اِنسان کی زندگی میں خوشحالی یا بد حالی کا بنیادی راز
اُسکے جذبات و محسوسات کےمناسب یا نا مناسب اِظہار میں پو شیدہ ہے۔ عمومی
طور پر اِنسانی جذبات کی فہرست میں خُوشی، اُداسی ، خوف ،محبت ،نفرت، غُصہ
، فخر ، شرم اور حیرانی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ اِنسانی جذبات اپنی
اِنفرادی خُصوصیت کے اعتبار سے منفی یا مثبت نہیں ہوتے بلکہ حالات و واقعات
کی روشنی میں یہ جانچا جاتا ہے کہ جذبات کا اِظہار درست شخص کے ساتھ اور
موقع محل کے مطابق کیا گیا ہے یا نہیں۔ جیسے خُوشی کا جذبہ عمومی طور پر
ایک مثبت جذبے کے طور سے پہچانا جاتا ہے۔ مگر جب کبھی ہم کسی شخص کو دوسرے
شخص کی تکلیف پر خُوش ہوتا دیکھیں تو اچھا محسوس نہیں کر سکتے۔ یعنی خُوش
ہونے کے لئے ضروری ہے کہ خُوشی کا ماحول بھی ہو۔ دوسری جانب خوف ہے جِس کو
عمومی طور پر منفی جذبہ سمجھا ،کہا اور لکھا جاتا ہے، اور تقریباً سب ہی یہ
کہتے سُنائی اور دِکھائی دیتے ہیں کہ بہادر بنو، ڈرو نہیں۔ لیکن اگر ہم کسی
شخص کو دوسرے اِنسان کے ساتھ بے خوف ہو کر نفسیاتی ، جذباتی یا جسمانی تشدد
کرتے دیکھیں تو بُرا محسوس کرتے ہوئے سوچتے اور کہتے ہیں کہ اس شخص کو خوفِ
خدا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اِسکو ہدایت دے! بالکل اِسی طرح نفرت کا معاملہ
ہے، جو عمومی طور پرکوئی اِنسان کسی دوسر ے اِنسان سے کرتا دِکھائی دے تو
ہم کہتے ہیں کہ نفرت کو دِل سے نکال دو ، یہ اچھی چیز نہیں ہے۔ لیکن
اگرکوئی شخص ہمارے ماں باپ ، دھرتی ماں ، یا دینی شُعائر کی بے حرمتی یا
اُن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو اُس سے نفرت کرنا ہم پر واجب ہو جاتا
ہے۔ اِنسان کا ہر جذبہ کسی نہ کسی مقصد کو حاصل کرنے اور ہماری فلاح و
بہبودکے حُصول میں مُعاون و مددگار ہوتا ہے۔ تا ہم اِنکا محدود اورموقع محل
کی مناسبت سے اِستعمال کیا جانا ایک ہنر ہے ، اگر ہم اِس ہنر سے واقف ہیں
تو یہ نہ صرف ہماری زندگی میں کامیابی اور خُوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے
بلکہ آخرت کی کامیابی کے لئے بھی ساز گار حالات بنا سکتا ہے۔ اِسکی ایک
ممکنہ دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے جذبات پر قابُو پاناجانتا ہے تو اِس
بات کے قوی اِمکان ہیں کہ وہ حُقوق اللہ اور حُقوق العباد کی ادائیگی میں
بھی کوتاہی برتنے کا مرتکب نہیں ہوگا۔
بُری نیت کے حامل پیشہ ور اَفراد جو کہ سیا ست، مذہب ، میڈیا اور کاروبار
جیسے شعباجات سے مُنسلک ہو کر اِنسانی جذبات و محسوسات کو موقع محل کی
مناسبت سے توڑ جوڑ (Manipulation) کر کے اپنی مرضی کے مطابق اِستعمال کرتے
ہیں اورعام اِنسان کو کسی حد تک بیوقوف بناتے ہوئے اپنے جائز و ناجائزمقاصد
کے حصول کو آسان بنالیتے ہیں۔ بُری نیت کے حامل پیشہ ور افراد کی جانب سے
جذبات کی فہرست میں خوف کے جذبے کے ساتھ سب سے زیادہ توڑ جوڑ کی جاتی ہے۔
کسی ملک کو سپر پاور بننا ہو؛ کسی ٹولے کو قوم، نسل یا مذہب کے نام پر
لوگوں میں اپنی شناخت بنانی ہو یا دھاک جمانی ہو؛ یا کسی کاروباری فرد یا
ٹولےکو اپنی مصنوعات فروخت کرنی ہوں۔ سب عموماً اِنسانی خوف کے جذبے کے
ساتھ توڑ جوڑ کرتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اِنہی میں سے کچھ پیشہ ور
اَفراد ہماری آنکھوں میں کامیابی سے دُھول جھونکتے ہوئے خُود کو
ہماراہمدرد دِکھا کر ہماری نظروں میں ہیرو بھی بنے رہتے ہیں۔ اُن کی اس
کامیابی ا ور عقل و فہم! اور ہماری معصومیت اور بیوقوفی! دونوں کو سَلام!
