رودادِ وفا

 عالمی شہرت کے حامل عبقری دانش ور اور محب وطن پاکستانی ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو گزشتہ چار عشروں سے اپنے تنقیدی و تحقیقی مضامین سے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان کے وقیع مضامین پر مشتمل نئی کتاب کی اشاعت کی خبر میرے لیے طلوعِ صبح بہاراں کی نوید لیے ہوئے ہے۔ عالمی کلاسیک کی کتب کے وسیع مطالعہ کو شعار بنانے والے علم و ادب کے اس انسانیت نواز قطب کی معرفت اور بصیرت کی پوری دنیا میں دھوم مچی ہے ۔ ادیان ِ عالم،تاریخ ،علم بشریات ،فلسفہ ، نفسیات ، عمرانیات،معاشیات اور پس نو آبادیاتی مطالعات کے اس بے بدل ابدال اور دائرۃ المعارف نے پرورش لوح و قلم کے لیے جو جادہ منتخب کیا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اردوزبان و ادب کی تاریخ کے موضوع پرجو دادِ تحقیق دی ہے اس کی اہمیت کاایک عالم معترف ہے ۔ انھوں نے جن ماہرین لسانیات سے استفادہ کیا ہے ان میں ممتاز ماہر لسانیات (1851-1941 : George Abraham Grierson) ،برطانوی ماہر تعلیم،مستشرق اور دانش ور پروفیسر رالف رسل ( 1918-2008 : Ralph Russell)، فرانسیسی ماہر لسانیات ژاک دریدا(1930-2004 : Jacques Derrida )، سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات سوسئیر ( 1857-1913:Ferdinand de Saussure )،روسی امریکی دانش ور رومن جیکب سن ( 1896-1982 :Roman Jakobson )اور فرانس کے ادبی تھیورسٹ رولا ں بارتھ (1915-1980 : Roland Barthes )شامل ہیں ۔ اردو زبان کے ارتقا میں میوات کا حصہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس قدر اہم ہے کہ دنیا کی کئی جامعات میں اس کے مشمولات کے تراجم کیے گئے ہیں ۔ الحاج میاں اقبال زخمی نے اس مضمون کا پنجابی زبان میں ترجمہ کیا ۔ پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے راقم کو بتایا کہ الازہر یونیورسٹی ( قاہرہ ) میں زیر تعلیم ایک عرب محقق نے اس تحقیقی مضمون کو عربی زبان کے قالب میں ڈھالا ۔ اقبال کی تمثیل نگاری کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا جاسکتاہے کہ پروفیسر ڈاکٹر رحیم بخش شاہین ،پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض ،پروفیسر ڈاکٹر بشیر سیفی ،پروفیسر ڈاکٹر صابر کلوروی ،پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر اور پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی نے اس تحقیقی مضمون کو اقبال شناسی کے سلسلے میں خضر راہ قرار دیتے ہوئے اپنے شاگردوں کو اسی معیار کو پیشِ نظر رکھنے کا مشور ہ دیا۔ جرمن مستشرق پروفیسرڈاکٹر این میری شمل( 1922-2003) نے بھی پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی اقبال شناسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔یہ بیس برس پہلے کی بات ہے ڈاکٹر این میری شمل نے اسلام آباد کی ایک ادبی نشست میں اقبال شناسی پر ایک توسیعی لیکچر دیا۔اس موقع پر جب انھیں احمد بخش ناصر ،گدا حسین افضل ،شفیع ہمدم ،شفیع بلوچ،سجاد حسین،کوثرپروین، اسماعیل صدیقی ،شبیر احمد اختر ،ذکیہ بدر ،محمد فیروز شاہ ،ارشاد گرامی اور پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی اقبال شناسی کے موضوع پر تحقیقی کامرانیوں سے مطلع کیا گیا تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئیں ۔اس وقت پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے آفتاب تحقیق و تنقید کی جن کرنوں کی ضیاپاشیوں نے قریۂ جاں کو منور کیا ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
(۱)۔اردو زبان کے ارتقا میں میوات کا حصہ
(۲)۔اقبال کی تمثیل نگاری ۔۔۔جزوی مطالعہ
(۳)۔انیس ناگی کی صحافتی خدمات
(۴)۔انیسویں صدی کے اخبارات و جرائد ایک اجمالی جائزہ
(۵)۔فکر اقبال کی ترویج اور بزمِ اقبال
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے پس نو آبادیاتی ادب پر تحقیق کو اپنا مطمح نظر بنا رکھا ہے ۔ اپنی متاثر کن تحریروں میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے تخلیق اور تنقید میں پائے جانے والے غیر متناسب تعلق پر گرفت کی ہے۔ انھوں نے تخلیق ادب کو کلیدی اہمیت کی حامل فعالیت سے تعبیر کیا اُن کا خیال ہے کہ تنقید کا قصر ِ عالی شان تخلیق کی اساس پر استوارہے ۔وہ تنقید کو محاکمہ اور استدلال کی ایسی سائنس قرار دیتے ہیں جس کی مدد سے فکر و خیال کا نظام ایسے طریق ِکار سے آشنا ہوتاہے جو زندگی کے منتشر مشاہدات،تجربات اور تاثرات کو واحد لڑی میں پرو کر ایک کُل کی صورت میں پیش کرنے کی ممکنہ صورت سامنے لاتاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے تنقیدی مضامین میں نفسیات اور فلسفۂ علم کی اساس پر استوار ہیں ۔انھوں نے انگریزی تجربی نفسیات کا وسیع مطالعہ کیا ہے جس کے مطابق فکر انسانی کا انحصارخارجی دنیا کے تاثرات پر ہے۔ انگریز ی تجربی نفسیات نے اُنھیں اِس جانب متوجہ کیا ہے کہ تلازمہ ٔ خیال کے تقاضوں کے تحت جملہ تاثرات منصۂ شہود پر آ تے ہیں ۔عالمی ادب کے نباض اور معاصر ادب کے رمز آ شنا محقق کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے جرمن ماورائی فلسفہ کی روایت سے بھی استفادہ کیا ۔اس فلسفہ کی رُو سے خارجی فطرت اور اس کے مظاہر انسانی فہم و ذکا اور شعور کے ساتھ مکمل طور پر ہم آ ہنگ ہیں ۔ جرمن ماورائی فلسفہ کے مطابق انسانی ذہن و ذکاوت انفعالی طور پر تاثرات کے قبولیت اور انھیں متشکل کرکے پیش کرنے سے قاصرہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے وحدت کی جستجو کو تخلیقی عمل میں کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے ۔اُن کاخیال ہے کہ وحدت کی تلاش انسانی فہم و ادراک کی غایت ِاولیٰ قرار دی جا سکتی ہے ۔مطالعۂ احوال کے سلسلے میں انھوں نے ہمیشہ بنیادی مآخذ تک رسائی حاصل کرنے پر اصرار کیا۔انیس ناگی کی صحافتی خدمات مطالعہ ٔ احوال پر مبنی ان کی تحقیق کی عمدہ مثال ہے ۔ دستاویزی تحقیق میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے جس محنت ،لگن اور فرض شناسی کا ثبوت دیاہے وہ ان کا امتیازی وصف ہے ۔انیسویں صدی کے اخبارات و جرائد ایک اجمالی جائزہ اس کی لائق تحسین مثال ہے ۔ان کی یہ اہم تحقیق مطبوعہ اخبارات ،جرائد اور مجلات کا احاطہ کرتی ہے مگر وسائل کی عدم دستیابی کے باعث مخطوطات کی صورت میں پیش کیے جانے والے مختصر اخبارات کا اس میں کہیں ذکر نہیں ۔ نوآبادیاتی دور میں جبر کے ماحول میں جب لب اظہار پر تالے لگادئیے گئے تو ایک چوتھائی صفحے پر مشتمل اس قسم کے مختصر اخبارجن میں سوانح لیل و نہار لکھے جاتے تھے نو آبادیاتی دور میں اپنی مدد آ پ کے تحت خود ہی کتابت کر کے مقامی لوگوں کے گھروں میں مفت تقسیم کیے جاتے تھے ۔ ان مخطوطات میں قمری ،شمسی اور ہندی تقویم ، ملبوسات کے انداز ،بناؤ سنگھار کے رُوپ ،رمل ،نجوم ،فالنامے،پکوان کے طریقے اور دیسی طبی ٹوٹکے بھی شامل ہوتے تھے ۔اس طرح یہ اخبارمقامی اور ملکی حالات ،اعلانات اور اشتہارات کے ساتھ ساتھ پنساریوں کا ہٹ بن جاتا۔پس نو آبادیاتی دور کے ادب کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا خیال ہے کہ دوسری عالمی جنگ( 1939-1945) کے بعد پُوری دنیا میں فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ محکوم اقوام کا لہو سوزِ یقیں سے گرمانے والے قائدین جن میں علامہ اقبال بھی شامل ہیں ،نے دِلوں کو ایک ایسا ولولہ ٔ تازہ عطا کیا جس کے معجز نما اثر سے ممولے میں عقاب سے لڑنے کی جرأت پیدا ہو گئی ۔اس تحریک کے نتیجے میں سامراجی طاقتوں کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنی نو آبادیات سے بادِلِ نا خواستہ کُو چ کرنا پڑا ۔ وقت کے اس ستم کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جاتے جاتے سامراجی طاقتوں نے اپنے مکر کی چالوں سے یہاں فتنہ و فساد اور خوف و دہشت کی فضا پیدا کر دی۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے یہ بات واضح کی ہے کہ استبدادی قوتوں کے پروردہ اجلاف و ارذال ، ساتا روہن اور گُرگ منش شکاری ہمیشہ نئے جال تیار کرتے رہتے ہیں ،زنجیریں بدلتی رہتی ہیں مگر الم نصیبوں کے روز و شب کے بدلنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے یہ بات ہمیشہ زور دے کر کہی ہے کہ جب تک کسی قوم کے افراد احتسابِ ذات پر توجہ مرکوز نہیں کرتے اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ نہیں اپناتے اس وقت تک اُن کی قسمت نہیں بد ل سکتی۔حریتِ فکر و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے کی روش وہ زادِ راہ ہے جو زمانۂ حال کو سنوارنے ،مستقبل کی پیش بینی اور لوح ِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کرنے کا وسیلہ ہے۔ ایک مر نجان ومرنج انسان کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کوکسی کی دل شکنی و دِل آزاری سے کوئی غرض نہیں۔ اُنھیں اس بات کا قلق ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں جاہ و منصب کی حرص اور ہوسِ زر نے ایک بحرانی کیفیت اختیار کر لی ہے ۔ان اعصاب شکن حالات میں ترقی پذیر ممالک کے باشندوں کی سیرت و کردار کی تعمیر وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ اپنے فکر پرور اور خیال افروز مضامین میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے قارئین ِ ادب کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ ہر فرد کو اپنی ملت کی تقدیر سنوارنے میں اہم کردار کرنا پڑے گا۔ایک ذمہ دار شہری کا یہ فرض نہیں کہ وہ اپنی ذات کے نکھار،نفاست،تزئین اور عمدگی کو مرکزِ نگاہ بنالے بل کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ حسین ؑ کو پیشِ نظر ر کھے اور حریتِ فکر و عمل کو شعار بنائے۔ تعمیر وطن کی خاطر اپنے جذبات،احساسات،اور اظہار و ابلاغ کے جملہ انداز حرفِ صداقت سے مزین کرے۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے پس نو آبادیاتی مطالعات میں جس انہماک کا مظاہرہ کیاہے اس کااندازہ اس کتاب کے مشمولات سے لگایا جا سکتاہے ۔ جہاں تک ادب میں پس نو آبادیاتی مطالعات کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان میں نو آبادیاتی دور کے محکوم باشندوں کے زوایہ ٔنگاہ ،وقت کے بدلتے ہوئے تیور ،فکر و خیال کی انجمن کے رنگ اور ان کے آ ہنگ پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں۔