پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور دیگر
طبی عملے کو حفاظتی ساز و سامان کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اب تک کئی ڈاکٹر
اس وائرس سے متاثر جب کہ تین ڈاکٹر ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
ایسی صورت حال میں کئی ڈاکٹر حکومت سے مطالبہ کر ہے ہیں کہ انہیں 'پرسنل
پروٹیکٹیو ایکوئپمنٹ‘ یعنی حفاظتی ساز و سامان فراہم کیا جائے تاکہ وہ
کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے دوران خود کو وائرس کا شکار ہونے
سے بچا سکیں۔
یہ مطالبہ کرنے والے ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر ضیا بھی ہیں۔ پاکستانی صوبے
خیبر پختونخوا کے شہر مردان کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر ضیا کو
میڈیا پر ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی ساز و سامان کے میسر نہ ہونے کی شکایت کرنے
پر ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے نوٹس بھیجا گیا، تاہم کچھ ہی دنوں بعد ڈاکٹر
ضیا کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے۔
ڈاکٹر ضیا، جو اب آئیسولیشن وارڈ میں ہیں، نے فون پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو
کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے
والے ڈاکٹروں کو'پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئپمنٹ‘ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا
اور اس حوالے سے مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی تھی۔ اس
اقدام کے ردعمل میں انہیں مقامی انتظامیہ کی جانب سے نوٹس مل گیا جس کے
مطابق انہوں نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنے
کے لیے طلب بھی کیا گیا۔
ڈاکٹر ضیا نے بتایا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے والے
ڈاکٹر پہلے ہی ایک الگ تھلگ رہائش گاہ میں مقیم تھے۔ اب مرض کی تشخیص کے
بعد وہ قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔
ڈاکٹر ضیا کے مطابق صوبائی وزیر برائے صحت تیمور جھگڑا نے بھی انہیں فون کر
کے ڈبلیو ایچ او کی ہدایات کے مطابق ڈاکٹروں کو حفاظتی ساز سامان میسر کیے
جانے کے مطالبے پر تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
|