بُری نیت کے حامل پیشہ ور حضرات اوراِن کے ٹولے موقع شناسی اور موقع پرستی
جیسی خُوبیوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ حالات عام اِنسانوں کے حق میں ہوں یا
اُن کے لئے خطرہ جان،اِن کی دونوں صُورتوں میں بلے بلے رہتی ہے۔ کیونکہ ہم
جب خُوش ہوتے ہیں تب بھی پیسہ خرچ کرنے یا اندھی تقلید کرنے کی جانب مائل
ہوتے ہیں اور جب بہت ڈرے ہوئے ہوں تب بھی ۔ جب تک کوئی پیرِ کامل، عامل
بنگالی باوا، کالے علم کاماہر یا قابل سائنسدان ایسا کرشماتی و اِنقلابی حل
نہ نِکال لے جِس کی بدولت بُری نیت کے حامل پیشہ ور اَفراد اپنی عقل کو خلق
خُداکے فائدے میں اِستعمال کرنے لگیں اور عوام اپنی اندھی تقلید کی روش بھی
بدل لیں۔ تب تک یہ چوہے بلی کا کھیل اِسی طرح کامیابی سے چلتا رہے گی۔ چلیں
اب ہم اپنے اصل موضوع یعنی موجودہ حالات کے پیشِ نظر سر اُٹھانے والے خوف
اورنفسیاتی تناؤ پر ا ٓگاہی اور قابو پانے کے چندطریقوں پر ہلکے پھلکے
انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔
چاہے اِلیکٹرونک میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو یا پھر مدر پدر آزاد سوشل میڈیا،
کُرونا وائرس کی تشہیر اور دہشت کو پھیلانے میں جس طرح پیش پیش ہیں اِسکی
مِثال شاید ماضی کے صفحات میں نہ ملے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کُرونا وائرس جِسم
میں داخل ہو پائے یا نہ ہو پائے مگر اِنہوں نے تقریباًہر پاکستانی کے
شعوراور لا شعور کے ساتھ ساتھ دِل میں بھی کامیابی سے اِسکو بِٹھا دیا ہے۔
موجودہ حالات جہاں دُنیا کے لوگوں کے لئے پریشانیاں اورنئے مواقع مہیا کرنے
کا باعث بن ر ہی ہے، وہیں دنیا کے ماہرینِ نفسیات کے لئے بھی ایک سنہری
موقع میسر آیا ہُوا ہے کہ وہ کُرونا فوبیا جیسی اِصطلاحات بنالیں جو کہ
مستقبل میں اُنکی تحقیق اور کلینک دونوں میں کام آئے ۔ قابِل ماہرینِ
نفسیات کو چاہیے کہ جلد از جلد اس سنہرے موقع سے فائدہ اُٹھا لیں ! قبل
اِسکے کہ کوئی پیشہ ور ٹرانسفارمر یہ موقع لے اُڑے اور اپنی ڈوبتی کلینک
پِھر سے جمانے لگے۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر زیادہ تر آفس جانے والے
