تعلیم ہماری ضرورت

جی ہاں، یہ اسلام تھا جس نے اقراکا صور پھونکا اور سارے عالم کو علم کی اہمیت بتائی۔ پھر آخر مسلمانوں کی علمی پسپائی کا دور شروع کیوں کر ہوا؟

جی ہاں، یہ اسلام تھا جس نے اقراکا صور پھونکا اور سارے عالم کو علم کی اہمیت بتائی۔ پھر آخر مسلمانوں کی علمی پسپائی کا دور شروع کیوں کر ہوا؟

گزشتہ چار دہائیوں میں زندگی بڑی تیز رفتار ی سے دوڑی ہے۔ ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات نے پورا منظر نامہ بدل ڈالا ہے۔ البتہ ہمارے یہاں بعض لوگوںکا ایجنڈا اب بھی:تین وقت کی روٹی کا سامان اور لڑکیوںکیلئے جہیز کا انتظام ہے بس !

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انگریز برصغیرسمیت کئی ملکوں پر راج کرتے رہے اور سائنسی ایجادات میں بھی مصروف رہے۔ اس دور میں انگریز ی اور دیگر مغربی اقوام نے اسٹیم انجن ،لائٹنگ کنڈکٹر ، ہائیڈرومیٹر ، پیراشوٹ، لیتھو گرافی ، الیکٹرک بیٹری ،کیمرہ ، ڈیجیٹل کیلکیولیٹر، الیکٹرومیگنیٹ ، ،ٹیلی گراف جیسی اہم ایجادات دنیا کو دیں جن سے اس دنیا کی کیفیت ہی بدل گئی۔

ماضی میں جو کچھ ہوا، اس پر خاک ڈالتے ہوئے اگر ہمارے نوجوان نئے حوصلوں اور نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھیں اور اپنی ترجیحات کو تبدیل کرلیں تو ایک بار پھر ستاروں پر کمندیں ڈال سکتے ہیں
دور اندیشی اور مستقبل کیلییکوئی ویژن اگر نہ ہو تو دولت، ثروت اور اقتدار کچھ کام کا نہیں۔ہمارے اپنے حکمرانوں کے محلوں کے ہر دروازے پر زندگی کی روشن صبحیں دستک دیتی رہیں مگر انہیں وہ سنائی نہیں دیں ۔اپنی بیوی کی یاد میں ایک بہترین اسپتال قائم کرنے کا جواز بھی شاہجہاں کے پاس تھا کیونکہ بچے کی زچگی کے وقت ہی ممتاز محل کا انتقال ہوا تھا۔ اسلئے شاہ جہاں ملک میں کئی بڑے اسپتال قائم کر سکتا تھا اور ان اسپتالوں سے قوم کو ہزاروں ڈاکٹر بھی ملسکتے تھے۔ ہمارے بادشاہوں کے پاس ویژن نہیں تھا اس کی بہترین ،بلکہ بدترین مثال یہی ہے۔ان تاریخی غلطیوں پراپنی ترجیحات سے لاعلمی کا تذکرہ چار صدیوں بعد بھی ہم اسلئے کر رہے ہیں کہ ہمارے یہاں غلط ترجیحات کے یہ سارے پیمانے آج بھی لگ بھگ ہر سو دکھائی دیتے ہیں۔

اب آئندہ ہماری فکر اور اس کی سمت کیا ہو؟نوجوانو! ہمیں ایجوکیشن کی ضرورت ہے ،تھوڑی سی تحقیق آپ کو اس نتیجے پر لے جائے گی کہ اسلام سے قبل جہالت کو تقدس کا درجہ حاصل تھا۔ عرصہ دراز سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا قرآن اور سائنس میں کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس نوعیت کا ہے۔ سن لیجئے قرآن مجید میں موجودہ دور کے سائنسی علوم کا تذکرہ خوب خوب ملتا ہے مگر اس کے باوجود یہ کہنا مناسب ہوگا کہ قرآن سائنس کی نہیں بلکہ signs یعنی نشانیوں کی کتاب ہے۔ یاد رہے کہ عربی لفظ آیت کا مطلب بھی علما نے نشانی ہی لیا ہے۔ گویا قرآن پاک کی ہر آیت ، اللہ تبارک و تعالی کی ایک نشانی ہے جس کا مقصد ہمیں راہ ہدایت کی نشاندہی کرتا ہے۔

