جب قائد آعظم نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا اسی
وقت اگر یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی کہ ہندو کے بجائے مسلم اور غیر مسلم کی
دو اکایوں کا تصور ہوتا تو مسلمان زیادہ محفوظ ہوتے۔ناراض نہ ہوں عملی طور
پر غیر مسلم اپنے ہر منصوبہ میں انہیں دو اکایوں کا خیال کرتے ہیں۔ اور
اسلام نے بھی اسکو ہی شمار کیا ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ کفر ملّت واحدہ
سارا کفر ایک طرف ایک ملّت ہے اور دوسری طرف مسلم تنہا ہے۔اور مسلم کو اس
تنہائی سے دلبرداشتہ بھی نہیں ہونا چَاہیئے کیونکہ سورۃ مائد ہ میں اللہ
فرماتا ہے۔
اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں
اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک
خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ﴿۵۱﴾
ہم میں سے اکثر اس کو سنتے ہوئے شرمندہ نظر آتے ہیں کہ بھلا ہم کھلم کھلا
یہود و نصارہ سے ایسی مخالفت کیسے مول لے سکتے ہیں۔ یہاں مجھے اللہ کی بے
پناہ محبّت کا خیال آ رہا ہے۔ وہ علیم و خبیر ہے اور اسکو اچھی طرح معلوم
ہے کہ یہ دشمنان اسلام اسکے اطاعت گذاروں کے خلاف کیا عزائم رکھتے ہیں۔ اس
لئے اس نے تنبیہ کی ہے کے انکو دوست نہ بنانا۔اب اگر ہم اس کے حکم کے مطابق
زندگی گزارنے کا عزم کریں تو ہماری حفاظت اس کے ذمّہ ہے اور وہ توہے ہی علیٰ
کلِّ شیؑ قدیر۔
اللہ کو ْایسی بات کہنے میں کوئی تردّود نہیں۔ اب ہم اگر اپنے ارد گرد غور
کریں کہ ہم نے جس کسی سے دوستی کی کیا اسنے بھی دوستی نبھائی؟ اور آج جب کہ
سوشل میڈیا کا دور ہے۔ آپ کو ایسی بے شمار ویڈیو مل جایئں گی جنمیں اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف انکی کار گذاری بڑی واضح ہے۔ وہ تو اس کے اظہار میں
قطعی نہیں شرماتے۔ دوسری طرف وہ تیسری دنیا کے افراد سے بھی جان چھڑانا
چاہتے ہیں۔ اس کی تصدیق میں آپ بل گیٹ، اور راک فیلر ، جیسے بڑے لوگوں کے
بیانات اور ان کی کوششوں کودیکھ لیجئے۔ آبادی میں تخفیف کے تو بیشتر مسلمان
بھی قائل ہیں۔ ہمارے نام نہاد دانشور آئے دن یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ
اتنے بچّے ہونگے تو کھلائو گے کہاں سے، پھر اچھّی تربیت بھی بڑا مسئلہ ہے۔
یہاں اللہ کی رزّاقی اور اللہ کا فرمان انہیں نہیں سنائی دیتا کہ ؛ تمہیں
اور تمہارے بچّوں کو بھی رزق ہم ہی دیتے ہیں۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری ایک آزاد مملکت اسلامیہ ہو۔ ہم اپنے
فیصلے اور منصوبوں کے بنانے کے لئے آزاد اور با اختیار ہوں۔انکے نمائندے تو
یہ نعرہ لگا رہے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی۔ اور ہم یہ نہیں بتا رہے کہ میرا
ملک میری مرضی
در اصل ہم پوری طرح آزاد اور خود مختار نہیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ہم
بغیر کسی تحقیق کے مغرب کو اپنا امام مانتے ہیں۔ مغرب کی بیان کر دہ دا
نشوری ہمارے لئے مستند اور محترم ہے۔حالانکہ مغرب کے بیان کردہ نظریات
حقائق کے مطابق نہیں ہوتے ان میں مغرب اپنے مالی اور معاشرتی فوائد کا پورا
خیال رکھتا ہے۔
مذہب سے دوری کی وجہ سے جھوٹ بولنے میں کوئی شرم نہیں آ تی ان کا خیال ہے
کہ اپنے فائدے کے لئے جھوٹ اور مکر و فریب جائز ہے۔
اور یہ اپنی باتوں کو منوانے کے لئے اقوام متّحدہ کا سہارا لیتے ہیں اسی
بنیاد پر مسلم ممالک پر پابندیاں لگاتے ہیں۔ ایران اسکی بڑی مثال ہے۔ آبادی