پاکستانی اپنے ہی گھرمیں قرنطینہ میں عیاشی کر رہے ہیں مگر عجب یہ کہ اُن
کو یہ بھی قید معلوم ہوتی ہے۔ اور آزاد اِنسان اگر خود کو ذہنی یا جسمانی
قید میں محسوس کرنے لگے تو یہ اِدراک شدید نفسیاتی تناؤ کی کیفیت پیدا کرنے
کے لئے انتہائی سازگار حالات پیدا کر دیتا ہے۔ اِن ہی حالات کے پیشِ نظر
آپ کو ایک حال ہی میں پیش آنے والا واقعہ سُناتا ہوں۔
جُمعرات کی صبح ایک دوست کا فُون آیا کہ میں گھر میں رہ رہ کر تنگ آگیا
ہوں۔ بیوی بھی ٹھیک سے بات نہیں کرتی ہے۔ بہت پریشان ہوں۔ سمجھ سے باہر
ہےکیا کروں؟ بات دوست کی تھی اُسکا دُکھ مُجھ سے دیکھا نہ گیا اور میں نے
اپنے ماہرِ نفسیات ہونے کو کورنٹین (قرنطینہ)میں ڈالا اور ایک سچے پاکستانی
کی حیثیت سے اپنے دوست کو کم از کم ایک بیش قیمت و نایاب مشورہ دینے کی
ٹھان لی۔ میں نے کہا کہ بھائی آپ گھر کا ماحول تھوڑا رومانٹک کرو۔ آج کل
راحت فتح علی خان اور خلیل الرحمٰن کی مشترکہ کاوشوں سے دنیا کے گوشے گوشے
میں اُردو بولنے اور سمجھنے والےہر گھر میں شوہر بیوی کو یہی کہتا ہے کہ
"میرے پاس تم ہو" تو آپ بھی اِس سے فائدہ اُٹھا لیں۔ دوست بہت خُوش ہو گیا
کہ ٹھیک مشورہ مِلا ہے۔ دُوسرے دن پھر فُون آیا میں نے فُون سنا تو میرے
عزیز دوست ہچکیاں لے لے کررونے لگے اور پھر کھُلے دل اور آزاد زُبان کو
زیرِ استعمال لاتے ہوئے مجھے وہ سب کچھ کہا جو کہ ایک دیسی دوست دُوسرے
دیسی دوست پر اپنا غُصہ نکالنے کے لئے کہہ سکتا ہے۔ میں نے صبرو تحمل کا
بہترین مظاہرہ کرنے کے لئے پاکستان کے مایہ ناز اورعالمی شہرت یافتہ کرکٹر
مسٹر ٹُک ٹُک کو کرکٹ کے گراؤنڈ میں وکٹ پر جم کرکھڑے رہنے اور کچھ بھی نہ
کرنے والے منظر میں تصورکیا اور دوست کے ہر معقول اور نا معقول جملے کو ٹُک
۔۔۔ ٹُک کر کے روکا ، اُنکے زُبانی باؤنسرز سے جُھک جُھک کر بچتا رہا، اور
اخلاق سےباہر حملے یا جملے کو بَلا ہوا میں لہرا کر کے جانے دیا۔ مسٹر ٹُک
ٹُک کی حکمتِ عملی کرکٹ کے میدان میں قوم کے کام آئی یا نہیں آئی مگر ان
کی ٹُک ٹُک میں پوشیدہ صبروتحمل کا سبق میرے بہت کام آگیا۔ویسے کبھی آپ
پر کوئی غُصہ کرے تو آپ بھی یہ طریقہ آزما کر دیکھیں بُہت مزہ آئے گا!
