جانے والے کبھی نہیں آتے ، جانے والوں کی یاد آتی ہے۔
جب کوئی ہمارے بیچ سے چلا جاتاہے تو اس کی یاد بہت آتی ہے۔ مولانا سراج
الحسن کے وفات کی خبر سے یادوں کےخاموش سمندر میں گویا ایک تلاطم برپا
ہوگیا ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے ۔
مولانا کا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں آتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں چھوڑو ان سب
باتوں کو ’کچھ کام کرو کام‘، لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں ۔ ایسے میں جب کہ
انسانی دماغ شل ہوجائے اور قلم منجمد ہوجائے تو انسان کیا کر سکتا ہے ؟ کل
شام سے اعظم شہاب کا اصرار ہے کہ کچھ لکھو لیکن اگر قوت اظہار سلب ہوجائے
تو انسان کیا کرے ۔ اسٹیج سے ہٹ کرمولانا کو پہلی بار بنگلور میں قریب سے
دیکھنے کا موقع ملا۔ کرناٹک کے اندر ایس آئی ا و بہت مضبوط تھی اور ایس
آئی ایم کا کام نہیں کے برابر تھا۔ چند مقامات پر کچھ رابطے تھے جن کو
استوار کرنے کے لیے میں بنگلورگیا تو سب سے پہلے امیر حلقہ (کرناٹک :جماعت
اسلامی ہند) سے ملنے کے لیے ان کے دفتر پہنچ گیا ۔
مولانا سراج الحسن صاحب سے ملاقات ہوئی تو طبیعت بحال ہوگئی ۔انہوں نے اپنی
گرمجوشی اور وسعت قلبی سے دل موہ لیا ۔ وہ ایسا زمانہ تھا کہ لوگ باگ ایس
آئی ایم کو جماعت کا باغی اور نافرمان قرار دے رہے تھے لیکن مولانا سراج
الحسن کے نزدیک اس شائبہ تک نہیں تھا۔ انہوں نےدفتر حلقہ میں قیام کی پیشکش
کی ۔ اس وقت دفتر میں حلقہ کے شوریٰ کی نشست ہورہی تھی اس میں ساتھ لے گئے
اور دیگر ارکان سے ملاقات کرائی ۔ مولانا کی اعلیٰ ظرفی نے ایس آئی ایم
اور ایس آئی او کے درمیان کی دیوار کو پلک جھپکتے ڈھا دیا ۔ اس کے بعد
مولانا مرکز جماعت دہلی میں سکریٹری کے طور پر آئے تو وہاں کمال سنجیدگی
کا ماحول تھا ۔ ان کی آمد کے بعدپہلی بار مرکزِ جماعت میں ناشتے کے دوران
دہلی کے پاپے اور مولانا کے لطیفے مشہور ہونے لگے ۔ برسوں تک آنے جانے کے
باوجود جو لوگ تکلف برتا کرتے تھے وہ کھل کر ہنسنے بولنے لگے ۔یہ نوجوان
نسل کے لیے نہایت خوشگوار تبدیلی تھی۔
مولانا سراج الحسن صاحب کے کندھوں پر امیر جماعت کی ذمہ داری آئی اور
انہوں نے ہم جیسوں کو جماعت کا رکن بنالیا۔ اس بیچ جماعت کا مرکز چتلی قبر
سے نکل کر ابوالفضل منتقل ہوچکا تھا ۔ اُس وقت کاروباری سلسلے میں دہلی
جانے کا موقع ملا تو سب سے بڑی خواہش مولانا سے ملاقات کی تھی۔ استقبالیہ
پر پوچھ ہی رہا تھا کہ کیا امیر جماعت سے ملاقات ہوسکتی ہے؟ پیچھے سے ایک
شفیق ہاتھ شانے پر آگیا ۔ مڑ کر دیکھا تو مولانا نے سلام پہل کیاور معانقہ
کیا ۔ یہ بات تصور خیال سے پرے تھی کہ کوئی سربراہِ جماعت اپنے ایک نئے رکن
کا ایسا پرتپاک خیر مقدم بھی کرسکتا ہے ۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے
میں لے گئے ۔ چند لمحات کے اندر امیر اور مامور کا فرق ختم ہوگیا ۔ ایسی
انکساری اور بے تکلفی کہ جس تصور بھی محال تھا۔ کتابوں میں پڑھا تھا کہ
بزرگوں کی صحبت سے روح سر سبز و شاداب ہوجاتی ہے ۔ اس کا عملی تجربہ ہوگیا
۔ اس ملاقات کی خوشبو آج بھی قلب کے کسی گوشے میں ترو تازہ ہے۔
ممبرا میں ارکان کا ایک اجتماع میرے گھر سے پیدل فاصلے پر تھا۔ میں نے امیر
مقامی سے پوچھا کہ مولانا کو اپنے گھر لے جاوں وہ بولے اگر وہ جانا چاہیں
تو میں کون ہوتا ہوں روکنے والا؟ مولانا سے کہا چلیے میرے گھر پر آرام
کیجیے تو بولے نہیں یہیں ٹھیک ہے ۔ پوچھا کیوں ؟ تو بولےتمہارے گھر والوں
کو زحمت ہوگی ۔ میں نے بتایا کہ گھر پر کوئی ہوگا تو زحمت ہوگی ۔ بچے اپنی