قرآن پاک کے سائنسی اور عقلی پہلووں پر بات کرتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کا ایک مخصوص انداز بیان ہے۔ یہ رموز قدرت اور نظام کائنات کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے، ہمیں اس کے بارے میں اشارات دیتا ہے، ہمارے تجسس کو ابھارتا ہے اور تحقیق پر آمادہ کرتا ہے۔ مثلا ترتیب کے لحاظ سے قرآن کی پہلی سورہ کی پہلی آیت ہی ہمیں ریسرچ پر آمادہ کرتی ہے: الحمد للہ رب العالمین۔ یہ آیت کہتی ہے کہ یہ صرف ایک عالم نہیں ہے ، کئی عالم مزید موجود ہیں کائنات میں، تحقیق کرو۔

ابتدائی دور کے علماایک متوازن زندگی گزارنے کے عادی تھے لہذا وہ ایک طرف دینی امور کے ماہر تھے تو دوسری طرف وہ منطق ، فلسفے اور ریاضی جیسے دنیاوی علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک قرآن حکیم کی تعلیمات میں دین اور دنیادونوں کیلئے رہنما اصول اور ہدایات موجود تھیں۔ البتہ لگ بھگ بارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں میں فکری و علمی رجحان میں زوال اس وقت شروع ہوا جب ہم نے دین اور دنیا کی تعلیم کو الگ الگ سمجھ لیا۔ یہاں اس وقت سب سے روشن کردار امام غزالی نے اپنے احیا العلوم کے ذریعے ادا کیا جب انہوں نے طب اور ریاضی جیسے علوم تک کو فرض کفایہ قرار دیا۔ امام غزالی اپنے دورکے بعض اہم فنون جیسے سرجری ،زراعت،ٹیکسٹائیل وغیرہ تک کو فرض کفایہ میں شمار کیا۔ امام غزالی کی نظر میں گرچہ اِن علوم و فنون کا تعلق براہ راست شریعت سے نہیں مگر ان سے بے اعتناعی یا لا تعلق ہونا معاشرے میں خرابی اور اِنسان کی محتاجی کا باعث بن سکتا ہے۔

آج ہم امریکہ ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ کی ترقی اور سائنسی پیش رفت سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اِن سے زیادہ طاقتور حکومتیں اور حکمراں ہمارے پاس تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی، لاتعداد وسائل تھے البتہ اس برصغیر ہی کی مثال لیجئے کہ یہاں سوائے ٹیپو سلطان کے ہر کسی کو سائنسی ٹیکنالوجی سے دلچسپی نہیں تھی۔

جدید تعلیم اورٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر ہمارے نوجوانوں میں زندگی و زمانے کے مقابلے کی سکت پیدا کرنے کا کارنامہ نہ سہی، مگر اس تعلق سے کوشش تو ہو سکتی تھی مگر ہم سے یہ بھی نہیں ہوا۔ اِن برسوں میں ملک کو مسلمان وزیر تو بہت ملے مگر وہ مسلمانوں کے قائد نہیں بن سکے۔بعض اس قابل نہیں تھے تو بعض کو ہم نے تسلیم نہیں کیا۔

آج ہم دوراندیشی اور ویژن سے پھر سرخرو ہوسکتے ہیں ،اس کے لیے ہمیں ہمت کرنا ہو گی اور تعلیم کے لیے انفرادی اور اجتماعی ہر لحاظ سے کوشش کرنا ہو گی۔جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہو ا وہ قوم تعلیم سے کیسے محروم رہ سکتی ہے اس کے لیے ہمیں ہر سطح پر محنت اور کوشش کرنا ہو گی تا کہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام بھر حاصل کر سکیں۔ہمارے پا س علم ہو گا تو تب ہی ہم ملک کے لیے کچھ کر سکیں گے ہم جب تک خود کو نہیں پہچانے گے تو تب تک ہم خود کے لیے کچھ نہیں کر پائیں گے اور اگر خود کے لیے کچھ نہ کر پائے تو ملک کے لیے کیا کریں گے۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 16 Articles with 12855 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.