ہماری نیکیاں اور سوشل میڈیا

پہلے زمانے میں لوگ اپنے عزیز و عقارب جو دوسرے شہروں میں رہتے تھے ان کی خیریت معلوم کرنے کے لئے خط بھیجا کرتے تھے اور اسکے جواب کے لئے کئی کئی دن انتظار کرتے تھے کیوں کے انکے پاس سمارٹ فونز تھوڑی تھے کہ کال ملائی اور حال چال پوچھ لیا۔اور نہ ہی کوئی ٹیکنالوجی۔ لیکن تب رشتوں میں پیارومحبت ہوتی تھی۔ تب رشتے خلوص دل سے نبھائے جاتے تھے۔ تب بھی لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے غریبوں کا بھی خیال رکھا جاتا تھا لیکن تب نیکی کو نیکی سمجھ کے کیا جاتا تھا۔ اس میں دکھاوا نہیں ہوتا تھا۔

خیر وقت بدلنےلگا آہستہ آہستہ ترقی ہونے لگی ٹیلیفونز آ گئے۔ پھر کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پھر موبائل فونز اور اب جدید شکل میں سمارٹ فونز۔ اور انٹرنیٹ کی بدولت ساری دنیا کا آپس میں رابطہ ہو گیا ہے۔ آپ جب چاہیں جس سے چاہیں اک سیکنڈ میں کال ملا کے بات کر سکتے ہیں۔ بلکہ اب تو دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اس قدر ٹیکنالجی آ گئی ہے۔ مختلف اقسام کی ایپلیکیشنز اور سوفٹ ویرز متعارف ہو گئے ہیں۔ جن میں سوشل میڈیا ایپز بہت مشہور ہیں۔جن کے ذریعے آپ حالات حاضرہ سے لمحہ بہ لمحہ با خبر رہ سکتے ہیں۔ کچھ ایسی ویب سائٹس ہیں جن سے آپ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں آپ کو کچھ سیکھنا ہے سمجھنا ہے آپ گوگل سرچ کرسکتے ہیں۔ ہر قسم کی معلومات آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔

لیکن بات وہیں آ جاتی ہے جیسے ایٹم بمب کو انسان کے تحفّظ کے لئے بنایا گیا لیکن وہ اتنا ہی نقصان دہ بھی ہے۔ بلکل ایسا ہی ان ایجادات کے ساتھ بھی ہے انہیں بنایا تو انسان کے فائدے کے لئےگیا تھا لیکن انکا نقصان فائدے سے زیادہ ہے۔
کوئی بھی خبر ہو آپ سوشل میڈیا پہ ڈال دیں ایک سیکنڈ میں پوری دنیا میں پھیل جاۓ گی۔ بلکہ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا کھانا تب تک ہضم نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے کھانے کی تصویریں سوشل میڈیا پہ اپلوڈ نہ کر دیں۔ ہم کسی فنکشن میں جاتے ہیں تو ان لمحات سے لطف اندوز ہونے کی بجائے ان لمحات کو اپنے کیمروں میں محفوظ کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے تو لوگ مدد کرنے کی بجائے سیل فون نکال کے تصویریں اور ویڈیوز بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کہیں لڑائی جھگڑا ہو رہا ہو تو چھڑوانے کی بجائے ویڈیوز بن رہی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پہ لائکس اور کمنٹس لینے کے لئے۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ کچھ لوگ جب کسی غریب کی مدد کرنے لگتے ہیں تو پہلے کیمرے آن کرتے ہیں ہماری نیکیاں بھی اب تو صرف سوشل میڈیا تک اور سوشل میڈیا کے لئے محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ کیونکہ ہم نیکی کرتے ہی صرف چند لائکس اور کمنٹس لینے کے لئے ہیں ۔ ذرا سوچئے کیا ان ضرورت مندوں کی عزت نفس نہیں ہوتی۔ جسکوآپ یوں مجروح کر دیتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے:
"کسی کی مدد کرتے وقت اسکے چہرے کی جانب نہ دیکھو ہو سکتا ہے اسکی شرمندہ آنکھیں تمہارے دل میں غرور کا بیج بو دیں"۔

نیکی تو اللہ‎ کی راہ میں کی جاتی ہے نا اس میں دکھلاوا کیسا یہاں تو آپ واہ واہ اور لائکس لے لیں گے لیکن بروز قیامت اللہ‎ پاک کو کیا منہ دکھائیں گے ایسی نیکی کا کیا فائدہ جو اللہ‎ پاک کو پسند ہی نہیں۔ جو قابل قبول ہی نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ ان میں سے ایک وہ شخص جس نے صدقہ کیا، مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا"۔ تو ہم کس لئے اتنی تشہیر کرتے ہیں اپنے نیک کاموں کی؟

نیکی تو لوگ اس وقت بھی کرتے تھے جب یہ کیمرے نہیں تھے ۔سوشل میڈیا نہ تھا۔ اگر آپ کو مدد کرنی ہے تو تصویر کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ سب لوگ ایک دوسرے کی مدد کریں تو آپ آگاہی مہم چلا سکتے ہیں۔ آپ لوگوں میں ویڈیوز کے ذریعے شعور اجاگر کر سکتے ہیں۔ یہ سب کام ضرورت مندوں کی تصویروں کے بغیر بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری وجہ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ خوشیاں بانٹیں اور دوسروں کے لیئے آسانیاں پیدا کریں۔ ہر چیز کا مثبت استعمال کریں تا کہ اپکو دلی اطمینان نصیب ہو. کسی نے کیا خوب کہا ہے:

نیکیاں ساری کہاں ہوتی ہیں تشہیر کے ساتھ
مت مدد کیجئے، محتاج کی تصویر کے ساتھ
 

Ayesha Maryam
About the Author: Ayesha Maryam Read More Articles by Ayesha Maryam: 3 Articles with 4007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.