تحریک برائے احیائے کتب خانہ جات

دستیاب تحقیقی مواد کے مطابق انگلستان میں 3618 کتب خانے ہیں بشمول گشتی کتب خانوں سمیت۔ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہزاروں کی تعداد میں کتب خانے ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں کتب خانے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم اگر اپنے شاندار ماضی پہ ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ کتب خانوں سے بھرا پڑا شہر بغداد علم و تمدن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا جہاں پوری دنیا سے لوگ اپنے علمی پیاس بجھانے آتے تھے۔

کئی یونانی اور دیگر زبانوں کی کتب کا ترجمہ کیا گیا اور اس زرخیز شہر نے بڑے بڑے علمی شخصیات کو جنم دیا۔ مسلمان علماء و مشاہیر کئی میدانوں میں اپنا لوہا منوایا رہے تھے۔

یہ شاندار دور اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کے لشکر نے شہر کا گھیراؤ کیا اور کشت وخون کا بازار گرم کیا۔ لیکن سوچھنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے صرف سروں کے میناروں پر ہی بس نہیں کیا بلکے بڑھ کے نادر و نایاب کتابوں سے بھری ہوئی کتب خانوں کو بھی تاراج کیا اور کہا جاتا ہے کہ دریا کا پانی ان کتابوں کی سیاہی سے سیاہ ہو گیا۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ چنگیزی لشکر کو اس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ مسلمانوں کی اصل ترقی اور تو ان کتابوں میں پوشیدہ ہے لہذا انسانی قتل عام کے ساتھ ساتھ کتابوں کو بھی ضائع کیا جائے۔ آج اگر چاروں طرف مغربی ترقی کے ڈھول بج رہے ہیں تو اس کے پیچھے بھی ان کی علمی قابلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو کہ ہماری گمشدہ مال متاع بے۔ یہی مغرب نشاط ثانیہ سے قبل جہالت کے اندھیروں میں غرق تھا اور مسلمانوں کی علمی خزانے سے مستفید ہو کر اب وہ دنیا کی امامت کا دعویٰ کر رہے ہیں صرف اور صرف علمی میدان میں سبقت کی وجہ سے۔ عصر حاضر میں ترقی اور بقا کا دارومدار دوسری معاشی اکائیوں کے ساتھ ساتھ احیائے کتب خانہ جات پر بھی ہے۔ جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا: " علم وہ طاقت ور ہتھیار ہے جس سے آپ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔"
 

Muhammad Saleem Baloch
About the Author: Muhammad Saleem Baloch Read More Articles by Muhammad Saleem Baloch: 18 Articles with 15021 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.