دنیا بے مقصد نہیں بنائی گئی اور دنیا کی کوئی
بھی چیز بے مقصد نہیں ہے۔ ہر ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے چاہے وہ
مقصد پورا ہو یا نہ ہو ۔ چاہے وہ مقصد پیشِ نظر رکھا جائے چاہے نہ رکھا
جائے، لیکن یہ بات لازمی ہے کہ مقصد ہوتا ضرور ہے۔ انڈیا نے کشمیر میں لمبے
عرصے سے ’لاک ڈاؤن ‘کیا ہو اہے ۔ اس کے بھی اپنے بہت سے مقاصد ہوں گے جو کہ
کشمیری مسلمانوں کے نظریئے اور خواہش کے خلاف ہی ہوں گے۔ اگر آپریشن سے
پہلے ڈاکٹر کسی مریض کو بے ہوش کرتے ہیں تو اس کے بھی مقاصد ہوتے ہیں اور
وہ مقاصد واضح طور پر آپریشن کو کامیاب بنا کر اس مریض کی جان بچانے کی
کوشش کرنا ، آپریشن سکون سے کر سکنا،مریض کو تکلیف سے بچانا وغیرہ ہیں۔ یہ
بے ہوشی بھی ایک قسم کا جسمانی لاک ڈاؤن کہی جا سکتی ہے۔لیکن مریض کو صرف
بے ہوش رکھنا مقصد نہیں ہوتا۔ مراقبہ بھی ایک قسم کا روحانی
’ لاک ڈاؤن ‘ہے جس میں ایک انسان اپنے آپ کو ظاہری حواس اور حالات سے اپنی
مرضی سے کچھ وقت کے لئے دور لے جاتا ہے۔اس مراقبے کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے
جو اسے کرنے والا ہی بہتر جانتا ہے۔ روزہ بھی ایک قسم کا مذہبی ’لاک ڈاؤن‘
ہے جس میں جسم کو کھانے پینے اور کئی اور کام کرنے سے روک لیا یا روک دیا
جاتا ہے۔ اس کے بھی اپنے مقاصد ہیں۔
تمام اچھائی اور برائی اپنے اپنے انجام تک پہنچ کر ہی اپنی اصل روح تک
پہنچتی ہے۔ مقصد سے کسی کام کے اچھے یا برے ہونے کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔
مثلاً ایک شخص کوئی چاقو یا چھری خریدتا ہے کہ اس سے ہنڈیا کے لئے سبزی
تیار کرنے میں مدد ملے گی تو یہ خریداری بھی نیکی تصور ہو گی اور اگر کوئی
شخص کوئی چاقو یا چھری کسی انسان کا گلہ کاٹنے کے لئے خریدتا ہے تو اسے
گناہ اور جرم خیال کیا جائے گا۔ مقصد کے بغیر کوئی بھی چیز اپنا تعین نہیں
کر پاتی۔اس تحریر کا بھی ایک مقصد ہے اگر اس کا کوئی مقصد نہ ہو تو یہ بھی
بیکار اور بے فائدہ ہے۔
سماجی’لاک ڈاؤن‘ سماجی سطح کی سب سے بڑی کاروائی کہی جا سکتی ہے۔ اس طرح کی
کاروائی تو تہواروں پر بھی نہیں ہوتی۔ لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا جاتا
ہے ، روزگار بند کر دیئے جاتے ہیں، غریبوں کو موت کے دروازے پے لا کے بٹھا
دیا جاتا ہے، مریضوں کی موت اور زیادہ قریب کر دی جاتی ہے۔ اور ہر شخص کو
یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ دراصل حکومتِ وقت کے رحم وکرم پر زندگی گزار
رہا ہے اور حکومت جب چاہے اس کا ناطقہ بند کر سکتی ہے۔
لاک ڈاؤن جیسا بڑا ایکشن بغیر مقصد کے نہیں کیا جاتا۔ اس کے مندرجہ ذیل
مقاصد ہو سکتے ہیں:
۱۔ اصل کروائی کے لئے وقت حاصل کرنا۔
۲۔ کسی شخص یا چیز کو تلاش کر کے کارنر کرنا اور معاشرے کو اس کے شر سے
بچانا۔
۳۔ عوام میں افراتفری پھیلنے سے روکنا۔
۴۔ عوام کی طاقت کمز ور کرنا۔
اب ہم ان مقاصد پر تھوڑی سی بات کرتے ہیں:
۱۔ اصل کاروائی کے لئے وقت حاصل کرنا
بعض اوقات کسی ریاست پر کوئی ایسے حالات وارد ہو جاتے ہیں جن کے لئے وہ
تیار نہیں ہوتی۔ مثلاً کو ئی زلزلہ آجائے، کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے، کوئی
دہشت گرد سوسائٹی میں داخل ہو جائیں وغیرہ۔ اور حکومت کے نوٹس میں یہ باتیں
بر وقت نہ آئی ہوں یا حکومت نے ان کے لئے پیشگی تیاری نہ کی ہو یا حالات
ایسے ہو جائیں کہ حکومت کا ’لاک ڈاؤن‘ کے بغیر کوئی چارہ نہ رہ گیا ہو۔ اس
صورت میں جب ریاست کے پاس مطلوبہ کام کرنے سے پہلے اس کی تیاری کا وقت
درکار ہو تو ریاست اپنے علاقوں پر’ لاک ڈاؤن‘ یا کرفیو نافذ کر کے عوام کو
