ایک عرصے سے دنیا میں ایک ہی موضوع زیربحث ہے اور ایک ہی
لفظ زبان زدِ عام ہے اور وہ ہے ”کورونا وائرس“مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس
وباء کے حوالے سےگردش کرنے والی تمام خبریں منفی ہیں شاید اسی وجہ سے میںدل
برداشتہ ہو کر یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ اس وباء کا کوئی مثبت
پہلو بھی ہے؟آخر کار میں اس وباء کے چند مثبت پہلوؤں کو تلاش کرنے میں
کامیاب رہا۔
مجھے معلوم ہوا کہ سب سے پہلا اچھا اثر اس وباء نے دنیا کے ماحول پر کچھ
یوں ڈالا کہ کاروباری سرگرمیوں اور فیکٹریوں کے بند ہونے کی وجہ سے اوزون
کی تہہ میں سوراخ دن بدن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور اسی طرح مضرصحت گیس
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ دونوں عوامل اس
دنیا کے ماحول اور انسانوں کی صحت کے لئے نہایت سازگار ہیں۔ اس وبا کا جو
دوسرا مثبت اثر دیکھنے میں آیا وہ یہ ہے کہ اس مشکل گھڑی نے مخلوق کو خالق
کے قریب کر دیا ہے آپ اندازہ لگا لیجئے جس قدر خالق کی عبادت اور اس کے نام
پر صدقہ و خیرات کرنے کے عمل میں اضافہ ان دنوں ہوا شاید ہیکبھی ہوا
ہواوراس کی بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاید انسان اس بات کو سمجھ چکا ہے کہ
خالق کی رضا کس قدر ضروری ہے؟اور ”جو مشکل انسان کو اس کے رب کی آگے سجدہ
ریز کردے وہ مشکل کسی نعمت سے کم نہیں ہوا کرتی“۔اس وباء نے جہاں 209ممالک
میں اپنے قدم جما لیے ہیں اور 1.4 ملین لوگوں کو اپنا شکار بنا لیا ہے وہیں
اگر ہم اسی وباء کے مثبت پہلوؤں کی طرف آئیں تو آپ اس بات سے اتفاق کریں گے
کہ اسی وباءکی ہی بدولت تمام دنیا کے انسانوں میں اپنی جان کی حفاظت کرنے
کا شعور بیدار ہوا ہے اب لوگ پہلے سے زیادہ صاف ستھرے رہنے لگے ہیں اور
انہیں اپنی صحت کی قدر معلوم ہوئی ہے۔
اس وباء نے جہاں دنیا کی رونقوں اور رعنائیوں کو متاثر کیا ہے وہیں اس وباء
نےانسان کو شکر گزار بھی بنایا ہے انسان اپنی مصروف زندگی سے باہر آ چکا ہے
اور اسے یہ ادراک ہوچکا ہے کہ اگر وسائل کم بھی ہوں تو خوش رہا جاسکتا ہے
کیوںکہ ”خوشی کے لئے شرط وسائل نہیں شکر گزاری ہےایک اور مثبت پہلو اس وباء
کا یہ سامنے آیا ہے کہاسنے وقت کی کمی کا رونا رونے والے انسان کو فراغت کے
لمحات عطا فرمائے ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق
فراغت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت جاننا چاہیے کیونکہ فراغت کا وقت اعمال
صالحہ کرنے کے لئے بہترین وقت ہوتا ہے۔اس مشکل وقت نے ہمیں یہ موقع بھی
فراہم کیا ہے کہ ہم اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں،اپنی
اندر بہتری لا سکتے ہیں اور اپنے رشتوں کو مضبوط کر سکتے ہیں۔یہ مشکل وقت
جہاں بہت سے مواقع لے کر آیا ہے وہی ہمارے پاس ایک موقع کچھ نیا سیکھنے کا
بھی ہے ہم اس مشکل وقت سے بہت فائدہ اٹھاسکتے ہیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ
انسان کو مشکل وقت نے بہت کچھ سکھایا اگر انسان کو مشکل وقت نہ پیش آتا تو
وہ کبھی بھی ترقی اور بہتری کا خواہش مند نہ ہوتا اور کبھی نہ سیکھ پاتا اس
لیے ہمیں سوشل میڈیا کو کم استعمال کرنا چاہیئے اور سیکھنے، سوچنے اور
سمجھنے کے عمل کو زیادہ وقت دینا چاہیئے۔
اس وقت ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ امید ہے اور ہمارے معاشرے
کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ جو چیز چھین لی جاتی ہے وہ امید ہی ہے
اور ناامیدی کرونا سے زیادہ خطرناک ہے۔یہ وقت ہمارے ایمان کا امتحان ہے اور
ہم اس کا مقابلہ رب کے حکم کے مطابق صبر، نماز اور اللہ سے مدد طلب کر کے
ہی کرسکتے ہیں۔اگر ہم احتیاط کریں امید کا دامن نہ چھوڑیں اور دعا کرتے رہے
تو ضرور ہمیں ایک دن اس مشکل سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے کیونکہ ہر مشکل
اپنےساتھ آسانی کی نوید لے کر آتی ہے۔
تحریر: شہریار
|