کرونا کی وبا اور ہمارا سماجی رویہ

ڈاکٹر محمد حسنین
اسسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور

اس وقت کرونا وائرس نے پوری دنیامیں با لخصوص اور بالعموم ہمارے وطن عزیز میں عجیب و غریب صورت پیدا کر رکھی ہے۔خوف و ہراس نے ہمارے اخلاقی کردار کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے ۔مگر یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں اخلاقی کردار کی مضبوطی کتنے لوگوں کو حاصل ہے ؟ کرونا وائرس ہمارے اعمال کا حاصل ہے ۔ ہمارے سماجی کردار کیسے ہیں اس پر زیادہ گفتگو کرنے کی میرے خیال میں ضرورت نہیں بس بازار کا ایک چکر ہی کافی ہے ۔پاکستان میں کرونا وائرس کا داخلہ کیسے ہوا. خواجہ آصف نے زلفی بخاری پر الزام لگا یا ہے کہ وہ تفتان کے راستے کرونا سارے پاکستان میں پھیال رہے ہیں ۔ آپ اس کو سیاسی مخالفت کا نام دیں مگر زمینی حقائق ہم سب کو کچھ اور پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ آخر کسی جگہ غلطی تو ہوئی ہے۔اس کو تسلیم کرنے سے آخر کیا ہوتا ہے ۔ ہمارے اخلاقی کردار اس قدر مضبوط ہونے چاہئے کہ ہم اپنی غلطی کو کھلے دل سےتسلیم کریں۔ یہی زندہ قوم کی نشاندہی ہوتی ہے۔میرے خیال میں وزیر اعظم کا قوم سے خطاب وقت کی انتہائی اہم ضرورت تھی جس میں انہوں نے بڑے مثبت انداز میں کرونا وائرس کے بارے میں قوم کو بڑی اچھی معلومات دی۔ ایک خطاب ذخیرہ اندوزی کرنے والوں سےبھی کرنا چاہئے۔ہماری سماجی حالت اس قدر خرابی کاشکار ہے کہ کوئی بھی ایسی پروڈکٹ جو اس بیماری سے احتیاط میں ضروری ہے وہ راتوں رات مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے۔ اسی وطن عزیز میں دس دس روپے میں فروخت ہونے والے ماسک آج مارکیٹ سے غائب ہیں۔ سینی ٹائزرز تو مارکیٹ سے ایسے غائب ہیں جیسے کسی دور میں عینک والا جن غائب ہوتا تھا ۔اخلاق کسی بھی قوم کا وہ قیمتی کے درمیان اس قوم کی شناخت اور امتیاز کا پیمانہ و سرمایا ہوتا ہے جو اس قوم کے تہذیبی تشخص اور اقوم کے اخلاقی اقدار دراصل اسکی تہذیب کی نہ صرف ترقی کے بلکہ اس تہذیب کے دوام اور ارتقاء کے اسباب بھی تصور کئے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے اخلاقی اور سماجی کردار کو اپنے ترکیبی عناصر میں بنیادی اہمیت دی ہے۔اسلام کی نظر میں اخلاقی اقدار کا فروغ اور ان کا تحفظ در اصل دین و ایمان کا تحفظ ہے ۔ یہ کرونا وائرس رب کائنات کی طرف سے ایک قسم کی تنبیہ ہے کہ ہم من حیث القوم اپنے سماجی کردار اور رویے کو درست کریں ۔ آج جدید سائنس کی تسبیح کرنے والوں کے لیے بھی رب کائنات کی طرف سے ایک ہی پیغام ہے اور وہ پیغام ہے کن فیکون کا ۔سب سے بڑی طاقت اور قوت تو وہی ہے۔ سا بقہ اقوام پر بھی غور و فکر کریں کہ نمرود کی پوری بادشاہت کےآ ایک مچھر کے سامنے بے بس ہونا اور دنیا کی ساری ایٹمی طاقتوں کا کرونا کے سامنے بے بس ہونا میرے رب کی قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ اگر آج بھی ہم نے توکل اور رب کی رضا کا سبق اپنی قوم کو نہ دیا تو یقینی طور پر ہر آنے والا دن ہم سب کے لیے ایک خوف کا پیغام ہو گا ۔ جس طرح کرونا وا ئرس کی ہیلپ لائن کا افتتاح ایک قابل قدر اقدام ہے وہاں ایک ہیلپ لائن اس قوم کے سماجی ر ویوں کو درست کرنے کے لیے بھی قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں پر ایثار وقربانی کا سبق دیا جائے ۔چین وہ ملک ہے جس کے اپنے سماجی کردار اور رویے کے ذریعے پوری قوم نے اس بیماری کا مقابلہ کیا ہے۔ایثار و قربانی کے حوالے سے اس ضمن میں ہم کو چینی قوم کی تقلید کی ضرورت ہے ۔ وبائیں آتی جاتی رہتی ہیں ان کی وجہ سے معاشرے میں اللہ کے حضور توبہ و استغفار اور دعاؤں کی ضرورت ہے۔جہاں تک مسجدوں کا بند کرنا اور خوف و ہراس پھیالنے کی بجائے نماز جمعہ کو منسوخ کرنے کے معاملات ہیں اس پر گفتگو کی بھی ضرورت نہیں رہنمائی کے لیے صرف دو باتیں کرنا چاہتا ہوں اس ضمن میں سورۃ الجمعہ کا مطالعہ ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے " کہہ دو بے شک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہوسو وہ ضرور تمہیں ملنے والی ہے۔ پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ہر چھپی اور کھلی بات کا جاننے واال ہے۔پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے"۔ان آیات کو پڑھاتے ہو ئے ایک بار ہر مومن کا دل دہل سا جاتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں امام محمد بن عبدالرح ٰمن القرشی کا قول ہماری رہنمائی کے لیے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ 764 ہجری میں جب طاعون پھیلتا ہوا مصر میں داخل ہو ا تو ہالقتیں ہی ہالقتیں تھیں ۔ پھر لوگوں نے قیام اللیل ، روزہ ، صدقہ ،توبہ اور وعظ کو الزم پکڑا ۔ ہم نے اپنے بچوں اور بیویوں سمیت گھروں کو چھوڑا اور مساجد میں پناہ لے لی تو ہمیں بہت فائدہ ہوا ۔ماضی کے مقابلےمیں آج ہم سب کو اجتماعی طور پر رب کائنات کی طرف رجوع کرنے کی جتنی ضرورت ہے شاید اتنی کبھی نہ رہی ہوگی ۔کرونا وائرس سمیت تمام مصائب و آلام سے نجات کے لیے تعلق باللہ اور کثرت توبہ و استغفار بہت ضروری ہے پوری امت کو چاہیے رجوع الی اللہ کرے اللہ رب العزت کی ناراضگی آفات کا سبب بنتی ہیں ۔..

ابھی ہلکا سا جھنجھوڑارب نے پوری دنیا کو ہال چھوڑ ا رب نے
انسان جو اپنے علم و ہنر پر اتراتے تھے بہت کر لی ہے ترقی ہم نے فرماتے تھے
گھروں میں محصور ہوئے بیٹھے ہیں الچار و مجبور ہوئے بیٹھے ہیں
انسان کو اپنی حدود میں رہنا پڑے گا ہللا اکبر ہللا اکبر کہنا پڑے گا
توبہ و استغفار کریں اب دعا ہی ہے حل اس کا بار بار کریں اب

 

Amir Ismail
About the Author: Amir Ismail Read More Articles by Amir Ismail: 7 Articles with 6386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.