ایرا غیر ا نتھو خیرا

ایرا غیر ا نتھو خیرا ۔۔ یہ اردو کا ایسا محاورہ ہے جسکے معنی یہ ہیں کہ کوئی بھی اپنی اوقات سے بڑھ کراپنے آپ کو پیش کرے بالکل ویسے ہی جیسے کے فی الوقت ملک کا میڈیا کا رویہ ہے ۔ جب سے کورونا مرض کی وباء ملک میں بڑھنے لگی اسکے بعد سے مانو ایسا محسوس کیاجارہاہے کہ کورونا مرض کے موجد مسلمان ہی ہیں اور انہیں کی وجہ سے کورونا مرض بڑھ رہاہے ۔ شروعات میں اس مرض اور مسجدوں کو جوڑ کر کہانیاں بنانے کیلئے میڈیا ایڑی چوٹی کا زور لگارہاتھا لیکن جیسے ہی تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین میں اجتماع منعقد کرنے کی بات سامنے آئی تو ملک کے میڈیا کو ذرہ برابر بھی تاخیر نہیں ہوئی کہ وہ کورونا کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیں ، اسی جلد بازی میں میڈیا نے تمام طاقت مسلمانوں اور کورونا کو ایک کرنے میں لگادی اس پر اس جماعت پر الزام تراشی کی گئی جو اپنے وجود سے اب تک کسی کو نقصان پہنچانے کے تعلق سے سوچی بھی نہیں تھی ۔ تبلیغ جماعت کو دائر ے میں لینے کیلئے یوں تو ملک کا فرقہ پرست میڈیا کئی سالوں سے منتظر تھا لیکن انہیں مناسب موقع ہی نہیں مل رہا تھا ۔ اب ذرا کرونا لوجی کو سمجھیں کہ کس طرح سے ملک کا فرقہ پرست میڈیا ہندوستانی مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کیلئے منصوبہ بندی کررہا تھا۔ سب سے پہلے میڈیا نے جماعت اسلامی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ، مسلسل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس جماعت کے خلاف پروپگنڈہ کرتے رہے ، کبھی اس جماعت کو لشکر سے تعلقات رکھنے والی جماعت بتایا گیا تو کبھی انہیں سیمی سے جڑے ہونے کا الزام لگایا گیا ۔ جب جماعت اسلامی ہند نے ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تو میڈیا نے جماعت اسلامی ہند کو نشانہ بنانےکی سرگرمیوں کو ختم کردیا ۔ اسکے بعد انہوںنے ذاکر نائک اور سلفی جماعت کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ، مسلسل 4-5 سال کی کوششوں کے بعد سلفی جماعت اور ڈاکٹر ذاکر نائک کو بدنام کرنے میں میڈیا کافی حد تک کامیاب ہوئی ، میڈیا نے اپنے پروپگنڈے پر اس قدر دبائو بھی ڈالا کہ وہ ذاکر نائک کے اداروں پر پابندی لگائی گئی اور انہیں ملک سے دور رہنا پڑا ہے ۔اسکے دارالعلوم دیوبند کا مدعہ اٹھایا گیا ، دارالعلوم دیوبند نے بھی میڈیا کی سازشوں کو ناکام کرنے کیلئے جس تیزی کے ساتھ کام کیا اسکی مثال آپ ہے ۔ حال ہی میں یہ پروپگنڈہ کیا گیا تھاکہ دیوبند کی عمارت پر بغیر کسی اجازت کے ہیلی پیڈ بنایا جارہاہے جہاں پر غیرقانونی طریقے سے ہیلی کاپٹروں کو اتارا اور اڑایا جائے گا ۔ دیوبندنے کچھ ہی دنوں میں اس معاملے کو دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا اورمیڈیا کو دیوبند کی گلیوںسے رسواء ہوکر نکلنا پڑا تھا ۔ اب جبکہ تبلیغی جماعت کو کسی بھی معاملے میں ملوث کرنے میں دشواری آرہی تھی اس لئے میڈیا انہیں کسی نہ کسی طرح سے پھنسانے کی تاک میں لگا تھا۔ بلآخر کورونا وائرس کے معاملے میں تبلیغی جماعت کو پھنسایاگیا ۔ یقینََا موت وحیات ، کامیابی و ناکامیابی اللہ کے ہاتھوں میں ہے لیکن دین کے ساتھ ساتھ دنیا بھی ہے اور جب تک دنیا میں رہنا ہوگا اس وقت تک دنیا داری بھی کرنی ہی ہوگی ۔ مگر ہم نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دنیاداری کے مسائل سے مقابلہ کرنے کے بجائے ہر معاملے کو اللہ کے حوالے کرنے پر تلا ہواہے جبکہ اللہ نے خود قرآن پاک میں یہ کہاہے کہ جو قوم اپنی حالت بدلنے کیلئے خود آگے نہیں آتی اس وقت تک اللہ بھی مدد نہیں کریگا ۔ آج ملک بھر میں جس طرح سے میڈیا مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی کررہاہے اس سے یہ اندازہ لگالیں کہ کس طرح سے میڈیا مسلمانوں سے نفرت کرتاہے اور یہ بھی دیکھ لیں کہ مسلمانوں کے پاس کونسامیڈیا ہے ؟۔ ہا ں ہمارے پاس اردو اخبارات ہیں ، کچھ نیوز پورٹلس ہیں اسکے علاوہ فیس بک اور یوٹیوب چینل ہیں جسکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے سامنے کوئی اوقات ہی نہیں ہے ۔ سوچئے کہ مسلمان تو وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریم ﷺ کی تو ہین کرنے والوں کے خلاف محاذ آرا ء ہوجاتا ہے لیکن یہاں میڈیا میں کھلے عام نبی کے مذہب کی توہین ہورہی ہے ، نبی کے امتی کی توہین کی جارہی ہے تو اس کا جواب دینے کیلئے ہمارے پاس کیا ہے ۔ ہوسکتاہے کہ ایسے حالات میں ہماری مسجدوں میں منبر پر کھڑے ہوکر کچھ وقت کیلئے مذمت و مخالفت ضرور کرسکتے ہیں لیکن اس مذمت اور مخالفت کی آواز کہاتک جائیگی ؟۔ مسجد تک ، مسجد کے باہر یا محلے تک ۔ وہ بھی مسلمانوں کے کانوں تک ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اب اپنی سوچ بدلنی ہوگی ، انکے اپنے میڈیا کے وسائل تیار کرنے ہونگے جو الیکٹرانک میڈیا کی شکل میں ہو۔ حالانکہ مسلمانوں کے ٹی وی چینل کو بنانے کے نام پر ماضی میں کچھ سیاستدان ضحیم رقم ہڑپ کرچکے ہیں اور جو رقم آج سے 20-22 سال قبل جمع کئے گئے تھے اس رقم کا صحیح استعمال کیاجاتا تو آج ملک کے جتنی بھی زبانیں ہیں ان زبانوں میں ٹی وی چینلس بنائے جاسکتے تھے ۔ آج پھر وہی سیاستدان ٹی وی چینل بنانے کیلئے اپنے قدم بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلارہے ہیں ۔ یقیناََآج ٹی وی چینلوں کی اشد ضرورت ہے لیکن ان چینلوں کی شروعات کرنے کیلئے قوم کی قربانی ضرور ہو لیکن ذمہ داری صرف ان لوگوں کی ہو جو اس میدان میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں ورنہ سیاستدان پھر ایک مرتبہ عوام کا پیسہ ہڑپ لیں گے ۔ آج جتنے بھی ٹی وی چینل مسلمانوں کے خلاف بھونک رہے ہیں ان چینلوں کے مقابلے میں اگر مسلمانوں یا سیکولر سوچ رکھنے والے صحافیوں کا ایک ہی چینل ہوتا تو اس کا بہت بڑا اثر سنگھیوں اور اسلام دشمن طاقتوں پر ہوتا ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان کم از کم اب تو اس سمت میں آگے بڑھیں اور میڈیا ہائوز بنانے کیلئے کام کریں ۔جس طرح سے ایک درزی کسی کے بال نہیں کاٹ سکتااور ایک قصائی انسان کا آپریشن نہیں کرسکتا اسی طرح سے ہر کوئی ٹی وی چینل نہیں بناسکتااسلئے محتاط ہوکر کام کریں ۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 171968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.