سب کچھ یاد رکھا جائے گا!!!

کورونا وائر س کی وجہ سے ملک بھر میں جو لاک ڈائون نافذ کیاگیا ہے،اُس میں سب سے زیادہ اثر غریبوں سے زیادہ متوسط طبقے پر پڑرہا ہے او ریہ طبقہ ایسا طبقہ ہے کو اپنے ضمیر کو گوارا رکھتے ہوئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا بہتر نہیں سمجھتا اور اسے اپنی عزت کے خلاف مانتا ہے۔وہیں دوسری جانب ملک بھر میں انسانیت کوراحت پہنچانے کیلئے کئی غیر سرکاری وفلاحی تنظیمیں مسلسل کوششیں کررہی ہیں۔انہیں میں مسلم تنظیمیں بھی اس کام کو انجام دینے کیلئے پوری جدوجہد کررہے ہیں۔مسلمانوں کے پاس جتنی تنظیمیں ہیں،ان کے علاوہ کچھ لوگ انفرادی طور پر عارضی کمیٹیاں یا گروہ بنا کر اس کارِخیر کو انجام دے رہے ہیں۔زیادہ تر نوجوان اپنے محدود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کارِخیر کو انجام دے رہے ہیں،جبکہ اُمت مسلمہ کے پاس ایک طبقہ ایسابھی ہے جو نہایت امیر ہے،جسے ہم ایچ آئی جی یعنی ہائی انکم گروپ کہتے ہیں،وہ اس فلاحی کام میں پیش پیش رہنے کے بجائے خاموش تماشہ بین بنا بیٹھا ہے۔100 میں سےمحض5 افراد ہی اُمت مسلمہ یا انسانیت کیلئے کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں،جبکہ95 فیصد لوگ اپنے مال کواپنی تجوریوں میں محفوظ رکھنے کے عمل کو سب سے بہترین مانتے ہیں۔جب بھی کسی فلاحی کام کو انجام دینے کی بات آتی ہےتو ہر شہریا گائوں میں دو چار ایسے لوگ مخصوص رہتے ہیںجو اپنے مال کو خرچ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔95 فیصد مالدار خود مالدار رہ کر بھی دوسروں پر نگاہیں مرکوز کئے رہتے ہیںاور اپنی مالداری کو ظاہر ہونے ہی نہیں دیتے،سمجھ لیں کہ کسی شہرمیں ایک شخص25 ۔30 کروڑ کا مالدار ہو،لوگ اسے ہی مالدار قرار دیتے ہیں،جبکہ5-10 کروڑ روپیوں کے مالداروں کے پاس نہ لوگ مدد مانگنے جاتے ہیں نہ ہی یہ مالدار لوگوںکی مددکیلئے آگے آتے ہیںاور ایسے لوگ یہ سمجھ جاتےہیںکہ ان کا مال ہی ان کیلئے سب کچھ ہے۔کہاجاتا ہے کہ سنکدراعظم کی موت کاجب وقت آیا تو اس نے اپنے سپہ سالار کوبلا کر تین احکامات جاری کئے۔پہلا حکم یہ تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی سلطنت کے بڑے بڑے حکیموں کو اس کا جنازہ اٹھانے کا موقع دیا جائے۔دوسرا حکم یہ تھا کہ اس نے اپنے دورِ خلافت میں کچھ کمایا تھا وہ تمام دولت اور سونے چاندی کے زیوارت اس کے جنازے کو لے جانے والے راستے میں پھینکا جائے۔تیسر احکم اس کے دونوں ہاتھ قبر کے باہر رکھے جائیں۔اس پر سپہ سالار نے اس کی جانب سوالیہ نگاہ سے دیکھاتو سنکدراعظم نے جواب دیاکہ پہلے حکم کا مطلب یہ ہے کہ میری سلطنت کے تمام حکیم مل کر بھی مجھے موت سے نہیں بچا سکے اور وہ آخرمیں میراجنازہ ہی اٹھا سکے،دوسری بات میں نے اپنے دورِ اقتدارمیں جو کچھ کمایاتھا وہ واپس نہیں لے جاسکتا تھا،میں مٹی سے بنا ہوا ہوں اور مٹی میں ہی جانے والا ہوںاس لئے میری کمائی مٹی میں ملا کر جائوں۔تیسرا حکم ،قبر سے باہر ہاتھ رکھنے کا ہے ،اس کا مقصد یہ ہے کہ میں جس طرح سے خالی ہاتھ دنیا میںآیا تھا ،اُسی طرح سے خالی دنیا سے چلا گیااور یہ تینوں احکامات میری رعایاکیلئے سبق آموز ہوں۔یقیناً دنیا چاردنوں کی زندگی ہے،اس میں کوئی باقی نہیں رہتا،جتنے دن زندہ رہیں اس دوران اچھے کام کریں اور اپنا نام باقی رکھیں۔جو کام ہم کرکے جاتے ہیں وہی لوگوںکے دلوںمیں رہتے ہیںاور جو کماکر جاتے ہیں وہ چھوڑ کرچلے جاتے ہیں۔ہمارے مرنے کے بعد لوگ ہمیں ہماری اچھائیوں کے ساتھ یاد کریں یہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔اب ملک میں لاک ڈائون کا دور جاری ہے،اس دورمیں لوگ ہر اُس ضرورتمند کی مراد پوراکریں جو منگنے پر اکتفا ۓء نہیں رکھتا،اوراُس کامقصد لوگوںکی مرادوں کو پورا کرنے کی ہو۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ جو مال ہمارے پاس محفوظ ہے اسے خرچ کرنے سے دوبارہ ہمارے پاس مال جمع نہیں ہوگایہ جھوٹ ہے۔ہمارے ایک جاننے والے شخص تھے جنہوںنے تقریباً98 سال کی عمر گذاری،یہ وظیفہ یاب سرکاری ملازم تھےاور ان کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی،البتہ وہ98 سال کی عمرمیں بھی اپنے مال ودولت کو خرچ نہیں کرنا چاہتے اور اپنے لئے محفوظ رکھا کرتے تھے،جب ان کا انتقال ہو اتو ان کے کھاتے سے لاکھوں روپئے ملے جسے ان کے اپنے مستحق بچوںنے منٹوں میں بانٹ لئے،اگرچہ یہ بزرگ کچھ اچھا کام کرنے کا مقصد رکھتے تو ان کی موت کے بعد لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔لوگ مرنے والوں کو نہیں بلکہ مرنے والوں کے کام کو یاد رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ سب یاد رکھا جائیگا۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197811 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.