جہاں دو لوگ مل کر بیٹھے ہوں ان کی باتیں سنیں
تو زیادہ تر مایوسی ، حالات سے تنگ ، انسانی رویوں کے شکوے ، افراتفری اور
معاشرتی مسائل پر گرما گرم بحث سننے کو ملے گی ۔ کسی کی غیبت ہو رہی ہو گی
، کسی کے کردار پر انگلیاں اٹھ رہی ہوں گی ، کسی کے اچھے کام کو بھی دکھاوا
ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہو گی اور کہیں منفی سوچ کو بھی دلائل سے مثبت
میں تبدیل کیا جا رہا ہو گا ۔ یہی ہمارے عمومی رویے ہیں ۔ کسی کی خوشی اور
کامیابی برداشت نہیں ہوتی ۔ اپنے سامنے کسی اور کی تعریف سننا بہت بڑے دل
گردے کا کام ہے ۔ کوئی مشکلات سے گزر رہا ہے تو ہم اسے بجائے حوصلہ دینے کے
اتنا پریشان کرتے ہیں کہ وہ ہمت سے حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے مایوسی
کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہمدردی کی آڑ میں دکھ بانٹنے کی بجائے اس
کی شدت میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔ اس کو کٹھن حالات سے نکلنے کی راہ دکھانے
کی بجائے انجان پریشانیوں سے اتنا ڈرا دیتے ہیں کہ وہ اپنے حالات سدھارنے
کی بجائے ہر وقت آنے والے برے حالات کے خوف میں مبتلا رہتا ہے ۔ کسی کی
ناکامی پر محنت اور کامیابی کا راستہ دکھانے کی بجائے اس کے اندر ناکامی کا
ڈر ٹھونس دیتے ہیں اور پھر وہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے ہی ناکامی کےخوف کا
شکار ہو کر قدم اٹھانے سے ہی انکاری ہو جاتا ہے ۔ کچھ اچھے لوگ بھی ملتے
ہیں مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور کم لوگوں کو ایسے اچھے لوگوں سے
واسطہ پڑتا ہے ۔ ورنہ زیادہ تر تو لوگوں کی سوچ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ
انسانیت کے کس درجے پر ہیں ۔ خود کامیاب ہوں یا نہ ہوں دوسروں کی ناکامی پر
ہم بڑے خوش ہوتے ہیں ۔ دوسروں کی زندگی کے ہر معاملے کو زیرِ بحث لانے کو
اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ دوسروں کو اذیت دے کر اپنی انا کو تسکین پہنچاتے
ہیں ۔ ساری زندگی ہم دوسروں کی باتوں سے ڈرتے ہوئے گزار دیتے ہیں ۔ کتنے ہی
کامیابی کی طرف اٹھنے والے قدم ہم لوگوں کی باتوں کی وجہ سے روک دیتے ہیں ۔
ہر سوچ پر یہی پہرا لگا دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ ایک بار یہ ڈر دل سے
نکال کر دیکھیں ذہن سے کھرچ کر دیکھیں ۔ لوگوں کی بجائے رب تعالیٰ کو راضی
کرنے کی فکر کریں ۔ حالات اور مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت ہمیں خود ہی جمع
کرنی ہے ۔ ڈر کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ڈر کا سامنا کرنا ہے ۔ لوگوں کی
منفی باتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی مگر ان کو پس پشت ڈال کر دیکھیں آپ کو آگے
راستہ روشن اور پرسکون نظر آئے گا ۔ مشکلات کے دریا کو پار کرنا ہے تو
کنارے پر کھڑے ہو کر پانی کے خوف سے رکنا عقلمندی نہیں ہے ۔ لوگ تو ڈوبنے
کے خوف سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیں گے ۔ مگر جب دریا میں اترنا ہو تو پانی سے
ڈرنے کی بجائے تیرنا سیکھنا ہی دانشمندی ہے ۔ پہلا قدم اٹھانا مشکل ہے
تیراک بھی پہلے ایک قدم سے آگے بڑھتے ہیں ۔ پھر ناکامی اور مایوسی کا خوف
خود ہی پیچھے رہ جاتا ہے اور انسان لہروں کے ساتھ آگے بڑھنا سیکھ لیتا ہے ۔
اپنی ہمت ہم خود ہیں اپنا حوصلہ بڑھانے والے بھی ہم خود ہیں ۔ جب ہم دریا
میں تیرنا سیکھ لیتے ہیں تو کنارے پر کھڑے لوگوں کی باتیں ہمیں آگے بڑھنے
سے نہیں روک سکتیں ۔ اور آگے کامیابی کی منزلیں ہمارے اندر کے خوف کو کم
کرتی جاتی ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی مدد سے ہر پریشان اندھیری رات کی روشن
خوشیوں بھری صبح طلوع ہوتی ہے ۔ بس یہی جملہ اپنے دل و دماغ میں ثبت کرنے
کی ضرورت ہے کہ ڈر کے آگے جیت ہے ۔
|