امی کے ساتھ نانا نانی کے گھر چھٹیاں منارہے ہیں ۔ مولانا راضی ہوگئے۔ میں
نے انہیں خوابگاہ میں آرام کرنے کے لیے کہا اور خود ہال میں آکر لیٹ گیا۔
کچھ دیر وہ باہر آئے اور مجھ کو اندر جاکر سونے کا حکم دیا ۔ میں نے پوچھا
آپ کہاں آرام کریں گے ؟ تو کہنے لگے میں یہاں باہر والے کمرے میں ( زمین
پر) ٹھیک رہوں گا، تم اپنے بستر پر جاکر سوجاو۔ میں بولا یہ نہیں ہوسکتا ۔
وہ اصرار کرنے لگے تو میں نے پوچھا کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں رات بھر جاگتا
رہوں ؟ اس پر وہ خاموشی سے اندر چلے گئے۔ اس کے بعد میں گھوڑے بیچ کر سوگیا
لیکن مجھے نہیں پتہ کہ وہ اندر سوسکے یا نہیں ؟
قرآن مجید کا مراٹھی ترجمہ ہوا تو اس کا اجراء کرنے کے لیے امیر جماعت
مولانا سراج الحسن صاحب ممبئی تشریف لائے ۔ ممبئی میں کے سی کالج کا ہال
بالکنی تک بھرا ہوا تھا ۔ اس جلسہ میں مراٹھی کے بہت بڑے ادیب یو ایم پٹھان
، معروف صحافی ارون سادھو اور ایک جج صاحب کے علاوہ مشہور معروف لوگ اظہار
خیال کررہے تھے ۔ میں نے نظامت کرتے ہوئے کچھ مقررین پر تبصرہ کردیا ۔
درمیان میں مغرب کی نماز کا وقفہ ہوا تو مولانا نے امیر مقامی سے کہلوا دیا
کہ سلیم کو تبصرہ کرنے سے منع کردو۔ میں نے امیر مقامی سے کہا یہ نہیں ہوگا
آپ اگلے حصے کی نظامت کسی اور کے سپرد کردیں ۔ وہ بولے نہیں ایسا کرنے سے
مولانا ناراض ہوجائیں گے ۔ کس شقی القلب کے لیے ممکن تھا کہ مولانا سراج
الحسن صاحب جیسے شفیق بزرگ کی دلآزاری کرے؟ بات اس وقت ختم ہوئی تو آج
یاد آگئی۔
مہاراشٹر کے امیر حلقہ کا انتخاب ہونا تھا ۔ مولانا مرکز سے نگرانی کے لیے
تشریف فرما تھے ۔ اس مجلس میں ہمیشہ باغ و بہار رہنے والی شخصیت کونہایت
سنجیدہ دیکھا ۔ دن بھر بحث چلتی رہی ۔ مختلف لوگ اپنی رائے کچھ احتیاط اور
کچھ بے احتیاطی کے ساتھ رکھتے رہے۔ مولانا پر کمال سنجیدگی طاری تھی۔ ساری
کارروائی کے دوران انہوں نے کوئی دخل اندازی نہیں کی ۔ ہر ایک کو کھل کر
بولنے کا موقع دیا اور خود چپ چاپ ساری باتیں لکھتے رہے ۔ مولانا کی جوشیلی
تقاریر اور ہلکے پھلکے لطیفوں سے لطف اندوز ہونے والے ہم جیسے لوگوں کو
نہایت خشک تنظیمی بحث میں مولانا کی غیر معمولی دلچسپی نے بے حد متاثر کیا
تھا۔ نشست کے بعد تنہائی میں یہ پوچھنے پر کہ مولانا جن دو افراد پر سارے
لوگوں نے گفتگو کی ان دونوں نے تیسرےفرد کا نام کیوں پیش کیا؟ مولانا اپنے
مخصوص انداز میں مسکراکر حکمت و موعظت کے ساتھ بولے بہت زیادہ سوچنا اچھا
نہیں ہےگویا کہہ رہے ہیں ’بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بعض گمان گناہ ہوتے
ہیں‘۔ پھر اس کے آگے سوال کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
مولانا سراج الحسن صاحب کی حیران کن مقبولیت کا سراغ نبی کریم ﷺ کی اس حدیث
میں ملتا ہے کہ ایک شخص نےرسول اکرم ؐ کی خدمت میں آکر عرض کیا : یارسول
اللہؐ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتلایئے کہ جس کے بجا لانے سے اللہ تعالیٰ بھی
مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی محبت کریں۔ یہاں پر اللہ سے محبت کی توفیق کا
مطالبہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی محبت کا تقاضہ ہے۔ کائناتِ ہستی میں
عظیم ترین سعادت یہ ہے کہ بندے کا رب کائنات کے ساتھ محبت کا رشتہ قائم
ہوجائے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ازخود اپنے بندے سے محبت کرنے لگے ۔ اس کیفیت
کا اندازہ محبت کرنے والے دل کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ کسی بندے سے
اللہ تعالیٰ کتنی محبت کرتا ہے یہ بھی ہم نہیں جان سکتے لیکن اس سے بندے کس