پس نو آبادیاتی مطالعات نو آبادیات کے باشندوں کی خاص سوچ پر محیط ہوتے ہیں۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سیپروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ سامراجی طاقتوں کی نو آبادیات کے وہ مظلوم باشندے جو طویل عرصے تک سامراجی غلامی کا طوق پہن کر ستم کش ِ سفر رہے مگر سامراجی طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا،ان کا کردار ہر عہد میں لائق صد رشک وتحسین سمجھا جائے گا۔یہ دیکھا جاتا ہے کہ ظالم و سفاک سامراجی طاقتوں کو جب اپنی نو آبادیات میں منھ کی کھانا پڑی اور ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب وہ بے نیلِ مرام اِن سابقہ نو آبادیات سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو اس کے بعد ان نو آبادیات کے با شندوں نے آزادی کے ماحول میں کس طرح اپنی انجمنِ خیال آراستہ کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے دنیابھر کی پس ماندہ اقوام کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑے رکھا۔سامراجی طاقتوں کی جارحیت کے نتیجے میں ان نو آبادیات کی تہذیب وثقافت،ادب،اخلاقیات،سیاسیات ،تاریخ ،اقدار و روایات اور رہن سہن کے قصر و ایوان سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے مطابق پس نو آبادیاتی مطالعات میں اس امر پر نگاہیں مرکوز رہتی ہیں کہ ان کھنڈرات کے بچے کھچے ملبے کے ڈھیر پر نو آزاد ممالک کے باشندوں نے آندھیوں اور بگولوں سے بچنے کے لیے صحنِ چمن کو کس طرح محفوظ رکھاتیسری دنیا کے ممالک کے مسائل اور اس کے نتیجے میں آبادی میں رونماہونے والے تغیر و تبدل کی کیفیات معاشرتی زندگی پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ ایڈورڈ سعید نے اس موضوع پر حقیقت پسندانہ انداز میں لکھا ہے :
"The widespread territorial rearrangements of the post-World War Two period produced huge demographic movements,for example the Indian Muslims who moved to Pakistan after 1947 partition,or the Palestinians who were largely dispersed during Israel,s establishment to accomodate incoming European and Asian Jews; and these transformations in turn gave rise to hybrid political forms.(1)
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے دیارِ مغرب کے مکینوں کی مشرق دشمنی کے خلاف نہایت بے باکی سے اظہار ِ خیال کیا ۔ایک وسیع المطالعہ محقق ،مورخ اور نقاد کی حیثیت سے انھوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ مطالعۂ ادب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم یونانی ادیب ہومر( Homer) کے زمانے ہی سے یورپی فکر پرجورو ستم اور جبر و استبداد کا عنصر حاوی رہا ہے ۔بادی النظر میں یہ تاثر عام ہے کہ ہر یورپی باشندے کا مزاج پیدائشی طور پر جابرانہ اور آمرانہ ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ رعونت پر مبنی نسل پرستی،سامراج کی حمایت اورمریضانہ قبیلہ پرستی اہلِ یورپ کی جبلت اور سرشت میں شامل ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی زندگی شمع کے مانند گزری ہے ،انھوں نے خبردار کیا ہے کہ کوئی دیوتا،کسی قسم کے حالات،کوئی من گھڑت تجریدی تصوریا ضابطہ بے بس و لاچار اور بے گناہ انسانیت کے چام کے دام چلانے اور ان پر کوہِ ستم توڑنے اور مظلوم انسانوں کی زندگی کی شمع گُل کرنے کا جواز پیش نہیں کرتا ۔اُنھیں یقین ہے کہ ظلم کا پرچم بالآ خر سر نگوں ہو گا اور حریتِ ضمیر سے جینے والے حریت فکر کے مجاہد عملی زندگی کے ہر مرحلے میں کامیاب و کامران ہوں گے۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا منفرد اسلوب ان مظلوم انسانوں کا حقیقی ترجمان ہے جن کی زندگی جبر مسلسل برداشت کرتے کرتے کٹ جاتی ہے۔انھوں نے اس جانب متوجہ کیا کہ اقوام کی تاریخ اور تقدیر در اصل افراد ہی کی مرہونِ منت ہے ۔یہ افراد ہی ہیں جو جو کسی قوم کی تاریخ کے مخصوص عہد کے واقعات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ابہام کو دُور کر کے اِسے از سرِ نو مرتب کرتے ہیں۔افراد کی خاموشی کو تکلم اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ حریتِ فکر کی پیکار اور جبر کے خلاف ضمیر کی للکار سے تاریخ کا رُخ بدل جاتا ہے ۔حریتِ فکر کے مجاہد تاریخ کے اوراق سے فرسودہ تصورات اور مسخ شدہ واقعات کو حذف کر کے اپنے خونِ جگر سے نئی خود نوشت تحریر کرتے ہیں۔ جب جو ر و جفا کا بُر اوقت ٹل جاتا ہے توتاریخ میں مذکور ماضی کی بے ہنگم اور بد وضع قباحتیں جنھیں ابن الوقت مسخروں نے نظر انداز کر دیا ان پر گرفت کی جاتی ہے ۔افراد پر یہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ ایام ِگزشتہ کی کتاب کے اوراق میں مذکور تمام بے سرو پا واقعات کو لائق استردا دٹھہراتے ہوئے انھیں تاریخ کے طوماروں میں دبا دیں۔
پس ماندہ اور نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ممالک کے مظلوم باشندوں کا لہو سوز ،یقیں سے گرمانے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے نہایت خلوص اور دردمندی سے کام لیا ۔ادب ،صحافت ،تہذیب و ثقافت اور معاشرت کی کیفیات کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی باتیں روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آ فرینی سے لبریز ہیں ۔ ایک دردِ دِل رکھنے والے انسان دوست اور درد آشنا مسیحا کی حیثیت سے انھوں نے جس خلوص سے دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ یہ امر کس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے کہ کہ بے گناہ افراد کو اس شک کی بنا پر جبر کے پاٹوں میں پِیس دیا جائے کہ ان کے آبا و اجداد نے ماضی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کا ارتکاب کیا تھا اور موجودہ دور کے ظالم ان کا نشانہ بنتے رہے ۔اپنے بلاجواز انتقام کے لیے یہ دلیل دی جائے کہ چونکہ ان کے خاندان نے ماضی میں ظلم سہے ہیں اس لیے اب وہ نسل در نسل ان مظالم کا انتقام لیں گے اور اپنے آبا و اجداد کے دشمنوں کی زندگی اجیرن کر کے انھیں ماضی کے تلخ سمے کے سم کا ثمر کھانے پر مجبور کر دیں گے۔اس نے سادیت پسندوں پر واضح کردیاکہ کسی کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کی بھی حد ہونی چاہیے۔اس سے پہلے کہ مظلوموں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے فسطائی جبر کو اپنے انتہا پسندانہ روّیے پر غور کرنا چاہیے۔زندگی کا ساز بھی ایک عجیب اور منفرد آ ہنگ کا حامل ساز ہے جو پیہم بج رہا ہے مگر کوئی اس کی صدا پر کان نہیں دھرتا۔کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ نے تو لُٹیاہی ڈبو دی ہے ۔اس قماش کا جو بھی مسخرہ درِ کسریٰ میں داخل ہوتا ہے طلوعِ صبح ِ بہاراں کی نوید عشرت آگیں لے کرغراتا ہے کہ ماضی کے فراعنہ کے برعکس اس کا مقصدلُوٹ مار،غارت گری،انسان دشمنی،اقربا پروری اور قومی وسائل پر غاصبانہ تسلط نہیں بل کہ وہ افراد کی آزادی،تعلیم،صحت اور خوش حالی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتاہے۔ یہ ایک طرفہ تماشا ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں غم زدہ فقیروں کے حال جُوں کے تُوں رہتے ہیں مگر بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے بروٹس قماش موقع پرست بے ضمیروں کے سدا وارے نیارے رہتے ہیں۔
تاریخ زبان و ادب ،تخلیقی ادب اور تنقید و تحقیق کا جائزہ لینے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے جن تین معائر کی نشان دہی کی ہے ان میں تاریخی حقائق کا جائزہ ،ذاتی جائزہ اور حقیقی جائزہ شامل ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ازمنہ قدیم کے کلاسیکی شعرا کے اسالیب کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیتے وقت ہر دور میں ان کی قدامت کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔ رفتگاں کی یاد ، قدامت کی قدر اور عقیدت کی رو میں محاکمہ بالعموم صحیح سمت برقرارنہیں رکھ سکتا۔جہاں تک ذاتی جائزے کاتعلق ہے اس میں بھی نقادکی ذاتی پسند و نا پسند اور کسی تخلیق کے بارے میں ذاتی ترجیحات کی مظہر غیر محتاط رائے حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب پر منتج ہو سکتی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے تاریخی جائزے اور ذاتی جائزہ کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھا بل کہ حقیقی جائزے کو افادیت سے لبریز قرار یا۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے واضح کیا کہ ادب پاروں کا حقیقی جائزہ ہی وہ مقیاس ہے جو تخلیق کے حسن و قبح کو سامنے لانے کا موثر ترین وسیلہ ہے ۔ادب اور فنون لطیفہ کے استحسان کے سلسلے میں حقیقی جائزہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتاہے ۔اسی کے وسیلے سے ذوق سلیم سے متمتع ادب کا ذہین قاری کسی تخلیق میں موجود رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے جملہ استعاروں سے آ گہی حاصل کر کے ان سے حظ اُٹھا سکتاہے ۔تخلیق ادب میں شرافت کے مظہر خلوص کی جلوہ گری کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے سخت نوعیت کا کوئی خاص اصول وضع کرنے سے بالعموم گریزکیا۔ان کا خیا ل ہے کہ بیرونی مداخلت سے یک طرف طور پر مسلط کیے گئے اس قسم کے بے لچک، ناقابل عمل اصو ل اور سخت قواعد و ضوابط سے تخلیق ادب کی فعالیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتاہے ۔ادب میں عظمت فکر ،شرافت ،وضع داری اور اثر آفرینی کا تعلق تو تخلیق کار کی خود شناسی ، خود اعتمادی ،خود احتسابی اور وسعت نظر سے ہے ۔اگرتخلیق کار کذب و افترا اور ریاکاری سے اپنا دامن آ لودہ نہ ہونے دے توو ہ ستاروں پہ کمند ڈال سکتاہے اور تخلیقِ ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر سکتاہے ۔تخلیق ِ ادب میں تنقید اور ثقافتی اقدار کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئیپروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے ا س جانب اشارہ کیا ہے کہ تنقید اور ثقافت کو ان سب عوامل کی گرہ کشائی کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جن سے ماضی اور حال کے خیالات نے نمو پائی۔اس کے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ سب امور جو اپنی اکملیت کی وجہ سے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر چکے ہیں ان کی کامیابی کا راز کیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ثقافت اور تنقید کو عصبیت و تشدد سے دامن بچاتے ہوئے ان عوامل کا کھوج لگانا چاہیے جن کے باعث سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے ماضی کی متعدد روایات اور زندگی کی اقدار عالیہ کو خس و خاشاک کے مانند بہالے گئے ۔ان کا خیال ہے کہ تنقید اس وقت مبہم اور ناقابل عمل صور ت اختیار کر لیتی ہے جب اسے اثر پذیری کی تمنا میں مفاد پرستی ، منافقت ، چاپلوسی اور ستائش سے آ لودہ کر دیا جائے اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت قارئین کو ادب پارے کے مطلوبہ مفاہیم تک رسائی اوران پر قانع رہنے کے مالکانہ حقوق تھما دئیے جائیں ۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے شرافت ،دیانت اور محنت سے مزین عظیم الشان اسلوب کے بارے میں میتھیوآ رنلڈ نے کی اس بات سے اتفاق کیا کہ سدا بہار اور ابد آ شنا اسلوب تک رسائی حاصل کرنابہت کٹھن مر حلہ ہے ۔ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کی سانس راہ ہی میں اُکھڑ جاتی ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے عظیم الشان اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے میتھیو آ ر نلڈ کی اس بات کو ہمیشہ اہمیت دی :
