انگريزی کی ايک مشہور ضرب المثل ہے ،جس کا خلاصہ کچھ اس
طرح سے ہے کہ "اگر کسی کی جائيداد تباہ ہوجاۓ تو اسے نقصان نہيں کہتے، اگر
صحت جاتی رہے تو اسے قابلِ برداشت نقصان گردانا جاتا ہے، ليکن اگر کوئی
اخلاق و کردار اور صبر و برداشت کھو بيٹھے تو اسے مکمل طور پر تباہ و برباد
سمجھا جانا چاھئیے- یہ بات اظہر من التمش ہے کہ کسی بھی معاشرے کی عمارت
اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جس سماج
سے یہ خصوصیات رخصت ہوجائیں تو وہ معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ تباہی و بربادی
اور تنزّلی و انحطاط کی طرف گامزن ہو جاتا ہے- یہی گمبھیر صورت حال آج
ہمارے معاشرے کو بھی درپیش ہے جہاں عدم برداشت کا رجحان اور تحمل و برداشت
کا فقدان نہائیت سُرعت اور تیزی سے فروغ پارہا ہے،
غصیلے اور بلند آواز لہجے، چیخنا چلانا،گالم گلوچ، لعن طعن کا کلچر، ایک
دوسرے کی کردار کشی کرنے جیسے روئیے ہمارے ہاں ایک طرح کے کامیاب رول ماڈل
بن چکے ہیں۔لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی پر غالب آنا ہے یا اپنی بات منوانی
ہے تو یہ سب کرنا ضروری ہے - آئے روز چھوٹی چھوٹی اور بظاہر معمولی باتوں
پر غصّہ، انتقام اور اشتعال تو اب ایک عام سی بات ہے، اور پھر بعض اوقات یہ
طیش اور جذباتیت ؛سفاکیت اور درندگی کی آخری حدوں کو چھونے لگتی ہے- گزشتہ
دنوں کہوٹہ کے ایک علاقے میں محض لین دین کے ایک معمولی تنازعے کے سبب ایک
فریق نے دوسرے فریق کو نہ صرف شدید تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اس کے دو اہم
جسمانی اعضاء ناک' اورکان' تک کاٹ دئیے - ایک اور واقعے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ
کے شہر گوجرہ میں پچھلے ہفتے دو نوجوان لڑکوں نے ایک معمولی تنازعے پر
سرعام کلہاڑی سے ایک نوجوان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ پھینکے، اس واقعہ کی
ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اور لاکھوں لوگوں نے انتقام اور
جنونیت کی آگ میں سلگتے ان دو انسانی درندوں کی حیوانی کیفیت، اور ایک نہتے
انسان کی دلخراش چیخ و پکار کو دیکھا اور سنا، اسی طرح گھریلو جھگڑوں باہمی
رنجشوں، عزت،غیرت اور آپسی تکرار کے سبب قتل و غارت گری اور خون ریزی کی
ایسی سینکڑوں داستانیں ہمارے آس پاس ،گردو پیش بکھری پڑی ہیں، کہ جنہیں
دیکھ اور سن کر حساس اور دردِ دل رکھنے والے شہریوں کے دل خون کے آنسو رونے
لگتے ہیں-
آج بحیثیت معاشرہ ہمارے لئے یہ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ جو معاشرہ
اخلاق و برداشت اورصبر و تحمل کی صفات سے خالی ہو جائے تو پھر وہ اپنی
اخلاقی قدریں کھو بیٹھتا ہے، اور یوں وہ عدم تحفظ ،عدم انصاف، اور
لاقانونیت کا شکار ہو کر تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے، پھر
وہاں بھوک ،غربت اور صنفی امتیاز جیسی بیماریاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں،
جو کسی بھی وقت کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہیں- اور یقیناً ایسے
زوال پذیر معاشروں کی تباہی و بربادی کی داستانیں تاریخ کی کتابوں میں
موجود ہیں-ہمارے معاشرتی ماحول میں تذبذب اضطراب اور بے چینی کی کیفیت کا
یہ بڑھتا رجحان ہمیں بحیثیت مجموعی زوال اور تاریکی کا گہری دلدل میں
دھنساتا چلا جا رہا ہے،اور بلاشبہ اس کا بڑا سبب یہی انتہا پسندانہ مزاج
اور تشدد آمیز روئیے ہیں-
اگرچہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں عدم براشت کے خاتمے کا عالمی دن منایا
جاتا ہے، اور اس کے متعلق مختلف سیمنارز ،ڈیبیٹس اور کانفرنسز کا انعقاد
بھی وقتاً فوقتاً کیا جاتا ہے،اسی طرح حکومت اور انتظامیہ بھی اس حوالے سے
طرح طرح کے لائحہ عمل اور پالیسیز مرتب کرنے کے بلند و بانگ دعوے بھی کرتی
رہتی ہے، لیکن حقیقی معنوں میں اس حوالے سے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کی
ابھی شدید کمی ہے،
ترقی یافتہ ممالک میں ہر طرح کے تھنک ٹینکس موجود ہوتے ہیں، جو حکومتوں کو
اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تحقیقی بنیادوں پر تجاویز پیش
کرتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اجتماعی
رویوں میں بھی کسی نہ کسی حد تک اعتدال اور توازن کی فضا قائم ہے -لیکن
ہمارے ہاں ایسے سکول آف تھاٹس کی شدید کمی ہے- آج ضرورت اس امر کی ہے کہ
حکومتی سطح پر ایسے ہی ایک "مارل تھنک ٹینکس" تشکیل دئیے جائیں جن میں
سوشیالوجسٹ، ڈاکٹرز، مذہبی سکالرز و دیگر ماہرین کو شامل کیا جائے اور ان
کی تجاویز کے مطابق پالیسی بنائی جائے تاکہ معاشرے میں توازن کی فضا قائم
کی جا سکے۔ اسی طرح معاشرے سے عدّم برداشت کے کلچر کے خاتمے کیلئے ہمیں
بطور رول ماڈل کام کرنا ہوگا، بچوں کی تربیت پر توجہ دینا ہوگی اور تعلیم
کو فروغ دینا ہوگا ،اسی طرح ہمیں اپنے تعلیمی نصاب میں اخلاقیات و برداشت
جیسے اہم موضوعات کو شامل کرنا ہوگا اور تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں
کو فروغ دینا ہو گا، جس سے طلباء میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ
پروان چڑھ سکے۔ اسی طرح بحیثیت قوم ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
حکومت تنہا اس بڑے چیلنج سے نہیں نمٹ سکتی ،اس کے لئے علماء، اساتذہ،
دانشور، شاعر، ادیب اور سیاستدانوں سمیت تمام شعبۂ زندگی کے لوگوں کو آگے
آنا ہو گا تاکہ اس مسئلے پر رائے عامہ کو ہموار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا
سکے ،اور اس حوالے سے ایک مضبوط قومی بیانیے کو فروغ دینا بھی ازحد ضروری
ہے-
اسی طرح سماجی سطح پر ہر باشعور اور مہذب شہریوں کو اپنے گھر،خاندان،
ہمسائے،گلی ،محلے اور علاقے میں اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت
ہے، تاکہ معاشرے میں ہر طرح کے ذاتی و اجتماعی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی
ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور باہمی خلوص و احترام کی فضا کو قائم رکھا جا
سکے-
جون ایلیاء کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’آؤ اختلافات پر اتفاق کر لیں‘‘۔
یعنی آپ کا اور میرا اختلاف رہے گا لیکن یہ بھی اتفاق ہونا چاہیے کہ ہم مل
جل کر رہ سکتے ہیں-
|