شکل میں تفریحی ٹاک شو کے نام پر بھانڈ پن کا ایسا سلسلہ چل نکلا ہے کہ جس کی چاہے پگڑی اچھال دی جائے جس کے چاہے لتے لے لئے جائیں۔ بازاری زبان استعمال کر لی جائے۔ ذو معنی جملے آزادی کے ساتھ بولے لیے جائیں ۔مگر اسے ماڈرن ازم کے نام پراور آزادی اظہارِ خیال کہ کر سب کو زبردستی برداشت کروایا جا رہاہے۔

ایسے بے بسی اور بے راہ روی کے عالم میں اربابِ حل و عقد کا اولین فریضہ ہے کہ جب اقوامِ عالم روائتی جنگ چھوڑ کراپنے حریفوں کی معاشیات کو تباہ کرنا جنگی حربے کے طور پراختیار کر چکی ہوں اور اپنے حریفوں کی ثقافت اور نظریات کو تبدیل کرنا ایک جنگی حربہ تسلیم کیا جا چکا ہوتو ایسے میں اربابِ اختیار کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم معاشیات کی جنگ لڑتے لڑتے اور دوستی کی پینگیں جھولتے ہوئے نظریاتی اور جغرافیائی جنگ ہار جائیں۔

 

Rao Matloob Nasir
About the Author: Rao Matloob Nasir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.