اب تو میرا پنا آزمودہ نسخہ ہےیہ! سامنے والا جو بھی کہے آپ دِل میں کہیں
ٹُک ۔۔۔ ٹُک ۔۔۔ ٹُک ۔ ۔اِیسا کرنے سے آپ کے اخلاقی طور پر آؤٹ ہونے کے
اِمکان بہت کم رہ جائیں گے۔ باقی لگتا تو یہی ہے کہ اِسکے مضر اَثرات زیادہ
نہیں ہونگے ۔مگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اَیسا کرتے ہوئے احتیاط سے کام
لیں۔ اور اگر آپ بیوی پر یہ ٹیکنیک آزماتے ہوئے مُسکرائے تو ہونے والے
سارے نُقصانات کی ذِمہ داری آپکی اپنی ہوگی۔ تا ہم بیوی اپنے معقول شوہر
کے غُصہ ہونے پر یہ ٹیکنیک اِستعمال کرتے ہوئے مُسکرائےتو اس میں کوئی
مضائقہ نہیں۔
واپس موضوع پر آتے ہیں بات دوست کی ہو رہی تھی تو جب وہ سب کچھ کہہ کر
ٹھنڈے ہو چکے تو میں نے انتہائی پیار سے عرض کیا کہ میرے عزیز مُعاملہ تو
بتا دیں کہ ہُوا کیا ہے۔ وہ روتے ہُوئے مجھے اپنی روداد سُنانے لگے۔ ہُوا
کچھ یوں کہ رات ۹ بجے کی خبریں سُن لینے کے بعد اُن کو میرا بیش قیمت دیسی
مشورہ یاد آیا تو اُنہوں نے پہلے تو اپنا گلہ صاف کیا اور پھر لہراتے اور
لہکتے ہوئے بیوی کو دیکھ کر انتہائی سُر میں گُنگُنانے لگے ۔۔۔میں سمجھا
تھا تم ہو، تو کیا اور مانگوں؟۔۔۔میری زندگی میں میری آس تم ہو۔۔۔یہ دنیا
نہیں ہے میرے پاس تو کیا؟ (قرنطینہ کی وجہ سے)۔۔۔ "میرے پاس تم ہو۔۔۔ میرے
پاس تم ہو ووو۔۔۔اووووو۔۔۔ سامنے کھڑی بیگم کے رُخسار شرم سے چمک کر سُرخ
ہوگئے اوروہ مُسکرا کر کہنے لگیں۔۔۔بہت بے شرم ہو گئے ہیں آپ ! ابھی سین
رومانس کی حدوں میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ لا شعور کی کاریگری کے نتیجے
میں صاحب کی نظروں کے آگے کچھ دیر قبل خبروں میں دِکھائی دینے والا عکس
یعنی کُرونا وائرس کی شبیہ آ گئی (جو کہ میڈیا کی کاوشوں کی بدولت لاشعور
میں پہلے سے گھر کئے ہوئے تھا) تو اُنہیں محسوس ہونے لگا کہ جیسے سامنے
بیوی نہیں کُرونا وائرس ہے اور وہ اُس سے کہہ رہےہیں کہ۔۔۔ میرے پاس تم ہو
۔۔۔ میرے پاس تم ہو ووو۔۔۔اووووو۔۔۔۔ اس کے بعد خوف کے جذبات نے اپنا جادُو
دِکھاتے ہوئے اُن کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلا دیں اور اُن کو موٹے موٹے
آنسوؤں سے بھگو دیا، چہرے کا رنگ پھِیکا پڑنے لگا، ٹانگیں کانپنے لگیں،
دھڑکنیں تیز ہو گئیں، اورآواز میں کوئل جیسا سُر مرغے کی بانگ میں بدل
گیا۔ اُنکی اس حالت سے بیوی کو یہ لگنے لگا کہ شوہر کے دِل میں بیوی کے لئے
کوئی محبت کا جذبہ نہیں ہے، ورنہ اتنے رُومانٹک گانے میں شوہر کی ایسی حالت
کا نہ تو کوئی جواز بنتا ہے اور نہ ہی کوئی اِمکان۔ بیگم صاحبہ نے شاید
کُرونا فیکٹر بِالکل نظر انداز کردیا تھا۔واللہ عالم! پھر اِس بے چارے کے
ساتھ جو ہُوا وہ قابلِ تحریر نہیں ہے۔ پر یقین کریں کہ مشورہ دیتے وقت
بِالکل عام پاکستانی کی طرح میں نے بھی صرف اپنا قومی فرض نِبھایا تھا اِس
لئے مشورے کے نقصانات کو سوچنے کی ذِمہ داری مُجھ پر لاگو نہیں ہوتی۔ایک
اچھے طالبِ علم کی طرح اِس کامیاب تجربے سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ مشہور
