زمانہ چال قیامت کی چل گیا

اگر کوئی ایسی سیاہی آجائے کہ جو ہاتھوں پر مل دی جائے اور جیسے ہی کوئی جرثومہ ہاتھوں کو چھوئے (Touch) کرے تو سیاہی کا رنگ تبدیل ہوجائے اس طرح ہمارے لوگوں کو جراثیم کا CONCEPT سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی

زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے۔دنیا حقیقتا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ دیکھیئے کس طرح ایک وائرس افریقہ کے بندروں پر قیامت ڈھاتی چین کی چمگادڑ سے چمٹ کر حضرت انسان میں حلول ہوگئی اور پھر انسانوں کے مابین سفر کرتی ہوئی دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی ہے۔پوری دنیا اس نادیدہ دشمن کے خلاف نبزد آزما ہےمگر یہ شیطانی چیلہ جس کو جب چاہے جہاں چاہئے چپت رسید کرکے خاموشی سے ایک طرف کھسک جاتا ہے۔
ہمارے یہاں لوگوں کی اکثریت اس پوشیدہ آتما کی منکر ہے انکی دانست میں یہ سب پروپیگنڈا اور ڈھونگ ہے یا کوئی عالمی سازش ہے۔
سرکار کی پھرتیاں و چستیاں بھی قابل دید ہیں غالبا سرکار اس کی آڑ میں مال بٹورنے کی مکمل منصوبہ بندی کرچکی ہے آزاد منش عوام کو گھر میں محصور کردیا گیا ہے مزید براں انکے کے ہاتھ دھلوانے کیلئے سب ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ہیں ۔
سادہ لوح عوام اپنےہاتھوں کو حیرت سے تک رہی یے کہ یہ گندے کیسے ہوسکتے ہیں ان پر نہ تو کوئی کیچڑ دکھائی دے رہی ہے نا ہی کوئی داغ دھبہ۔
اگر کوئی ایسی سیاہی آجائے کہ جو ہاتھوں پر مل دی جائے اور جیسے ہی کوئی جرثومہ ہاتھوں کو چھوئے (Touch) کرے تو سیاہی کا رنگ تبدیل ہوجائے اس طرح ہمارے لوگوں کو جراثیم کا CONCEPT سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔
ستم بالا ستم جب یہ غریب عوام اپنا ہاضمہ درست کرنے گھر سے نکلتی ہےتو پولیس ، پہلے تو انہیں مرغا بناتی ہے، پھر ڈندے سے تواضع کرتی ہے اخر میں مدعا پوچھتی ہے کہ باہر کیوں نکلے تھے۔
عوام حیران و پریشان ضرور ہیں مگر ابتک کچھ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔
سماج میں بہت بڑی اکثریت ایسی بھی ہے جو اپنے ہی سائے سے بھی خوفزدہ ہوکر لرزنے لگی یے۔
چلتا پھرتا ادمی بھی انھیں کرونا نظر آتا یے۔ کسی آدمی کو دور سے بھی آتا دیکھ لیں تو یوں اچھل کر پرے بھاگتے ہیں جیسے وہ کاٹ لے گا۔
رنگ برنگے ماسکوں کی چار سو بہاریں ہیں بعض اصحاب تو عجیب و غریب ماسک پہن کر کافی مضحکہ خیز بھی لگتے ہیں جبکہ مولوی قسم کے حضرات لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے اپنی بہادری پر دادطلب نگاہوں سے بے پردہ دندناتے پھر رہے ہیں انھیں یوں بے حجابانہ دیکھکر ہمیں عریانیت کا شائبہ ہوتا ہے۔
ڈاکو اور ڈاکٹر میں تمیز مشکل ہوگئی ہے۔کئی بار تو ڈاکو بھی نقاب اتار کر پولیس کو چڑاتے ہوئے اپنا ہاتھ مصافحہ کیلئے بڑھا دیتے ہیں پولیس بیچاری خطرہ مول نہ لیتے ہوئے آئندہ ہاتھ دھوکر اور سینیٹائزر لگا کر کاروائی کا مشورہ دینے ہی میں اپنی اور قوم کی عافیت خیال کرتی یے ۔
ہمارے ایک دل پھینک دوست اج کل بہت پریشان رہتے ہیں ۔کئی بار نقاب پوشوں کو اپنی سابقہ محبوب سمجھ کر چھیڑ بیتھے مگر وہ نقاب پوش ان کے سنگدل رقیب نکلے یر بار ہم اگر بیچ بچاو نہ کراتے تو نقص امن کے سنگین خطرہ کا احتمال تھا۔
سرکار نے مساجد میں ادائیگی نماز پر پابندی لگادی ہے۔مولوی صاحبان چوری چھپے نماز پڑھانے پر گرفتار ہورہے ہیں ۔ اکبر الہ آبادی مستقبل میں وقوع پذیر یونے والے اس واقعہ کی پہلے ہی نشاندہی کرچکے ہیں ۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کرتھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے اللہ کا اس زمانے میں ۔
رہ گئے پڑوسی تو ان کا حال یہ ہے کہ ایک دوسرے کو دور سے بھی دیکھ لیں تو ڈر کر گھر میں پناہ لیتے ہیں مبادا ملنا نہ پڑ جائے۔پہلے مسکراہٹوں کے تبادے ہوجاتے تھے وہ بھی اب عنقا ہیں ۔تیماردادری رہی باقی نہ وضع داری ۔جنازے بھی اب اپنوں اور بیگانوں دونوں سے محروم ہیں ۔
پڑوسی سے یاد ایا کہ محبت ،خلوص ،باہمی رواداری اور برداشت معاشرتی حسن سمجھی جاتی تھی۔
آج سے چار دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو ماموں جان یاد آجاتے ہیں ۔
سارا محلہ کی خواتین انھیں بھائی کہتی تھیں جبکہ بچے ماموں ۔
کثرت وطائف کی شدت تھی یا حوادث زمانہ کی یلغار جس نے ماموں کے دماغ میں موجود کیمیائی مادوں کی ترتیب کو مد وجزر کر دیا ۔
ماموں کی چھت کے ساتھ میں پرانے مندر کی چھت ملی ہوئی تھی جہاں ایک نوبیہاتا جوڑا مقیم تھا ۔حسین پڑوسن کو دیکھ کر ماموں ایک شان بے نیازی سے واشگاف اور والہانہ نعرہ مستانہ بلند کرتے !