The grand style is the last matter for verbal definition to deal with adequately.One may say of it as is said of faith:,one must feel it in order to know what it is,.But as of faith ,so too one may say of nobleness ,of grand style:,Woe to those who know it not, ! Yet this expression ,though indefinable ,has a charm ; one is better for considering it; bonnum est, nos hic esse;nay,loves to try to explain it,though one knows that one must speak imperfectly .(2)
ایک جری نقاد کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے جو تنقیدی معائر پیش نظر رکھے ہیں وہ اُن کی ذہانت اور بے باک صداقت کے مظہر ہیں ۔انھوں نے تنقید کو جو آ ہنگ عطا کیا اس کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے ۔ مشفق خواجہ ، وار ث علوی اور کلیم الدین احمد کی طرح انھیں اس بات کا قلق ہے کہ ہماری تنقید بالعموم تواز ن و اعتدال کی راہ سے ہٹ جاتی ہے ۔ ان کے لیے یہ امر حیران کن ہے کہ مسلمہ تنقیدی معائر کو نظر انداز کرتے ہوئے نقاد بھی بعض اوقات بے ربطی کا شکار ہو جاتاہے ۔ اپنے تنقیدی مضامین میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے معاشرتی زندگی کے تضادات پر کڑی گرفت کی اور معاصر تنقید کی خامیوں کی جانب توجہ دلائی ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی تنقید پر گوئٹے ،رینان اور سانت بیو کے اثرات کا پتا چلتاہے ۔ادب میں جمالیاتی عنصر کو دبانے کی خاطر انھوں نے اخلاقی عنصر کی اہمیت و افادیت کو نہایت خلوص اور دیانت سے پیش کیا ہے ۔ انگریزی زبان کی تنقید میں اخلاقیات کی تدریس کا جو ارفع معیار فلپ سڈنی (1554-1586 : Philip Sidney )کی تحریروں میں پایا جاتاہے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی تحریروں میں کئی مقامات پر اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ اپنی تدریسی زندگی میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے نہایت تحمل اور سنجیدگی ،خلوص اور دردمندی کا مظاہرہ کیا ۔ان کے احباب کو معلوم ہے کہ کوئی ادبی مہم جُو جب بھی بہتان طراز ی اور الزام تراشی کی غرض سے ان کی طرف یلغار کرتا ہے تو وہ اسے بالعموم نظر انداز کر کے اپنے تعمیری کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔کسی کی تخریب ،عیب گیری یا عصبیت سے انھیں کوئی غرض نہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ نقاد کو اپنے خلاف سادیت پسندی پر مبنی ایسے بغض و عناد،بے معنی حرف گیری اور بے وقعت الزام تراشی کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے ۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ محقق اور نقاد کوبے باک صداقت کو شعار بنانے والا بہترین مدبر ، لچک دار سوچ سے متمتع بہترین اعتدال پسند ،قابل فہم اور متنوع تصورات کوپروان چڑھانے والادانش ور ،تناقضات کو ختم کرنے والا مصلح اور منصف مزاج مورخ ہونا چاہیے ۔ایک جری نقاد کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا تبحر علمی واضح طور پر غلط سمت میں لے جانے والے فرسودہ خیالات پر مبنی جہالت اور جعل سازی کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتاہے ۔ عظیم ترین اسلوب کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اس نقاد نے ذوق ِسلیم کی نمو اور تخلیقی فعالیت کو مہمیز کرنے کے لیے جو بے مثال جد جہد کی اس کی بنا پر تاریخ ہردور میں اس کے نام کی تعظیم کر ے گی۔ قحط الرجال اور ضعف بصار ت کے موجودہ دور میں مادی دور کی لعنتوں سے آلودہ ہو جانے والی معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ چور محل میں جنم لینے والے مارِ آ ستین نہایت عیاری سے چور دروازے سے گھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں ۔یہ سفلہ بونے مختلف سیڑھیاں استعمال کر کے کسی بلند مقام پر پہنچ کر اپنے تئیں باون گزے ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں اوررواقیت کے داعی بن کر لاف زنی شروع کر دیتے ہیں ۔ان کے بے سروپا سلسلہ ٔتکلم کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ ان کی جہالت نے ان کی مانگے کی علمیت اور جعلی ڈگریوں پر سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔ جس بے حس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کاانعام ملنے لگے وہاں رونما ہونے والے وقت کے اس قسم کے لرزہ خیزسانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے ۔عقیدت کی اداکاری کرنے والے طوطاچشم بروٹس کو دیکھ کر کف افسوس ملنے والے وقت کے ہر سیزر کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ قدر نا شناس کے ساتھ گزارا جانے والا وقت رائیگاں ہی جاتاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو اپنے معتمد ساتھیوں کو آستین کے سانپوں سے بچانے کے لیے سدا یہی نصیحت کرتے ہیں کہ چربہ ساز ،سارق ،جعل ساز ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات ِ ادب کی کینہ پروری پر مبنی الزام تراشی کے جواب میں میتھیو آ ر نلڈ نے جو بات کہی تھی وہ صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کرنے و الے ہر پیمان شکن درندے ، دغا باز محسن کش اور برادرانِ یوسف کے لیے نوشتۂ دیوار کے مانندہے :

( 3) " You shall die in your sins "

ماضی پرستی اورروایت کی پاس داری میں جو حد فاصل ہے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے مضامین میں قارئین ِ ادب کو اس سے آگاہ کیا ۔ اُن کا خیال ہے کہ روایت کو جامد و ساکت ،اٹل اور ناقابل اصلاح سمجھنا ایسی غلط سوچ ہے جوحقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب کر کے بے حسی کی مظہر بے عملی کو تحریک دیتی ہے ۔ اُن کا خیال ہے کہ زندگی کے تلخ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کووتیرہ بنانے والے جزیرہ ٔ جہلاکے کور مغز مکین سستی جذباتیت کاشکار ہوکر خوب اور زشت میں امتیاز کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ زندگی کے مثبت شعور اورعصری آگہی سے مزین روایت کے اعجازسے معاشرتی نظام کو صحت مندبنیادوں پراستوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ماضی کے واقعات اور تجربات کی روشنی میں آنے والے دورکے لیے لائحہ عمل مرتب کرتے وقت ترک و انتخاب پر توجہ دینا ضروری ہے ۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں یہ دیکھناچاہیے کہ کون سی اشیاکا وجود ناگزیر ہے اور کون سی اشیاسے گلوخلاصی حاصل کرناوقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے واضح کیا ہے کہ روایت کے احساس کے لیے تاریخی شعور کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ایام گزشتہ کے واقعات کوطاقِ نسیاں کی زینت بنانا غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے ۔اپنے رفتگاں کی تخلیقات کو زمانہ حال میں یاد رکھنا دلوں کو ان کے عہد کے واقعات سے آباد کرنے کے مترادف ہے ۔ زندگی کے ہر مر حلے پرتاریخی شعور انسان کو افکار ِ تازہ کی مشعل تھام کر مہیب سناٹوں کے خاتمے اور سفاک ظلمتوں کو کافورکر تے ہوئے جہانِ تازہ کی جانب سرگرم سفر رہنے کاولولہ عطا کرتاہے ۔ آئینہ ٔ ایام میں اپنی ادا پر غورکرتے وقت محض اپنے زمانے پر نظر رکھناکوتاہ اندیشی کے مترادف ہے ۔تاریخی شعور ایک تخلیق کار کو وہ فقید المثال بصیرت عطا کرتاہے جو قدیم یونانی ادیب ہومر ( Homer)کے عہدسے لے کر لمحۂ موجودتک کے علمی و ادبی اثاثے اور فکری میراث کواپنے فکر و خیال کی اساس بناتاہے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکاخیال ہے کہ محض گزرے ہوئے زمانے کے ’ ماضی پن ‘ کے احساس کو تاریخی شعور نہیں کہاجاسکتابل کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی فکری میراث کوزمانہ حال کے لیے لائق صدرشک و تحسین اثاثہ سمجھتے ہوئے روشنی کے سفر میں ساتھ لے کر چلیں اور پرورش لوح و قلم کرتے وقت اسے مقیاس العمل قرار دیں ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے تنقیدی اسلوب میں ممتاز امریکی نقاد ٹی ۔ایس۔ ایلیٹ(1888-1965 : T. S. Eliot ) کے ایک اہم اور نمائندہ مضمون روایت اور انفرادی ذہانت ( TRADITION AND THE INDIVIDUAL TALENT)مطبوعہ 1917ء کو بہ نظر تحسین دیکھاہے جس میں روایت کے بارے میں تمام حقائق کی گرہ کشائی کی گئی ہے ۔ماضی اور حال کے شعور سے عبارت روایات کے بارے میں ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ نے لکھاہے :
if you want it you must obtain it by great Tradition is a matter of much wider significance.It cannot be inherited,and " labour .It involves in the first place ,the historical sense,which we may call nearly indespensable to anyone who would continue to be a poet beyond his twenty-fifth year;and the historical sense, involves a perception ,not only of the pastness of the past,but of its presence;the historical sense compels a man to write not merely with his own generation in his bones,but with a feeling that the whole of the literature of Europe from Homer and within it the whole of the literature of his own country has a simultaneous existence and composes a simultaneous order .This historical
sense ,which is a sense of the timeless as well as of the temporal and of the timeless and of the temporal together,is what makes a writer traditional."