گانے کے بجائے سدا بہار گانے کا انتخاب شاید بہتر نتائج کے اِمکان روشن
کرے۔ جیسے کہ آنند بخشی نے قرنطینہ کے دِنوں کی مناسبت سےمیاں بیوی کے لئے
ایک خاص گانا لکھا تھا۔ " باہر سے کوئی اندر نہ آ سکے۔۔۔اندر سے کوئی باہر
نہ جا سکے۔۔۔ سوچو کبھی ایسا ہو تو کیا ہو؟۔۔۔سوچو کبھی ایسا ہو تو کیا
ہو؟۔۔۔ہم تم ایک کمرے میں بند ہوں! اور چابی کھو جائے" ۔ پر گانے والا اپنی
ذِمہ داری پر یہ گانا گھر (قرنطینہ) میں بیوی یا شوہرکو سنائے ۔
اِس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر فن مولا پاکستانی بہن بھائیوں کو
فری مشورے دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور مشور ہ لینے والوں کو بھی اندھی
تقلید سے پر ہیز کرنا چاہیے۔زندگی میں طالبِ علم بننے کو ترجیح دیں نہ کہ
پیروکار بننے کو۔ پیروی کے لئے صرف کلام اللہ اور سیرتِ نبویؐ کا انتخاب
کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کو کسی اِنسان کی تقلید کرنے پر اِنحصار کرنے کی
ضرورت نہیں رہے گی۔ مگر انسانوں سے سیکھیں ضرور۔ ہم سب کو ایک اچھا طالبِ
علم بننا زیادہ فائدہ دے سکتا ہے جو ہمیں نہ صرف موجودہ حالات کے دباؤ پر
قابو پانے میں معاون و مددگار ہوگا بلکہ ہماری شخصیت سازی اور ذہنی
صلاحیتوں کو ہر نئے دِن کے ساتھ بہتر بنانے کے لئے اکسیر کا کردار بھی ادا
کرے گا۔ نفسیاتی تناؤ اور دباؤ انسانوں پر پیدائش کے دن سے شروع ہو کر
خالقِ حقیقی سے ملنے تک کے دورانیئے میں ہر وقت اور ہر دِن موجود ہوتا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔
سیفؔ اندازِ بیان رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
آج کُرونا کا خوف، اور لاک ڈاؤن کی وجہ سےگھر میں بند رہنے پر نفسیاتی
تناؤ کی کیفیت کا سامنا ہے۔ کل آفس کے کام اور دیگر لوگوں کے رویئے پر
ایسا ہوتا تھا اور آنے والے دِنوں میں یہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ زندگی
یُوں ہی چلتی رہے گی اور یہ خوف اور نفسیاتی تناؤ رنگ اور شکل بدل بدل کر ا
ٓتا رہے گا۔ حالات میں آسانیوں کی خُواہش یا دُعا کرنا اچھی بات ہے۔ مگر
بہتر خُواہش یا دُعا یہ ہو سکتی ہے کہ یا رب مجھے اتنا مضبوط بنا دے کہ میں
تیری مدد کے ساتھ ہر مشکل کا سامنا کر کے اپنے ایمان، ذات اور خاندان کا
تحفظ کر سکوں۔ کیونکہ اگر آپ مضبوط ہیں تو پھر کوئی مشکل مشکل نہیں رہے
گی۔ جب کبھی آنکھوں کہ سامنے مشکل کھڑی ہو تو آپ کے اپنے اندر یہ احساس
جاگنا چاہیے کہ آپ اِس مشکل سے زیادہ طاقتور ہیں۔ آپ ذرا اِطمینان اور
سُکون میں بیٹھ کر ایک بات سوچیں۔ کہ آپ اس وقت گھر میں بند ہیں اور آپ
کے ساتھ وہ لوگ ہیں جن سے پیارا آپ کو کوئی اورنہیں لگتا یا یوں کہہ لیں
نہیں لگنا چاہیے۔ اور آپ پھر بھی چِڑچِڑے پن اور نفسیاتی تناؤ میں مبُتلا
ہونے کی جانب مائل ہیں۔بہتر ہے آپ ٹی وی اور موبائل کا استعمال محدود کر
دیں ! اور صرف مخصوص اوقات میں آگاہی یا تفریح کے حصول کے لئے دیکھیں،
کیونکہ آپ کُرونا کے پھیلاؤ اور اس سے ہونے والی اموات کے متعلق زیادہ جان