" مندر والی " عطا فرما !

"مندر والی" شرما کر رہ جاتی اور مجال ہے اس کے شوہر کے ماتھے پر ایک شکن بھی آتی ھو بس مسکرا کر اتنا کہتے کہ بھائی آپ بھی بہت مخولیہ ہیں ۔
ماموں کے زوق مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ INCYLOPEDIA OF BERTANICA اور WORLD ATLAS انکے پمہ وقت زیر مطالعہ رہتی ۔
ان کے تخیل کی پرواز لامتناہی تھی۔وہ گم سم بیتھے بیٹھے اچانک قہقہہ مار کر بے اختیار ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے ۔انکی ہنسی کا سبب دنیا کی بے ثباتی اور لوگوں کی کج فہمی اور کم عقلی ہوتی مگر ان کی سوچوں سے بے خبر لوگ انھیں یوں بے سبب ہنستا دیکھ کر تفریحا ہنسنے لگتے ۔
آج کل جب میڈیا پر مذہبی رنگ ڈھنگ دیکھتا ہوں تو ماموں کی ایک اور ادا یاد آجاتی ہے۔PTV پر حج کی خصوصی نشریات آرہی تھیں ۔ماموں بھی اپنا مصلا ٹی وی کے سامنے بچھا کر بیتھ گئے اور ساتھ ساتھ ارکان حج ادا کر لئے۔نشریات ختم ہوئیں تو پھر سب سے حج کی مبارکباد بھی وصول کرلی۔
وہ اپنے دور سے آگے چل رہے تھے ۔
آج تمام چینلز متبرک ایام میں عبادات کا خصوصی اہتمام کراتے ہیں رقت امیز دعائیں ہوتی ہیں بس آپ ٹی وی کے سامنے بیتھے رہیں۔ مسجد جانے کی ضرورت نہ دعا کی مشقت۔اب تو ایک چینل باجماعت نماز کا بھی اہتمام کررہا ہے۔آپ کی تفریح طبع کیلئے درمیان میں اشتہارات بھی جاری رہتے ہیں جوکہ چینلز کی مجبوری ہیں ۔
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی ۔
زکر چھڑا تھا وبا کی سنگینی کا بات پہنچی ماموں کی وارفتگی تک ۔
بہرحال وبا سے اللہ نے چاہا تو بہت جلد جان چھٹ ہی جائے گی مگر کیا پہلے جیسا والہانہ پن ، گرم جوش مصافحے اور باہمی قربتیں بھی بحال ہوسکیں گی۔
لوگ مردم گزیدگی کا شکار رہ کر مردم بیزار نہ ہوجائیں ۔
نئی نسل میں پایا جانے والا موجودہ خوف انکی فطرت ثانیہ نہ بن جائے۔ یہ دوریاں سرد رویوں اور بیگانگی اور خود پسندی کو جنم دے سکتی ہیں ۔
وبا سے لڑا نہیں جاتا نمٹا جاتا ہے۔
لڑنا ہے تو اپنی تہذیب کی بقا اور مشرقی اقدار کے تحفظ کی جنگ لڑیں ۔
نفسیاتی آفٹر شاکس اور ان کے تباہ کن حملوں کے خلاف صف آرا ہوجائیں ۔
معاشرہ ویسے ہی عدم برداشت اور رواداری کھو چکا ہے ۔مردم بیزار نہ بن جائے۔

اٹھو‘ وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا

محمد منور سعید

 

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50277 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.