برصغیر پاک و ہند میں دسویں صدی سے اسلام کا بول بالا
ہونا شروع ہوا.اس دوران بے شمار صوفی ہستیاں اور اولیاع کرام بھی اپنی
تعلیمات لوگوں تک پہنچاتے رہے. اور بعد میں تصووف کے زیر سایہ پردہ نشیں ہو
گۓ. جس کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے ان کی قبروں کو مزار، درگاہ کا روپ دے
دیا جہاں ان کے عقیدت مند آنے شروع ہو گئے.
لاہور، جسے درگاہوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ،صوفی ہستیوں اور اولیاع کرام
کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس سر زمیں سے اپنی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں.
جیسے جیسے یہ ہستیاں پردہ نشیں ہوتی گئیں ویسے ہی ان کے عقیدت مند ان کی
قبروں کو درگاہ، مزار کا روپ دیتے گۓ. ایک اندازے کے مطابق شہر لاہور میں
مزاروں کی تعداد 500 سے زیادہ ہے. لاہور کو 8 ٹاؤن میں تقسیم کیا گیا ہے.
جن میں گلبرگ ٹاؤن، سمن آباد ٹاؤن، نشتر ٹاؤن، عزیز بھٹی ٹاؤن ، شالیمار
ٹاؤن، داتا گنج بخش ٹاؤن، اقبال ٹاؤن، راوی ٹاون، اور آرمی کے زیر اثر
علاقہ کنٹونمنٹ شامل ہے. ہر ٹاؤن میں درگاہوں کی کثیر تعداد موجود ہے. داتا
گنج بخش ٹاون میں سب سے مشہور درگاہ داتا علی ہجویری کا دربار موجود ہے. جس
پر ہر زور ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند اپنی آرزوئیں اور تمنائیں لے کر
حاصْری دینے آتے ہیں. یہ درگاہ چونکہ لاہور کے داخلی راستے، بھاٹی گیٹ کے
قریب مین داتا دربار روڈ پر واقع ہے اسی لۓ یہاں ہر عقیدت مند کی رسائ ہے.
یہاں سالانہ سیکنڑوں کی تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں. جو کسی نہ کسی صورت
میں درگاہ کو نزر نیاد، سونے اور چاندی کے دھاگوں سے کشیدہ کاری والی
چادریں، قیمتی پتھر، سونے کے زیورات اور ایک بہت بڑی تعداد روپے کی صورت
میں خیرات کرتے ہیں. درگاہ کی ساری زمہ داری محکمہ اوقاف پنجاب کے سپرد ہے.
درگاہ کے احاطہ میں 44 کیش باکس نصب ہیں تاکہ عقیدت مند رقم ان میں چندہ کے
غرصْ سے ڈال سکیں. ان کیش باکس پر تین تالے نصب ہیں. جن میں ایک درگاہ کی
انتظامیہ، دوسرا محکمہ اوقاف اور تیسرا متعلقہ بینک کا ہے. جی ہاں ہر دربار
کا اپنا بینک اکاؤنٹ بھی موجود ہے. ہفتے میں ایک دن مزار کے تمام کیش باکس
ان تینوں متعلقہ عملے کی موجودگی میں کھولے جاتے ہیں اور پیسے گن کر بینک
کے عملے کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں جس کے بعد ایک پکی رسید لی جاتی ہے.
محکمہ اوقف کے مطابق ان درگاہوں کا سالانہ بجٹ تیار کیا جاتا ہے. جو کہ
تقیرباً 2333.932 ملین ہے. اس میں کیش باکس سے ہونے والی آمدن 1136.642
ملین ہے. جبکہ مزار کے اندر داخل ہونے سے پہلے زائرین کی جوتیوں کا بھی ایک
انتظام محکمہ اوقف ہی کے سپرد ہے. جوکہ سیکورٹی فیس کی مد میں زائرین سے
وصول کیے جاتے ہیں. اس کا سالانہ بجٹ تقریباً 122.212 ملین ہے. حتیٰ کہ عرس،
نزر نجات اور کار پارکنگ سے حاصل ہونے والی آمدن تقریباً 157.962 ملین ہے.
درگاہوں پر پھولوں کا نزرانہ حاصْری کا لازمی جز ہے. اس کا ٹھیکہ بھی محکمہ
اوقف نے لے رکھا ہے. پھولوں کے ٹھیکہ جات سے حاصل ہونے والی آمدنی 14.263
ملین ہے. صرف داتا دربار ایسا ہے کہ جس سے ایک ہفتہ میں ہونے والی آمدنی
صرف 5 کروڑ ہے۔
عرس اور مذہبی تہواروں، جمعہ کے دنوں میں دوگنی ہو جاتی ہے. اس درگاہ کی
معاشی حالت مذہب کی مرہون منت ہے. سروے کے دوران مجھے یہ معلوم ہوا کہ لنگر
کا انتظام یہاں عقیدت مند خود کرتے ہیں. عرس کے دنوں میں حکومت انتظام میں
اپنا حصہ ڈالتی ہے. ورنہ جو زائر یہاں آتا ہے وہ قریبی مارکیٹ سے اپنی منت
پوری ہونے کی خوشی میں خرید کر ان کو دے دیتا ہے. جہاں مذہب اس درگاہ کو
اتنا معاشی استحکام دے رہا ہے وہاں یہاں کی انتظامیہ محکمہ اوقاف کو بھی
چاہیئے کہ ارد گرد علاقے کی بہتری کے لۓ کچھ رقم لگاۓ. یہاں پر تعینات
سیکورٹی اہلکاروں کے لۓ مناسب انتطام موجود نہیں. تعجب اس بات کا ہے وہ
درگاہ جس سے سالانہ عربوں کماۓ جا رہے ہیں وہاں کے داخلی دروازوں پر نہ تو
مناسب سکینگ کے آلات ہیں، وہ آج بھی ہاتھوں سے چیکنگ کرنے پر مجبور ہیں.
واک تھرو گیٹ تو نصب ہیں لیکن ایک لمبے عرصے سے وہ بھی ناقص ہیں. اگر
انتظامیہ ایک ہفتہ کی آمدن اس علاقے اور اس کی بہتری کے لۓ صرف کرنا شروع
کر دے تو یہاں ماصْی میں ہونے والے سانحات، خودکش دھماکے دوبارہ نہ ہو
پائیں. لاہور کے ہر دربار کو اگر انتظامیہ اہمیت دینا شروع کر دے تو ہم
مذہب کو اساس بنا کر اپنے ملک پاکستان کی ڈانوا ڈول معیشت کو مستحکم کر
سکتے ہیں.
|