ایک پوزیشن پر روک لیتی ہے یا بچوں کی کھیل کی اصطلاح میں ریاست عوام کو
’برف جام‘ کر دیتی ہے اور پھر مطلوبہ کروائی کرنے کی پلاننگ کرتی ہے اور اس
پلاننگ کے ذریعے وہ زیادہ آسانی اور جلدی سے اپنا مقصد حاصل کر سکتی ہے۔
مثلاً وبا کی صورت میں اس بیماری کی ادویات میسر نہ ہوں تو کچھ وقت کے لئے
لاک ڈاؤن کر کے وہ ادویات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اور جب ادویات میسر ہو
جائیں تو لوگوں کو پھر سے زندگی کا پہیہ پہلے کی طرح چلانے کی اجازت دی جا
سکتی ہے۔
۲۔ کسی شخص یا چیز کو تلاش کر کے کارنر کرنا اور معاشرے کو اس کے شر سے
بچانا
بعض اوقات کوئی دہشت گرد ریاست میں گھس آتے ہیں جن کو پکڑنے کے لئے’ لاک
ڈاؤن‘ کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ جس جگہ ہوں وہاں سے پکڑے جا سکیں اور
اگر انہیں ادھر ادھر پھرنے کی اجازت دی جائے تو وہ بھاگ سکتے ہیں۔ اسی طرح
سے کوئی مریض سوسائٹی میں کوئی وبائی مرض لے آئیں تو انہیں بھی کارنر کرنے
،جسے قرنطینہ بھی کہا جا رہا ہے ، کے لئے ’لاک ڈاؤن‘ کا سہارا لیا جا سکتا
ہے۔ تا کہ مرض کو کسی حد تک محدود کیا جا سکے اور جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے
سے روکا جا سکے۔ اسی طرح سے کوئی غیر ملکی مہاجرین بھی چوری چھپے کسی ریاست
میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں ان کو روکنے کے لئے بھی ’لاک ڈاؤن ‘کا
سہارا لیا جاسکتا ہے۔
۳۔ عوام میں افراتفری پھیلنے سے روکنا
بعض اوقات کسی غیر معمولی حالات کے زیرِاثر عوام میں افراتفری جسے آج کل
’پینک‘(panic)بھی کہا جا رہا ہے پھوٹ سکتی ہے اور اس پینک سے معاشرے کو
بچانے کے لئے ’لاک ڈاؤن‘ کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ جب عوام میں خوف
و ہراس پھیل جاتا ہے تو یہ خوف و ہراس ان کو کئی قسم کی تدابیر کرنے کی طرف
ابھارتا ہے ۔ ان تدابیر میں خود غرضی زیادہ ہوتی ہے اور اجتماعیت کا فقدان
ہوتا ہے جس کے تحت معاشرہ تخریب کی طرف جا سکتا ہے۔ ان باتوں سے بچانے کے
لئے لاک ڈاؤن لازمی ہو جاتا ہے۔
۴۔ عوام کی طاقت کزور کرنا
’لاک ڈاؤن‘ اگر دشمن طاقت کی طرف سے ہو تو اس کا پہلا اور آخری مقصد عوام
کی طاقت کمزور کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس کا پلان ہوتاہے کہ عوام کو بھوکے پیاسے
رکھ کر ان سے اپنی مرضی کی باتیں منوا لی جائیں۔ اگر عوام کے پاس کوئی
اسلحہ وغیرہ ہونے کا شبہ یا ثبوت ہو تو لاک ڈاؤن کے ذریعے وہ بھی نکلوایا
جا سکتا ہے۔ ان کے سیاسی لیڈروں کی پکڑ دھکڑ بھی کی جا سکتی ہے۔ ان کے
نوجوانوں کو بھی اذیت دی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ موجودہ وقت میں انڈیا کشمیر
کے لوگوں کے ساتھ کر رہا ہے۔
کسی ملک کے لئے اپنے شہریوں پر سے جتنی جلدی ہو سکے لاک ڈاؤن ختم کر
دیناچاہیئے۔ ریاست کو چاہیئے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنے مقاصد حاصل کرنے
میں مقدور بھر تیزی ، سمجھداری اور دور اندیشی سے کام لے ،تاکہ عوام کو جلد
از جلد معمول کی زندگی میں واپس جانے دیا جائے۔ لاک ڈاؤن کے دورانیئے کی
لمبائی حکومت کے اپنے گلے پڑتی جائے گی۔ اور ایسے حالات ہو سکتے ہیں جو
موجودہ حالات سے بھی کہیں زیادہ سنگین صورتِ حال پیدا کر سکتے ہیں۔ ریاست
کو چاہیئے کہ لاک ڈاؤن زیادہ سے زیادہ فرینڈلی قسم کا رہے تا کہ اس سے
لوگوں میں ردِ عمل کے جذبات کم سے کم پیدا ہوں۔ ریاست ککو چاہیئے کہ عوام
کو یقین دلائے کہ ’لاک ڈاؤن‘ جلد از جلد ختم بھی کر دیا جائے گا اور ایسا
کرنے کی مخلصانہ کوشش عوام کو نظر بھی آنی چاہیئے۔
|