کو روکنا۔ ان کا بڑا ایجنڈا ہے۔اور اسکے لئے ان کے پاس بہت سے طریقے ہیں۔
وہ بڑی سفّاکی سے کہہ رہے ہیں کہ آبادی کو ڈھائی ارب سے ایک ارب پر لانا ہے۔
اس کے لئے حیاتیاتی جنگ کا طریقہ استعما ل کرنے میں انہیں کوئی شرم نہیں ہے۔
تازہ مثا ل کرونا وائرس ہے۔
ہونا یہ چاہئے کہ ہمارے سائنسداں اللہ و رسول کے احکام کے دائرے میں تحقیق
کریں۔
کیونکہ یہ تحقیق کون کرے گا۔ کہ مغرب کی یہ ویکسین ہماری زندگی کی ضمانت یا
موت کا پیغام۔ آجکل ہمارے ہاں نو مولود بچّوں کو جتنی ویکسین لگتی ہے۔ ان
کے پیچھے ہماری طرف سے کونسی تحقیق ہے۔ مغرب نےجو شاندار سچ بولے ہیں ۔ آپ
گن لیجیئے 9/11 کتنا بڑا سچ تھا ۔ دوسرے آزاد ممالک کے وسائل پر قبضے کی
مثال لیبیا ۔ مصر۔ عراق۔ اور حالیہ کوشش کےلئے وینیزویلا اسکی بڑی مثال ہے۔
ٹوئن ٹاور کا ڈرامہ افغانستان پر قبضہ کے لئے کیا گیا تھا۔ مگر جو لوگ اللہ
پر ایمان رکھتے ہیں آج اٹھارہ برس بعد بھی وہ سرخرو ہیں۔ ہم پر بھی اللہ کا
بڑا احسان ہے کہ دشمن کی کوئی چالاکی اور تکنالوجی کام نہ آئی اور اللہ نے
ہمیں ایٹمیطاقت عطا کی۔ اب اگر ہم مغرب کی دوستی اور لحاظ میں رہے۔ تو اللہ
نہ کرے کہ ہم اپنی نا اہلی سے اسے ضائع نہ کر دیں۔نعوذباللہ۔ اس اقوام
متّحدہ نے کب ہمارا ساتھ دیا اگر ذرا سی بھی انسانیت ہوتی تو کشمیر کب کا
آزاد ہو جاتا۔سوڈان کو تقسیم کر کے عیِسائی ریاست قائم کردی۔انڈونیشیا کے
بیچوں بیچ تیمور کی ریاست قائم کردی۔ وہ تو اللہ سلامت رکھّے طیب اردگان کو
کہ انکی ایمانی طاقت کے سامنے کفر ملت واحدہ بے بس نظر آ تی ہے۔ورنہ کرد
ریاست کا قیام ہو چکا ہوتا۔
اب غور کیجیئے کہ جب سے بھی مغرب نے کرنسی کا نظام قائم کیا تھا سونے چاندی
کو نوٹوں سے بدل کر بے ایمانی کی اور آج تک ڈالر بغیر کسی سونے یا چاندی کی
ضمانت پر چل رہا ہے۔ کسی نے کیا کر لیا؟ جب معدنی تیل کے مالکوں نے ڈالر کے
بجائے سونا مانگا تو مغرب نے انہیں نشانِ عبرت بنا دیا۔اور یہ ممکن اس وجہ
سے ہوا کہ معدنی تیل کے مالکوں کا ایمان طالبان جیسا نہیں تھا وہ تو اپنی
تیل کی دولت پر مغرور اور نا فرمان تھے۔ ایمان والے تلوار پر بھروسہ نہیں
کرتے بلکہ ایمان میں کمزوری نہیں آنے دیتے۔ اسباب و علل نہیں دیکھتے رضائے
الٰہی پر نظر رکھتے ہیں۔
اب مغرب والے کرونا چھوڑ کر ڈیجیٹل کرنسی کی بنیاد ڈال رہے ہیں۔ سونا چاندی
ایک طرف نوٹ بھی ختم کر کے دنیا بھر میں ڈیجیٹل کرنسی ہو گی بس موبائل اور
کپیوٹر سے آن لائن ٹرانسفر ہوگی۔کسی کے ہاتھ میں نہیں ہو گی ورنہ وائرس لگ
جا ئے گا۔
اب جمہوریت کو لپیٹ کر بین الاقوامی غلامی کا دور شروع ہونے والا ہے۔ جگہ
جگہ 5G کے ٹاور لگ رہے ہیں ۔ اور تمام رجسٹریشن انسانوں کو چپ لگا کر کی
جائے گی۔ کیونکہ ہمیں یہ بتایا جائے گا کہ اس چپ کے ذریعہ آپ کا پورا ہیلتھ
رکارڈ سنٹر میں ہو گا ۔ جیسے ہی آپکی صحت میں کوئی بد نظمی ہو گی۔سنٹر
ڈاکٹر کو آپ کی لوکیشن پر روانہ کر دے گا۔اگر ہماری اپنی ریاست ہو تو ہم اس
سے محفوظ رہنے کا سوچ سکتے ہیں۔ ورنہ ہمارے دانشور تو ہمیں بلا دریغ سولی
پر چڑھانے کو کہیں گے۔ اور ہمارے نام پر جاہل کا ٹیگ بھی لگا دیں گے۔
یہ ہے نیو ورلڈ آرڈر۔ مسلمانوں ادخلواسّلم کافّہ۔ دین میں پورےکے پورے داخل
ہو جائو۔ اللہ ربّالعزّت نے ہمیں ہمیشہ با خبر رکھّا۔ اور اپنے احکام کے
ذریعہ رہنمائی بھی کی۔ جو عمل ہمارے ذمّہ ہے وہ تو ہمکوہی کو کرنا ہے۔ آج
کے دور میں عزّت اور سلامتی صرف اسلام کے سائے میں ہے۔ کاش ہمیں ایک آزاد
اور با اختیار اسلامی قیادت مل سکے۔ آمین۔
|