.And it is at the same time what makes a writer most acutely concious of his place in time of his contemporancity.(4)
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا خیال ہے کہ روایت کا جو تصور ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ نے پیش کیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے بے بصری پر مبنی کورانہ تقلید در اصل جدت فکر اور متنوع خیا ل آفرینی کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہے ۔وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ گو سفنداں قدیم کے مانند ایک ہی ڈگر پر چلنا اور شتر بے مہار کی طرح پامال راہوں پر گامزن رہنا اوربز اخفش کی صورت ہر بات پر اثبات میں سر ہلادینا بے بصری پر مبنی ذہنی افلاس کی دلیل ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس قسم کی کیفیت کے خلاف آواز بلندکی اورتخلیق ادب میں ندرت و تنوع کو زاد راہ بنانے پر زور دیا۔تقلید کی اس روش پر گرفت کرتے ہوئے وہ یہ شعر ضرورپڑھتے ہیں :
تقلید کی روش سے تو بہترہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈخضر کا سودا بھی چھوڑ دے
ایک رجحان ساز ادیب اور نقاد کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے جو مضامین لکھے وہ ان کے تنقیدی خیالات اور ادبی نصب العین کے مظہر ہیں ۔ان مضامین کے مطالعہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بیسویں صدی کے وسطی عشروں میں نئی تنقید کی ادبی تھیوری جس نے مروّج امریکی ادبی تنقید پرغلبہ حاصل کر لیا ،اس نے چشم کشا صداقتوں کے امین ان مضامین کی اساس پر اپنے افکار کی بنیاد رکھی ۔ رومانوی تنقید نے تخلیق شعرکے اس تصور پر گرفت کی جس کے مطابق یہ کہا جاتاہے کہ شاعری کی تخلیق کامقصدتخلیق کار کی شخصیت کا اظہار ہوتاہے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے تخلیق فن کو غیرشخصی نوعیت کی فعالیت سے تعبیر کیا ۔ ان کا خیال ہے کہ استعارے کوشاعری کا حقیقی جوہر قرار دینے کے معاملے میں ٹی۔ایس۔ایلیٹ اور امریکی ادیب ایذرا پاونڈ (1885-1972 :Ezra Pound ) کے خیالات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے ۔ استعارے کے متعلق جہاں تک ایذرا پاونڈ کاتعلق ہے اس کے خیالات چینی خط تصویری سے نمو پاتے ہیں جب کہ ٹی ۔ایس۔ایلیٹ کی تنقید میں استعارے کے بارے میں جو احساس جلوہ گر ہے اس کے سوتے فرانس کے اہم علامت پسندوں،سٹیفن میلارمے ( 1842-1898: Stéphane Mallarmé,) ،پال ورلین(1896 1844-: Paul Verlaine) ،آرتھر رمباڈ( 1854-1891: Arthur Rimbaud )، جولیس لیفورگ( 1860-1887: Jules Laforgue) ، ہینرائڈریگنر( 1864-1936 : Henri de Régnier )اور سترہویں صدی کے ’ مابعد الطبیعاتی ‘ فکر کے علم بردار انگریزی کے شعرا سے پھوٹتے ہیں۔
تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی تمنا میں ہر تخلیق کارپامال راہوں سے بچ کر نئے انداز اور نئے موضوعات کی جستجو کرتاہے یہی اس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ اٹھارہویں صدی کے خاص حالات میں جب عقلیت پرستی کے مظہر معاشرتی نظم و ضبط کے کڑے معائر کے خلاف شدید ردِ عمل سامنے آیاتو متعدد مشاہیر نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا کہ فطرت نے تو انسان کو آزاد پیداکیاہے مگر معاشرے کی طرف سے عائدکی گئی ناروا پابندیوں اور بلا جواز قد غنوں کے نتیجے میں انسان ہر جگہ پا بہ جولاں ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی تصانیف کے عمیق مطالعہ سے قاری اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ انسانی مشاہدات سے وابستہ حقائق کی دنیا تو محدود ہے مگر تخیل کی جولانیاں حدِ ادراک سے بھی باہر ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ اگر تخلیق کار لکھنا بند کر دے تو اہلِ جور اس کا ناطقہ بند کر یں گے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی روح اور قلب کے سر بستہ ر از ،زندگی کے نشیب و فرا ز،تجربات و مشاہدات ،ذہن و ذکاوت کی استعداد اور برادرانِ یوسف کی بیداد کی ہر روداد اُن کی تحریروں میں جلوہ گر ہے ۔وہ تمام مروّج اسالیب کو نظر انداز کر کے اپنے لیے ایک الگ راہ تلاش کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو بعض کواکب کی جعلی چکا چوند سے بالکل متاثر نہیں ہوتے بل کہ یہی کہتے ہیں کہ جس طرح ہاتھی کے دانت چبانے کے اور جب کہ دکھانے کے اور ہوتے ہیں اسی طرح کواکب بھی بازی گروں کی طرح صاف دھوکا دے جاتے ہیں ۔ان کا خیا ل ہے کہ ہر انسان سعی پیہم سے اپنی زندگی کو نکھار عطا کر سکتاہے ۔وہ یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ ایسا شخص جو عملی زندگی میں ستیز کی خاطر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتا اور ٹھوکر کھا کر گرنے کے بعد اُٹھ نہیں سکتااُسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے غم کا فسانہ لکھنے بیٹھ جائے ۔ جنیوا سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے فلسفی،مصنف اور فنون لطیفہ کے نقاد روسو ( 1712-1778 :Jean-Jacques Rousseau ) نے اس جانب متوجہ کیا کہ مادی دور میں صنعتی ترقی کے باعث ہوسِ زرمیں ہونے والے اضافہ نے افراد کو غیر یقینی حالات اور اضطراب کی بھینٹ چڑھا دیاہے ۔ یہ زوال پذیر معاشرہ ہی ہے جو پیدائشی طور پر خوش خصال بچے کوبُر ی عادات و نا پسندیدہ اطوار اورتباہ کن خصائل کی دلدل میں پھینک دیتاہے ۔ بیسویں صدی میں بھی حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ مجبور انسانوں کی کوئی امید بر نہ آئی اورنہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دی ۔ معاشرتی انتشار کی جس لرزہ خیز اوراعصاب شکن صورت حال نے وکٹورین عہد کے بر طانوی شاعر اور ادبی نقاد میتھیو آرنلڈ ( 1822-1888:Matthew Arnold )کے زمانے میں زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی تھیں بیسویں صدی میں انھوں نے انتہائی گمبھیر صورت اختیار کر لی ۔بیسویں صدی کے آغاز میں روسو کے افکارکے خلاف جن یگانۂ روزگار ادیبوں کا رد عمل سامنے آیااُن میں امریکی ادیب ارونگ بیبٹ (1865-1933 :Irving Babbitt ) ،امریکی نقادایذرا پاونڈ( 1885-1972 :Ezra Pound)اوربر طانوی فلسفی ٹی ۔ای ہیوم (1883-1917 : T. E. Hulme ) شامل ہیں ۔ارونگ بیبٹ نے رومانوی سوچ کی وضاحت کرتے ہوئے اس امر کی صراحت کر دی کہ رومانویت نے ’ تغیر ‘ کو اِس عالمِ آب و گِل کی مسلمہ صداقت قراردیاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ’ ثبات ‘ اور ’تغیر ‘ کاتعلق ہے بادی النظر میں دونوں ہی ارض و سماکے جملہ حقائق کے مظہر ہیں ۔ان شواہدکے پیش ِنظر چشمِ بیناسب گورکھ دھندوں اورسرابوں سے بچ کر آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری میں ’ ثبات ‘ میں ’ تغیر ‘ اور ’ تغیر ‘میں ’ ثبات ‘ کی جلوہ گری کے حیران کن مناظر دیکھ لیتی ہے ۔ شایداسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
سکوں محال ہے قدر کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
تخلیقی فن پارے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے ممتاز نقادایذرا پاونڈ اور بر طانوی فلسفی ٹی ۔ای ہیوم کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے تخلیق کار کے بجائے تخلیقی فن پارے کے عمیق مطالعہ پر اصرار کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کواس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون ہے جو کچھ کہہ رہاہے بل کہ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ تکلم کے سلسلوں میں کیاکہاگیاہے ۔ان کی توجہ اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ ادب پارے کی غواصی کرنے سے مفاہیم کے کون سے گوہر نایاب دستیاب ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تنقید میں ادب پارے کی تحلیل ،تجزیہ اور وضاحت کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔تاریخ ایک مسلسل عمل کانام ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ہر عہد کی نسل اپناذوق سلیم ساتھ لاتی ہے ۔وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلیں اقتضائے وقت کے مطابق تخلیق کار سے نئے زمانے نئے صبح و شام پیداکر نے کاتقاضا کرتی ہیں ۔ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اقدار کے تعین کے سلسلے میں تنقید کے ارتقائی مدارج پر بھی نظر ڈالی ہے اُن کاخیال ہے کہ تنقید میں لچک اور نظر ثانی کی گنجائش موجود ہوتی ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کو سپین اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے ادیب گیبریل گارسیامارکیز ( 1927-2014: Gabriel García Márquez)کی طلسمی حقیقت نگاری بہت پسند ہے ۔اس لیے انھوں نے اردو ادب میں اس کی ترویج پر بھر پور توجہ دی ۔ اُردو زبان کے جن ممتاز ادیبوں نے گیبریل گارسیا مارکیز کے تخلیقی شہ پاروں کے تراجم پر توجہ دی اُن میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،احمد زین الدین ، احسن سلیم ، ڈاکٹر انعام الحق کوثر ،ڈاکٹر عبدالحق خان حسر ت کاس گنجوی ،غفار بابر ،ارشاد گرامی ، آفتاب نقوی ،محمد فیروز شاہ ،محمد طحہٰ خان،آفاق صدیقی ،بشیر سیفی ، دانیا ل طریر ، محمد حامد سراج ،ذکیہ بدر ،شبیر احمد اختر ،صابر آفاقی ، اسحاق ساقی،رانا عزیز احمد ،صابر کلوروی،سجاد حسین ،سید اعجاز علی رحمانی ،اور محسن بھوپالی کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ان دانش وروں کے تراجم ابھی ابتدائی مراحل میں تھے کہ فرشتہ ٔ اجل نے اِن سے قلم چھین لیا ۔گیبریل گارسیا مارکیز کی اہم تصانیف کے اُردو زبان میں جو تراجم شائع ہو چُکے ہیں اُنھیں بہت پذیرائی ملی۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوسے مِل کر زندگی سے پیار ہو جاتاہے اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے طویل لمحات بھی بے حد مختصر محسوس ہوتے ہیں ۔ طلسمی حقیقت نگاری کے موضوع پر ان کی گُل افشانیٔ گفتار کا عالم دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ ملاقاتیں ادھوری سی رہ گئی ہیں اور تخلیق ِ ادب سے متعلق ضروری باتیں ابھی وضاحت طلب ہیں ۔ایک ملاقات میں انھوں نے راقم کو بتایا کہ گیبریل گارسیا مارکیز (Gabriel García Márquez) نے نہایت کٹھن حالات میں تخلیقی سفر جاری رکھا۔