قدر محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے
مولا نا سراج الحسن صاحب قابلِ رشک شخصیت حامل تھے۔ آپﷺ نے اپنے صحابی کے
استفسارکا جواب یہ دیا کہ :’’دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ ‘اللہ تعالیٰ تم سے
محبت فرمائے گا‘ اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز رہو، لوگ تم سے
محبت کریں گے‘‘۔
دنیا سے بے رغبتی اور لوگوں سے بے نیازی پر درس و تقریر تو بہت آسان ہے
لیکن اس کو اپنی رگ و پے میں بسا لینا بہت مشکل ہے۔ مولانا سراج الحسن نے
اس کا جو عملی نمونہ پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیں ۔ امیر جماعت کا انتخاب
ہورہا تھا ۔ چوتھی مرتبہ مولانا سراج الحسن کے منتخب ہوجانے کا قوی امکان
تھا۔ ایسے میں مولانا نے اپنی معذرت اس طرح پیش کی کہ ’میں نے اپنی زندگی
میں جماعت کے کسی فیصلے سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ اس لیے آپ لوگ مجھے
مجبور نہ کریں ۔ میں گھرجاکر اپنی والدہ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔ براہِ
کرم میری معذرت قبول کرلیجیے‘۔ یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جس نے رضائے الٰہی
کی خاطر اپنی جوانی دین کی سربلندی میں جھونک دی ۔ ۴۰ سالوں تک جماعت کے
ذریعہ دین کی خدمت کرنے کے بعد وہ اپنی والدہ کی خدمت کے لیے کمال انکساری
کے ساتھ رخصت طلب کر رہا ہے ۔ اخلاص و للٰہیت کی عظیم مثال قائم کرکے
مولانا محترم مرکز سے یوں رخصت ہوئے کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔
حید رآباد میں ارکان جماعت کے اجتماع کا دوسرا دن تھا ۔ مولانا سراج الحسن
اپنی علالت کے باوجود آکر نیچے عام ارکان کے درمیان بیٹھ گئے۔ ہم جیسے
لوگوں کو پتہ چلا تو پروانہ وار ان کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ ان سے کہا جانے
لگا کہ مولانا آپ اسٹیج پر چلیے ۔ مولانا انکار کرتے رہے۔ میرا پروگرام
نہیں ہے۔ میں توبس شرکت کے لیے حاضر ہوں ۔ اپنے ارکان سے ملنے کی خاطر آیا
ہوں ۔لوگ نہیں مانےان کو اسٹیج پر لے گئے۔ تقریر کے لیے کہا تو خرابیٔ صحت
کے باوجود مختصر تذکیر میں یہ کہہ دیا کہ شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو ۔
ان کے الفاظ سچ نکلے اور ہم جیسے دور دراز کے عقیدتمندوں کو اس کے بعد
مولانا سے شرف ملاقات نصیب نہیں ہوا۔
عبداللہ جاوید صاحب نے مولانا کے اسپتال میں داخل ہونے کی خبر دی تو طبیعت
بوجھل ہوگئی۔ محمد صدیق قریشی صاحب نے ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ زہر جسم میں
پھیل گیا ہے تو اسے دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ دعا پر اکتفاء کرلیا اور
چنددن بعد پھر عبداللہ جاوید صاحب نے بتایا مولانا آئی سی یو سے نکل کر
عام وارڈ میں آگئے ہیں ۔ اس کے بعد گھر آنے کا مژدہ بھیآگیا ۔ ہم لوگوں
نے اللہ کا شکر ادا کیا مگر یہ خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی جلد یہ مژدۂ
جانکاہ بھی وارد ہوگیا کہ مولانا سراج الحسن اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔
مولانا رضی الاسلام صاحب نے چراغ کے گل ہونے کی بات بھی لکھی لیکن دل کہتا
ہے کہ سب غلط ہے۔ اگر ایسا ہے تو دل کے نہاں خانے میں یہ روشنی کیوں ہے؟
مولانا کا جسد خاکیجمعہ کو ڈھائی بجے سپرد خاک کردیاگیا لیکن سراج الحسن
نامی قلب و ذہن میں منور ہے اور رہے گا ۔ مولانا کی دلفریب مسکراہٹ میں
پوشیدہ غلبۂ دین کی تڑپ اس شعر کی مصداق ہمارے ساتھ رہے گی ؎
جلا ہوں عمر بھر سوزِ نہاں میں
رہا ہوں مثلِ گل میں اس جہاں میں
|