میری قوم کا روشن چہرہ

نیرِ قلب:۔ محمد ابرار ظہیر
قارئین کرام!وطن عزیز دنیا بھر کی طرح ایک آزمائش میں گھرا ہوا ہے۔ اچانک حکومت کی طرف سے دکانیں، کاروبار اور معاملات زندگی کو بند کرکے گھروں میں بیٹھنے کا حکم ملا۔ حتیٰ کہ مساجد تک بند کروادی گئیں۔ تنہائی ، تنہائی اور مسلسل تنہائی اس مرض کا علاج بتایا گیا۔ قوم نے ان مشکل فیصلوں کا مان بھی لیا۔ علماء نے راہنماء کر دی۔ اطباء ومعالجین نے حکومتی اقدامات کی تصدیق کر دی اور عامۃ الناس نے اسے آزمائش سمجھ کر ان احکامات پر عمل درآمد شروع کردیا۔

مرض تو آزمائش تھی ہی، اس سے بھی بڑی آزمائش یہ آئی کہ روزانہ کی بنیاد پر کما کر کھانے والا طبقہ اچانک بے روزگار ہوگیا۔ کارخانے بند ہونے سے کارخانوں میں کام کرنے والا طبقہ تو فارغ ہوا ہی ا ن کو تنخواہیں دینے والا مڈل کلاس کا مالک کارخانہ بھی شدید متاثر ہوگیا۔ بچوں ، بڑوں کیلئے سامان خورونوش کا مہیا ہونا ایک المیہ بن گیا۔ دنیا حیران تھی کہ اب کیا ہوگا۔ایسے میں دینی و مذہبی شخصیات نے، ائمہ وخطبا مساجد نے اپنے مقتدیوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک دوسرے کیلئے نفع مند بننے کی تحریک چلائی۔ انہیں باہم مدد گار بننے کے فضائل کی یاد دہانی کروائی اور عامۃ الناس کے دلوں میں انسانیت کے دردکی شمع جلائی۔ بس پھر کیا تھا شمع سے شمع جلتی رہی اور لوگوں کے بجھتے چولہے ایک بار پھر جلنے لگے۔ مایوسی امید میں بدلتی گئی۔

جی ہاں قارئین کرام!
دنیا نے اس غریب مگر دل کی امیر قوم کا یہ چہرہ بھی دیکھا بلکہ چمکتا ہوا روشن چہرہ دیکھا کہ جہاں لوگوں نے اپنی ضروریات پر اپنے بھائیوں کی ضروریات کو ترجیح دی اور اپنے دستر خوان میں بہت سے لوگوں کو شریک کیا۔ کسی نے ضرورتمند کی مدد راشن کے بیگ سے کی۔ کسی نے نقد پیسوں سے نوازا۔ کسی نے کوئی طریقہ اپنایا تو کسی نے کوئی۔ مگر یہ بات بہرحال ثابت ہوئی کہ یہ خودایک زندہ قوم ہی نہیں بلکہ زندگی کو تحفظ دینے والی قوم بھی ہے۔ صدقات وخیرات دیتے ہوئے یہ قوم خود اپنی ضروریات بھی بھول جاتی ہے۔ اور ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ کی عملی تصویر بن جاتی ہے۔

راقم الحروف نے بھی خدمت خلق کی اس تحریک کو متحرک کرنے اور طاقت دینے میں کچھ ا س طرح حصہ ڈالا(اﷲ قبول فرمالے۔آمین)کہ پہلے اپنے نمازیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے رشتے داروں کے گھروں میں جھانکیں۔ کہیں کوئی بھوکا تو نہیں سو گیا۔ عرض کیا تھا کہ رشتے دار شہر سے باہر بھی ہے تو بھی اس تک پہنچیں اور اس کی ضرورت اس کے سوالی بننے سے قبل ہی پوری کردیں۔ اگلے مرحلے میں اپنے محلے داروں کو دیکھیں دائیں بائیں سفید پوش لوگ نظر آئیں تو ان کے سوال سے پہلے جواب بن جائیں۔ پھر اپنے احباب پر نظر دوڑائیں اور باہم مددگار بن جائیں۔الحمدﷲ مقامی سطح پر ہماری اس تحریک کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئے۔فﷲ الحمد

قارئین کرام!اسی تناظر میں خدمت کی تحریک کو وسعت دینے کیلئیمرکزی جمعیت اہلحدیث سٹی گوجرانوالہ کے شعبہ خدمت خلق کو متحرک کیاگیا۔امیر مرکزیہ سٹی علامہ پروفیسر محمد سعید کلیروی، سرپرستان سٹی مولانا محمد صادق عتیق،صاحبزادہ حافظ محمد عمران عریف اوردیگرقائدین مرکزی جمعیت اہلحدیث کی ہدایات کی روشنی میں بعض مساجد میں عام اپیل کی گئی، بعض شخصیات سے خاص درخواست کی گئی، کچھ عمائدین شہر بذات خود آگے بڑھے اور اکابرین وعمائدین جماعت کے دست وبازوبنے۔ جماعت کے بیت المال کو مضبوط کیا گیا۔ بحمداﷲ اب تک چنددنوں میں جماعت کے شعبہ خدمت خلق نے مختلف ذرائع کے ساتھ کم از کم 15لاکھ روپے سے 500راشن بیگز مختلف افراد واحباب تک پہنچائے ہیں۔ جبکہ بعض سفید پوش علما ء وخطباء کی نقد معاونت بھی کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس کے ٹریفک وارڈنز کیلئے جوسڑکوں پر کھڑے خود غیر محفوظ ہو کر ہماری حفاظت کر رہے ہیں کیلئے 100سینی ٹائزرز مہیا کئے ہیں۔ الحمدﷲ علیٰ ذالک

قارئین کرام!جو بات آپ سے شئیر کرنے والی ہے وہ یہ کہ’’راقم الحروف نے دیکھا کہ جن لوگوں نے جماعت کے بیت المال میں ایک وافر رقم دی خود انہوں نے اپنے گھروں میں بھی راشن تقسیم کیا۔ یعنی ان کے دل میں درد کا عالم یہ تھا کہ جماعت پربھی اعتماد کیا اور خود اپنے ہاتھوں سے بھی تقسیم کرکے رب کو راضی کرنے کی ایک کوشش کی‘‘۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کی یہ معمولی سی خدمت خلق قبول فرما کر ہم سے راضی ہوجائے اور اس مصیبت سے ہمیں نجات عطا فرمائے۔ آمین

خدمت کا سفر جاری ہے۔آزمائش بڑی ہے تو قربانی بھی بڑی دینی پڑے گی۔ رجوع الی اﷲ کا سفر بھی تیز کرنا ہوگا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگاکر گناہوں کی گرد کو بٹھانا ہوگا۔ رب کو راضی کرنا ہوگا۔ رب کو راضی کرنا ہوگا۔ رب کو راضی کرنا ہوگا۔ اس کی عبادت کو ذریعہ بنا کر۔ اس کے سامنے آنسو بہا کر۔ اس کے قدموں میں سر کو جھکا کر۔ ندامت کے الفاظ کو گلے کا ہار بنا کر۔ اس کی مخلوق کی مشکل کو آسان بنا کر۔ بھوکوں کو کھانا کھلا کر۔ حاجت مندوں کی حاجت برآری کر کے۔ بس کسی بھی طریقے سے رب کو راضی کرنا ہوگا۔"
 

Naveed Zia
About the Author: Naveed Zia Read More Articles by Naveed Zia: 4 Articles with 2198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.