اس کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے لیکن اس نے حوصلے اور اُمید کا دامن تھا م کر منزلوں کی جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کیا۔شامِ الم ڈھلی تو درد کی ایسی مسموم ہوا چلی جس نے اُس کے دل میں نمو پانے والی اُمید کی نرم و نازک کلی کو جُھلسا دیا ۔وہ اُمیدوں کی فصل کو غارت ہوتے نہیں دیکھ سکتا ور نہ ہی اپنی محنت کا اکارت جانا اسے منظور تھا۔وہ اُداس راتوں کے پچھلے پہر تک تنہامطالعہ اور تخلیقِ ادب میں مصرو ف رہتا اور اپنے ناول ’’تنہائی کے ایک سو سال ‘‘پر کام جاری رکھتا۔اس ناول کی اشاعت کے ساتھ ہی اُس کے مقدر کا ستارہ چمک اُٹھا۔سال 1970ء میں اس کے ناول(One Hundred Years of Solitude )کا گریگوری رباسا(Gregory Rabassa)نے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ۔اس ترجمے میں تخلیق کی جو چاشنی ہے وہ مترجم کے ذوقِ سلیم کی مظہر ہے ۔اسی وجہ سے اس ترجمے کو گیبریل گارسیا مارکیز نے بہت پسند کیا۔اکثر ناقدین ادب کی رائے ہے کہ یہ انگریزی ترجمہ اپنے دل کش اسلوب اور بے ساختگی کے اعتبار سے اصل سپینش تخلیق سے کسی طرح کم نہیں ۔ اس ناول کو امریکہ میں سال کی بارہ بہترین ادبی تخلیقات میں شامل کیا گیا۔فرانس میں بھی اس ناول کو غیر ملکی زبانوں کے ادب کی بہترین تصنیف قرار دیا گیا۔اٹلی میں سال 1969ء میں اس ناول کو ’’Chianciano Aprecia‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔اشاعت کے بعد صرف ایک ہفتے میں اِ س ناول کی آٹھ ہزار کا پیاں فروخت ہوئیں جب کہ مجموعی طور پر اس ناول کی تیس ملین کا پیاں فروخت ہوئیں۔ ناول ’’تنہائی کے ایک سو سال‘‘ میں ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی کیفیت اورطلسمِ ہوش رُبا کی فسوں کاری ادب کے قاری کو مسحور کرکے اُس پر ہیبت طاری کر دیتی ہے ۔تخلیق کار نے طلسماتی اثر آفرینی کو ایسے دلکش انداز میں رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے کہ بیانیہ قاری کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے ۔طلسماتی کیفیات کی یہ فضاکئی کرداروں کو سامنے لاتی ہے جن میں رمّال ،نجومی ،ستارہ شناس ،فال نکالنے والے ،قسمت کا حال بتانے والے ا ور مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنے والے اہم کردار بہت نمایاں ہیں ۔ اُس کا ناول ’’تنہائی کے ایک سو سال‘‘ ایک خاندان بوندیا (Buendia)کی اجتماعی زندگی کے نشیب و فراز کے گرد گھو متا ہے ۔ ایک نسل کا دوسری نسل کے ساتھ تعلق اور اُن کے مابین پائے جانے والے فکری فاصلے قابلِ توجہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا کہنا ہے کہ اس ناول میں ستارے جو کہ خود فراخی ٔ افلاک میں خوار و زبوں ہیں اُنھیں انسانی تقدیر کے ساتھ وابستہ سمجھنے کے حیران کُن واقعات سامنے آتے ہیں۔ یہاں طلسمِ ہوش رُبا کی جو انتہائی پُر اسرار اورصد رنگ کیفیت جلوہ گر ہے اُسے دیکھ کر قاری ششدر رہ جاتاہے ۔کئی عامل ہیں جو طلسمی عمل کے زیرِ اثر آ جانے والے افراد کے ذریعے نہ ہونے کی ہونی کے کھیل کے بارے میں چونکا دینے والے واقعات کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے گبریل گارسیا مارکیز کے ناول ’’تنہائی کے ایک سو سال ‘‘کے اس اردو ترجمے کو بہت پسند کیا جو ڈاکٹر نعیم احمد کلاسرا نے کیا۔یہ ترجمہ تخلیق کی چاشنی لیے ہوئے ہے اور قاری کو مصنف کے اسلوب کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کرنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔اس ترجمے کے دیباچے میں ڈاکٹر آشو لال نے مصنف کے اسلوب اور تخلیقی عمل کے لا شعوری محرکات پر روشنی ڈالی ہے ۔اُس کے ناول ’’Chronicle of a Death Foretold‘‘کا اُردو ترجمہ معروف ادیب فضال احمد سید نے کیا ۔یہ ترجمہ ’’ایک پیش گُفتہ موت کی روداد ‘‘کے نام سے شائع ہوا اور قارئین ِ ادب نے اس میں گہری دلچسپی لی ۔پنجابی زبان کے نامور ادیب افضل احسن رندھاوا (1937-2017)نے اِسی عظیم ناول کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا جو ’’پہلوں توں دسی گئی موت دا روزنامچہ ‘‘کے نام سے شائع ہو چُکا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں تراجم کے حوالے سے یہ ترجمہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس ترجمے کی اشاعت سے پنجابی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے ۔ پنجابی زبان میں عالمی ادبیات کے تراجم کے سلسلے میں یہ ترجمہ لائق صد رشک و تحسین کارنامہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے طلسمی حقیقت نگاری کے موضوع پر ہمیشہ کھل کر اظہار خیال کیاہے ۔ان کی تخلیقی تحریروں میں اس کے نقوش کا کرشمہ دامن ِ دِل کھینچتاہے ۔اُن کے منفرد اسلوب میں ا رتقا کا سلسلہ پیہم جاری ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے اسلوب میں نکھا ر آتا چلا جا رہا ہے ۔ وہ پامال راہوں اور کلیشے کے سخت خلاف ہیں اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کی ہر تصنیف میں ایک نیا انداز اپنا یا گیا ہے۔ اُنھوں نے تدریسی زندگی میں نقال،چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد لفاظ حشرات ِ سخن کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ہے۔خوب سے خوب تر کی جانب پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا تخلیقی سفر جاری ہے ۔جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے کو ئی بھی تخلیق کار اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے کوئی اسلوب منتخب نہیں کرتا بل کہ اسلوب تو ایک تخلیق کار کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسلوب کی مثال ایک چھلنی کی سی ہے جس میں سے ادبی تخلیق کار کی شخصیت چھن کر باہر نکلتی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکے اسلوب میں جلوہ گر اُن کی مستحکم شخصیت کا جاد وسر چڑھ کر بولتاہے ۔اُن کا اسلوب موضوع ،مواد ،ذہنی کیفیت اور تخلیقی وجدان کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ معاشرے اور ماحول میں اُنھوں نے جو کچھ دیکھا ہے اور زندگی کے جتنے موسم اُن کے قلب اور روح کو متاثر کرتے ہیں وہ سب کے سب اُن کے منفرد اسلوب میں دھنک رنگ منظر نامے کی صورت میں قاری کی نگاہوں میں رچ بس جاتے ہیں ۔اُن کا خیال ہے کہ طلسمی حقیقت نگاری کے سوتے ایک جری تخلیق کار کے فکر پرور خیالات ا ور بصیرت افروز تجربات و مشاہدات ہی سے پُھوٹتے ہیں۔اسی لیے طلسمی حقیقت نگاری قلبی ،روحانی اور وجدانی کیفیات پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔اُن کا خیا ل ہے کہ بعض ادیبوں کی تحریروں میں اہلِ وفا کی بُھول، پریوں کی دُھول ،فضا میں محوِ پرواز رفتگاں کی یادیں ،ابن الوقت اور موقع پرست لوگوں کی آوازیں، جنوں ،چڑیلوں ،بُھوتوں اور دیو زادوں کا عمل اور سحر کے ا ثرات ا گرچہ ناقابلِ یقین سمجھے جاتے ہیں لیکن دُنیا بھر میں ما بعد الطبیعات کی اساس پر استوار اسلوب کی باز گشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے واضح کیا ہے کہ یورپی ممالک میں طلسمی حقیقت نگاری کوفنون لطیفہ بالخصوص ادب ،فلم اورڈراما میں بہت پذیرائی ملی۔بعض اوقات تخلیق کار یہ تاثر دینے میں کام یاب رہتے ہیں کہ طبعی موت کے بعد بھی بعض کردار ہمارے گرد و نواح میں موجود رہتے ہیں اور نسل در نسل ہماری زندگی کے معمولات میں ناقابلِ یقیں انداز میں دخیل رہتے ہیں۔ ان کے مضامین کے اسلوب میں امروز کی شورش میں اندیشہ ٔ فردا کا احساس ،کبھی سوز و ساز ِ رومی اور کبھی پیچ و تاب ِ رازی اسی سوچ کا ثمر ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کااصرارہے کہ اپنے دل میں انصاف کے حصول کی حسرت رکھنے والوں میں خود اپنے خلاف فیصلہ صادرکرنے کاظرف ہونا چاہیے۔ایک مصلح کی حیثیت سے وہ یہ بات واضح کر دیتے ہیں کہ احساس کم تری کو احساس برتری میں بدلنے کی کوشش نیوراتیت کہلاتی ہے ۔ جب کہ بے بس ولاچار مظلوم انسانوں کو عقوبتی ہتھکنڈوں سے اذیت میں مبتلا کر کے لطف اندوز ہوناسادیت پسندی کہلاتاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے احباب کو ہمیشہ فرانسیسی ادیب مارکیوس ڈی ساد ( -1814 : 1740 Marquis de Sade )کی پیروی کرنے والے سادیت پسندوں اور نیوراتیت پسندوں سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔عالمی کلاسیک پر کامل دسترس رکھنے والے اس وسیع المطالعہ ادیب اور فطین تخلیق کار نے اپنی تدریسی زندگی لفظوں کے مکانوں میں بسر کی ۔کتابوں کے مطالعہ کے دوران میں کوئی اور مصروفیت حائل ہوئی تو اُنھوں نے سدا اُسے وقت ِدِگر پر موقوف رکھا۔ایک ملاقات میں اُنھوں نے اپنے احباب کو بتایا کہ وہ اپنے دِل کے زخموں کی اس انداز سے دیکھ بھال کریں جس طرح ایک حساس باغبان نہایت احتیاط کے ساتھ گلستان کی پرورش کرتا ہے۔ انھوں نے الم نصیبوں اور جگرفگاروں کو متنبہ کیا کہ وہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں یہ کرب اور گھاؤ اُن کے لیے زخم اور کمان کی صورت اختیار نہ کر لیں ۔زخم اور کمان کی تلمیح کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے بتایاکہ یونانی دیومالا کے مطابق تھیسلے ( Thessaly) میں واقع میلوبیا (Meliboea)کے بادشاہ پو ئیاس ( Poeas) کے شجاع اور نڈربیٹے فیلو ککٹس( Philoctetes)کی بہادری ،مہم جوئی اور خطر پسند طبیعت کی ہر طرف دھوم مچی تھی ۔ فیلو ککٹس جادو کی کمان رکھنے والاوہ ایسا ماہر ناوک انداز تھا جس کی کڑی کمان کا تیر کبھی خطانہ ہوتا تھا۔اس نے ہیری کلز(Heracles) کی آخری آرام گاہ کا راز فاش کر دیااور اس کی بد دعاسے ایک سفر میں سانپ کے کاٹنے سے اُسے پاؤں پر ایسازخم لگا جو مندمل نہ ہوسکا۔اس ناقابلِ اندمال گہرے زخم سے بیمار کر دینے والی عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے ۔شہر کے لوگوں کی نفرتوں ،حقارتوں اور عداوتوں سے عاجزآ کروہ روپوش ہو گیا۔اجلاف و ارذال اور سفہا کے پروردہ محسن کش پیمان شکن ،ساتا روہن اور ابن الوقت حاسد اس مہم جو کے خون کے پیاسے تھے ۔ ابن الوقت اور کینہ پرور طالع آزماجنگ تورجان (Torjan War ) جیتنے کے لیے وہ طلسماتی کمان اور تیرحاصل کرناچاہتے تھے جو فیلو ککٹس کوہیری کلز نے دی تھی۔اُس کے زخم سے نکلنے والی بُو کی وجہ سے اُنھوں نے فیلو ککٹس کو ڈھونڈنکالا۔امریکی ادیب ایڈ منڈولسن (Edmund Wilson :1895-1972)نے اپنی کتاب زخم اور کمان( The wound and the bow)میں اسی جانب اشارہ کیا ہے ۔ عالمی شہرت کے حامل ممتاز جرمن ناول نگار تھامس من ( : 1875-1955 Thomas Mann )کے اسلوب میں بھی اس یونانی دیو مالائی کہانی کا پرتو ملتاہے ۔اپنی گفتگو میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ ایسے مخلص اور صابر و شاکر لوگ اب دنیامیں کم کم دکھائی دیتے ہیں جو مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر کے صبر و استقامت سے کام لیں اور زندگی کی قدر کریں ۔ ایک ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ عالمی ادب کی ایسی ابد آشنا تخلیقات ہر عہد میں فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوں گی ۔ زخم اور کمان ایک ایسی سوانحی یادداشت ہے جس کی پیشانی پر عادی دروغ گو ،احسان فراموش اور محسن کش درندوں کی لُوٹ مار ، عیاری ،مکر و فریب اور پیمان شکنی کا قشقہ کھنچاہے ۔ اس سے پہلے کہ سمے کی دیمک چپکے چپکے کتابِ زیست کے اوراق کو چاٹ لے عالمی ادب کے سنجیدہ قارئین کو لوح ِ جبینِ گُل پر خونِ دِل سے طلوع ِ صبح ِ بہاراں کے اس نصاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔
سوسئیر کے افکار کے عمیق مطالعہ کے اعجاز سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے اسلوب میں لسانی مباحث سے ایسا سماں بندھ جاتاہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کو یہ بات بہت پسندہے کہ سوسئیر زندگی بھر ستائش ،صلے اور نمود و نمائش سے بے نیازتدریسی خدمات میں مصرو ف رہا ۔اس کے عجز و انکسار کا یہ حال تھا کی زندگی میں اس کی کوئی با ضابطہ تصنیف شائع نہ ہو سکی اور نہ ہی کسی کتاب کا کوئی مسودہ مرتب ہو سکا ۔اس کی وفات کے بعد اس کے رفقائے کار اور شاگردوں کی مدد سے اس کے کلاس لیکچرز کو جمع کیا گیا اور خوب غو ر ،چھان پھٹک اور تحقیق کے مراحل سے گزارنے کے بعد انھیں سال 1916ء میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ۔ لسانیات کے موضوع پر یہ معرکہ آراکتاب’’ Course in General Linguistics ‘‘کے نام سے پوری د نیامیں مشہور ہوئی اور اسے جدید لسانیات کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔اس کتاب کا شمار بیسویں صدی کی اہم ترین لسانی تصانیف میں ہوتا ہے جن کے معجز نما اثر سے فکر ونظر کی کایا پلٹ گئی اور جس کی باز گشت اب تک علم و ادب کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ سوسئیر کی یہ تصنیف اب تک انسانی تہذیب و ثقافت ،ادب و لسانیات اور فلسفہ کی سب سے زیادہ مطالعہ کی جانے والی کتب میں شمار ہوتی ہے۔نشاتہ الثانیہ کے دور سے لے کر اب تک جتنی بھی وقیع تصانیف منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے چشم کشا بیانات ،فکر پرور خیالات ،رجحان ساز تصوارات اور لسانیات کے انقلابی نظریات کے اعتبار سے سوسئیر کی یہ تصنیف کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔ میں ان سعادت مند طلبا و طالبات کو خراج تحسین پیش کرتاہوں جن کی مساعی سے پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے کچھ مقالات شائع ہو رہے ہیں ۔توقع ہے کہ ادیان عالم ،علم بشریات ،فلسفہ ،نفسیات ،تاریخ ، عالمی کلاسیک ،لسانیات اور پاکستانی ادبیات کے موضوع پر اُن کے سیکڑوں عالمانہ خطبات اور توسیعی لیکچرز کو جمع کر کے ان کی اشاعت پر بھی توجہ دی جائے گی۔مجھے یقین ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکی یہ تصنیف بھی قارئین میں بہت مقبول ہو گی۔
اردو ادب میں تمثیل نگاری پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میوکا پسندید ہ موضوع ہے ۔اس کے علاوہ انھوں نے تخلیق ادب میں شعور کی رو پر بھی تحقیق کی ہے ۔تخلیق کار کی خود کلامی اس کے فکر و خیال کی جملہ کیفیات کی آ ئینہ دار ہوتی ہے ۔اردو زبان کی پہلی منظوم آ پ بیتی ’’آئینہ در آ ئینہ ‘‘ اردو زبان کے مقبول ادیب حمایت علی شاعر( 1926-2019 )کی تخلیق ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس تخلیق کو ایک منفرد تجربے پر محمول کیا ہے ۔یہ منظوم آ پ بیتی کراچی سے صہبا لکھنوی کی ادارت میں شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلہ ماہ نامہ ’’ افکار‘‘ میں قسط وار شائع ہوتی رہی ۔ یہ منظوم آ پ بیتی تین ہزار پانچ سو (3500) اشعار پر مشتمل ہے جب یہ کتابی صورت میں شائع ہوئی تواس کو چار سو (400 ) صفحات پرچھاپا گیا۔اس منظوم آ پ بیتی میں حمایت علی شاعر نے اپنی ذات کے حوالے سے گفتگو، تحلیل نفسی اور احتسابِ ذات کو پیش نظر رکھا ہے ۔یہ آ پ بیتی ایک تہذیبی و ثقافتی روداد کی صورت میں اپنی حقیقت کا اثبات کرتی ہے اورقاری کے فکر و خیال کو مہمیز کرتی ہے ۔ منفرد اسلوب کی حامل اس منظوم آپ بیتی میں شاعر کے تخیل کی جو لانیاں ،ا لفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔اس آ پ بیتی کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں اُردو زبان کی کلاسیکی شاعری اور سوانح نگاری کی اقدار و روایات کی اسا س پر ایک عالی شان قصر شاعری تعمیر کیا گیا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کا خیال ہے کہ آئینہ در آئینہ ( منظوم آ پ بیتی )میں حمایت علی شاعرنے تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کو پروان چڑھانے کی جو کوشش کی ہے وہ لائق ِ صد رشک و تحسین ہے ۔
آئینہ در آئینہ
اس بار وہ ملا تو عجب اس کارنگ تھا
الفاظ میں ترنگ نہ لہجہ دبنگ تھا
اک سوچ تھی کہ بکھری ہوئی خال و خد میں تھی
اک درد تھا کہ جس کا شہید انگ انگ تھا
اک آ گ تھی کہ راکھ میں پوشیدہ تھی کہیں
اک جسم تھا کہ روح سے مصروفِ جنگ تھا
میں نے کہا کہ یار تجھے کیا ہوا ہے یہ
اس نے کہا کہ عمر ِ رواں کی عطا ہے یہ
میں نے کہا کہ عمررواں تو سبھی کی ہے
اس نے کہا کہ فکر و نظر کی سزا ہے یہ
میں نے کہا کہ سوچتارہتاتو میں بھی ہوں
اس نے کہا کہ آئینہ رکھا ہوا ہے یہ
دیکھا تو میرا اپنا ہی عکس جلی تھا وہ
وہ شخص میں تھا اور حمایت علی تھا وہ
ساختیات ،پس ساختیات ،رد تشکیل ،جدید یت اور مابعد جدیدیت کی وضاحت میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔سوسئیر نے قدیم مروّج لسانی تصورفت اور فلسفیانہ خیالات کو لائق اعتنا نہیں سمجھا یہی بات پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کو بہت پسند ہے ۔سوسئیر کا خیال تھا کہ یہ تمام خیالات نسل در نسل تاریخی روایات کی اساس پر استوار ہیں جن میں تقلیدی تصورات اور اوہام پرستی کے عناصر کے باعث متعدد صداقتوں پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑتی چلی گئی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے سوسئیر کی طرح کورانہ تقلید کو بے بصری پر محمول کیا اور واضح کیا کہ ایسی روش ہلاکت خیزی کی جانب لے جاتی ہے جس سے فکری بانجھ پن کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔سوسئیر کا اصرارتھا کہ لسانیات کے قدیم تصورات جدید دور میں بالکل قابل عمل نہیں ہیں کیونکہ ان تصورات میں حقائق کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔قدیم لسانی محقق محض آوازوں کے مطالعہ اور علم معانی کے حصار میں رہتے ہوئے گنجینہ ٔ معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات پر غور کرتا تھا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لسانیات جیسے اہم موضوع پر قدیم لسانی محقق اس سہو کا مرتکب ہوا کہ وہ زبانوں کے مختلف گروہوں کے ارتقائی مراحل کو زیر بحث لاتے وقت اس تفکر اور تعمق کو روبہ عمل نہ لا سکا جو اقتضائے وقت کے مطابق تھا ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اس بات کو بہ نظرتحسین دیکھا ہے کہ سوسئیر نے لسانی مباحث کو ایک منفرد روپ عطا کیا اور زبان کو اشارات کے ایک نظام سے تعبیر کیا ، جس کا عمیق مطالعہ اس امر کا متقاضی ہے کہ یہ تمام عمل بہ یک وقت اور ساتھ ساتھ پایہ ٔ تکمیل تک پہنچایا جائے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لسانیات کا مطالعہ اس طرح کیا جائے کہ زبان کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے دیکھتے ہوئے ایک خاص نقطے اور خاص وقت پر توجہ مرکوز رکھی جائے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے عالمانہ مقالہ’’ اردو کے ارتقا میں میوات کا حصہ ‘‘ میں ان تمام امور کو پیش ِ نظر رکھا ہے ۔سوسئیر اسے یکساں نوعیت کے نظام سے تعبیر کرتا ہے اس کو دو الگ الگ نظاموں کے بارے میں اس کے متعدد تحفظات ہیں ۔سوسئیر کے خیال میں لفظ کی جو تحریری یاتقریری شکل ہمارے مشاہدے میں آتی ہے اسے نشان (Sign) سمجھناچاہیے اس کے علاو ہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جس طرح کاغذ کے دو پرت ہوتے ہیں اسی طر ح لفظ کے بھی دو پہلو موجود ہوتے ہیں۔سوسئیر ایک پہلو کو معنی نما (Signifier)کا نام دیتا ہے جب کہ دوسرے پہلو کو وہ تصور معنی (Signified)سے تعبیر کرتا ہے ۔سوسئیر سے قبل لسانیات کے ماہر زبان کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے چلے آئے تھے:
لفظ =چیز یا دوسرے لفظوں میںWord= Thing
سوسئیر نے اپنے انقلابی تصور لسانیات کے مطابق لفظ اور معنی کے بارے میں جو منفرد نمونہ پیش نظر رکھا اسے اس طر ح ظاہر کیا جا سکتا ہے :
نشان =معنی نما Sign =Signifier
تصور معنی Signified
