اس وقت دنیا ایک ایسی آفت اور وباء کا سامنا کر رہی ہے جس کے لیے وہ ہر گز تیار نہ تھی اور نہ ہی اس کی ابتداء ہونے پر اُن ملکوں نے کوئی خاص توجہ دی جہاں یہ دیر سے پہنچی اور یوں اس وائرس کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیااور یہ مسلسل تباہی مچاتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک چاہے بڑا ہو یا چھوٹا اس سے محفوظ نہیں اور اس نے وہاں کم یا زیادہ اپنے اثرات ضرور مرتب کیے ہیں اورتقریباََ دنیا کے ہر ملک میں اموات ہوئی ہیں۔اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے کرم سے پاکستان اموات کے لحاظ سے کم متاثر ممالک میں شامل ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور خطرہ ہے کہ اگر یہی رفتار رہی تو یہ تعداد ایک ماہ کے اندر اندر بہت بڑھ سکتی ہے۔اس وقت دنیا نہ صرف اس وباء سے جنگ میں مصروف ہے بلکہ اس کے دوسرے اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔سب سے زیادہ معیشت کوخطرہ لاحق ہے کیونکہ اس وقت دنیا لاک ڈاؤن کی صورت حال میں ہے، معاشی سرگرمیاں معطل ہیں اور چونکہ کارخانے اور کاروبار بند ہیں لہٰذا یومیہ اجرت پر کام کرنے والے بے روزگار بیٹھے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے روزانہ کے معاملات اسی روزانہ کی اجرت سے چلتے ہیں لہٰذا وہ شدید مشکلات کا شکار ہوئے اور اسی لیے ہر حکومت نے ان کے لیے کوئی نہ کوئی بندوبست کیاہے۔حکومت ِپاکستان نے بھی ان لوگوں کے لیے احساس پروگرام کے تحت کام شروع کیا ہے اور مستحقین کو تین ماہ کے لیے چار چار ہزار دینے کا اعلان کیا ہے یہ ایک بہت وسیع پروگرام ہے کیونکہ ملک کی ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے یا آس پاس موجود ہے لہٰذا ان کے لیے معمولات زندگی چلانا مشکل ہو گیا ہے اور انہی انتہائی ضروریات کو مد ِنظر رکھ کر اس امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ ملک کے ڈیٹا بیس میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں کہ کتنے لوگ یومیہ اجرت یعنی دیہاڑی پر کام کررہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ ان پر انحصار کرتے ہیں لہٰذا اس کام میں انتہائی محنت بھی درکار ہے اور احتیاط بھی کیونکہ افسوس کے ساتھ لیکن کہنا پڑتا ہے کہ جب بھی کوئی امدادی کام ہوتا ہے اس میں دو طرح سے مسائل پیدا ہوتے ہیں یہ بھی کہ تقسیم انصاف کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ ذاتی تعلقات کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے اور امداد کی رقم پوری پوری حق دار تک نہیں پہنچائی جاتی بلکہ اس میں سے بہت کچھ ”اِدھر اُدھر“ ہو جاتی ہے اور تقسیم کاروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔دوسری طرف یہ بھی ہوتا ہے کہ لینے والے کئی کئی ناموں سے کئی کئی بار یہ امداد وصول کر لیتے ہیں اور مزید افسوس سے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پھر یہ امدادی سامان مارکیٹوں اور بازاروں میں دستیاب ہوتا ہے یعنی اتنی زیادہ مقدار میں لے لیا جاتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ سامان بیچ دیا جاتا ہے۔ اب ان تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر اس امداد کی تقسیم ہوئی چاہیے۔اگر سامان دیا جائے تو بھی دیکھا جائے کہ ایک آدمی یا گھرانہ کتنا وصول کر چکا ہے اور اگر نقد رقم دی جائے تو بھی جانچ پڑتال ضروری ہے کہ ایک ہی ولدیت کے کتنے لوگ یہ رقم لے چکے ہیں اور کیا یہ واقعی الگ الگ کنبے رکھتے ہیں یا ابھی غیر شادی شدہ ہیں اور کوئی خاندان ان کے زیر کفالت ہے یایہ خود زیر کفالت ہیں۔ یہ تو وہ چند احتیاظیں ہیں جو انتہائی ضروری ہیں۔ اب ذرا آئیے کہ اس پروگرام کو کس نیت سے چلا یا جائے جیسا کہ وزیراعظم نے ٹائیگرفورس کے ارکان سے کہا کہ اُن کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنا حلقہ ساری زندگی کے لیے اپنے نام کرلیں تر غیب کی حد تک بات مانی جاسکتی ہے کہ اس طرح ایمانداری سے کام کرنے کی ترغیب دی جائے لیکن اس وقت یہ بہت ضروری ہے کہ سیاسی مقصد سے بالاتر ہو کر صرف قومی جذبے سے کام کیا جائے قومی جذبے سے کام ہو گا تو سیاسی مقاصد بھی خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔لیکن ایک اچھے کام کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے جیسا کہ وزیر اعظم نے اسے حکومت میں شامل لوگوں کے لیے ”ایک موقع“قرار دیا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ فورس کو نام تو سیاسی ہی دیا گیا ہے یعنی ”ٹائیگر فورس“اور سب جانتے ہیں کہ ٹائیگر کا لفظ حکومتی پارٹی اپنے نوجوانوں کے لیے استعمال کرتی ہے تاہم اس کو سیاسی حدود میں محدود نہیں کرنا چاہیے اور چونکہ یہ ایک رضاکار فورس ہے لہٰذا جو بھی رضاکارانہ طور پر اس میں شامل ہونا چاہے ہو جائے اور پھر سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر کام کرے اور یہ بات خوش آئند بھی ہے کہ اب تک اس فورس میں ہر مکتبہء فکر کے نوجوان شامل ہو چکے ہیں۔پھر حکومت کو یہ بھی بندوبست کرنا چاہیے کہ یہ لوگ اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کی یہ رضاکار کام کے دوران کرونا سے بچاؤ کی تمام تدابیر بروئے کار لائیں اور امداد کی تقسیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس وائرس سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی بھی دیں اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہونگے اور خدا نخواستہ وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کی بجائے اس کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔اس وقت جو بھی طریقہء کار ہو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔اس رضاکار فورس کو کار آمد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس وباء اور اس کے اثرات پر قابو پا سکیں اوراس کے لیے جو بھی مووزں مشورہ دیا جائے اسے بغیر کسی سیاسی مخاصمت کے قبول کیا جائے بلکہ اگر علاقے کے حساب سے کوئی الگ الگ طریقہ اختیار کرنا پڑے اور اس سے بہتر نتائج برآمد ہوں تو بھی اسے اختیار کر لینا چاہیے اور اگر نقد رقم کے لیے اختیار کیا گیا طریقہء کار اشیائے ضروریہ سے الگ رکھا جانا ضروری ہو تو ایسا بھی کر لینا چاہیے۔جیسا کہ ایک مشورہ یہ دیا گیا کہ علاقے یا گاؤں کے کریانہ سٹور کو ضرورت مندوں کی فہرست فراہم کی جائے اور بتا دیا جائے کہ کس کو کتنا دینا ہے چونکہ یہ کریانے والے پورے گاؤں کو جانتے ہیں لہٰذا ایک ہی گھر کے افراد بار بار آکران سے سامان یا پیسے وصول نہ کر سکیں گے۔ایک تجویز یہ بھی دی گئی کہ ان لوگوں سے شہروں کی صفائی اور سپرے وغیرہ کروا دیئے جائیں اور انہیں معاوضہ دیا جائے یوں بھی ٖ یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ لوگ واقعی دیہاڑی دار اور ضرورت مند ہیں یوں کسی کی اَنا مجروح ہوئے بغیر کام کے بدلے انہیں معاوضہ مل جائے گا۔ اسی طرح کی اور تجاویز بھی سامنے آئیں تو بروئے کار لانے میں کوئی حرج نہیں سمجھنا چاہیے جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ کسی سیاسی مخالف کا بہت اچھا مشورہ ماننے سے بھی صرف اپنی اَنا اور ناک کی خاطر انکار کر دیا جاتا ہے۔اس وقت مقصد کرونا کی وباء کی وجہ سے آنے والے بحران سے بہتر طور پر نمٹنا ہونا چاہیے نام و نمود کا حصول نہیں اور اس کے لیے حکومت اپنا دل کھلا رکھے۔ |