کر بھی اس کے معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ تو پھر اس پر اپنا وقت اور
توانائی ضائع نہیں کریں۔ اور اسکے بجائے گھر میں آنکھیں کھو ل کر اَپنوں
کو پُوری توجہ سے دیکھیں ، اُن کے پاس پوری طرح بیٹھیں اور اُنہیں اُمید
اور حوصلہ دلائیں۔ اپنے گھر کے افراد کے لئے چہرے پر مُسکراہٹ لائیں
اورساتھ مل کر صحت مند ہنسی مزاق، کھیل کُود کریں۔ گھر میں موجود تمام
افراد کی دلچسپیوں کو جانیں اور اُن کے مطابق مشترکہ سرگرمیاںکریں۔ اگر آپ
کو یہ لگتا ہے کہ آپ اِس گھر میں سب سے زیادہ سمجھدار ہیں تو پھر سمجھداری
پر مبنی رویوں کا بہترین اِظہار آپ ہی کو کر کے دِکھانا ہو گا۔ آپ کی سب
سے بڑی کامیابی یہی ہوگی کہ آپ کے گھر میں موجود تقریباً تمام افراد آپ
کے مثبت رویوں کو آپ سے سیکھیں اوراُن کو اپنا کر ہر خُوشی یا غم کے موقع
پر گھر کے ماحول کی آسودگی اور خُوشحالی کو بر قرار رکھنے میں اپنا اپنا
حصہ پُوری ذِمہ داری کے ساتھ ڈالیں۔ اچھے کی اُمید اور اُسکے حُصول کی کوشش
کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہی وقت ہے اپنے پیاروں کے ساتھ پیار جتانے کا۔
اور اپنے گھر کو جنت بنانے کا۔
آخر میں کلام اللہ سے سورہ ہُودکی کچھ آیات کے تراجم آپ کے سامنے رکھنا
چاہتا ہوں۔ تا کہ آپ سوچیں اور اپنے ایمان کو تازہ کریں:۔
اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے
ذمے نہ لے رکھا ہو ۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے ، اور عارضی
ٹھکانے کو بھی ۔ ہر بات ایک واضح کتاب میں درج ہے (آیت نمبر ۶ )۔
رزق کا ذِمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہوا ہے تو رزق نہ ملنے کے خوف کے زیرِ
اثر ہمیں گمراہی میں پڑنے سے خُود کو بچانا چاہیے۔ ربِ کریم نے سورہ ہود ہی
میں مزید ارشاد فرمایا (ترجمہ):۔
اور جب ہم انسان کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھاتے دیتے ہیں ، پھر وہ
اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ مایوس ( اور ) ناشکرا بن جاتا ہے (آیت نمبر
۹) ۔ اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے نعمتوں کا مزہ چکھا دیں
تو وہ کہتا ہے کہ ساری برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں ۔ ( اس وقت ) وہ اترا کر
شیخیاں بگھارنے لگتا ہے (آیت نمبر ۱۰)۔ ہاں ! مگر جو لوگ صبر سے کام لیتے
ہیں ، اور نیک عمل کرتے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں ۔ ان کو مغفرت اور بڑا اجر
نصیب ہوگا (آیت نمبر ۱۱) ۔
موجودہ حالات میں اِنسانی رہنمائی کے لئے اللہ کے کلام پر غَور کرنا شاید
ہماری نا اُمیدیوں کے خاتمے کے لئے سب سے بہتر دوا کا کام کرے۔ ذرا غَورو
فکر ضُرور کر کے دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس مشکل وقت میں ثابت قدم
رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے رہنے کی طاقت عطا فرمائے۔ آمین۔
نوٹ: کسی بھی قسم کے سوالات، تنقید، رائے یا نفسیاتی مسائل پر رہنمائی کے
لئے لکھیں۔ |