سوسئیر نے تصور معنی اور معنی نما کے درمیان پائے جانے والے تعلق کے بارے میں اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ یہ تعلق بادی النظر میں ایک ایسی نوعیت کا حامل ہے جس کو من مانی حیثیت قرار دینا درست ہو گا ۔اس کا استدلال یہ ہے کہ جب لسانیات کی رو سے پہلی مرتبہ ایک شخص نے ایک چوپائے کو جو کہ چھوٹے قد کا تھا اسے بلی کا نام دیا تو اب تک اس چوپائے کو بلی ہی کہا جاتا ہے ۔ باطن ایام پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس مخلوق کا یہ نام من مانا ہی تو ہے ۔جس چوپائے کا حوالہ دیا جا رہا ہے اسے جس نام سے یاد کیا جائے وہ نا معلوم کب سے اسی من مانے انداز میں لسانی پہلو سے نوک زبان پر ہے ۔وہ نظام افتراقات کے ذریعے ان تمام ناموں کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی سعی کرتا ہے ۔اس طرح اس کا پیش کردہ نظام افتراقات اپنے اندر ایک قلزم معانی کو سموئے ہوئے قاری کو حیرت زدہ کردیتا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے وہ سب مضامین جن میں لسانی مباحث شامل ہیں سوسئیر کے خیالات کے آ ئینہ دار ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے امریکہ کے ممتاز ادبی نقاد ،مارکسی سیاسی تھیورسٹ ،مابعد جدیدیت اور مکانیّت کے رجحان سازتجزیہ نگار فریڈرک جیمسن ( Fredric Jameson)کے اسلوب پرجو عالمانہ تحقیق کی ہے وہ عالمی کلاسیک میں ان کی گہری دلچسپی کی مظہر ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ عصر ِ حاضر میں متعددعصبیتوں میں گھرے امریکی معاشرے میں کسی مارکسی تھیورسٹ کا جنم لینا ایک حیران کن بات ہے۔ممتاز ماہر نفسیات اور مارکسی تنقید کے ارتقا پر وسیع مطالعہ کی بنا پر کامل دسترس رکھنے والے نقاد حاجی حافظ محمد حیات نے مشہور مزاح نگار سید ضمیر جعفری (1916-1999)کے ایک شعر کی پیروڈی کرتے ہوئے امریکی معاشرے میں کارل مارکس (1818-1883 :Karl Marx) ،مشل فوکاں( 1926-1984 : Michel Foucault ) اورتھیوڈور ڈبلیو اڈورنو ( 1903-1969: Theodor W. Adorno ) سے اثرات قبول کرنے والے مارکسسٹ تھیوری کے ایک شارح اور مداح کے پیدا ہونے اور اس کے حلقۂ اثر کے وقوع پزیر ہونے والی اس انہونی کے متعلق کہا تھا :
بڑی مدت سے مارکسی دانش ور پیدا نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے وہ کسی امریکی کے گھر پیدا نہیں ہوتا
سال 1991میں جب ما بعد جدیدیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے موضوع پر اس کی تصنیف ( Postmodernism, or, the Cultural Logic of Late Capitalism)شائع ہوئی تو فریڈرک جیمسن کے خیالات کو بہت پزیرائی ملی۔جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے متعدد مفروضوں کے بارے میں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے اس نے ان موضوعات پردوبارہ غور خوض کی راہ دکھائی۔اس مقصد کے لیے اس نے مارکسزم کے طریق کار پر از سر نو غور کرنے پر اصرار کیا ۔ اس نے سال 1923ء میں مارکسی تعلیمات کے فروغ کے لیے وجود میں آنے و لے جرمنی کے فرینکفرٹ سکول سے وابستہ ادیبوں کے افکار اور تنقید ی تھیوری کا تجزیاتی مطالعہ کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی تنقیدات کا مطالعہ کرتے وقت تخلیق ِ شعر میں کالرج اور چارلس با دئیلیر (: 1821-1867 Charles Baudelaire) کی نگاہوں کوخیرہ کر دینے والی مثال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ امر قابل ِ غور ہے کہ وہ عظیم شعرا جنھوں نے اپنے تخیل کی جولانیاں دکھاتے ہوئے ستاروں پر کمند ڈالی ،اقلیمِ ادب میں اپنی تخلیقی فعالیت کی دھاک بٹھا دی اور ہر طرف اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔جب ایسے نابغۂ ر وزگار تخلیق کار تنقیدکے میدان میں قدم رکھتے ہیں توکیا ان کی تنقید اسی سطح فائقہ پرفائز ہوتی ہے جس پر ان کی تخلیقات ضوفشاں رہی ہیں ۔ تاریخی حقائق کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ایس ۔ٹی۔ کولرج کے شعری سفر میں ایک مقام ایسا بھی آ یا جب اس کاتخلیقی وجدان کا مظہر صریر خامہ جسے نوائے سرو ش سے تعبیر کیا جاتاتھا،کی جاذبیت اور مقبولیت میں قدرے کمی واقع ہوگئی۔ان حالات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے ایس ۔ٹی۔ کولرج نے جب شاعری کے بعد نثر میں طبع آ زمائی شروع کی توتخیل کی شادابی کا مظاہرہ کرنے والوں کو قیاس آ رائیوں اور تخمین و ظن کے لیے زرخیز قطعہ ٔ افکارمیسر آ گیا۔ اُن کا خیال تھا کہ ادبی مسافت طے کرتے وقت ایس ۔ٹی۔ کولرج نے تنقید کو زاد راہ بنانے کا فیصلہ شاید اس لیے کیا ہے کہ ممکن ہے یہ تنقیدی فعالیت اُس مسئلے کا حل ثابت ہوجو اُس کی شاعری کی اثر آ فرینی اور مقبولیت میں کمی کے باعث پیدا ہوا۔ سبک نکتہ چینی کو شعاربنانے والوں کا خیال تھا کہ ایس ۔ٹی۔ کولرج نے اپنی نثرکو شاعری کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے کہ شایداِس کے وسیلے سے گہنا جانے والی شہرت اور مقبولیت کا ازالہ کیا جا سکے ۔ اصل بات یہ ہے کہ والد کی وفات کے بعد کالرج کو ایسا محسوس ہوا جیسے سورج سوا نیزے پر آ گیا ہو اور سر پر کوئی سایہ بھی نہ ہو ۔ لندن جیسے شہر نا پرساں کی گلیوں میں ناشاد و ناکارہ پھرنے والا منزل سے نا آ شنا یہ نوجوان اپنے من کی غواصی کر کے ہر وقت یہی پوچھتا کہ اے غم ِ دل کیا کروں؟ سرابوں کے عذابوں کی زد میں آ کر اجنبی سی منزلوں کی بے مقصد جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کرنے و الے اس پریشاں حال نوجوان کی زندگی وقفِ آلام ہو کر رہ گئی ۔ ان حالات میں اس نے تزکیہ ٔ ٔ نفس کی خاطر پرورش لوح و قلم میں غیر معمولی دلچسپی لینی شروع کر دی اورتحقیق و تنقید میں اپنے فقید المثال کار ناموں سے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ۔ وہ اپنے غم کا بھید نہیں کھولنا چاہتاتھا اس لیے اس نے اپنے آ نسو اشعار کے خو ش رنگ دامنوں میں چھپانے کا تہیہ کر لیا ۔رومانوی عہد کے اس موثر مگر متنا زع ادیب نے شاعر ی اور نثر نگاری میں اپنی الگ راہ نکالی۔بائیو گرافیا لٹر یریا میں اس کے تنقیدی خیالات میں مثالیت پسند جرمن فلاسفروں کے خیالات کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔اسی مقام پر پہنچ کر ادب کا سنجیدہ قاری جائز طو پر مستعا رلیے گئے خیالات اور سرقہ میں پائی جانے والی لکیر کو دھندلاتا ہوامحسوس کر کے تخلیق کار کی کاوش کے طبع زاد،اصلی اور حقیقی انداز کے بارے میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو جاتاہے ۔ موجودہ دور میں بھی سندی تحقیق کے سلسلے میں یہی لرزہ خیز اور اعصاب شکن کیفیت دکھائی دیتی ہے ۔وقت کے اس سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ ردائے دُزدی اوڑھ کر درِ سفلگی پر ہنہنانے والے حمار اور چربہ ساز بونے زینہ ٔ سرقہ پر سینہ تان کر اپنے تئیں باون گزے ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔قلزمِ ِ خیال کو گندی مچھلیوں ،گلشنِ ادب کو کالی بھیڑوں،فضائے علم کو سفید کووں اور غذائے تخلیق کو گلے سڑے انڈوں نے عفونت و سڑاندکی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ بروٹس ( Brutus) قماش کے مارِ آ ستین سفہا اور اجلاف و ارذال جعل سا ز تو اپنے مکر کی چالوں سے بازی لے جاتے ہیں مگر وقت کے سب الم نصیب جولیس سیز ر (Julius Caesar)خلوص و ایثار کے باوجود مات کھا جاتے ہیں ۔ دس سال تک ( 1810-1820) یہ دیو قامت ادیب بونوں میں گِھرا رہا۔ جس وقت سادیت پسندی کے روگ میں مبتلاسب کینہ پرور لوگ لوگ سنگِ ملامت لیے نکل آ ئے تو ایس ۔ٹی۔ کولرج نے ہدفِ تنقید بننے والی اپنی شاعری سے توجہ ہٹا لی اور ذہنی اذیت سے بچنے کی خاطر تنقید ی نثر پر توجہ مرکوزکر دی ۔ولیم شیکسپئیر پر اس کی حیر ت انگیز تشریحات کے مظہر لیکچرز( مطبوعہ 1856) جو رومانوی تنقید کی عمدہ مثال ہیں اسی عہد کی یادگارہیں ۔ یہاں مناسب ہو گاکہ پر آشوب حالات میں ایس ۔ٹی۔ کولرج کی کٹھن زندگی کے نشیب و فرا زسے متعلق اُس کے اِس حیران کن اعتراف پر بھی نظر ڈالی جائے جو اس نے اپنی اہم تصنیف ( BIOGRAPHIA LITERARIA)میں کیا ہے ۔
Well were it for me,perhaps,had I never relapsed into the same mental disease;if I had continued to pluck the flower and reap the harvest from cultivated surface,instead of delving in the unwholesome quicksilver mines of metaphysic depths.But if,in after time,I have sought a refuge from bodily pain and mismanaged sensibility,in abstruse
researches,which exercised the strength and subtlety of the understanding without awakening the feelings of the heart;still there was a long and blessed interval,during which my natural faculties were allowed to expand,and my original tendancies to develop themselves;my fancy ,and love of nature,and sense of beauty in forms and sounds. (5)
اپنے ان مضامین میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میونے تخلیق ادب اور اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات سے سیر حاصل بحث کی ہے ۔ سرقہ ،چربہ ،توارد اور نقالی کو بیخ و بن سے اکھا ڑ پھینکنے کی تمنا اپنے دل میں لیے اس جری نقاد نے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے ہمیشہ انکار کیا ہے ۔ادب میں تانیثیت کو پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے ہمیشہ اہم موضوع قرار دیا۔ انھوں نے خواتین ادیبوں کی علمی و ادبی خدمات کو ایک عظیم تہذیبی و ثقافتی میراث سے تعبیر کیا۔ تانیثیت کے موضوع پر لکھنے والے جعل سازی کے مرض (Imposter Syndrome )میں مبتلاہوتے ہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ عیاش اور جاہل ِ مطلق چربہ ساز رواقیت کی داعی بن بیٹھتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کواس امر پر تشویش ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں گلیوں کی دُھول اپنے زعم میں اپنی کریہہ صورت کوپُھول ،گوبر میں لتھڑی متعفن کونپل خود کو پیپل اور مردار خور کرگس کو اپنی ذات کو نرگس قرار دینے کوئی تامل نہیں ۔ اپنی تحریروں میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے تانیثت کو مثبت سوچ،مدبرانہ تجزیہ اور دانش ورانہ اسلوب سے تعبیر کیا جس کے اہداف میں خواتین کے لیے معاشرے میں ترقی کے منصفانہ اور یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کا واضح لائحہ عمل متعین کیا گیا ہو۔ ان کی دلی تمنا ہے کہ معاشرتی زندگی میں خواتین کے لیے ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ وہ کسی خوف و ہراس کے بغیر کاروانِ ہستی کے تیزگام قافلے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں ۔روشنی کے اس سفر میں انھیں استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں سے خبردار کرنا تانیثیت کا اہم موضوع رہا ہے ۔ایک فلاحی معاشرے میں اس با ت کا خیال رکھا جا تا ہے کہ معاشرے کے تما م افراد کو ہر قسم کا معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہر فرد کو ملت کے مقدر کے ستارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔تانیثیت نے حق و انصاف کی بالا دستی ،حریتِ فکر،آزادی ٔ اظہار اور معاشرے کو ہر قسم کے استحصال سے پاک کرنے پر اصرار کیا ۔پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ فکری کجی کے باعث بعض اوقات تانیثیت اور جنسیت کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے حالانکہ تانیثیت اورجنسیت میں ایک واضح حد فاصل ہے بل کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ تانیثیت اپنے مقاصد کے اعتبار سے جنسیت کی ضد ہے۔ تانیثیت کے امتیازی پہلو یہ ہیں کہ اس میں زندگی کی سماجی ،ثقافتی،معاشرتی ،سیاسی ،عمرانی اور ہر قسم کی تخلیقی اقدار و روایات کو صیقل کرنے اور انھیں مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی راہ دکھائی جاتی ہے ۔اس میں خواتین کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے فراواں مواقع کی جستجو پر توجہ مرکوز رہتی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی یہ کتاب اُن کے ذہین شاگردوں کی محنت کی لائق تحسین مثال ہے ۔تانیثیت کے موضوع پر اُن کے خیالات کا ملخص یہ ہے کہ وہ ہر شعبہ ٔ زندگی میں خواتین کو مساوی مواقع دینے کے پر جوش حامی ہیں ۔ عالمی ادب اور تانیثیت کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یورپ میں تانیثت کا غلغلہ پندرہویں صدی عیسوی میں اٹھااوراس میں مد و جزر کی کیفیت سامنے آتی رہی ۔ جمود کے ماحول میں یہ ٹھہرے پانی میں ایک پتھر کے مانند تھی۔ اس کی دوسری لہر 1960میں اٹھی جب کہ تیسری لہر کے گرداب 1980میں دیکھے گئے۔ان تما م حالات اور لہروں کا یہ موہوم مد و جزر اور جوار بھاٹا اپنے پیچھے جوکچھ چھوڑ گیا اس کا لب لبا ب یہ ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حریت ضمیر سے جینے کی آزادی ملنی چاہیے ۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے اور ہر قسم کی عصبیت سے گلو خلاصی حاصل کر لی جائے تویہ بات ایک مسلمہ صداقت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے خواتین کوجس عزت ،تکریم اور بلند مقام سے نوازا اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر خلافت راشدہ کے زمانے تک اسلامی معاشرے میں خواتین کے مقام اور کردار کا حقیقی انداز میں تعین کیا جا چکا تھا۔اس عہد میں مسلم خواتین ہر شعبہ زندگی میں فعال کردار ادا کر رہی تھیں۔اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع اور منصفانہ ماحول میں زندگی بسر کرنے کی ضمانت دی ۔آج بھی اگر وہی جذبہ بیدار ہو جائے تو آگ بھی انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے۔اپنی تحقیق میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے تانیثیت کے موضوع پر جن ادیبوں کے کام کو پسند کیا ان میں الجیرین ناول نگار،ترجمہ نگاراور فلم ساز فاطمہ زہرہ ایمالین آسیہ ڈجبار(Fatima-Zohra Imalayen (30 June 1936 – 6 February 2015))شامل ہیں ۔ٖفاطمہ زہر ہ ایمالین آسیہ ڈجبار (Assia Djebar)نے خواتین کے حقوق کے موضوع پر کھل کر لکھا۔فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی ادیبہ ریتا فاو لکنر (RITA FAULKNER)نے تیسری دنیا کی خواتین کے مسائل کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا انھیں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ریتا فاو لکنر( September 24, 1962 - August 11, 2018)نے پس نو آبادیاتی دور میں ترقی پزیر ممالک کی خواتین کے مسائل اور اس عہد کے ادب پر جو جرأ ت مندانہ موقف اپنایا اسے دنیا بھر کی خواتین نے سراہا۔
تخلیق فن کے لمحوں میں ہر پریشانی کو جھٹک کر،مسائل کے ازدحام سے نکل کر عزمِ صمیم ، حوصلے ،اعتماد اورقوت ارادی کو رو بہ عمل لاتے ہوئے علمی مراقبے میں بیٹھ کر روشنی کا سفر جاری رکھنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے جس طرزِ فغاں کی اختراع پر تو جہ دی ہے مجھے یقین ہے کہ مستقبل کے محقق،نقاد اور تخلیق کار اسی کو طرزِ اد اقرار دیں گے ۔ ادبی گروہ بندی ،نمود و نمائش اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہنے والے اس درویش منش ادیب کا کسی ادبی دبستان سے کوئی تعلق نہیں۔اُن کا اپنا ایک دبستان ہے جسے انھوں نے دبستان ذہن و ذکاوت کا نام دے رکھاہے۔ادب کا ہر باشعور تخلیق کار اور ذہین قاری اپنی آزاد مرضی سے اس دبستان کی رکنیت حاصل کرکے خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر ہو سکتاہے ۔اس کتاب میں شامل ایک سو کے قریب مضامین ایسا دل کش اور دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں جوقاری کو مسحور کر دیتا ہے ۔ زندگی کی عکاسی اور ترجمانی کرنے والے مضامین کی اس قوس ِ قزح کا سب سے منفرد رنگ وہ ہے جس میں مضمون نگار کی مقناطیسی شخصیت کے دِل کو چُھو لینے والے آ ہنگ نگاہوں کو خیرہ کر دیتے ہیں ۔مضامین کا مطالعہ کرتے وقت قاری چشمِ تصور سے مضمون نگار کی مستحکم شخصیت کے سب اندا زدیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتاہے ۔ قارئین کے ذوقِ ادب کو صیقل کرنے کی خاطر مضمون نگار نے تیشۂ حرف سے فصیل مکر کو منہدم کرنے کی جو سعی کی ہے وہ لائق توجہ ہے ۔مضمون نگار نے صفحہ ٔ قرطاس پر جو رنگ بکھیرے ہی اُن میں کہیں تو رعونت کے مریض متشاعروں کے خرابات کا ملبہ دکھائی دیتاہے ، کہیں انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تحقیر اور بے توقیری کے قبیح جرائم کا ارتکاب کرنے والے درندوں کی راکھ اُڑتی دکھائی دیتی ہے اور کہیں گرگ آشتی کو وتیرہ بنانے والے آستین کے سانپوں کی عفونت زدہ ہڈیاں بکھری ہیں ۔ان مضامین کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ مضمون نگار نے شعوری کاوش اور محنت شاقہ سے جعل سازوں کا گورکھ دھندہ سامنے لانے اور ان چربہ سازوں کو پھانسنے کے لیے ایسا پھندا تیار کیا ہے جس سے بچ نکلنا ان کے لیے محال ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے احباب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جب مرغانِ باد نما حرفِ صداقت لکھنا بھول جائیں تو حریت ِ فکر کے مجاہد خونِ دِل میں انگلیاں ڈبو کر اپنی دلی کیفیات کوزیب قرطاس کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ادب ہی ہے جو کسی قوم کی ایسی فکر ی منہاج کا تعین کرتا ہے جو اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہے ۔ ایک تخلیق کار کے لیے اس سے بڑھ کر اذیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے دل کی بات لبوں پر نہ لا سکے اور اس کی داستاں نا گفتہ رہ جائے ۔ اپنے ہاتھوں میں تدریس ،تفہیم و توضیح کی مشعل تھامے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے پاکستان کی نئی نسل کو سرابوں کے عذابوں سے بچانے والے اس مصلح کے بارِ احسان سے اہلِ علم و دانش کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔تحقیق و تنقید میں انصاف کا ترازو تھام کر حق و صداقت کی سر بلندی کو اپنا مطمح نظر بنانے والے اس نابغۂ روزگار دانش ور نے اپنی اس کتاب میں علمی مباحث ،فلسفیانہ موضوعات اور قابل مطالعہ مآخذ کو اس مہارت سے سمیٹا ہے کہ قاری اش اش کر اُٹھتا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو نے اپنے اشہب ِ قلم کی جولانیوں سے ہر صنفِ ادب میں جھنڈے گاڑ دئیے ہیں ۔ ان کی فقید المثال علمی و ادبی خدمات کی بنا پر تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔ان کی اس کتاب کی اشاعت سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔میں تخلیق ادب اور تنقید و تحقیق کے شعبوں میں ان کی مزید کامرانیوں کی دعا کرتا ہوں ۔سال 2020ء کا مارچ کا مہینا ہے ،کو رونا کی عالمی وبا میں سوزِ نہاں اور غم ِجہاں کا حساب کرتے کرتے مجھے سید سلیمان ندوی (1884-1953)بے حساب یاد آئے جنھوں نے نہایت سعادت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے سیرۃ النبی ﷺ کے ابد آشنا موضوع پر اپنے محسن اور عظیم استاد علامہ شبلی نعمانی (1857-1914)کی زندگی بھر کی محنت اور نا مکمل کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ افادیت سے لبریز پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کی اس تحقیقی و تنقیدی کتاب کی ترتیب و تدوین میں پی ایچ ۔ڈی کی فطین ریسرچ سکالرمحترمہ عائشہ صدیقہ نے بلا شبہ اردو سوانح نگاری کے قائد سید سلیمان ندوی کی خوب تقلید کی ہے۔انھوں نے اپنے ذوق سلیم کے اعجاز سے پر لطف موضوعات اور چشم کشا صداقتوں سے لبریز مقالات کے انتخاب میں بڑی جستجو کی ہے ۔یہ ایسی عنبر فشاں سبدِ گُل چیں ہے جس میں قارئین کے اذہان کی تظہیر و تنویر اور ذوق سلیم کی تسکین کا وافر سامان موجود ہے۔اس کتاب کی اشاعت ان کے سلیقہ ،علم دوستی ،ادب پروری ، تدبر اور فہم و فراست کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ایسی کتب کی ترتیب و تدوین میں کئی سخت مقامات آتے ہیں مگر وہ شعور کی رو کو زاد راہ بنا کر زندگی اور اس کی اقدار عالیہ سے والہانہ محبت کرنے والی برطانوی ادیبہ ورجینا وولف ( 1882-1941 :Virginia Wool ) کے مانند نہایت کامیابی سے گزری ہیں اور تدوین کو تخلیق ِ نو کی ہمہ گیر اثر آ فرینی سے متمتع کیاہے ۔انھوں نے ادبی تالیف کے کٹھن کام کا آغاز کر دیا ہے،گلشنِ ادب میں اُن کے قدم آ گے بڑھیں گے ، تحقیق و تنقید کے فاصلے سمٹیں گے ، تخلیق ادب کی نئی منازل طے ہوں گی اور متعدد نئی تالیفات سامنے آ ئیں گی۔ یہاں ان کی محنت ،لگن ،ایثار ،عقیدت اور وفا کو دیکھ کر بے اختیار بانگِ درا میں شامل علامہ اقبال کی مشہور نظم ( ’ فاطمہ بنت عبداﷲ ‘ ۱۹۱۲ء )کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگا:
یہ کلی بھی اِس گُلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر میں تھی !


مآخذ
1 . Edward W Said:Representation of the Intellectual,Vintage Books,New York,1996,Page,50
2.. Matthew Arnold:On Translating Homer,George Routledge & Sons Limited ,London,1862,Page 249
3.Matthew Arnold:On Translating Homer,Page ,249


4.T.S.Eliot : Selected Essays , Faber and Faber Limited,London ,1932 ,Page 14 .

5..S.T.Coleridge:Biographia Literaria,Leavitt,Lord &Co.Bostan,1834,Page,16

---------------------------
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 597528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.